کانگریس سے مکتی کامعاملہ

ملک کے عوام کا شعور بھی اتنا پختہ نہیں کہ وہ بی جے ی سے تحریک آزادی میں اس کی عدم شمولیت پر اس سے باز پرس کر سکیں ۔کانگریس کی یہ کمزوری تھی کہ اس نے تقریباً دو سال سے اس کے خلاف جاری منظم پروپیگنڈہ کادنداں شکن جواب دینا کیوں ضروری نہیں سمجھا ؟اس دوران آر ایس ایس نے بھی پس پردہ عوام کے ذہنوں میں یہ تاثر بٹھانے میں کامیابی حاصل کر لی کہ ملک آج جس بحرانی دور سے گز رہا ہے۔اس کی اصل ذمہ دار کانگریس ہی ہے۔یہ اسی کی ماحول سازی کا نتیجہ تھا کہ پارلیمانی الیکشن سے قبل اور اس کے بعد بھی بہت سے کانگریسی پارٹی کوڈوبتا جہاز تصور کرتے ہوئے اس سے لا تعلقی اختیار کرتے گئے۔آیا رام گیا رام کلچر نے جس طرح اپنے پاؤں پسارے اس پر بعض نادان دل جلوں کا ان پر ابن الوقتی کا الزام ایک معنوں میں حالات کے دھارے اور ہوا کے رخ بھانپ کر اپنا پالا بدلنا یہ آج کی ضرورت اور فیشن بن جائے تب اس میں اخلاقی قدروں کے پیمانہ کا سوال خود جواز بن جائے تب اس کا کیا جواب؟
بحث کا اصل موضوع بی جے پی کی جانب سے کانگریس مکت مہم جوئی کا پوسٹ مارٹم کیا جائے تب آر ایس ایس کے ہندوتوا نظریہ کو درپردہ فروغ دینے کی اصل ذمہ داری سے کانگریس مبرا نہیں ہو سکتی غیر جانب دار مبصرین کانگریس اور بی جے پی کو ایک ہی سکہ کے دو رخ قرار دینے میں جو ان کے دلائل ہیں اس میں بھی دم نظر آتا ہے۔بی جے پی کی عمر تو ربع صدی سے زیادہ نہیں۔ اس قسم کی ذہنیت کا وجود ہندوستانی سماجی تاریخ کا ایک پرانا زخم تھا جسے وقت بے وقت کرید کرید کراسے ہرا رکھا گیا ۔انگریزوں کے تسلط سے ملک کو آزادکروانے کے پس منظر کی جڑوں میں جا کر اسے تلاش کریں تو یہ نظر آئے گا کہ ملک سے انگریزوں کی بے دخلی کی ابتداء 1757ء ؁ میں سراج الدولہ ‘1857ء ؁ میں بہادر شاہ ظفر اور اس کے بعد شہید ٹیپو سلطان نے شروع کی تھی۔برہمنوں کے طفیل ہندو معاشرہ چاتر ورنیہ سسٹم کی وجہ سے بکھرا ہوا تھا۔اس سسٹم کی وجہ سے معاشرہ میں جو خرابیاں تھیں اسے ان کے بعض مصلحین نے رفتہ رفتہ ختم کرنے کی کوششوں کے بہتر نتائج نکلے ۔اس کے نتیجہ میں ہی اس نظریہ پر بحث کا آغاز عمل میں آیا کہ ملک سے انگریزوں کی بے دخلی کے بعد ملک کا نظام حکومت کس طرح و کس کے ذریعہ انجام دیا جائے۔اسی دوران اس نکتہ نے اہمیت اختیار کرلی کہ ملک کے نئے نظام میں انگریزوں کے علاوہ مسلمانوں سے بے نیازی برتتے ہوئے ملک کے کلچر کے حساب سے مذکورہ ذمہ داریاں ملک کی ثقافت پر عمل پیرا کسی با صلاحیتتنظیم کو تفویض کیے جانے کے نظریہ نے اہمیت اختیار کی۔
اسلامی قدروں پر مبنی روایات کی قیادت علماء کے اس مخصوص طبقہ جو دینی تعلیم کے فروغ و استحکام سے جڑا تھا ان کے نقطۂ نظر سے سلطنت مغلیہ کے دوبارہ احیاء یا کسی مسلمان بادشاہ کو یہ ذمہ داری تفویض کرنا ان کی اپنی رائے تھی۔اینی بیسنٹ کی سربراہی میں انڈین نیشنل کانگریس کی تشکیل بھی تحریک آزادی کو تقویت بخشنے کے مقصد سے عمل میں آئی ۔ اس کے کچھ دن بعد 1928ء ؁ میں ڈاکٹر بلی رام ہیڈ گیوار کی سربراہی میں راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ نامی ثقافتی تنظیم کا قیام عمل میں آیا۔سوامی وویکانند‘ساورکر ‘راجہ رام موہن رائے نے ہندو سماج کو ان کی فرسودہ رسومات سے نجات دلانے کانمایاں کام انجام دیا۔انڈین نیشنل کانگریس ایک ایسا پلیٹ فارم ثابت ہوا جو علاقہ واریت و لسانی سطح سے بے نیاز ہوکر قومی سطح پر تحریک آزادی کو منظم کرنے کا مستحکم ذریعہ تھا۔مسلمانوں کو نمائندگی اور ان کی تعلیمی‘سماجی اور معاشی سرگرمیوں کی انجام دہی گو کہ کانگریس کے اپنے ایجنڈہ میں شمولیت کے تناظر میں مہاتما گاندھی ‘خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت کی طرح یہاں پر اسی طرز کے نظام کے قیام کے خواہشمند تھے۔حکومت میں مسلم نمائندگی کے نام پر بحث و مباحثہ ‘اعتراضات و اختلافات کے پس منظر میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا۔جس نے الیکشن اور حکومت سازی میں بھی حصہ لیا۔بعد میں اس نے بھی آزادانہ موقف اختیار کرنے پر اس کے ادعاکو تسلیم کر لیا گیا۔بعض حلقہ مسلم لیگ کے قیام کو کانگریس کی درپردہ سازش قرار دینے پر مصر ہیں ۔جس کے نتیجہ میں اس کے زیر اثر پاکستان اس کے حصے میں آیا ۔1971ء ؁ میں مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد وہ بنگلہ دیش میں تبدیل ہو گیا۔ہندوستان۔پاکستان و بنگلہ دیش کی تشکیل کے باوجود بر صغیر کا مسلمان جن مسائل کا شکار ہے وہ حقیقی آزادی کی تصویر نہیں؟
بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے کانگریس مکت بھارت مہم کی قطع برید کی جائے تو یہ نظر آئے گا کہ آر ایس ایس ہی نہیں بہت سے کانگریسیوں کا یہ مطالبہ تھا کہ پاکستان کی طرح ہندوستان کو بھی خالص ہندو مملکت کی حیثیت دی جائے۔کانگریس نے اس مطالبہ کو جزوی طور پر تسلیم کرتے ہوئے اس کی جو عمل آوری کی وہ سرکاری تقاریب میں بھومی پوجن اور دوسری ہندو روایات کی عمل آوری سے دکھائی دیتی ہیں۔کانگریس نے بہر حال ہندوتو کے ایجنڈہ کو آئینی شکل دینے سے گریز کیا تھا۔حالیہ پارلیمانی الیکشن میں بی جے پی ‘ہندو مہا سبھا ‘شیو سینا اور اس قماش کی دیگر تنظیموں و قائدین کی جانب سے جو طوفان بد تمیزی برپا ہے یہ اسی ہندوتو کی کامیابی کا رد عمل ہے۔جو محض ہمارے ملک کے دستور کی بدولت ہندوتوایجنڈہ کے بالکلیہ نفاذ کے لیے وہ اسپیڈ بریکر ثابت ہو رہا ہے ۔کانگریس کایہ قصور کہ اس نے ہندو تو کو نمائشی آزادی تودی۔دستوری آزادی نہ دینے کی پاداش میں اس سے مکتی پانااسے چائے کی پیالی کا طوفان قرار دیا جا سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعظم اس چائے کو کتنا جوش دیں گے یا اپنے دکھلائے ہوئے خوابوں کی تعبیر کے لیے پھر کوئی نئے خواب عوام کے روبرو پروسینگے ۔
وزیر اعظم اور ان کے رفقاء کے قول و فعل میں تضادات کا نمایاں فرق عوام کی قوت برداشت کے لیے ایک چیلینج ثابت ہو رہا ہے۔وزیراعظم کا اپنا صاحب اولاد نہ ہونا یہ ان کا ذاتی فعل تھا۔ہاتھ پیلے کرنے کے باوجود انہوں نے خوشگوار ازدواجی زندگی گزارنے کے بجائے آر ایس ایس کے پرچارک کی حیثیت سے اپنے آپ کو وقف کرنا یہ بھی ان کے اختیار تمیزی کا معاملہ ہو سکتا ہے۔اس تناظر میں انتخابی مہم کے دوران انہوں نے کئی مقامات پر اس قسم کا اظہار کیا تھا کہ نہ وہ خود رشوت لیں گے اور نہ کسی کو بد عنوانی کی اجازت دیں گے۔اسے حسن اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ ان کی حکومت کی پہلی سالگرہ سے ٹھیک

ایک ہفتہ قبل بد عنوانی کے خلاف راجیہ سبھا میں بل پیش کرنے کے دوران مرکزی وزیر شوارع نتین گڑکری کی پرتی شوگر انڈسٹری کے سلسلہ میں کمپٹرولر آڈیٹر جنرل کی تازہ رپورٹ کانگریس کی جانب سے پیش کرتے ہوئے اس کا حوالہ دیا گیا کہ حکومت کے مالیاتی ادارہ آئی ۔آر ۔ای ۔ڈی سے بھوسہ جلاکر اس سے بجلی پیدا کرنے کے نام سے گڑکری کی کمپنی نے 48کروڑ 6لاکھ روپئے کا قرض لینے کے تیرہ دن بعد اس اسکیم کا ہی تین تیرہ ہونے پر حسب سابق کوئلہ اور آئل کی مدد سے بجلی کی تیاری جاری رکھنے کے دوران کمپنی پر سود سمیت جملہ واجب الادا رقم84کروڑ 12لاکھ روپئے ہونے پر One Time Statementکے تحت اس کا تصفیہ 71کروڑ35لاکھ روپیوں میں ہونے پر مذکورہ مالیاتی ادارہ کو 12کروڑ 77لاکھ روپیوں کا نقصان برداشت کرنا پڑا ۔اس مسئلہ پر راجیہ سبھا کی کاروائی کئی مرتبہ منسوخ کرنی پڑی ہے۔اپوزیشن گڑکری کے استعفیٰ کے لیے بضد ہے۔ایران کے دورہ سے واپسی کے بعد کیگ کے اس شوشہ پر گڑکری سے استفسار کرنے پر موصوف کی خاموشی چہ معنی دارد؟وزیر اعظم اپنے قول کی لاج رکھیں تب بھی یہ بلند بانگ دعوؤں کی جیت ہوگی یا ہار اس کا تصفیہ قارئین کے ذمہ۔۔۔کانگریس کے لیے گڑھاکھودنے والے خود اس کا شکار ہوں۔۔۔بزرگوں نے بھی سچ کہا تھا۔ چاہ کن را چاہ در پیش است؟

«
»

اسامہ بن لادن کی مخبری کس نے کی؟

بڑوں کے نقشِ قدم نشانِ منزل ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے