ایک ماں کی گود اجڑ گئی..8خاندان بکھرگئے

کیوں کہ حساس والدین حادثات کے شکار ہونے والے بچوں میں اپنی اولاد کی پرچھائیاں تلاش کرتے ہیں۔ کسی کو کسی حادثہ کی اطلاع ملتی ہے تو وہ اس وقت تک بے چین رہتا ہے جب تک اسے اس بات کی تصدیق نہ ہوجائے کہ حادثہ کا شکار ہونے والی اس کی اپنی اولاد نہیں ہے تو اسے ایک طرف اطمینان بھی ہوتا ہے دوسری طرف دوسرے والدین کے کرب کا احساس بھی ستاتا ہے۔
پرانے شہر حیدرآباد کے گنجان آبادی والے علاقہ میں اسٹریٹ فائٹ ہوتی ہے‘ کئی نوجوان تماشائی ہیں۔ کچھ نے تو بیٹنگ (سٹہ بازی) بھی کی۔ کسی نے ویڈیو فلمنگ بھی کی۔ کامنٹری کی جارہی ہے اور اس ہنگامہ آرائی کے دوران پورا محلہ سوتا رہا‘ کسی کو اِن نوجوانوں کی آواز سنائی نہیں دی۔ یا تو پھر اس قسم کے شور شرابے کے ہم عادی ہوچکے ہیں کہ اس قسم کے واقعات پر انجان ہوجاتے ہیں۔ یہ مسلم سماج کی بے حسی، بے غیرتی اور نوجوان نسل پر کمزور گرفت کا ثبوت ہے۔ پرانا شہر حیدرآباد ہی نہیں بلکہ نئے شہر کے مسلم آبادی والے علاقوں کا بھی یہی حال ہے۔ رات رات پھر گھر سے باہر یا گھروں کے قریب مسلم نوجوانوں کے جمگھٹے‘ سائلینسر نکال کر بائک ریسنگ، اڈونچر کے نام پر بائک پر کرتب بازی، صرف پچھلے پہیے پر رائیڈنگ، جسے دیکھ کر ہماری عمر کے لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ راتوں میں کیرم کی محفلیں‘ اسنوکر اور بلیرڈ کے ساتھ حقہ کشی، اب تو رات کے اوقات میں فٹبال کھیلنے کی روایت شروع ہوگئی ہے۔ کچھ نوجوان پارکس میں تو کچھ اپنے محلوں کی گلیوں میں کھیلتے ہیں۔ ان کے شور و غل سے شرفاء کی نیند، بیماروں کے آرام میں خلل پڑتا ہے۔ کسی نے اعتراض کیا تو اسے دھمکایا جاتا ہے اور ان کا جینا حرام کردیا جاتا ہے۔ پولیس اگر راتوں میں آوارہ گردی کرنے والے نوجوانوں کے خلاف سختی کرتی ہے تو مسلم نوجوانوں کو ہراساں کرنے کا الزام عائد کردیا جاتا ہے۔ محلہ کے ذمہ دار حضرات روک ٹوک کرتے ہیں تو خود اِن نوجوانوں کے والدین کہہ دیتے ہیں کہ ’’حضرت اپنے کام سے کام رکھیں‘‘ دوسروں کے معاملات میں دخل نہ دیں بلکہ وہ یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ آج جو لوگ نوجوانوں کو روک ٹوک کررہے ہیں کیا انہوں نے اپنے بچپن اور نوجوانی میں شرارت نہیں کی تھی۔ کھیل کود میں حصہ نہیں لیا تھا۔ مجبوراً ذمہ دار حضرات خاموشی اختیار کرلیتے ہیں اور یہی خاموشی نوجوانوں کی تباہی و بربادی کا سبب بن جاتی ہے۔
ماں باپ اپنے بچوں کو آزاد چھوڑ دیتے ہیں انہیں اپنے بچوں پر یا تو ضرورت سے زیادہ اعتماد ہوتا ہے‘ یا پھر وہ خود چاہتے ہیں کہ بچے گھر سے باہر رہیں تاکہ اِن کے آرام یا دوسری سرگرمیوں میں کوئی خلل نہ پڑے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ بچے رات رات بھر گھر سے باہر رہیں اور ماں باپ کو نیند کیسے آجاتی ہے جبکہ مقررہ وقت پر بچے گھر نہ آئیں تو نیند، چین سکون سب کچھ ختم ہوجاتا ہے۔ شاید دولت کی ریل پیل یا اولاد سے کم ہوتی محبت اس کی وجہ ہو۔
موٹر سائیکل، کار ریسنگ حادثات ہوں یا سڑکوں پر جھگڑے، چاقوزنی کی وارداتیں‘ یہ اَن پڑھ جاہل طبقہ میں نہیں ہورہی ہیں‘ افسوس ہے کہ پڑھے لکھے نوجوان اس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں‘ غریب اَن پڑھ جاہل بچے اور نوجوان تو دن رات ہوٹلوں اور دوسرے اداروں میں محنت مزدوری کرکے اپنے گھر کی کفالت کررہے ہیں اور جن گھروں میں ذرا سی خوشحالی آگئی، جن کے باپ یا بڑے بھائی باہر ہیں‘ یا جن کے شہر ہی میں کاروبار ہیں‘ وہ چاہتے تو ہیں کہ ان کے بچے تعلیم حاصل کریں‘ اچھے اچھے اسکول یا کالج میں داخلہ لیں‘ انہیں ہر قسم کی سہولتیں فراہم کی جائیں‘ وہ یہ ذمہ داری تو پوری کردیتے ہیں‘ ڈونیشن دے کر داخلہ دلوادیا جاتا ہے۔ ٹیوشن بھی لگوادیا جاتا ہے‘ بائک اور لیٹسٹ ماڈل کے موبائیل فونس بھی فرمائش کے ساتھ فراہم کردےئے جاتے ہیں محض اس لئے کہ اپنے بچے دوسروں کے بچے سے کسی بھی معاملہ میں پیچھے نہ رہیں۔ بھلے ہی وہ تعلیم، اخلاق اور کردار کے معاملہ میں اپنی قوم کے ہی نہیں دوسری اقوام کے بچوں سے میلوں پیچھے کیوں نہ رہ جائیں۔ ذرا ہم اپنے اطراف و اکناف کے محلوں کا جائزہ لیں۔ جن بستیوں میں ہماری آبادی کم ہے وہاں کس قدر امن و سکون ہے‘ ان علاقوں میں جانے سے احساس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رات کو آرام کے لئے بنایا ہے اور دن کو کام کے لئے نہ تو دوسروں کے چبوتروں پر گپ شپ کرنے والے نوجوان نظر آئیں گے‘ نہ ہی کسی نکڑ پر نوجوانوں کے غول نظر آئیں گے۔ اگر مسلم اپنے محلوں کا جائزہ لیں تو معاملہ اس کے برعکس نظر آئے گا۔ رات میں دن سے زیادہ چہل پہل، کمسن بچے ہوں کہ نوجوان لڑکے ہر گلی کے موڑ پر نظر آئیں گے۔
مسلم محلوں یا علاقوں کی رات کے اوقات رونق اور چہل پہل دراصل نحوست ہے‘ یہ فطرت یا قدرتی نظام کی خلاف ورزی ہے۔ رمضان المبارک میں اگر رات کے اوقات میں کچھ دیر تک بازار کھلے رہتے ہیں تو یہ سمجھنے والی بات ہے‘ عام دنوں میں بازاروں کی اِن رونق نے گھروں کو ویران کرکے رکھ دیا ہے۔ اور اس ویرانی کے لئے ذمہ دار کون ہے‘ آپ اور ہم۔۔۔؟
نبیل اپنے گھر کا اکلوتا بیٹا ہے۔ ایک ماں کی گود اجڑ گئی۔ باپ کا سہارا چھن گیا۔ بہنیں بھائی سے محروم ہوگئیں۔ ایک گھر اجڑ گیا مگر نبیل کے قتل کے کے الزام میں جو نوجوان گرفتار ہوئے ان کے گھروں میں بھی تو کہرام مچ گیا۔ نبیل کا غم دائمی ہے‘ جب تک والدین اور بہنوں کی سانسیں ہیں وہ غم برقرار رہے گا۔ اس کے وہ دوست جو اب حراست میں ہیں‘ جنہیں قانونی کشاکش میں ایک طویل مرحلہ طئے کرنا ہے۔ ان کے لئے تو ہر لمحہ ایک نئی موت ہے۔ اِن کا مستقبل فی الحال روشن نہیں ہے۔ عدالتوں کے چکر میں زندگی کا ایک بڑا حصہ کٹ جاتا ہے۔ مالی مشکلات اور دوسرے مسائل الگ ہوتے ہیں‘ گھر کا ایک فرد پریشان ہوتا ہے تو پورا خاندان متاثر ہوجاتا ہے۔ یہ احساس ان نوجوانوں کو تب ہوگا جب پانی سر سے گزر چکا ہوگا۔ اِن نوجوانوں کے سرپرستوں کو بھی اب احساس ہورہا ہوگا کہ کہیں نہ کہیں اِن سے کوئی بھول ہوئی‘ بچوں کی تربیت میں کچھ نہ کچھ کسر رہ گئی۔ جو متاثر ہوگئے وہ تو ہوچکے جو ان حالات اور واقعات کے مشاہدہ سے متاثر ہیں ان کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اپنے کنٹرول میں رکھیں۔ ایک دو بگڑے ہوئے بچوں کی وجہ سے کئی دوسرے اچھے خاصے بچوں کا مستقبل بھی تاریک ہوسکتا ہے۔ یہ ہم بڑوں کی ذمہ داری ہے کہ بچوں کے ساتھ ساتھ اِن کے دوستوں اور ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ رات کے اوقات میں کمسن بچے اور نوجوان اپنے موبائلس پر چوری چھپے راز و نیاز کے ساتھ واٹس اَپ پر انے کون کونسی کلیپنگ دیکھتے ہیں۔ اِن کے موبائل فون پر موجود مواد سے بھی آپ کو واقف ہونا چاہئے ورنہ قابل اعتراض مواد پورے خاندان کی تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔نوجوانوں کی اصلاح کے لئے والدین‘ اساتذہ کے ساتھ ساتھ مساجد کے خطیب حضرات اور ان سے زیادہ مسلم سیاسی قائدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا رول ادا کریں۔ نوجوان ہمارے مسلم قائدین کو آئیڈیل سمجھتے ہیں ان کیلئے جان دینے کیلئے تیار رہتے ہیں‘ تو پھر اِن کی نصیحت بھی قبول کرسکتے ہیں بشرطیکہ ہمارے قائدین اخلاص کے ساتھ نصیحت کریں۔
حیدرآباد میں اسٹریٹ فائٹس‘ بائیک ریسنگ، کار ریسنگ کے علاوہ کئی مشاغل میں ہمارے نوجوان مبتلا ہیں۔ اس سے پہلے کہ یہ لعنتیں ہمیں اپنے بچوں سے محروم کردیں‘ اِن بچوں کو سدھارنے کے لئے کچھ محبت، کچھ سختی سے کام لیں‘ ورنہ ……

«
»

ہارن آہستہ بجائیں ۔ قوم سو رہی ہے

قطر کی قدیم ترین اردو ادبی تنظیم بزمِ اردو قطر کے زیرِ اہتمام خصوصی ادبی نشست بہ اعزاز معروف شاعرجناب شمس الغنی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے