تلنگانہ میں پانچ مسلم نوجوانوں کی ہلاکت:مسلمانوں کی بے کی بسی ایک اور کہانی

اگر اکثریت کے ساتھ کوئی معاملہ پیش آجاتا ہے تو نہ تو پولیس کی مورل کی بات کی جاتی ہے ،نہ ہی دہشت گردی کی اور نہ ہی ذات و مذہب کی۔لیکن یہاں معاملہ مسلمانوں کا ہے اس لئے ہر طرف سناٹا چھایا ہوا ہے۔ ہندو اس لئے اس معاملے میں آگے نہیں بڑھتے کیوں کہ انہیں اس سے کوئی مطلب نہیں ہوتا۔اگر ہندو طبقہ مسلمانوں کے دفاع میں آتا تو مسلمانوں پر اتنے مظالم نہیں ہوتے۔ نہ بھاگلپور پیش آتا، نہ میرٹھ ملیانہ اور ہاشم پور، نہ مراد آباد نہ بھیونڈی اور گجرات میں قتل عام پیش آتا۔ انہوں نے ایک طرح سے اپنی آنکھیں موند لی ہیں۔جب کہ انسانیت کا تقاضہ ہے کہ ظلم کسی کے خلاف ہو انہیں آگے آنا چاہئے، اگر مسلمان کے خلاف ظلم ہوتا ہے تو ہندو آگے آئیں اور ہندو کے خلاف ظلم ہو تو مسلمانوں کو آگے آنا چاہئے۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا اور مظالم کے دور گزرنے کے بعد قیادت کرنے کے لئے البتہ کچھ ہندو تنظیمیں اور کچھ صاف شبیہ کے ہندو بھائی آجاتے ہیں۔ جہاں تک مسلمانوں کی بات ہے وہ اس قدر خوف زدہ رہتے ہیں انہیں لگتا ہے کہ اگر انہوں نے لب کشائی کی تو انہیں بھی کسی نہ کسی مقدمہ پھنساکر زندہ درگور کردیا جائے گا۔یہ شبہ غلط بھی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر مولانا عمر جنہوں نے گجرات فسادات کے بعد مسلمانوں کی بازآبادکاری اور فساد کے شکار مسلمانوں کے کیمپ کا انتظام اور کیمپ میں کھانے پینے اور دیگر انتظام میں پیش پیش تھے، حکومت گجرات نے مولانا عمر کو اس کار خیرکرنے کے جرم میں گودھرا کیس میں ملوث کردیا تھا۔صرف ایک مجرم کے طور پر ہی پیش نہیں کیا بلکہ انہیں کلیدی ملزم قراردے دیا گیا اور جیل میں ڈال دیا گیا۔بہت برسوں کے بعد ان کی رہائی ہوئی اور عدالت سے پاک صاف ہوکر نکلے لیکن صدمے نے ان کی جان لے لی۔ اس کے علاوہ تیستا سیٹلواڈ کا معاملہ سرخیوں میں رہا ہے کس طرح گجرات میں گلبرگہ سوسائٹی کے خاطیوں کو سزا نہ دیکر حکومت گجرات نے اپنی ساری کوشش گجرات فسادات کے خلاف آوازا ٹھانے والی تیسٹا سیتلواڈ کے خلاف صرف کردی اور تیستا سیٹلواڈ کو بالآخر سپریم کورٹ میں پناہ میں آنا پڑا۔ اس کے برعکس گجرات فسادات اور عشر ت جہاں، سہراب الدین شیخ، پرجاپتی اور دیگر فرضی تصادموں میں ملوث پولیس افسران کو کے بعد دیگرے ضمانت ملتی رہی اور سیاست داں بری ہوتے رہے۔ یہ ایسا رویہ ہے جوبہت ہندو اور مسلمانوں کو حق کی آواز اٹھانے سے روکتا ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستان میں یہ غیر اعلانیہ دستور کا حصہ ہوگیا ہے کہ جو مسلمانوں کا جتنا بڑا قاتل ہوگا وہ اتنا بڑے عہدے پر فائز ہوگا۔پولیس کے اعلی افسران سے لیکر سیاست دانوں کی مثال سامنے ہے۔اسی روایت نے تلنگانہ پولیس کو پانچ مسلم نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتارکر اسے تصادم کا جامہ پہنچانے کی ترغیب دلائی ۔کیوں کہ انہیں معلوم ہے ان کا کچھ نہیں بگڑنے والا ہے۔ 
پولیس کا کہنا تھا کہ وہ احمد اور اس کے چار ساتھیوں کو ورنگل سینٹرل جیل سے سات اپریل2015 کوعدالت میں پیش کرنے کے لئے حیدرآباد لے جا رہی تھی کہ اسی وقت انہوں نے اپنے حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں سے ہتھیار چھیننے کی کوشش کی جس کے بعد یہ تصادم ہو ا ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے تصادم میں ایک مقامی مشتبہ دہشت گرد گروپ تحریک غلبہ اسلام کے بانی وقارالد ین احمد سمیت پانچ افراد کو ہلاک کر دیا ہے ۔لیکن اس واقعے کے فورا بعد سے میڈیا میں جاری تصویروں پر شوسل میڈیا پر اس انکاونٹر پر سوال اٹھنے لگے ہیں ، تصویروں میں سبھی پانچوں نوجوانوں کے ہاتھ میں ہتھکڑیا ں لگی ہیں اور ان کے ہاتھوں میں رائفل پکڑا دی گئی ہے جسے دیکھ کر کسی بھی کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ یہ انکاونٹر بھی ماضی میں ہوئے انکاونٹرس کی طرز پر فرضی طریقے سے انجام دیا گیا ہے۔ پولیس کے ایک اعلیٰ افسرنے میڈیا کو بتایا کہ یہ تصادم ورنگل میں جناگاؤں کے پاس ہوا ہے۔حیدرآباد کے یہ پانچ مسلم نو جوان کو بہت ہی ڈرامائی انداز میں قتل کرکے تصادم کا جامہ پہنادیا گیا. حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ شخص ہتھکڑیوں میں جکڑا ہے، اپنی سیٹ پر بے ہوش سا پڑا ہے، اس کے پورے جسم پر خون کے چھینٹے ہیں ان کی یہ حالت تلنگانہ پولیس کے ساتھ ہوئے انکاؤنٹر میں ہوئی۔ انہیں 17 میبرس والی سکورٹی ٹیم نے مارا۔ وہ انہیں ایک پولیس وین میں ورنگل جیل سے حیدرآباد کورٹ لے جا رہے تھے۔ ورنگل سے حیدرآباد کورٹ 150 کلومیٹر دور ہے۔امتیاز علی نے بتایا کہ ان کے بھائی امجد نے حال ہی میں عدالت میں درخواست داخل کی تھی جس میں اآئے دن ورنگل جیل سے حیدرآباد منتقل کئے جانے کے سبب ان کی کمر میں شدید تکلیف اور کیس کی سماعت کی کارروائی ان کی عدم موجودگی میں چلانے کی گذارش کی تھی۔جس کا فیصلہ فرضی تصادم کے دن دوپہر میں متوقع تھا۔ وقار کے وکیل ایم اے عظیم نے بھی پولیس کی اس کارروائی کو غیر قانونی قرار دیا اور کہا کہ کیس میں ملوث ملزمین کو انکاؤنٹر کے نام پر ہلاک کردینا خلاف قانون ہے۔وقار احمد کے ساتھی سید امجد علی عرف سلیمان کے بھائی سید امتیاز علی نے پولیس پر الزام عائد کیا کہ زیر التواء مقدمات میں جرم ثابت کرنے میں ناکامی کے ڈر سے پولیس نے فرضی انکاؤنٹر کے ذریعہ ان کے بھائی کا قتل کیا ہے۔مسٹر احمد نے میڈیا سے بتایا کہ وقار احمد نے کئی مرتبہ عدالت کو پولیس کی جانب سے جان کو خطرہ لاحق ہونے کا شبہ ظاہر کیا تھااوران کے وکیل کے مطابق کہا تھا ایک تلنگانہ پولیس ورنگل اور حیدرآباد کے درمیان قومی شاہراہ پر ان سے کہا تھاکہ وہ نیچے اتر کے بھاگ جائے اس طرح پولیس ان کا انکاؤنٹر کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ انکاوؤنٹر تلنگانہ پولیس کا ظلم ہے اور پولیس کی اس حرکت سے تلنگانہ حکومت کا مسلمانوں کے ساتھ انصاف کرنے کا دعویٰ جھوٹا ثابت ہوتا ہے۔
تلنگانہ حکومت کو ورنگل میں پولیس کے ہاتھوں 5 زیر سماعت قیدیوں کی ہلاکت کی آزادانہ مجرمانہ تفتیش کا حکم دینا چاہیے۔ یہ مانگ ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا نے کی ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کو ایک صحافی نے ویڈیو فلم دی ہے جس میں یہ نظر آتا ہے کہ مارے جانے کے بعد یہ پانچوں قیدی پولیس وین میں بیٹھے ہیں اور سب کے ہتھکڑی لگی ہوئی ہے۔ایمنسٹی انترنیشنل انڈیا کے وی پی ابھیر نے کہا ’’غیر عدالتی ہلاکت ہندستان میں ایک سنگین مسئلہ ہے کہ عدالت کے فیصلہ کے بغیر مجرموں کو بڑی بے خوفی سے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے اور ایسا کرنے والے چھوٹ بھی جاتے ہیں۔انہوں نے مطالبہ کیا ’’تلنگانہ کے حکام کو فوراً اس کیس کی آزادانہ کرمنل تفتیش کرکے یہ پتہ لگانا چاہئے کہ کیا عدالتی کارروائی کے بغیر لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار کر اسے انکاونٹر کا نام دیا گیا تھا۔ان پانچ ملزمان کو 2007 سے 2010 کے درمیان علاحدہ علاحدہ واقعات میں دو پولیس افسران اور ایک ریاستی نیم فوجی افسرکے قتل کے شبہ میں گرفتار کیا گیا تھا۔9 اپریل کو ممنوعہ گروپ کے دو مشتبہ مبران نے مبینہ طور پر نلگونڈہ (تلنگانہ) میں دو پولیس والوں کو گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مشکوک افراد تین روز کے بعد پولیس کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں مارے گئے تھے جس میں ایک پولیس والے کی بھی جان گئی تھی۔ قومی انسانی حقوق کمیشن نے 2010 میں یہ ضابطہ بنایا تھا کہ مبینہ ’’جعلی انکاونٹروں‘‘ کی کسی آزادانہ ایجنسی سے جانچ کرائی جانی چاہئے۔اس کے علاوہ سپریم کورٹ کا آرڈر موجود ہے جس میں سپریم کورٹ نے پیپلز یونین فار سول لبرٹیزکے داخل کردہ مفاد عامہ کی عرضی میں 14ستمبر 2014کو حکم دیا تھا کہ ہر عدالتی حراستی اموات کی آزادنہ جانچ کرائی جائے۔اسی کے ساتھ آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے جنرل سکریٹری ڈگ وجئے سنگھ نے کہا کہ تلنگانہ کے ضلع ورنگل میں کیا گیا وقار الدین کا انکاؤنٹر فرضی ہے۔ انہوں نے قومی دارالحکومت نئی دہلی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گجرات میں جس طرح فرضی انکاؤنٹرس کئے گئے تھے اْسی طرح وقار الدین کا بھی انکاؤنٹر کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلہ میں ایک اعلی سطحی جانچ ہونی چاہئے تاکہ حقائق کو سامنے لایا جائے۔ امریکہ نشیں انڈین امریکن مسلم کونسل نے بھی حیدرآباد فرضی تصادم کی جانچ آزادانہ طور پر کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ کونسل کے صدر عمر ملک نے مطالبہ کیا ہے کہ ان پانچ مسلم نوجوانوں کی فرضی تصادم میں ہلاکت کی ذمہ داری حکومت قبول کرے۔ پولیس کی تھیوری کو اگر بالفرض محال مان بھی لیا جائے تو پھر ان پانچ مسلم جوانوں کی فائرنگ میں کسی پولیس والے کی ہلاکت یا زخمی ہونا تو دور کی بات ایک بھی پولیس کو کھرونچ تک نہیں آئی ۔
اسی طرح سیشاچلم کی جنگل میں آندھرا پولیس نے تمل ناڈو کے 20لکڑ ہارے کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا۔ آندھرا پردیش انسانی حقوق فورم کے جنرل سکریٹری وی ایس کرشنا کہتے ہیں، ’’تمام ثبوت اشارہ کرتے ہیں کہ مزدوروں کو گھیر کر گولیوں سے مارا گیا۔ یہ 20 لوگوں کا قتل ہے‘‘۔جائے حادثہ اور اسپتال کا دورہ کر نے والے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ ’’مارے گئے بیشتر لوگوں کو گردن کے نیچے گولی ماری گئی تھی اور لگتا ہے کہ یا تو وہ بھاگ رہے تھے یا انہیں پیچھے سے گولی ماری گئی۔پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس وقت گولیاں چلانی شروع کی جب پایا کہ وہاں بڑی تعداد میں مبینہ اسمگلر ہیں۔ اس مہم کا حصہ رہنے والے ایک پولیس اہلکار اشوک کمار نے کہا، ’’ہم 40۔50 لوگ تھے اور صرف 8۔10 کے پاس ہی ہتھیار تھے۔ جب انہوں نے حملہ کرنا شروع کیا، تب ہم نے اپنی جان بچانے کے لئے گولیاں چلانی شروع کی۔’’حالانکہ یہ دلیلیں، ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی تنظیموں کے گلے نہیں اتر رہی ہیں اور انہوں نے واقعہ کی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے ابھیر کہتے ہیں، ’’اس معاملے کی مجرمانہ تحقیقات ہونی چاہئے کہ کیا پولیس والوں نے ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کیا۔پولیس قانون سے اوپر نہیں ہے‘‘۔ایمنسٹی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس واقعہ میں ایک بھی پولیس اہلکار زخمی نہیں ہوا تھا، پھر بھی 11 پولیس اہلکاروں کو ان کی چوٹوں کے علاج کے لئے ہسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔آندھرا پردیش کے چتتور میں گزشتہ ہفتے 20 لوگوں کوپولیس تصادم میں مارنیکے معاملے میں حیدرآباد ہائی کورٹ نے قتل کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا ہے۔کورٹ نے ریاستی حکومت سے پوچھا ہے کہ دفعہ 302 کے تحت قتل کا معاملہ درج کیوں نہیں کیا گیا ہے۔آندھرا پردیش کے وزیر جنگلات بی گوپال کرشن ریڈی نے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ پولیس نے فرضی تصادم میں تمل ناڈو کے رہنے والے 20 افراد کو مار ڈالا ہے۔ ریڈی نے این ڈی ٹی وی سے کہا وہ ا سمگلر تھے، لکڑہارے نہیں۔ جو مارے گئے ہیں وہ عادی مجرم تھے۔ ہمارے پاس ثبوت ہے۔ لیکن انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ چتتور میں جس تصادم کی بات پولیس کر رہی ہے، اصل میں وہ فرضی ہے اور پولیس نے معصوموں کو مار دیا ہے۔کارکنوں کا کہنا ہے کہ کئی لاشوں پر جلنے کے نشانات پائے گئے ہیں۔ کچھ لاشوں کے سر اور سینے میں گولی لگی ہے جو اپنے دفاع کی کارروائی میں نہیں ماری جاتی۔ اس واقعہ میں ایک بھی پولیس اہلکار زخمی نہیں ہوا۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ حیدرآباد کے پانچ مسلم نوجوانوں کو فرضی تصادم میں ہلاک کیاگیا ہے جب بھی ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والے مسلم نوجوان سامنے آئے ہیں ان کو گولی مار خاموش کردیا گیا ہے۔ 1992میں بابری مسجد کو شہید کرنے والے کارسیوکوں سے لوہا لینے والے فصیح الدین اور محمود علی کو فرضی تصادم میں ہلاک کردیا گیا تھا۔ اس کے بعد سردار کو مار ڈالا گیا۔ عزیز و اعظم جو دونوں نوجوان بیرون ملک نوکریاں کرتے تھے، قتل کردیا گیا۔اسی طرح مجاہد سلیم جنہوں نے مانک پربھو کی قبضہ والی مسجد کی بازیامیں اہم رول ادا کیا تھا، ان کو مار ڈالا گیا تھا۔ اسی طرح مہاراشٹر میں خواجہ یونس کو گھاٹ کوپر میں بیسٹ بس دھماکہ کے معاملے گرفتار کیا اور پھر انہیں عدالتی حراست میں2002 میں قتل کردیا گیا تھا۔ قتیل صدیقی کوانتہائی سیکورٹی والے یروڈا جیل میں 2012 میں قتل کردیا گیا۔ انہیں بنگلور کے چناسوامی اسٹیڈیم ، پونے کے ایک مندر اور جامع مسجد دھماکہ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا لیکن جیسے ہی محسوس ہوا وہ بے گناہ ثابت ہورہا ہے جیل میں کچھ لوگوں کے ذریعہ ان کا قتل کردیا گیا۔اسی طرح اترپردیش میں خالد مجاہد کو 2007میں عدالت میں سیریل بلاسٹ کے معاملے میں ڈرامائی انداز میں گرفتار کیاگیا اور پھر 2013 میں عدالتی حراست میں قتل کردیا گیا۔ 42پولیس اہلکاروں کے خلاف معاملہ درج ہوا لیکن کسی کے بھی خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ سب سے افسوسناک پہلو ہندوستانی میڈیاکا ہے اردو کے علاوہ خواہ وہ ہندی یا انگریزی، تیلگو ہو یا تمل ، کنڑ ہو یا دیگر زبان کا میڈیا ہوسب کی ایک ہی آواز ہوتی ہے ’دہشت گرد‘
مارا گیا۔ شہید کئے گئے پانچ مسلم نوجوانوں کے بارے میں بھی تیلگو میڈیا یہی کہہ رہا ہے۔میڈیا کی ساری توجہ فرضی انکاؤنٹر کو صحیح ٹھہرانے پر ہے۔ افسوسناک مقام یہ بھی ہے کہ آندھرا پردیش اور تلنگانہ کے مسلم رہنما بھی خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ تلنگانہ کے وزیر اعلی نے اس معاملے پر صرف افسوس کا اظہار کیا۔ جب کہ نائب وزیر اعلی محمود علی اس معاملے پر کچھ بھی بولنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ سابق وزیر اقلیتی بہبود محمد علی شبیر، فاروق حسین ایم ایل سی اور دیگر مسلم اراکین اسمبلی اور سیاسی رہنما کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ مشترکہ مجلس عمل کے کچھ اراکین نے تھوڑا بہت شور و غوغا کیا لیکن وہ بھی خاموش بیٹھ گئے۔ سارے سیاست دانوں کو پارٹی میں شبیہہ خراب ہونے اورسیاسی وابستگی کا روگ اس قدر لگ چکا ہے کہ وہ مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر کچھ نہیں بولتے۔ دوسرا انہیں یہ بھی خوف ستاتا ہے کہ زیر التوا مقدمہ ان کے خلاف نہ کھول دیا جائے۔ لکڑے ہارے کے معاملے میں جہاں تمل ناڈو کے وزیراعلی سخت ایکشن میں نظر آئے وہیں آندھرا ہائی کورٹ بھی پولیس والوں کے ساتھ سختی سے پیش آرہی ہے اور اس نے ڈی جی پی کی رپورٹ کو مسترد کردی ہے اور دوسری رپورٹ پیش کرنے کے لئے کہا ہے۔ وہیں حیدرآباد کے رہنما اس معاملے کو عدالت لے جانے سے گھبرا رہے ہیں۔ مسلم نوجوانوں کی ہلاکت پر اب تک ایک عرضی دائر نہیں کی گئی ہے۔ پورے ہندوستان اور خاص طور پر حیدرآباد کے مسلمانوں کے حوصلے کو پست کرنے کے لئے اس طرح مائے ورائے عدالت کا سہارا لیا جارہا ہے۔ حیدرآباد میں مسلما نوں کے ساتھ ظلم ختم نہ ہونے کا ایک سلسلہ ہے جو سقوط حیدرآباد سے جاری ہے۔ اس کے خلاف آواز نہ اٹھائی گئی تو حالات بدسے بدتر ہوسکتے ہیں۔اس لئے مسلمانوں کو سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر اس ظلم کے خلاف سڑکوں پر اترنا چاہئے۔

«
»

ارکان پارلیمنٹ کیلئے مشاہرات اور غیر معمولی سہولتیں کیوں

یمن ، عراق اور شام کے حالات مزید خطرناک موڑ اختیار کرتے جارہے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے