بنجر زمینیں اس ایک انقلاب کی راہ تکتی ہیں

جسمانی، لسانی، فکری، مادی، جغرافیائی اور تاریخی تفرقات و تضاد اپنی جگہ جو انسان کی شناخت ، پرکھ اور تہذیبی ارتقائی سفر کے لئے نا گزیر ہیں، لیکن اس کی روح ان سب کے باجود اسے روحانی یکجائی کے لئے بے چین رکھتی ہے…. پھر وہ یہ بھول جاتا ہے کہ یہ روحانی اتحاد عارضی طور پر تہذیب جدیدہ کے دامن سے حاصل ہو رہا ہے، ، اور یہ بھی بھول جاتا ہے کہ در حقیقت اسکی روح دائمی اتحاد چا ہتی ہے، اور یہ بھی کہ تمام تر پاکیزگی کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور آلودگی سے پاک ہوکر چاہتی ہے – تہذیب جدیدہ اپنے تمام ترنقائص و شرور کے ساتھ چند ایک ایسے عارضی فوائد کی حامل رہی ہے کہ جسکی افادیت سے انکار اہل خیر کے لئے محال ہے- عالمی سطح پر انسانوں کا رسمی اور عارضی طور ہی سہی، یکجا ہونے کی کوششیں کرنا انسانی تہذیبی ارتقا کے لئے فائدہ مند رہا ہے، اور اس کے بغیر ارتقا کا سفرغیرممکن ہے …. لیکن یہ ارتقا روحانیت سے عاری وہ مادی ارتقا ہے جس پر مہذب انسان قانع نظر آتا ہے ، وہ خاندانی، سماجی، ملکی، سیاسی، تجارتی اور انفرادی و اجتما عی معاہدات بھی لر لیتا ہے، جس میں انسانی گواہ بے شک موجود ہوتے ہیں لیکن خدا وند ندارد، ایسے معاہدات عموماً عارضی ہوتے ہیں اور اکثر نیک نیتی پر مشتمل نہیں ہوتے….. وہ مختلف عالمی ایام کو بطور یاد گار بنا کر جشن کرلیتا ہے اور مجالس بھی سجا لیتا ہے، ہو ہا اور ہلڑ گلڑ کا اہتمام بھی کرلیتا ہے ، فنون لطیفہ کا سہارا لے کر احتجاج و ماتم بھی کر لیتا ہے اور غیر تعمیری طرز فکر و عمل سے معاشرے کی عکا سی بھی کر لیتا ہے …اخلاقی اصول و ضوابط سے بغاوت بھی کرلیتا ہے …یہ سب اسی مادی ترقی کی دین ہے جس میں اتحاد و اتفاق کی تڑپ ضرور ہوتی ہے لیکن روحانیت کا نام و نشان ڈھونڈے نہیں ملتا…..اس میں مصنوعی اور عارضی خوشیاں و غم، وصل و فراق اور معاہدات و تعلقات ہوتے ہیں…. اور اب تو مصنوعی صدائیں اور دعائیں، وبائیں اور دوائیں ، غذائیں اور فضائیں بھی اس نے ایجاد کر لی ہیں ، اور اس طرح مہذب انسان مصنوعی زمینوں پر روحانی و جسمانی اتفاق و اتحاد کے بیج بونے کی اپنی سی کوششیں کرتا رہتا ہے ……لیکن جب زمینیں ہی بانجھ ہوں تو تخم ریزی سے کیا ہوتا ہے، یا تخم ہی ناکارہ ہو جائیں تو زرخیز زمینوں میں آبیاری سے کیا ہوتا ہے …اور کچھ پودے تو بنیاداً کڑوے کسیلے بھی ہوتے ہیں اور بقول شیخ سعدی …ببول کے بیج اگر جنت میں بو ئے جائیں اور کوثر و تسنیم سے اسکی آبیاری کریں تو بھی ببول کا درخت کانٹے ہی اگا ئے گا ……اب بنجر زمینیں ایک ایسے انقلاب کی راہ تکتی ہیں جو نہ صرف یہ کہ کار آمد تخم ریزی کی بنا ڈالے بلکہ زمینوں کو زرخیزی بھی عطا کرے ….

کہتے ہیں بہاریں آتی ہیں لائی نہیں جاسکتی… اور یہ بھی کہ بہاریں آکر چلی بھی جاتی ہیں…. یعنی اس پر کسی کا قابو نہیں ہوتا- تاریخ کے اوراق اس بات کے گواہ ہیں کے سیا سی چمن میں بھی بہا ریں آتی رہی ہیں….لیکن پچھلی چند صدیوں سے سیاست کے چمن میں بہاروں کے بھیس میں صرف خزائیں آنے لگی ہیں….اورانسان اب اتنی بھولا بھی نہیں رہا کہ خزاؤں کے بھیس میں آتی جاتی بہاروں کو سمجھ نہ سکے..کیا کیا جا ئے کہ جمہوریت میں عوام کے لئے متبادل تو بہت ہیں لیکن کارآمد ایک بھی نہیں … ڈیموکریٹک ہے یا ری پبلک … لیبر ل یا کنزرویٹیو ، کمیونسٹ یا نیشنلسٹ ، کانگریس یا بی جے پی..سماج وادی یا نکسل وادی ….. پی پی یا مسلم لیگ، عرب لیگ یا دیگر لیگ .. عوامی یا سماجی ، قومی یا ملی..حریت پسند یا ذریت پسند ….. شدت پسند یا دہشت پسند …..آزاد یا متحد… الغرض شیرینی میں لپٹی یا تو سنکھیا ہے یا سائینایڈ … کم برا ئی اور زیادہ برائی میں انتخاب کرنا اب ممکن نہیں رہا …. اب مبالغہ کا صیغہ بھی نا کا فی ہوتا ہے کہ بد ترین اور انتہائی بد ترین کے درمیان کس کا انتخاب کیا جائے…. اب جمہوریت کی آب و ہوا زہریلی ہوچکی ہے اور سیاست کی زمین بنجر… انسان پھر بھی اس پر ہل چلا رہا ہے… اب ایک سیاسی زمین کا ہی کیا رونا ہر ایک زمین بنجر ہوچکی ہے .. انسان کے دل کی زمین اور اسکے ضمیر کی زمین کا حال بھی کچھ کم برا کہاں ہے….یہ ساری زمینیں ایک انقلاب چاہتی ہیں….اور وہ انقلاب ہی کیا جو قلب کو منقلب نہ کرسکے…. انسانی تاریخ میں جتنے بھی معلوم انقلاب رونما ہوئے ہیں ان میں ایک بات مشترک رہی ہے کہ اس کا منبع و محور انسانی قلب ہی رہا ہے…لغوی اوراوصافی دونوں نقطہ نظر سے ہر ایک انقلاب میں ذہنی قوت سے زیادہ قلبی جذبہ کی کارفرما ئی رہی ہے….یہی وجہ ہے کہ انقلاب لایا نہیں جاتا بلکہ برپا کیا جاتا ہے…. یہ منفی بھی ہوسکتا ہے اور مثبت بھی، تعمیری بھی ہوسکتا ہے اور تخریبی بھی….یہ ناکام بھی ہوسکتا ہے اور کامیاب بھی… اور ناکا می کی صورت میں بطور ایک تحریک قائم بھی رہ سکتا ہے … یہ ضروری نہیں کہ ہر ایک تحریک انقلابی صورت کی حامل ہو اور ہر ایک نظریہ انقلاب برپا کرسکتا ہو ….البتہ یہ بات یقینی ہے کہ ہر ایک انقلاب کسی نہ کسی نظریہ کا حامل ضرور ہوتا ہے …. اور ہر ایک نظریہ کسی نہ کسی مقصد کی عکاسی کرتا ہے… بغیر نظریہ کے کوئی تحریک وجود میں نہیں آتی اور نہ ہی کوئی انقلاب برپا ہوسکتا ہے….انقلاب یہ نہیں دیکھتا کہ نظریہ اور مقصد میں کیا کجی ہے، اوصاف منفی ہے یا مثبت، حق ہے یا باطل، انجام اچھا ہونا ہے یا برا…بلکہ صرف اور صرف قوت وجذبہ کی شدت دیکھتا ہے اور برپا ہوجاتا ہے…اور جب برپا ہوتا ہے تو پھر یہ سوائے قدرت کے کسی کے قابو میں نہیں رہتا… اس کا انجام صرف اور صرف قدرت کے ہاتھوں طے پاتا ہے….انقلاب برپا کرنا انسانوں کا کام ہے اور قدرت سے اسکی پشت پناہی ثابت ہے… جہاں وہ عذاب و رحمت اور ارضی و سمائی آفات سے کبھی انقلاب لانے کا با عث بنتی ہے تو کبھی انقلاب کو کامیاب اور ناکام بناتی ہے…انسان کو محدود اختیارات حاصل ہونے کا احساس دلاتی ہے….. اسے عدل و انصاف پر قائم رہنے کی یاد دہانی کرتی ہے… اسے امتحانات و نتائج، یوم حساب اورسزاجزا کے احساس سے باندھے رکھتی ہے….

دنیا کے عظیم الشان انقلابات کا تجزیہ کیا جائے تو انقلابات کو دو بنیادی زمروں میں رکھا جاسکتا ہے…. اول روحانی اور دوم مادی.. پھر یہ دونوں مختلف شاخوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں مثلا مذہبی ، دینی، ادبی، تعلیمی، جنگی ، خونی ، سائینسی، تحقیقاتی، تہذیبی، سماجی، تجارتی، صنعتی، تقافتی، سیاسی، وغیرہ … لیکن ہر ایک انقلاب کا سر چشمہ فکری انقلاب ہوتا ہے جو اول اول ایک مقصد اورنظریہ کے تحت وقوع پذیر ہوتا ہے، اور تدریجا ایک تحریک کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور بلآخر روحانی یا مادی انقلاب برپا کرنے کا باعث بنتا ہے….فکری انقلاب کے بغیر ایک روحانی انقلاب کا ظہور پذیر ہونا قطعی غیر ممکن ہے جبکہ ایک مادی انقلاب کا رونما ہونا ممکن تو ہوسکتا ہے لیکن ایسا انقلاب دیرپا نہیں ہوتا…. فکری انقلاب برپا ہونے کے بے شمار اسباب ہیں لیکن ان میں ظلم و نا انصافی اور جہالت سر فہرست ہے… فکری انقلاب کی علامت کوئی موضوع، تصنیف، مضمون، کتاب، مقالہ، جملہ، محاورہ، شعر یا قول و اقوال یا کوئی شہ بھی ہوسکتی ہے..اور یہ انقلاب دہرایا بھی جاتا ہے…..اکثر انقلابات گرچہ عارضی ہوتے ہیں لیکن اس کے اثرات دیر پا ہوتے ہیں…..دنیا کے معلوم انقلابات میں ایک جمہوری انقلاب بھی واقع ہوا ہے… اور جس کے اثرات موجودہ بدلتے موسموں کی طرح بہاروں سے کم اور خزاوں سے زیادہ میل کھاتے ہیں …. ایک صنعتی انقلاب بھی برپا ہوا ہے جس کے مفید و مضر اثرات جگ ظاہر ہیں….اسی طرح علمی، سیاسی ، تہذیبی ، تمدنی، سائینسی، صنعتی، تجارتی اور اطلاعاتی انقلابات بھی رونما ہوئے ہیں جسکے اثرات کہیں عارضی ہیں تو کہیں طویل المدتی ، اور کبھی مفید ثابت ہوئے ہیں تو کبھی مضر بھی….اسی طرح مذہب و عقائد پر مشتمل انقلابات بھی برپا کیے گئے ہیں اور جو سب کے سب مندرجہ بالا کسی نہ کسی انقلاب کا شکار ہوکر رہ گئے… اور بالآخر ان کے برے اثرات سے مذاہب کے ساتھ ساتھ پیروکار بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے….. بجز دین فطرت کوئی بھی مذہب مذکورہ انقلاب کا شکار ہونے سے نہ بچ سکا…. اور ان میں سب سے بڑا انقلاب انسان نے جمہوریت کی شکل میں برپا کیا ہے…… جمہوریت جو تہذیب جدیدہ کی کوکھ سے پیدا ہو ئی ہے…..اور یہ وہی تہذیب ہے جو ظلم، استحصال واستبداد، تنفر، توہم پرستی ، جنگ و جدل اور دین بیزاری کے مراحل سے گزر کر وجود میں آئی، اور اس کے بطن سے مختلف سیاسی اور مادی انقلابات رونما ہوئے اور مختلف نظام پیدا کیے گئے – یہی وجہ ہے کہ جمہوریت کی کامیابی میں مادیت پرستی کلیدی کردار ادا کرتی رہی ہے، اور اسکے بغیر جمہوریت کامیاب ہو بھی نہیں سکتی، جس کا مبین ثبوت مغرب میں جمہوریت کی کامیابی اور مشرق میں جمہوریت کی مسلسل ناکامی سے اور تہذیب جدیدہ کی نشو نما اور ترویج سے ملتا ہے، جہاں سیاست تمام تر نئے مفہوم کے ساتھ جلوہ گر ہوئی ہے…جہاں سیاست داں سیاست سے کھیلتے ہیں….جہاں عوام جوئے شیر لاتی ہے اور سیاست ہمشیرہ بن جاتی ہے اور جہاں سرمایہ داری شیر خوار پیدا کرتی ہے، اور پھر سب وطن پرستی میں شیر و شکر ہوجاتے ہیں…. اور اس طرح جمہوریت کی شیرینی قائم رہتی ہے اور انسانیت کا شیرازہ بکھرتا جاتا ہے…. زمینیں سب بنجر ہوئی جارہی ہیں اور ایک نیا انقلاب چاہتی ہیں، پھرایک روحانی انقلاب …ایک دینی انقلاب … تاکہ روحانیت اور مادیت میں درکار توازن قائم ہو، پچھلی چند صدیوں میں ہر قسم کے روحانی اور مادی انقلابات سے دنیا گزر چکی ہے، انہیں پرکھ چکی ہے اور اب ان کا خمیازہ بھگت رہی ہے…..

تاریخ میں چند روحانی، مذ ہبی اور دینی انقلابات ایسے بھی درج ہوئے ہیں جو روحانیت اور مادیت میں وہ توازن قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں جو کارخانہ حیات کے لئے ضروری ہواقع ہوئےہیں …. اوراگر ان میں کسی نے مفید اثرات قائم بھی کیے تو وہ عارضی واقع ہوئے اور رد و بدل کا شکار ہو گئے… یا تو ان انقلابات نے دنیا کو شر کے حوالے کر دیا تھا اور ترک دنیا اختیار کر لیا، یا پھر توہم پرستی، مصلحت پرستی کی راہ اپنا کر مذہب کو بھی مادیت پرستی کے رنگ میں رنگ لیا …..ایسے انقلابات تغیر شدہ مذہبی عقاید و رسومات اور عبادات پر مبنی ہوا کرتے تھے ..جبکہ کامیاب روحانی انقلاب صرف دین فطرت نے برپا کیا تھا ، جسکے قوانین انسانی فطرت سے مطابقت رکھتے اور یہ قو انین خود پختہ اصول و ضوابط کے پابند ہوا کرتے … یہ وہ روحانی انقلاب تھا جو کارخانہ حیات میں ضروری روحانی اور مادی توازن کو قائم کرنے میں کامیاب ہوا تھا ….اور جس کے مفید اثرات آج بھی دنیا پر قائم ہیں …گرچہ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دین فطرت کے پیروکارایسا روحانی انقلاب دوبارہ برپا نہ کر سکے، لیکن اس سے ملتے جلتے کچھ انقلابات ضرور برپا ہوئے ہیں …. جن میں کچھ انقلابات کے اثرات طویل المدتی تھے اور کچھ کے عارضی…حالیہ صدی میں کچھ روحانی اور مذہبی انقلاب ایسے بھی برپا کیے گئے جس میں انتقام ،تنفر ، شدت پسندی، عجلت پسندی ، عسکریت اور غیر منطقی سوچ اور جذبے غالب رہے، جہاں مادی انقلابات کی روش اپنا ئی گئی اور صرف طاقت و قوت سے دنیا کو جنت بنا نے کا خواب دیکھا گیا …انقلاب سے دنیا کو جنت بنانے کا طرز فکر و عمل غیر منطقی ثابت ہوا ہے… دنیا کو جنگل میں تبدیل ہونے سے روکنے کے مقصد سے برپا کیا گیا انقلاب ہی دراصل کامیاب ہوتا ہے ، پھر چاہے وہ کوئی روحانی انقلاب ہو یا مادی …..تاریخ کے پس منظر میں اس بات کا تصفیہ بھی ضروری ہے کہ روحانی انقلاب کے لئے جنگ نا گزیر نہیں ہوتی، جبکہ مادی انقلاب کے لئے جنگ اکثر نا گزیر ثابت ہوئی ہے اور مسلسل اور طویل بھی ، اور کبھی مختلف بھیس بدل کر دائمی بھی….. بر عکس روحانی انقلاب مادی انقلاب کے تحت بنا ئے گئے قوانین خود اپنے لئے کوئی پختہ اصول و ضوابط نافذ نہیں کرتے اور مسلسل تغیر کا شکار ہوتے رہتے ہیں…گرچہ ہر قسم کے انقلاب میں جنگ کے قوی امکانات ہوتے ہیں لیکن روحانی انقلاب مسلسل اور طویل المدتی جنگ کا حامل نہیں ہوتا ، خاصکر جب یہ دینی اصول و ضوابط کے تحت برپا کیا گیا ہو … یہ انقلاب جنگ سے اس وقت تک گریز کرتا ہے جب تک اسکے وجود کو خطرہ محسوس نہیں ہوتا … لیکن جب یہ جنگ کو ناگزیر جان لیتا ہے تو پھر اسے انقلاب کا ایک مرحلہ سمجھتا ہے ناکہ حل ..ایک پڑاو سمجھتا ہے نا کہ منزل ..اور یہ فیصلہ کن جنگ کا حامل ہوتا ہے … دینی انقلاب میں جنگ کا مقصد مخالف کو زیرکرنا نہیں ہوتا بلکہ اپنا بنا کر دم لینا ہوتا ہے ….اور اس طرح یہ اپنی جیت درج کرتا ہے …..تاریخ میں ایسے ہی ایک دینی انقلاب کی مکمل جیت درج ہے …جسے دوبارہ برپا کرنا اب نا گزیر ٹہرا اور اس کے خلاف تمام توجیہات اور دلائل لا یعنی –

«
»

ہارن آہستہ بجائیں ۔ قوم سو رہی ہے

قطر کی قدیم ترین اردو ادبی تنظیم بزمِ اردو قطر کے زیرِ اہتمام خصوصی ادبی نشست بہ اعزاز معروف شاعرجناب شمس الغنی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے