کس سے محرومئ قسمت کی شکایت کیجئے

یہ 1966 ء کی بات ہے کہ احمد عمر خاں نام کے ایک دوست جو ملیح آباد کے معزز پٹھان ہیں آم کے باغات اور بسوں کے مالک ہیں وہ ایک قتل کے الزام میں جیل میں تھے۔ ہم جب یکم اگست کو گئے تو وہ ایک سال سے وہاں اپنے مقدمے کا سامنا کررہے تھے۔
جیل میں ملاقات ہفتہ میں ایک بار ہوتی ہے۔ وہ جب اپنے گھر والوں سے ملنے ملاقات کے میدان میں جاتے تھے اور ہم بھی اپنے دوستوں سے مل کر ساتھ ساتھ سامان سے لدے پھندے واپس آتے تھے تو راستہ میں پھانسی کی کوٹھریاں پڑتی تھیں۔ عمر خاں بلاناغہ ہر بار ان کوٹھریوں کو ضرور دیکھتے تھے اور ہم لوگوں سے کہتے تھے کہ ہر دن ایک دعا ضرور کرنا کہ پروردگار اس کوٹھی میں نہ بھیجے۔ ان کے مقدمہ کا فیصلہ مارچ کی کسی تاریخ کو ہوا۔ قاعدہ یہ ہے کہ جب عدالت کسی کو پھانسی کی سزا سناتی ہے تو اسے فوراً پولیس سب سے الگ اپنے گھیرے میں لے لیتی ہے اور تنہا اسی کو جیل لے آتی ہے۔ وہاں وہ اپنی بیرک میں نہیں جاسکتا اسے ایک کمرہ میں قیدیوں کے کپڑے پہنائے جاتے ہیں اور لوہار خانہ میں بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں اس کے بعد اسے خاموشی سے پھانسی والوں کی کوٹھری میں پہونچا دیا جاتا ہے۔
عمر خاں ہمارے ساتھ آٹھ مہینے رہے ہم نے شاید ہی کسی کو اتنا خوش مزاج دیکھا ہو کہ ہر وقت ہنسنا ہنسانا اور مسکرانا اُن کی پہچان تھی۔ عمر شاید 35 سال ہوگی انتہائی صحتمند گورے پٹھان۔ ہم نے جیلر صاحب سے جو ہمیں بہت مانتے تھے۔ ایک بار اُن سے ملاقات کی اجازت مانگی۔ انہوں نے کہا کہ جیل میں رہتے ہوئے کوئی کسی قیدی سے نہیں مل سکتا۔ آپ جب رہا ہوجائیں تو میں ملاقات کرا دوں گا۔ اپریل میں ہم رہا ہوئے تو رہائی کی کارروائیاں پوری کرانے کے بعد ہم نے پھر کہا تو انہوں نے ایک سپاہی کے ساتھ ہمیں بھیج دیا۔ خدا گواہ ہے کہ ایک مہینہ میں کم از کم 15 کلو وزن ان کا کم ہوچکا تھا اور وہ روشن چہرہ جو بے مثال تھا تاریک ہوگیا تھا۔ جتنی دیر ہم پاس رہے وہ آنسو بہاتے رہے اور ایک ہی بات کہ ہمیں یہاں سے نکالنے کے لئے کچھ بھی کرنا پڑے اس میں کمی نہ کیجئے گا۔
آگے کی کہانی پھر کبھی اس وقت ہم صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یعقوب میمن نہ جانے کتنے دنوں سے پھانسی کی کوٹھری میں ہیں سوچئے کہ ان کا کیا حشر ہوا ہوگا؟ جج صاحبان کو یقین ہے کہ یہ بھی معلوم ہوگا کہ ان دھماکوں سے پہلے دو ہزار سے زیادہ مسلمان ممبئی میں قتل کردیئے گئے تھے اور اگر یہ دھماکے (چاہے جس نے کئے ہوں) نہ ہوتے تو کم از کم پانچ ہزار مسلمان اور قتل کردیئے جاتے۔ یہ دھماکے 265 ہندوؤں کو مارنے اور چار یا چھ بلڈنگوں کو گرانے کے لئے نہیں کئے گئے تھے بلکہ یہ مسلمانوں کو مارنے والوں کا ہاتھ روکنے کے لئے کئے گئے تھے۔ اب یہ کانگریسی حکومتوں کی بے ایمانی اور مسلم دشمنی ہے کہ مسلمانوں کے قتل اور اُن کی سیکڑوں کروڑ روپئے کی جائیدادوں کی تاراجی کے معاملہ کی تحقیقات کے لئے جسٹس کرشنا کی کمیٹی بنا دی گئی جس کی رپورٹ کا وہی حشر ہونا تھا جو ہزاروں اُن رپورٹوں کا ہوا جو مسلمانوں کے قتل کی داستانوں سے بھری پڑی ہیں۔ لیکن بم دھماکوں سے ہندو مرے تھے اس لئے اس کی تحقیقات سی بی آئی کے سپرد کی گئی جس کی پولیس بھی ہوتی ہے اور جس کے جج بھی۔
ہمیں شکایت ہے کہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے جسٹس کرشنا کی رپورٹ کیوں طلب نہیں کی؟ جس میں صاف صاف لکھا ہے کہ مسلمانوں کو قتل کرنے والے شیوسینا، بی جے پی، وشوہندو پریشد، بجرنگ دل اور مہاراشٹر پولیس کے جوان تھے؟ اور کیوں یہ سوال نہیں اُٹھایا کہ ایک ہی مہینہ بلکہ ایک ہی ہفتہ میں مسلمانوں کا قتل ہو، اور ہندو مرے پھر دونوں کی تحقیقات کیلئے الگ الگ ایجنسی کیوں؟ آخر یہ کیسا انصاف ہے کہ دو ہزار سے زیادہ مسلمانوں کے مارنے والے ہندوؤں اور پولیس والوں میں سے کسی کو ایک دن کی بھی سزا نہیں اور ڈھائی سو ہندو مرگئے تو یعقوب کو پھانسی اور نہ جانے کتنوں کو عمر قید۔ کسی کو دس سال اور کسی کو پانچ سال؟
ہم سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ جب نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تو انہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ شہر کے ماسٹر پلان میں جو مزارات اور درگاہیں تین سو سال کے اندر بنائی گئی ہیں ان سب کو صاف کردیا جائے گا۔ گجرات ہائی کورٹ نے نہ جانے کسے خوش کرنے کے لئے اخبار کی اس خبر کورٹ تسلیم کرکے اس پر اپنا فیصلہ بھی دے دیا کہ تین سو سال کے بعد بننے والی ہر عمارت کو گرا دیا جائے۔ یہ مودی اور جج صاحب کی بدقسمتی تھی کہ مسلمانوں کے تمام مزارات اور درگاہیں تین سو برس سے زیادہ پرانے تھے اور نئی تمام عمارتیں مندر تھے۔
ایک ہائی کورٹ جب ایک اخبار کی خبر کورٹ تسلیم کرسکتا ہے تو کرشنا کمیشن رپورٹ کو سپریم کورٹ نے کیوں نہیں مانا؟ یعقوب میمن نے جو اپیل کی ہے اس کی درجنوں مثالیں ہیں کہ اس لئے پھانسی کو عمر قید میں بدل دیا کہ پندرہ برس جیل میں اور کئی برس پھانسی کی کوٹھری میں ملزم گذار چکا تھا۔ ہندوستان میں افضل گرو کے بعد کسی کو پھانسی نہیں دی گئی اس لئے کہ جس کے لئے سپریم کورٹ نے پھانسی کی سزا برقرار رکھی اور صدر نے رحم کی درخواست مسترد کردی اسے پھر سپریم کورٹ نے ہی کسی نہ کسی بہانے عمر قید میں بدل دیا۔ آج سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کے قاتل بھی زندہ ہیں، ہاتھی دانتوں اور صندل کی لکڑی کے اسمگلروں کے راجہ ویرپن کے ساتھی بھی جیل میں عیش کررہے ہیں جنہیں اس لئے پھانسی نہیں دی تھی کہ ان کے خاندان والوں کو خبر نہیں کی گئی تھی۔ وہ سکھ بھی مزے میں ہے جس نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو بم سے اُڑا دیا اور نہ جانے کتنوں کو مارا اور انتہا یہ ہے کہ وہ کوہلی جس پر آدم خوری ثابت ہوچکی تھی اسے بھی پھانسی سے بچاکر عمرقید کردی۔
اب اگر یعقوب میمن کو پھانسی دی گئی تو سپریم کورٹ کے اس برتاؤ کو ہم پوری دنیا کے سامنے رکھیں گے اور پوری دنیا کو بتائیں گے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو صرف ایک سہارا عدلیہ کا تھا ان کا وہ سہارا بھی ہندو گردی کی آندھی میں دھندلا گیا۔ اور یعقوب کو صرف اس لئے پھانسی دی گئی کہ وہ مسلمان تھا ورنہ اگر کہانی اُلٹی ہوتی اور کسی ہندو نے ہندوؤں کے قتل عام کو روکنے کے لئے بم دھماکے کئے ہوتے اور وہ اس میں کامیاب ہوگیا ہوتا تو اسے پھانسی نہیں پدم وبھوشن دیا گیا ہوتا۔ ہم نے جو کچھ لکھا ہے وہ اس زمانہ سے اب تک کے اخبارات اور ممبئی کے مسلمانوں سے معلوم ہونے والے واقعات کی بنیاد پر لکھا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ ہم نے غلط نہیں لکھا۔
ہم برابر دیکھ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ پھانسی کی سزا کو برقرار رکھتا ہے۔ پھر ملزم رحم کی اپیل کرتا ہے۔ وہ برسوں پڑی رہتی ہے پھر اسے مسترد کردیا جاتا ہے اور پھر سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دی جاتی ہے۔ نظرثانی بھی مسترد کردی جاتی ہے اس کے بعد بھی اسے پھانسی نہیں ہوتی اور اس کی سزا عمرقید میں تبدیل کردی جاتی ہے۔ افضل گرو کے متعلق بہت سے معزز سیاسی ہندوؤں نے بھی تسلیم کیا ہے کہ اس کے ساتھ انصاف نہیں ہوا اس کی کسی کو پیروی بھی نہیں کرنے دی گئی۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ سارا مقدمہ پولیس کی بنائی ہوئی کہانی تھی اور یہ سازش سنگھ پریوار کی تھی جو پاکستان کو جنگ سے ختم کرانا چاہتا تھا۔ افضل کے معاملہ میں بی جے پی کے جس لیڈر نے جو بھی کہا وہ جھوٹا ہے۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ اٹل جی کو خود معلوم تھا کہ یہ کشمیری مسلمانوں کی نہیں سنگھ کی اور حکومت کی سازش تھی اگر یہ نہ ہوتا تو یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ اٹل جی اسی پاکستان کے وزیر اعظم سے دوستی کرنے کے لئے دوستی بس لے کر جائیں گے اور ہم جنگ نہیں ہونے دیں گے ہم جنگ نہیں ہونے دیں گے کا گیت گائیں؟ وہ وزیر اعظم ضرور تھے لیکن مجبور بھی تھے۔
پاکستانی عدالت نے لکھوی کو پھر ناکافی ثبوت کی بنا پر رہا کردیا۔ ہندوستان لکھوی کو 26/11 کے حملہ کا ماسٹر مائنڈ مانتا ہے وہ پاکستان سے پانچ گنا طاقتور ہے اس لئے اس نے پاکستان کو دھمکی دی ہے کہ لکھوی جیل سے باہر نہ آنے پائے۔ یاد رہے کہ لکھوی کے اس حملہ میں پچاس سے زیادہ مسلمان بھی مرے تھے جن کا حکومت کبھی ذکر نہیں کرتی۔ اسے بس ہندوؤں کی موت کا صدمہ ہے۔ حکومت کو معلوم ہے کہ بم دھماکہ کا ماسٹر مائنڈ پاکستان میں ہے اور پاکستان بھی جانتا ہے کہ ممبئی میں بم دھماکے کیوں ہوئے تھے؟ ہم پھر اپنی بات دہراتے ہیں کہ اگر ہندوستان کے مقابلہ میں پاکستان پانچ گنا ہوتا تو آج اس کے اخبارات کی خبر کی سرخی یہ ہوتی کہ یعقوب میمن کو پھانسی برداشت نہیں کی جائے گی۔ لیکن وہ تو جانتا ہے کہ اب حکومت کی لگام ان کے ہاتھ میں ہے جو پاکستان کا وجود ہی برداشت نہیں کرتے اگر انہیں چین کے سامنے آنے کا ڈر نہ ہوتا تو 2001 ء میں ہی حملہ کرا دیا ہوتا اور اگر اس وقت اٹل جی نہ مانتے تو اب جبکہ ان کی گود کا بچہ ملک کا بادشاہ ہے اور کھل کے کہا جارہا ہے کہ اب ہندو حکومت ہے اور آٹھ سو برس کی غلامی کے بعد ملک اب آزاد ہوا ہے بہرحال حملہ کردیا گیا ہوتا۔

«
»

سابق جج کاٹجو اور گائے؟

نائیجیریا کی انتخابی بہار

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے