شاہ سلمان کا منصفانہ اقدام :آزادی صحافت کیلئے ہی نہیں انسانیت کیلئے ایک مثال

جس کی ویڈیو کے آن لائن پوسٹ کئے جانے کے بعد کئی افراد نے محمد الطوبیشی پر اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام عائد کیا تھالیکن شاہی حکومت کے خلاف عوام کا احتجاج یا ریالیوں وغیرہ کا منظم کرنا قانون جرم تصور کیا جاتاہے اسی لئے بعض اوقات اثر و رسوخ رکھنے والے اعلیٰ عہدیداروں کی جانب سے عام لوگوں یا کمتر درجہ کے افراد پر زیادتی کی جاتی ہے تواسے نظرانداز کردیا جانا ہی بہتر دکھائی دیتا ہے اور مملکتِ سعودی عرب میں عام سعودی شہری اپنی شاہی حکومت کے خلاف کچھ کہنے سے بھی ڈرتے ہیں۔لیکن شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ایک فوٹو گرافر کو تھپڑ رسید کرنے والے پروٹوکول سربراہ کو برطرف کردیا اس سے سعودی عرب کی شاہی حکومت اور فرمانروا شاہ سلمان کا انصاف عیاں ہوتا ہے اور عوام میں اپنے حکمراں کے تےءں کسی مسئلہ کو پیش کرنے اور اس کے حل کے لئے نمائندگی کرنے کاعزم پیدا ہوتا ہے ۔ اگر بادشاہِ وقت عوام کے دکھ درد، انکی مصیبتوں اور حاجتوں اور نا انصافیوں کو سن کر فیصلہ کرتے ہیں یا متعلقہ وزارت و عہدیداروں کو عوامی مسائل حل کرنے کا حکم صادر فرماتے ہیں تو اس سے دفاتر اور محکموں میں صحیح کام کاج ہوگا ، عوام میں اعتماد بحال ہوگا اور وہ اپنے حکمرانوں سے خوش رہیں گے۔شاہ سلمان کے اس فیصلہ کے بعد سعودی شہریوں نے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر خیر مقدم کیا ۔ گلف نیوز اخبا رکے ایک صحافی عبداللہ البیر گاوتولڈ نے شاہ کے فیصلہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ صحافیوں اور میڈیا کے لوگوں کے لئے ایک بڑا دن ہے ان کا کہنا تھا کہ شاہی پروٹوکول کے سربراہ کو ایک صحافی کے لئے برخواست کرنا میڈیا کی حیثیت کومضبوط کرنا ہے اور اسے صحافت کی فتح قرار دیا۔ لیکن یہاں صحافتی برادری کو بھی اپنی فرائض منصبی کے دوران پروٹوکول کا لحاظ رکھنے کی ضرورت ہے اگر کوئی صحافی یا فوٹو گرافر یا عام آدمی پروٹوکول توڑتا ہے تو اس سے بدنظمی پیدا ہوگی اور اسے سیکیوریٹی کی خامیاں سمجھا جائے گا یہی نہیں بلکہ سیکیوریٹی کے ان ذمہ دار عہدیداروں کے خلاف تادیبی کارروائی بھی کی جاسکتی ہے اس لئے صحافی اپنے پیشے کے تقدس کا لحاظ رکھتے ہوئے فرائض کی انجام دہی پوری کریں۔
پروٹوکول سربراہ محمد الطوبیشی کے خلاف کارروائی کی اصل وجہ یہی ہے یا کوئی اور لیکن شاہ سلمان کایہ اقدام قابلِ ستائش ہے شاہ نے ایک مرتبہ پھر دکھایا ہے کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے، چاہے وہ سرکاری اہلکار ہوں یا کوئی اور، وہ اپنے قول و فعل اور لوگوں کی تعظیم کے حق کی قدرنہ کرنے کے ذمہ دارہونگے۔ اس سے قبل گذشتہ ماہ شاہ سلمان نے شاہی خاندان کی ایک سینئر شخصیت شہزادہ محمود بن عبدالرحمن پر کھیلوں کے مقابلوں میں حصہ لینے اور ایک ٹی وی ٹاک شو میں ایک بیان دینے پر جس کونسل پرستانہ سمجھا گیا تھا ، پابندی لگادی تھی۔ اورشاہ نے اپریل کے اوائل میں وزیر صحت احمد الخطیب کو بھی اس وقت تبدیل کردیا تھا جب انہوں نے ایک شخص سے تلخ کلامی کی جو ریاض کے ایک ہاسپتل کی حالت بتانے انکے پاس گیا تھا۔شاہ سلمان کے ان اقدامات سے ملک و بیرون ملک یہ سمجھا جارہا ہے وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق عوام کو زندگی گزارنے اور ایک دوسرے کا ادب و احترام، اخلاق و کردار کی بہتری ، محبت و شفقت سے رہنے کا درس دے رہے ہیں تاکہ ملک میں تمام شہری مل جل کر خوشحال زندگی گزاریں کیونکہ اسی میں ملک کی سلامتی اور ترقی مضمر ہوتی ہے۔
شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے 100دن اوراہم تبدیلیاں
خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز مملکتِ سعودی عرب کے بادشاہ بننے کے بعد 100دنوں میں کئی ایک اہم تبدیلیاں کئے ہیں ۔ خصوصی طور پر انہوں نے جو اہم اقدام کیا ہے یعنی سعودی عرب کے وزیر داخلہ اور انکے بھتیجہ شہزادہ محمد بن نائف کو اپنا جانشین و ولیعہد بنایا اور اپنے فرزند شہزادہ محمد بن سلمان وزیر دفاع کو نائب ولیعہد بناکر ایک نئی روایت قائم کی ہے۔ اس سے قبل انکے والد شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن اٰل سعود نے اپنے فرزند کو اپنا جانشین بنایا تھا اور اس کے بعد سے اقتدار شاہ عبدالعزیز کے فرزندوں میں منتقل ہوتا رہا ، یہ سلسلہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز تک جاری رہا۔ شاہ سلمان نے بھی مملکت کے بادشاہ بننے کے بعد اپنے سوتیلے بھائی شہزادہ مقرن بن عبدالعزیز کو ولیعہد بنایا تھا لیکن 100دن کے اندر ہی کابینہ میں بڑی تبلیاں کرتے ہوئے انہوں نے ایک نئی روایت قائم کی ہے۔ ان کے علاوہ سعود الفیصل کو جو چالیس سال سے وزیر خارجہ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے سبکدوش کردیا جو کہ سعودی عرب اور عالمی ممالک کے درمیان خوشگوار تعلقات کے لئے جانے جاتے تھے ۔ شاہ سلمان کے اس اقدام کو تجزیہ نگار یہ بتاتے ہیں کہ موجودہ حالات میں اقتدار کی اہم ذمہ داری نئی نسل میں منتقل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ مشرقِ وسطی کے ممالک جن حالات سے گزر رہے ہیں اور مستقبل میں انہیں جو حالات درپیش ہونے والے ہیں اس کے لئے مضبوط قوتِ ارادہ رکھنے والے نوجوانوں کی ضرورت ہے۔ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کو اس وقت ایک طرف شدت پسند تنظیموں جیسے داعش، القاعدہ، طالبان ، النصرہ ، حوثی قبائل وغیرہ سے خطرہ بڑھتا دکھائی دے رہاہے تو دوسری جانب ایران کی سرگرمیاں بھی دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔ دشمنانِ اسلام سعودی عرب اور دیگر اسلامی ممالک میں مسلمانوں کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف مسالک کی بنیاد پر تفرقہ ڈال کر ایسا ماحول پیدا کردےئے ہیں کہ مسلمان ایک دوسرے کے جانی دشمن بن گئے ہیں اور مسالک کی بنیاد پر قتل عام کو جائز سمجھتے ہوئے اسے جہاد کا نام دے رہے ہیں جو کہ اسلامی اقدار کے سخت خلاف ہے۔ نام نہاد جہادی گروپس حقیقت میں اسلامی طرز زندگی اپناتے ہوئے اسلامی پرچم کو بلند کرنا چاہتے ہیں تو وہ اس طرح بے رحمانہ برتاؤ عام مسلمانوں کے ساتھ نہیں کرتے۔ آج ملک شام، عراق، یمن، لیبیاء، لبنان، مصر، نائجریا ، پاکستان، افغانستان وغیرہ کے حالات کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں پر مسالک کی بنیاد پر مسلمانوں کا قتلِ عام کیا جارہا ہے۔ شیعہ سنی اور سنیوں میں بھی شدت پسند عقائد کے ماننے والے معصوم مسلمانوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ ان ممالک میں لاکھوں مسلمانوں کو قتل کردیا گیا ، لاکھوں خواتین بیوہ ہوگئیں اور لاکھوں بچے یتیم ہوگئے ان بچوں کا مستقبل تاریک ہوتا دکھائی دے رہا ہے ، انہیں تعلیم و تربیت کی اشد ضرورت ہے ورنہ مستقبل میں یہ بچے ان ممالک کے لئے ہی نہیں بلکہ اقوامِ عالم کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں اور اس کی ذمہ دارموجودہ دور کے حکمراں ہونگے۔ آج ان ممالک کے لاکھوں عوام بے سروسامانی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، انہیں مختلف کیمپوں میں زندگی گزارنی پڑرہی ہے اور ان کیمپوں میں نہ انہیں صحیح طرح کی غذا فراہم ہوتی ہے اور پانی و ادویات و دیگر ضروریاتِ زندگی کے سامان۔ ان ہی حالات سے مقابلہ کرنے کے لئے شاید سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، مصر اور دیگر عرب ممالک اپنی ایک مشترکہ فوج بنانے کا اقدام کیا ہے اور خطہ کے حالات کو معتدل بنانے کے لئے شدت پسند گروپس اور افراد کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آج یمن میں حوثی باغی قبائل کی بغاوت کو کچلنے کیلئے سعودی عرب کی قیادت میں عرب ممالک متحدہ فضائی کارروائی انجام دے رہے ہیں تاکہ یمن کے عوام چین و سکون کی زندگی گزاریں۔ یمن کے صدر عبد ربہ منصور ہادی کی حکومت کو جس طرح سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک بچانے کی کوشش کررہے ہیں اس سے اس بات کا اظہار بھی ہوتا ہے کہ جس طرح ماضی میں بہار عرب کے نام پر حکمرانوں کو اقتدار سے محروم کردیا گیا اور اس کے بعد ان ممالک کے جو حالات منظر عام پر آئے ہیں اس سے محسوس ہوتا ہے کہ مستقبل میں دوسرے ممالک میں اگر عوامی انقلاب برپا ہوتو ان ممالک میں بھی خطرناک حالات پیدا ہونگے اور پھر عالمِ اسلام کے سنبھلنے میں ایک طویل عرصہ درکارہوگااس لئے ان حالات کو مدّنظر رکھ کر عرب حکمرانوں نے متحدہ لائحہ عمل ترتیب دے کر دشمنانِ اسلام یا شدت پسندوں سے مقابلہ کرنے اور انہیں شکستِ فاش دینے کا عہد کرلیا ہے ۔ آج اقوامِ عالم کے مسلمانوں کی نظریں سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز پر ٹکی ہوئی ہے ۔ سعودی عرب میں انہوں نے جس طرح نئی روایت قائم کرتے ہوئے نئی نسل میں اقتدار منتقل کیا ہے اس سے نوجوانوں میں ایک عزم پیدا ہوا ہے ۔ اور اس عزم و حوصلہ کے ساتھ ان ممالک کے نوجوان اپنے حکمرانوں کو اقتدار پر مضبوط دیکھنا چائینگے۔ 
مذہب اسلام کی بنیاد پر اتحاد ناگزیر
لبنان میں شیعہ عسکریت پسند گروپ حزب اللہ کے قائد حسن نصر اللہ نے اعلان کیا ہے کہ ان کی تنظیم کے جنگجو شام میں صدر بشارالاسد کی حکومت کے خلاف برسرِ پیکارالنصرہ فرنٹ کو نشانہ بنائیں گے۔ النصرہ فرنٹ سنی گروپ ہے جو لبنان میں بشارالاسد کے خلاف جنگ لڑرہا ہے ۔ حزب اللہ کے قائد حسن نصر اللہ کے مطابق ان سنی جنگجوؤں پر قالعمون کے سرحدی علاقے میں حملے کرے گی تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ کارروائیاں کب کی جائیں گی۔ ان کے مطابق شام کی باغی گروپ جو سرحد پار لبنان میں حزب اللہ کو بھی وقتاً فوقتاً نشانہ بناتی رہی ہیں یہ ایک ناقابلِ قبول خطرہ ہے۔ اس سلسلہ میں حسن نصر اللہ کا کہنا ہے کہ لبنانی حکومت اس معاملہ سے نمٹنے کے قابل نہیں ہے اس لئے ہم ضروری کارروائی کریں گے اور اس عمل کی ذمہ داری اور نتائج قبول کریں گے۔ حزب اللہ کا کہنا ہے کہ شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ (داعش) خطے کے مسلمانوں کے لئے اسرائیل سے بڑا خطرہ ہے۔ تنظیم کے رہنما اور لبنانی وزیر محمد فنیش کے مطابق دولت اسلامیہ کے خلاف جنگ میں ان کے مقاصد مغربی طاقتوں سے مشترک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے لئے اصل خطرہ داعش جیسی تنظیمیں ہیں ، جن کی وجہ سے مسلمانوں کی شبیہ پر برا اثر پڑتا ہے کیونکہ ان گروپوں نے اسرائیل سے کہیں زیادہ مسلمانوں کو ہلاک کیا ہے۔ سعودی عرب اور دیگر اسلامی ممالک بھی داعش، القاعدہ، طالبان ، حوثی قبائل جیسی شدت پسند تنظیموں کو ختم کرنا چاہتے ہیں ان تنظیموں کے خلاف مغربی طاقتیں بھی حملے کررہی ہیں لیکن ان تمام حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات محسوس کی جاسکتی ہے کہ تمام کارروائیوں میں عام مسلمانوں کی ہلاکت ہورہی ہے اور ان کی معیشت بھی بری طرح متاثر ہورہی ہے یہی نہیں بلکہ کئی مسلمان بے سروسامانی کا شکار ہوتے ہوئے اپنی زندگی بچانے کے لئے نقل مقام کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔خطے میں امن و سلامتی کے لئے ضروری ہے کہ عرب ممالک کے ساتھ ایران بھی تعاون کرے وہ مسلک کی بنیاد پر یمن اور شام کو تعاون کرنے کے بجائے اسلام کی سربلندی اور مسلمانوں کی سلامتی کے لئے آگے آتا ہے تو یہ بہت بڑا اقدام ہوگا اور دشمنانِ اسلام جس طرح مسلمانوں کے درمیان اختلافات پیدا کرکے اپنی معیشت کو مستحکم کررہے ہیں اور مسلمانوں کو بین الاقوامی سطح پر دہشت گرد کے طور پر پیش کرکے بدنام کررہے ہیں اس میں کمی ہوگی۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے جس طرح چند ہفتے قبل کہا تھا کہ ایران سے ہم جنگ کی حالات میں نہیں ہیں اس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک نہیں چاہتے کہ وہ ایران کے ساتھ دشمنی بڑھائے بلکہ موجودہ حالات میں عرب ممالک اور ایران متحدہ طور پر دشمنانِ اسلام کی سازشوں کو بے نقاب کرکے امن و امان بحال کرنے کے اقدام کرتے ہیں تو یہ تاریخی واقعہ ہوگا۔ کاش عالمِ عرب اور ایران کے حکمراں امتِ مسلمہ کی سلامتی کے لئے متحد ہوتے

«
»

اسامہ بن لادن کی مخبری کس نے کی؟

بڑوں کے نقشِ قدم نشانِ منزل ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے