سعودی عرب میں مسجد توڑی جاسکتی ہے تو بھارت میں کیوں نہیں؟ سبرامنیم سوامی

سوامی نے اپنے بیان میں کہا کہ مسجد کوئی مذہبی مقام نہیں ہے ، صرف ایک عمارت ہوتی ہے، اس لئے اسے کبھی بھی توڑا جا سکتا ہے۔ سوامی کے اس بیان کے بعد اس کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔آسام کے دارالحکومت گوہاٹی میں ایک پروگرام میں شرکت کرنے پہنچے بی جے پی لیڈر سبرامنیم سوامی نے کہا کہ مسجد کوئی مذہبی مقام نہیں صرف ایک عمارت ہے، جس کو کبھی بھی گرایا جا سکتا ہے۔ اس نے اپنے بیان کے حق میں سعودی عرب کی ایک مثال بھی پیش کی، جہاں سڑکوں کی تعمیر کے لئے مساجد کو توڑ دیا گیا تھا۔سوامی نے یہ بھی کہا کہ جسے میری رائے سے اختلاف ہو، میں اس سے بحث کرنے کے لئے تیار ہوں۔ ساتھ ہی اس نے دعوی کیا تمام ہندوستانی مسلمان پہلے ہندو تھے۔سوامی کے اس بیان کے بعد آسام میں اس کی مخالفت شروع ہو گئی ہے۔ ریاستی بی جے پی اکائی نے بھی سوامی کے بیان سے پلہ جھاڑتے ہوئے اسے انفرادی بیان قرار دیا ہے ۔بیان کی مخالفت کرتے ہوئے ریاست کی کئی تنظیموں نے بی جے پی لیڈر کے پتلے جلائے۔کئی تنظیموں نے سوامی کے آسام داخلے پر پابندی کا مطالبہ بھی کیا۔
ایف آئی آر درج
آسام وقف بورڈ، آل آسام مائنورٹی اسٹوڈنٹس یونین اور دیگر مسلم تنظیموں نے سوامی کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔وہیں، کسان نجات سنگرام کمیٹی نامی ایک تنظیم نے سوامی کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 120 (بی) (مجرمانہ سازش رچنے) اور 153 (اے) (مذہب کی بنیاد پر کمیونٹیز کے درمیان دشمنی پیدا کرنا) کے تحت ایف آئی آر بھی درج کروا دی ۔آل اسام مائنوریٹی اسٹوڈنٹس یونین کے صدر نے کہا کہ اسمبلی انتخابات سے پہلے بی جے پی ریاست میں فرقہ وارانہ جذبات بھڑکانا چاہتی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف سوامی کا متنازعہ بیان اسی سازش کا حصہ ہے۔ہم اس کی مذمت کرتے ہیں اور آسام حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ریاست میں سوامی کے داخلہ پر پابندی عائد کرے۔وہیں، وزیر اعلی ترون گوگوئی نے بھی سبرامنیم سوامی اور بی جے پی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی کو مسلمانوں کے جذبات کو چوٹ پہنچانے کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔ ادھر، بیان کے خلاف لوگوں کی ناراضگی کو بھانپ کر بی جے پی کی ریاستی یونٹ نے سوامی کے اس بیان سے کنارہ کر لیا ہے۔ بی جے پی ریاستی صدر سدھارتھ بھٹاچاریہ نے کہا کہ یہ سوامی کا ذاتی بیان ہے ، ہم اس معاملے پر اپنی مرکزی قیادت کو لکھیں گے۔ ادھر مرکزی وزیر پرکاش جاوڑیکر نے ممبئی میں کہا کہ سبرامنیم سوامی کا بیان ان کا شخصی خیال ہے۔ پارٹی کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ہم اس معاملے پر ان سے بات کریں گے۔ حالانکہ بی جے پی میں اشتعال انگیزی کرنے والے لیڈران کے لئے خاص جگہ ہوتی ہے اور اسے پارٹی کی سیاسی پالیسی کا حصہ مانا جاتا ہے۔ آج تک کبھی بھی یوگی آدتیہ ناتھ اور ساکشی مہاراج جیسے لوگوں سے پارٹی نے بازپرس نہیں کی۔
سوامی کا قابل مذمت بیان
کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کی حمایت کرنا آسان نہیں ہوتا مگر خاموشی بھی حمایت کی ایک صورت ہوتی ہے۔سبرامنیم سوامی کے بیان کی ہر سطح پر مذمت کی جارہی ہے یہاں تک کہ خود انکی پارٹی کے لیڈروں نے بھی اس کی حمایت سے انکار کردیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پارٹی نے ان کے خلاف کارروائی بھی نہیں کی ہے۔ مرکزی وزیر اطلاعات ونشریات پرکاش جاوڈیکر نے اسے سوامی کا ذاتی خیال قرار
دیا ہے۔ دلی کی فتح پوری مسجد کے امام مفتی مکرم احمد نے سوامی کے بیان پر شدید اعتراض جتایا اور اسے غلط بتاتے ہوئے کہا کہ مسجد ایک مذہبی مقام ہے اور اسے کبھی بھی توڑا یا منتقل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح تنظیم ائمہ مساجد کے صدر مولانا عمیر الیاسی نے کہا کہ سوامی کا بیان حقیقت سے دور ہے اور اس قسم کے بیان کے پیچھے سیاسی مقصد ہوسکتا ہے۔ادھر کشمیر کی علاحدگی پسندحریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی گیلانی نے بی جے پی لیڈرسبرامنیم سوامی کے گوہاٹی (آسام) میں دئے گئے بیان کو اسلام، شعائر اسلام اور مسلمانوں پر براہِ راست حملہ قرار دیتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔گیلانی نے کہا کہ دلی میں برسرِ اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی اپنی سرکاری قوت کی مدد سے آر ایس ایس کے ایجنڈے کو عمل میں لانے کی جلدی میں ہے اور اس کی وجہ سے بھارت کے مسلمانوں، عیسائیوں اور سکھوں کے جان ومال، عزت اور مذہب خطرات میں گھِر گئے ہیں اور یہ صورتحال آنے والے وقت میں ایک دھماکہ خیز رْخ اختیار کرسکتی ہے۔گیلانی نے کہا کہ سبرامنیم سوامی بھارتیہ جنتا پارٹی کے مرکزی سطح کے ایک ذمہ دار لیڈر ہیں اور ان کی بات کو سرسری طور پر نہیں لیا جاسکتا ہے، مسجد کے بارے میں ان کے ریمارکس کسی ذہنی ہیجان کا نتیجہ نہیں ہیں، بلکہ مساجد کے بارے میں سنگھ پریوار کی ایک پالیسی ہے اور بابری مسجد کے بعد مسلمانوں کی ایسی سینکڑوں عبادت گاہیں ہیں، جنہیں موقع ملتے ہی وہ مسمار کرانا اور ڈھانا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بھارت کہنے کو تو ایک سیکولر ملک ہے، مگر آزادی کی سات دہائیاں مکمل ہونے کے بعد بھی مسلمانوں کو اس ملک نے قبول کیا ہے اور نہ ان پر بھروسہ کیا جاتا ہے۔
بھارت اور سعودی عرب کا فرق
سبرامنیم سوامی کی طرف سے متنازعہ بیان کوئی نئی بات نہیں ہے۔ وہ ہمیشہ سے الٹے سیدھے قسم کے بیانات دے کر چرچے میں رہتے ہیں، بلکہ بیانات سے آگے بڑھ کر وہ اکثر کورٹ میں بھی مفاد عامہ کی عرضیاں ڈالتے رہتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ بعض اوقات کئی سنجیدہ کیس بھی نکل آتے ہیں ۔ انھوں نے ہی جے جے للتیا کے خلاف بدعنوانی کا معاملہ اٹھایا تھا۔ ماضی میں ان کے سر پیر کے بیانات کے سبب کئی تنازعات اٹھتے رہے ہیں یہاں تک کہ ایک امریکی یونیورسٹی کے اعزازی لکچرر کے عہدے سے بھی انھیں اسی سبب ہٹایا گیا تھا۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کی تنظیموں کے نشانے پر شروع سے مسلمان رہے ہیں ،اس لئے اگر سبرامنیم سوامی انھیں خطوط پر چل رہے ہیں تو کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہئے مگر وہ جس راستے پر مسلمانوں کو چلنے کا مشورہ دے رہے ہیں وہ خطرناک ہے۔ انھوں نے اپنے بیان میں سعودی عرب کی مثال دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہاں سڑکوں کی تعمیر کے لیے مسجدوں کو ہٹانے کی روایت رہی ہے لہٰذا بھارت میں بھی ایسا ہونا چاہئے، تو ہم انھیں بتادیں کہ اگر وہ سعودی عرب کے نقش قدم پر مسلمانوں کو چلنے کی نصیحت کر رہے ہیں تو یہ مسلمان ہی نہیں بلکہ ملک کے لئے بھی خطرنا ک ہوگا۔ سعودی عرب سرکار کا نظریہ دوسو سال پرانا ہے اور اب تک یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ اسی نظریے کی اشاعت کے سبب دنیا میں شدت پسندی بڑھی ہے ۔ اسی نظریے کے ماننے والے افغانستان کے طالبان، القاعدہ کے لڑاکے اور آئی ایس والے ہیں۔ جب کہ بھارت کے مسلمان وہ ہیں جنھوں نے صوفیہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا اور امن وامان میں یقین رکھتے ہیں۔ اگر بھارت کے مسلمان بھی اسی راستے پر چل پڑے جدھر بھیجنے کی بات سوامی کر رہے ہیں تو اس کے نتائج بہت اچھے نہیں ہونگے۔ویسے بھی مسلمانوں کے لئے اللہ اور
رسول کا قانون نمونہ عمل ہے نہ کہ سعودی حکمرانوں کا دستور اور طریقہ۔اگر سعودی عرب کے دستور کواپنا لیا گیا تو اس دنیا میں ایک جبریہ نظام نافذ ہوجائے گا۔سوامی نے جو مثال پیش کی ہے یہی بات کہہ کر بابری مسجد کی منتقلی کے لئے بھی دلیلیں فراہم کی جاتی رہی ہیں مگر انھیں سمجھنا پڑے گا کہ یہ بھارت کی جمہوریت ہے سعودی عرب کی بادشاہت نہیں کہ راجہ کو قول ہی قانون مان لیا جائے ۔اس قسم کی باتیں کرنے والوں کو سمجھنا پڑے گا کہ بھارت کے مسلمانوں کا ڈی این اے الگ ہے ۔ انھیں سعودی عرب سرکار کے اسلام کا پابند نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہاں کے مسلمان صلح جو اور امن پسند ہیں۔ ان کا تعلق صوفیہ کے آستانوں سے رہا ہے لہٰذا انھیں اس راستے پر نہیں چلایا جاسکتا۔ اگر اس راستے پر ڈالنے کی بات ہوئی تو اچھے نتائج نہیں ہونگے۔ بھارت کی تہذیب میں مسجدوں کے ساتھ ساتھ درگاہوں کو بھی اہمیت حاصل ہے ۔ یہاں درگاہوں کو آج بھی ایک الگ قسم کا روحانی مقام حاصل ہے، جہاں ہر مذہب اور فرقہ کے افراد جمع ہوتے ہیں ۔ یہ کلچر خاص بھارت کا حصہ ہے اور اس کے فروغ میں صوفیہ کی تعلیمات کا دخل ہے۔ حالانکہ دوسو سال قبل تک سعودی عرب میں بھی صحابہ، اولیاء، صالحین کی مزارات کو مقدس مانا جاتا تھا۔ 
۸۰فیصد ہندو کیوں؟
سبرامنیم سوامی نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ بھارت کے مسلمانوں کے آباء واجداد پہلے ہندو تھے ،بعد میں وہ مسلمان ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مسلمان جہاں گئے وہاں سوفیصد آبادی کو مسلمان بنا دیا۔ عراق میں اسلام کے قدم پہنچنے کے ۱۷ سال کے اندر ہی پورا ملک مسلمان ہوگیا مگر بھارت میں مسلمان آٹھ سو سال تک حکومت میں رہے اور اس کے بعد دوسو سال تک عیسائیوں نے حکومت کی مگر آج بھی یہاں کی ۸۰فیصد آبادی ہندو ہے، یہ کیسے ممکن ہوا؟ سوامی کی اس بات سے ہم بھی اتفاق کرتے ہیں۔ بھارت کے مسلمانوں کی اکثریت کا تعلق ہندووں کی پست براد ریوں سے ہے جو اس لئے مسلمان ہوئے تھے کہ انھیں مندروں میں جانے کی اجازت نہ تھی، کنووں سے پانی بھرنے کی اجازت نہ تھی اور اعلیٰ ذات کے ہندووں کے ساتھ ان نچلی ذات کے افراد کو نہیں بیٹھنے دیا جاتا تھا۔ آج بھی بہت سے مسلمانوں کا شجرہ نسب بتاتا ہے کہ وہ چند پشتوں قبل تک ہندو تھے، مگر یہ اسلامی تعلیمات کا اثر تھا کہ انھوں نے اسلام قبول کرلیا اور مسجدوں میں علماء، امراء اور بادشاہوں کے ساتھ کھڑے ہوکر عبادت کرنے کا حق پالیا اور اس چھوت چھات سے نجات پالیا جو بھارت میں ہزاروں سال سے چلا آرہا تھا۔اسلام نے کسی کو زبردستی مسلمان بنانے کی اجازت نہیں دی ہے، اسی وجہ سے آٹھ سو سال تک یہاں مسلم حکومت کے باوجود کسی کو زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا۔ اگر مسلمانوں نے زبردستی مسلمان بنانا شروع کیا ہوتا تو آج سبرامنیم سوامی ،عبداللہ ہوتے اور وہ یہ سوال نہیں پوچھ رہے ہوتے کہ ہزار سال تک مسلمانوں اور عیسائیوں کے ماتحت رہنے کے باوجود یہاں ۸۰ فیصد ہندو کیوں ہیں؟ حالانکہ پاکستان اور بنگلہ دیش بھی بھارت کا ہی حصہ ہوا کرتے تھے اور اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پچاس فیصد ہندوستانیوں نے اسلام قبول کرلیا ہے۔ سوامی کو ہمارا مشورہ ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف الٹی سیدھی باتیں کرنے کے بجائے ،ا سلام کا مطالعہ کریں ممکن ہے وہ بھی ان افراد میں شامل ہوجائیں جنھیں اسلام کے مطالعے نے اندھیرے سے اجالے کی طرف پھیر دیا ۔ (

«
»

سابق جج کاٹجو اور گائے؟

نائیجیریا کی انتخابی بہار

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے