وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اَب بھی ہے

زلزلہ اس کی ایک بہت معمولی سی علامت ہے۔ میرے قارئین میری معذوری سے واقف ہیں جس وقت زمین ہلی میں آپ کے لئے ہی کرسی پر بیٹھا لکھ رہا تھا۔ محسوس ہوا جیسے میز، کرسی اور قلم ازخود حرکت کرنے لگے۔ پوری طرح میں سمجھ بھی نہیں پایا تھا کہ میری پیاری پوتیاں ہوا کے جھونکے کی طرح دادا ابّو۔ دادا ابّو۔ کہتی ہوئی کمرہ میں داخل ہوئیں۔ (اُن کے ہاتھ میں میری وہیل چیئر تھی) جلدی سے اس پر بیٹھ جائے۔ یہ پوتیاں ابھی انٹر کے اندر اندر ہیں۔ میں سمجھ چکا تھا۔ میرے منھ سے نکلا کسی بڑے کو بلالو۔ وہ بول پڑیں ہم سب آپ کو باہر لے جائیں گے۔ اور وہ دو منٹ میں باہر لے آئیں۔ اتفاق سے ہفتہ کے دن اُن کے اسکولوں میں چھٹی تھی اگر عام دن ہوتے تو گھر میں مکان کے پچھلے حصے میں دس بجے کے بعد صرف ایک بہو ہوتی ہے اور ایک خادمہ جو کچھ بہری اور کچھ گونگی ہے۔ اور میں کچھ بھی ہوجاتا اُن سے خدمت لینا گوارہ نہ کرتا۔
پڑوسی ملک نیپال پر جو گذری اور پڑوسی ریاست بہار پر جو گذری۔ وہ سب آپ کو ٹی وی اور اخباروں سے معلوم ہوچکا ہے۔ بات وہی ہے جو ہمیں بنانے والے نے فرما دیا کہ جو ذرّہ بھر نیکی کرے گا یا جو ذرّہ بھر بدی کرے گا وہ اُسے دیکھ لے گا۔ ہمیں بھی سب سے پہلے اس کی فکر ہوئی کہ ہم کس کس بات کا جواب دے پائیں گے؟ خوشی ہوئی یہ پڑھ کر کہ بہت سے اللہ کے بندے نماز میں مصروف ہوگئے اور بہت سے مسجد میں جاکر دعائیں مانگنے لگے اور تکلیف ہوئی ان بدنصیبوں کا حال سن کر جو اُس کے بعد سے آج صبح تک اپنے گھروں میں جانے کے بجائے پارکوں میں پڑے رہے یا کھلے میدان میں۔
زلزلہ ہو، سیلاب ہو یا طوفان یہ سب اس کے اشاروں پر حرکت کرتے ہیں جس نے یہ دنیا اور ان سب عذابوں کو بنایا ہے۔ اب ملک پر حکومت کرنے والوں کو اپنا محاسبہ کرنا چاہئے کہ جو ذمہ داری انہیں پروردگار نے دی تھی وہ انہوں نے کتنی پوری کی؟ اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ’کلّکم داعٍ اکلّکًم مسؤلٍ عن رعیتہٖ‘ تم میں سے ہر ایک چرواہا ہے اور ہر ایک کو اپنی رعیت کے متعلق جواب دینا پڑے گا۔
وزیر اعظم کو جواب دینا پڑے گا کہ انہوں نے جو لاکھوں کروڑ بینکوں کو دیئے ہیں کہ یہ روپئے ضرورتمند کسانوں کو آسان طریقہ سے قرض کے طور پر دے دیئے جائیں۔ ان سے سوال ہوگا کہ انہوں نے اس کے بعد کہاں کہاں دیکھا یا معلوم کرایا کہ کسانوں کو ملا یا نہیں؟ وزیر اعظم سے سوال ہوگا کہ تم نے جو ڈیڑھ گنا معاوضہ دینے کا اُن کسانوں کے لئے اعلان کیا تھا جن کی فصل 33 فیصدی بھی تباہ ہوگئی ہو۔ اُن کروڑوں کسانوں کو وہ معاوضہ ملا یا نہیں ملا؟ این ڈی ٹی وی انڈیا جس نے 2014 ء کے الیکشن میں مودی کو وزیر اعظم بنوانے میں کسی چینل سے کم کردار ادا نہیں کیا تھا اس کے سب سے زیادہ محنتی اور سب سے زیادہ سمجھدار اعلیٰ تعلیم یافتہ رویش کمار نے پرسوں تپتی دوپہر وہاں گذاری جہاں کسان اپنی بچی کھچی فصل کا گیہوں لارہے تھے۔ جس کے متعلق بار بار وزیر اعظم نے یقین دلایا تھا کہ اگر گیہوں میں ہلکی نمی ہوگی یا بارش کی وجہ سے دانہ باریک رہ گیا ہوگا یا اُن میں کچھ دانے کالے ہوگئے ہوں گے تب بھی ہم نے حکم دے دیا ہے کہ سب حکومت خریدے گی۔ وہ دیکھنے گئے تھے کہ حقیقت کیا ہے؟
ہم جانتے ہیں کہ رویش کمار کے پرائم ٹائم کو کروڑوں لوگ دیکھتے ہوں گے اور یہ بھی معلوم ہے کہ ہر بات وزیر اعظم، وزیر مالیات اور وزیر زراعت کے علم میں لائی جاتی ہے۔ اُنہیں معلوم ہوچکا ہوگا کہ بینک وہی ذہنیت برت رہے ہیں جس کے لئے وہ بدنام ہیں کہ اگر کوئی ایک کروڑ روپئے جمع کرنے کے لئے لائے تو ایک منٹ میں لے لو اور اگر ایک ہزار نکالنے کے لئے آئے تو اس سے اتنے سوال کرو کہ وہ توبہ کرلے۔ رویش کی بدولت سارے ملک کو معلوم ہوگیا کہ کسان بینک کے بجائے 18 فیصدی سود پر آڑھتی سے قرض لے رہے ہیں اس لئے کہ بینک قرض کے لئے جو کچھ کسان سے مانگتے ہیں وہ اس کے پاس نہیں ہے۔ ایک کسان نے بتایا کہ اس کی زمین ایک کروڑ روپئے کی ہے جس پر اسے بینک صرف ایک لاکھ 25 ہزار قرض دیتا ہے وہ بھی صرف چھ مہینے کے لئے۔ اس لئے سب آڑھتی سے لیتے ہیں اور آڑھتی بینک والوں کو رشوت دے کر اُن سے کروڑوں روپئے قرض لے لیتے ہیں۔ رویش کی بدولت یہ بھی معلوم ہوگیا کہ سرکاری خریداری مرکزوں پر جو گیہوں خرید رہے ہیں وہ خرید تو رہے ہیں مگر اس کی خرابی کی قیمت 34 فیصدی کاٹ کر کسان کو پیسے دے رہے ہیں۔
رویش کمار نے اپنے ایک دوست جھا کی ایک رپورٹ دکھائی جو بہار کے پورنیہ ضلع کے طوفان اور تباہی پر مبنی تھی۔ اُسے دیکھ اور سن کر رونگٹے کھڑے ہوگئے اور اس سے بھی زیادہ خون کھولانے والا وہ منظر تھا کہ جس طوفان سے 65 آدمیوں کی موت ہوگئی اور پورا ضلع جو بہار کا سب سے غریب ضلع ہے پوری طرح برباد ہوگیا۔ جیسے کسی کے جسم پر صرف ایک لنگوٹی ہو اور وہ بھی اُڑ جائے۔ اس کی تباہی کا منظر دیکھنے کے لئے ہیلی کاپٹر اوپر چکر لگا رہا تھا جس میں بڑے فرعون کی طرح وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ بیٹھے تھے اور چھوٹے فرعون کی طرح نتیش کمار۔ کاش پروردگار اس ہیلی کاپٹر کے ایسے ہی ٹکڑے کردیتا جیسے ان غریبوں کے کاغذی جھونپڑے اُڑ گئے۔ اور یہ زمین پر چلنے کے لئے مجبور ہوجاتے۔
اسی رویش کمار نے پرسوں کی ایک اندھیری رات میں بلند شہر کے ایک گاؤں کا جائزہ لیا۔ آدھا گھنٹہ ہم نے بھی دیکھا کہ سیکڑوں کسانوں سے معلوم ہوا کہ کسی کو خبر نہیں کہ سروے کب ہوا؟ بعد میں معلوم ہوا کہ پٹواری آیا تھا۔ وہ پردھان کے گھر میں بیٹھا رہا وہیں کھانا پینا خاطر تواضع ہوئی اور پردھان نے اپنے رشتہ داروں اور الیکشن میں اپنے کام آنے والوں کے نام لکھوا دیئے۔ ہم میں سے کسی کو خبر نہیں کہ سروے ہوا اور نہ ہمیں کوئی معاوضہ ملے گا حالانکہ ہماری 50 فیصدی سے زیادہ کھیتی تباہ ہوگئی ہے۔
اور کیسے پروردگار زمین کو جھٹکا دے کر اپنے گناہگار بندوں کو یہ نہ بتاتے کہ تم اپنے اختیارات کا غلط استعمال کررہے ہو، جبکہ مولوی حکیم طارق قاسمی کو پولیس کے اشاروں پر عمرقید کی سزا دی جائے اور ڈیڑھ لاکھ روپئے جرمانہ۔ وہ مولوی طارق جن کی گمشدگی کے دوسرے دن ہی ہر جگہ یہ خبر پھیل گئی تھی کہ نامعلوم لوگوں نے انہیں اپنے قبضے میں لے لیا ہے اور دوسرے دن ہی اخباروں میں بھی چھپ گیا تھا۔ پھر چار دن کے بعد طارق صاحب کو بارہ بنکی اسٹیشن پر گرفتار کیا گیا جن کے پاس وہ تباہ کن مادّہ دکھایا گیا تھا جن کے نام بھی اور صورت بھی طارق قاسمی کو معلوم نہیں ہوگی۔
ملک کی ہر خصوصی عدالت وہی کرتی ہے جو پولیس چاہتی ہے۔ یہ فیصلہ ایسا ہے کہ ہر باشعور مسلمان اسے ناانصافی قرار دے رہا ہے اور ہر طرف ہائی کورٹ میں جانے کی بات ہورہی ہے۔ گرفتار کرنے والوں کو بھی یہ معلوم تھا کہ وہ لکھنؤ فیض آباد اور سلطان پور کے دھماکوں میں خالد و طارق کی شرکت ثابت نہیں کرپائیں گے۔ اسی لئے انہوں نے اپنی گندگی تھیلوں میں بھرکر اُن کے پاس دکھادی۔ زنگ آلود چاقو، ناکارہ کٹے، تیزاب اور زہر، ہر تھانہ میں اسی لئے رکھا رہتا ہے کہ چاہے جسے اقدام قتل میں بند کرادیں۔ پاک پروردگار ان شیطان زادوں سے محفوظ رکھے۔ 

«
»

بس کر الٰہی

عہد شاہجہانی میں علم و ادب کی بے نظیر ترقیات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے