مسلم یونیورسٹی کے فرزندوں سے مل کر کلدیپ نیرؔ آزردہ

یہ بات ان کے لئے اس لئے تشویش کی ہے کہ ان کا نام کلدیپ ہے اور اگر یہ سچ ہے تو حفیظ نعمانی کے لئے انتہائی فخر کی بات ہے۔ کلدیپ صاحب کو معلوم نہیں کہ ہم نے 9 مہینے جیل میں رہ کر باہر آنے کے بعد ندائے ملت میں قسطوں میں روداد قفس لکھی تھی۔ 35 برس کے بعد اسے کتابی شکل میں شائع کیا۔ اس کے مقدمہ میں ہم نے لکھا تھا کہ۔
’’مسلم یونیورسٹی کے اسلامی تشخص اور اس کے اسلامی کردار کے لئے سر سے کفن باندھ کر مرکزی اور صوبائی حکومت سے جو طویل عرصہ تک چلنے والی جنگ 35 سال پہلے جیتی تھی اس کے بعد اس دانش گاہ سے 35 لڑکے بھی ایسے نہیں نکلے جنہوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہو کہ وہ ملت کی قیادت اور مسلم یونیورسٹی کے لئے اپنی زندگی وقف کررہے ہیں۔ ہم نے یہ بھی لکھا تھا کہ لکھنؤ یونیورسٹی، الہ آباد یونیورسٹی اور بنارس یونیورسٹی سے نکلنے والے مسلم لڑکوں اور مسلم یونیورسٹی سے نکلنے والے لڑکوں میں کیا فرق ہے؟‘‘
کلدیپ نیرؔ صاحب کے کالم سے یہ معلوم ہونے پر کہ وہ اپنی مذہبی شناخت کی اصطلاحات میں بات کررہے ہیں۔ ہم اس لئے اپنے کو ان کے لئے دعا کرنے سے نہ روک سکے کہ یہی تو ہمیں ان سے شکایت تھی کہ وہ قومی دھارے میں سب کے ساتھ بہنے کے بجائے اس میں ڈوب گئے ہیں۔ مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسیدؒ نے یہی چاہا تھا کہ وہ سر سے پا تک ہندوستانی رہیں مگر ان کی مذہبی شناخت دور سے انہیں مسلم یونیورسٹی کا فرزند ظاہر کرے۔ ان کی پوشاک، ان کی نماز کی پابندی پر وظیفہ ان کی فکر اور ملک سے پوری وفاداری ہی ان کا امتیاز ہے۔
کلدیپ صاحب نے یہ بات غلط کہی ہے کہ مذہبی شناخت ہی ملک کی تقسیم کا سبب بنی ہے۔ حیرت ہے کہ وہ مذہب اور قوم کو ایک بنائے دے رہے ہیں۔ اسلام اور دوسرے مذاہب میں رواداری یہ نہیں ہے کہ کسی کو دیکھ کر یہ نہ سمجھا یا بتایا جاسکے کہ یہ مسلمان ہے یا غیرمسلم۔ ہم ہی نہیں مسلم یونیورسٹی کے بانیوں نے یہی چاہا ہے کہ وہاں پڑھنے والے لڑکوں کو دیکھنے والا دور سے بتادے کہ ان میں کون مسلمان ہے اور کون مسلمان نہیں ہے۔ ملک کی تقسیم جس بنیاد پر ہوئی ہے اس کا مذہب سے دور دور تک تعلق نہیں۔ اگر مذہب سے تعلق ہوتا تو مولانا حسین احمد مدنی، مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا احمد سعید دہلوی، مفتی کفایت اللہ، مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، مولانا حبیب الرحمن اعظمی اور سیکڑوں دین کے عالم اور پورا دارالعلوم دیوبند تقسیم کا مخالف نہ ہوتا اس لئے کہ مشترک ہندوستا نمیں بھی یہی عالم تھے جو اسلام کے نمائندے تھے۔ تقسیم جنہوں نے کرائی وہ مسٹر جناح، لیاقت علی خاں، غلام محمد، چودھری خلیق الزماں، حسن شہید سہروردی وغیرہ تھے یہ سب وہ تھے کہ جناح صاحب کو چھوڑکر شاید باقی حضرات عید اور جمعہ کی نماز پڑھ لیتے ہوں۔ مسلم لیگ کی حمایت میں سب سے بڑے عالم مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا سید سلیمان ندوی تھے۔ مولانا عثمان صاحب صرف اس وجہ سے مسلم لیگی تھے کہ انہیں حضرت مدنی سے ذاتی اختلاف تھا اور سید صاحب سیاسی آدمی نہیں تھے۔ جن سیکڑوں عالموں نے تقسیم کی مخالفت کی اسے دینی اور اسلامی فریضہ سمجھ کر کی اور جو تقسیم کے حامی تھے انہیں صرف حکومت کے لئے ایک ملک درکار تھا چاہے وہ مسلمانوں کی لاشوں پر بنے۔
کلدیپ صاحب نے مولانا آزاد کے متعلق جو لکھا ہے وہ بھی غلط ہے۔ لڑکوں نے بیشک بہت بدتمیزی کی تھی وہ پلیٹ فارم پر ان کے ڈبہ کے سامنے پینٹ کے بٹن یا زپ کھول کر کھڑے ہوگئے تھے۔ ڈبہ کے اندر نہ کوئی گیا نہ ان کے کپڑوں کو ہاتھ لگایا نہ ان سے بات کی۔ باہر ہی نعرے لگاتے رہے۔ ہم نہیں جانتے کہ کلدیپ صاحب نے اس مسئلہ پر کبھی پہلے بھی لکھا ہے یا نہیں؟ ہم نے درجنوں بار لکھا ہے اور شاید سب سے زیادہ لکھا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ جس آدمی کا نام جناح تھا جس کی بیٹی اور نواسے کہتے ہیں کہ نانا کی جائیداد اسلامی شریعت کی بنیاد پر تقسیم نہ کی جائے ہم مسلمان نہیں ہیں بوہرے خوجے ہیں۔ اسی جناح نے یہ سمجھا تھا کہ یہ علمائے دین ہماری راہ کا سب سے بڑا پتھر ہیں اور مسلمان عوام کو جب تک ان سے کاٹا نہیں جائے گا یہ میرے ساتھ نہیں آئیں گے۔ اسی لئے اس نے علماء کو نشانہ بنایا اور انہیں غیرشریفانہ انداز سے یاد کرکے عام مسلمانوں کو اس پر آمادہ کیا کہ وہ انہیں ذلیل کریں۔ بات صڑف مولانا آزاد ہی کی نہیں تھی حضرت مدنی، مولانا عطاء اللہ بخاری، مولانا لدھیانوی اور مولانا سیوہاروی سب کو ٹاٹا کے پٹھو اور برلا کے ٹٹو کہنا، ان کی پگڑی اُچھالنا اور ان کے جلسوں میں پتھراؤ کرنا ہر ہفتہ کا معمول تھا۔
کلدیپ صاحب بہت بڑے صحافی ہیں مگر ہندو ہیں۔ ہم بھی لکھنا جانتے ہیں مگر صرف مسلمان ہی نہیں عالموں کے خاندان کے فرد ہیں اور جو کچھ جناح نے کرایا تھا وہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا ہماری بائیں ٹانگ پر چوٹ کے دو نشان آج تک نظر آتے ہیں یہ علماء کے لئے مسلم لیگی لڑکوں کی ہی وجہ سے ہیں اسی وجہ سے ہم کہہ رہے ہیں کہ جن مسلمانوں کو عالم دین کے جوتے اٹھاتے ہوئے ہم نے دیکھا ہے ان ہی کو یہ کہتے ہوئے بھی دیکھا ہے کہ مولویوں کو ہندوؤں نے خرید لیا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان ہندوؤں کے ملک میں ان کی رعایا بن کر رہیں۔ جناح صاحب کی اسی کوشش کا نتیجہ تھا کہ مسلم یونیورسٹی کے لڑکے بھی نفرت کے اسی سیلاب میں بہہ گئے۔ اور ایک سبب یہ بھی تھا کہ جب کسی کے باپ اور بھائی ’’لے کے رہیں گے پاکستان۔ بٹ کے رہے گا ہندوستان‘‘ کے نعرے لگائیں اور مسٹر جناح کو امام سمجھیں تو وہ توازن کیسے باقی رکھ پائیں گے؟ اسی جناح کے لئے جسے نہ نماز سے مطلب تھا نہ روزے سے تعلق اور نہ قرآن سے سروکار۔ اس کے لئے کوئی شاعر یہ لکھے کہ وہ حضرت محمدؐ اور حضرت علیؓ کی چلتی پھرتی یادگار ہے اور اس کے چہرے سے حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ کی شباہت آشکار ہوتی ہے۔ تو اگر بات پاکستان کی نہ ہوتی اور جناح صاحب نے اپنی عظمت مسلمانوں کے دلوں میں نہ بٹھائی ہوتی تو مسلمان اس شاعر کی بوٹی بوٹی کرکے چیلوں کو کھلا دیتے۔ ہوسکتا ہے کوئی سمجھ نہ سکے۔ یہ اشعار مسلم لیگ کے ایک بہت بڑے جلسے میں بریلی میں پڑھے گئے تھے اور پھر ہر نوجوان مسلمان اسے جھوم جھوم کر پڑھ رہا تھا۔ آپ بھی سن لیجئے۔ مگر پڑھ کر توبہ ضرور کرلیجئے گا۔
اے محمدؐ اور علیؒ کی چلتی پھرتی یادگار
تیرے رُخ پر پرتوِ شبیرؓ و شبرؓ آشکار
خالد و طارق کی سیرت کا تو زندہ شاہکار
تو سیاست کا نبی قانون کا پروردگار
ہمیں کلدیپ صاحب سے بس یہ کہنا ہے کہ یہ تھا وہ ماحول جس کی وجہ سے لڑکوں نے مولانا آزاد کے ڈبہ کے سامنے شرمناک حرکتیں کیں۔ گناہگار وہ نہیں تھے گناہگار جناح صاحب اور دوسرے لیڈر تھے۔ رہی بات کہ مولانا آزاد کا قصور یہ تھا اور وہ تھا۔ تو کسی کو نہ ان کے نظریات سے سروکار تھا اور نہ ان کی تقریروں کے وہ مخالف تھے وہ تو صرف مسلم ملک بنوانے کا فریب دینے والے مداری کی ڈگڈگی پر ناچ رہے تھے۔
نیرؔ صاحب نے پولیس کو ہندو مسلم فساد میں فریق بننے کا سبب بھی اسی ذہنیت کو بتایا ہے یہاں بھی ہم ان سے اختلاف کریں گے۔ پولیس کا باوردی ہندو یا فسادی ہونا اسی وجہ سے ہے کہ مسلمان اگر پولیس میں پانچ فیصدی ہیں بھی تو انہیں فیلڈ میں نہیں بھیجا جاتا وہ کلرکی کرتے ہیں یا نیتا کی حفاظت۔ جو فیلڈ میں ہیں وہ چاہے گولی چلائیں یا بارہ بور کی بندوق؟ ان سے یہ جواب طلب کرنے والا تھانیدار سے مرکزی وزیر داخلہ تک کوئی نہیں ہے کہ تم نے مسلمانوں کو کیوں مارا؟ دوسری رپورٹیں جانے دیجئے۔ جسٹس کرشنا کی رپورٹ پڑھ لیجئے جس میں بجرنگ دل، وی ایچ پی، بی جے پی، شیوسینا اور پولیس کو 1993 ء میں ممبئی میں دو ہزار مسلمانوں کے قتل کا مجرم بتایا گیا ہے۔ کیا کلدیپ صاحب جیسے بڑے صحافی نے کانگریسیوں سے کبھی معلوم کیا کہ بم دھماکوں سے پہلے دو ہزار سے زیادہ مسلمان مرے تھے اور دو سو کروڑ سے زیادہ کا کاروبار جلاکر یا لوٹ کر ختم کردیا تھا۔ آپ نے ان کے خلاف کیا کارروائی کی؟ جبکہ مسلمانوں کے اسی قتل عام کو روکنے کے لئے ممبئی میں بم دھماکے ہوئے جس کے ذمہ داروں میں سے یعقوب میمن کو پھانسی اور کسی کو عمرقید ، کسی کو مختلف سزائیں دی گئیں۔ اور یہ دونوں واقعات دو دن کے اندر اندر کے ہیں۔ جب تحقیقاتی کمیشن کے پولیس کو بھی قاتل قرار دینے کے بعد کسی کا تبادلہ تک نہیں ہوا تو ان کو تقسیم کی ذہنیت سے جوڑنا صرف سیکولر کہے جانے والے ہندو بھائیوں کا بے سوچے سمجھے بیان دے دینا نہیں تو اور کیا ہے؟
1992 ء میں مہاراشٹر میں کانگریسی حکومت تھی یہ اس کی کتنی بڑی بے ایمانی ہے کہ دو ہزار سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کی تحقیقات تو ایک ریٹائرڈ جج کے سپرد کردی اور 260 ہندوؤں کے بم دھماکوں میں مرنے کی تحقیقات سی بی آئی کو دے دی۔ جس نے اپنے ہندو ہونے کا اس طرح ثبوت دیا کہ یعقوب میمن جو 22 برس سے جیل میں ہیں اور جو عمر قید سے زیادہ سزا کاٹ چکے ہیں ان کی اپیل سپریم کورٹ نے بھی یہ کہہ کر مسترد کردی کہ انہیں پھانسی ہی دی جائے۔ ہم اپنے تجربہ کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں کہ مسلمان اگر ہندو سے دوستی کرتا ہے تو واقعی اسے بھائی سمجھتا ہے لیکن سیکڑوں جگہ دیکھا ہے کہ اگر آزمائش کی گھڑی آجائے تو ہندو بھائی کی آنکھ بدل جاتی ہے اور یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ بھائی ہونے کا ثبوت دیتا ہے کلدیپ صاحب کا یہ فرمانا کہ ہندو مسلمانوں میں جو باہمی فضا برسوں میں بنی تھی مودی حکومت کے بعد اس میں اضمحلال آیا ہے۔ اور مسلمان عدم تحفظ محسوس کررہے ہیں۔ ہم اس سے انکار تو نہیں کریں گے لیکن یہ تو آج بھی ایسا ہی ہے جیسا پہلے تھا۔ اپنے کو سیکولر کہنے والی حکومت میں پہلے مارو مارو کا شور مچائے بغیر مار دیا جاتا تھا۔ اب شور زیادہ مچایا جاتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ مودی صاحب خود شور ہی مچا رہے ہیں کہ کچھ بھی نہیں رہے۔ رہی آر ایس ایس کی بات تو اب وہ تنظیم نہیں ہے اب وہ حکومت ہے۔ مودی صاحب ہوں یا راج ناتھ یا ہریانہ، مہاراشٹر اور جھارکھنڈ کے وزرائے اعلیٰ ہوں سب ایک طرف اور رام مادھو جو صرف جنرل سکریٹری ہیں وہ حکومت میں سب سے بڑے اس لئے ہیں کہ موہن بھاگوت صاحب صرف ان پر اعتماد کرتے ہیں۔
ہم شاید 30 برس سے کلدیپ صاحب کا کالم پڑھ رہے ہیں۔ کل ہمیں کچھ زیادہ ہی تکلیف ہوئی۔ ہوسکتا ہے تحریر میں اس کا اثر آگیا ہو۔ اس لئے ہم ان سے درخواست کریں گے کہ وہ اپنے کالم کو پھر پڑھ لیں۔ اور جو ہم نے کہا ہے اسے بھی۔ پھر بھی وہ ہم سے اتفاق نہ کریں تو ہمیں معذور سمجھ کر درگذر کردیں۔(

«
»

ہارن آہستہ بجائیں ۔ قوم سو رہی ہے

قطر کی قدیم ترین اردو ادبی تنظیم بزمِ اردو قطر کے زیرِ اہتمام خصوصی ادبی نشست بہ اعزاز معروف شاعرجناب شمس الغنی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے