یزیدی فرقہ۔۔۔ کچھ حقیقت کچھ فسانہ

ہزاروں سال کی آہ وزاری میں نکلے ہوئے آنسو دوزخ کی آگ پر پڑے اور انجام کار اس کو سرد کردیا۔ اب اگر دنیا میں کوئی تکلیف اور مصیبت ہے تو اس بنا پر نہیں ہے کہ اس فرشتہ پر قہر خداوندی نازل ہوا تھا اور نہ جہنم کی آگ کی بنا پر۔ دنیا کے مصائب خود انسان کے پیدا کردہ ہیں۔ لیکن ملک طاؤس کی طرح انسان اس دنیا میں رہ سکتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ خوش وخرم زندگی بسر کرسکتا ہے۔
اس فرقہ کانام یزیدی کیوں پڑا؟ کیا اس کے کچھ تاریخی شواہد ہیں؟ مختلف ذرائع سے اس نام کے مختلف مآخذ بتائے گئے ہیں۔ قدیم یزیدی فرقے کی مادری زبان ایسیرین تھی۔ ان کا مذہب قدیم ایرانی تہذیبی اثرات کی وجہ سے وجود میں آیا۔ اس پر عیسائیت اور اسلام کا بھی اثر پڑا۔ ابتدا میں میسوپوٹامیہ علاقہ کی زبان اور تہذیب نے اسے متاثر کیا۔ بعد میں اس فرقہ کے زیادہ لوگ عربی زبان بولنے لگے۔ ان کا متبرک ترین مذہبی مقدس علاقہ موصل شہر کے شمال مشرق علاقے لیلش میں ہے۔ اس فرقہ کا یہ نام ایزدی، ایزیدی، یزدہ میں سے کسی ایک لفظ سے مشتق ہے۔ لیکن یزیدی فرقہ والے اس نام کو یزدان یا ایزددیوتا کے نام سے نکلا ہوا مانتے ہیں۔ وہ سختی سے اس سے انکار کرتے ہیں کہ اس کا کوئی تعلق یزیدین معاویہ سے ہے۔ اس فرقہ کے ثقافتی معاملات پر کردی تہذیب کے نمایاں اثرات ہیں۔ اور فرقہ کا بڑا حصہ کومنجی زبان کا استعمال کرتا ہے۔ بقیہ چھوٹا حصہ عربی زبان استعمال کرتا ہے۔ یزیدیوں کے تمام مذہبی معاملات، افکار، تقاریر میں کومنجی زبان کا استعمال ہوتا ہے۔
یزیدی مذہب پر دیگر مذاہب کے اثرات بالکل صاف نمایاں ہیں۔ ان کی مذہبی زبان پر صوفی خیالات کاعکس بالکل صاف نظر آتا ہے۔ خاص کر عبادات والی زبان پر توصوفی تصوف کو صاف دیکھاجاسکتا ہے۔ بہ حیثیت مجموعی یہ غیر اسلامی عقیدہ ہے۔ لیکن پرانے ایرانی تہذیبی اثرات سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔ یزیدی پہاڑی سلسلہ میں قیام پذیر عدویہ صوفی حضرات کا اثر اس مذہبی فرقہ پر نمایاں ہے۔ امیہ طبقہ سے ہمکنار اس فرقہ کے بانی شیخ عدی بن مسافر کے انتقال کے بعد سے فرقہ اسلامی اثرات سے دور ہوتا گیا،وہ بارہویں صدی کے اوائل میں موصل کے قریب پہاڑی علاقہ لالسیس میں جابسا۔ شیخ عدی قدیم روایات پر عامل تھا اور فرقہ میں بہت بااثر اور مقبول تھا۔ 1162 عیسوی میں اس کا انتقال ہوا اور وہیں لالسیس میں دفن ہوا۔ اس کامقبرہ عوام کی زیارت کا مرکز بن گیا۔ چودھویں صدی عیسوی میں ترکی میں ان کا نامور قبیلہ جزیرہ نامی علاقہ میں جابسا۔
یزیدی اصولاً توحید پرست ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ خدا نے دنیا پیدا کی اور پھر اس کی بہبود سات روحانی رہنماؤں (ہفتاد) کے سپرد کردی جن کو ان کے عقیدہ کے مطابق ’’ہفت سر‘‘ سات رہنما کہتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم ’’طاؤس ملک‘‘ یا ’’ملک طاؤس‘‘ ہے۔ یہ فرقہ مشرق وسطیٰ کے مختلف مذاہب سے متاثر نظر آتا ہے۔ خالص یزیدی افکار ایران کے پارسی مذہب سے متاثر ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ اس پر قدیم مذاہب اور زرتشتی، اسلامی اور عیسائی فلسفہ کا بھی اثر ہے۔ ہفتاد روحانی رہنما خدائے نور سے جلوہ گر ہیں۔ خدا نے اپنے بہت سے امور ان کے سپرد کردیئے ہیں۔ دیگر مذاہب اور مغربی مفکرین نے ان کو شیطان پرست قرار دیا ہے لیکن یہ غلط نتیجہ نکالاگیا ہے اور خود یزیدی بھی اسے قبول نہیں کرتے۔ دیگرمذاہب کے مفکرین انہیں شیطان پرست قرار دیتے ہیں لیکن یزیدی اس کی پرزور تردید کرتے ہیں۔ مشرقی انسائیکلوپیڈیا کے مطابق چونکہ ملک طاؤس کا دوسرا نام شیطان ہے، اس لئے انہیں شیطان پرست قرار دیا جاتا ہے جو غلط ہے۔ یزیدیوں کا عقیدہ ہے کہ طاؤس ملک کو اللہ پاک نے ملعون قرار نہیں دیا ہے۔ اس کے برخلاف وہ اسے ساتوں روحانی رہنماؤں کا لیڈر قرار دیتے ہیں۔ انہیں منع کیاگیا ہے کہ وہ ملک کو شیطان نہ کہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ برائی ملک میں نہیں ہے بلکہ انسانی فطرت کے مطابق ہر انسان میں ہے۔ ساری قوتیں طاؤس ملک اور شیخ عدی میں مجتمع ہوگئی ہیں۔ شیخ عدی طاؤس ملک کا نمائندہ ہے اور طاؤس ملک ہی سب انسانوں کو فضیلت بخشتا ہے یا انہیں تکلیف دیتا ہے۔ اس کا ذکر مقدس کتاب ’’کتابِ کلاؤ‘‘ میں موجود ہے۔ شیخ عدی جو ملک طاؤس کا دنیاوی نمائندہ ہے، کہتا ہے:
’’ میں اس وقت موجود تھا جب جناب آدم جنت میں مقیم تھے اور جب نمرود نے حضرت ابراہیم کو سپرد آتش کیا تھا۔ میں اس وقت بھی موجود تھا جب اللہ تعالیٰ نے مجھ سے کہاتھا کہ ’تم دنیا کے حکمراں اور مالک ہو‘۔ اللہ رحمن نے مجھے سات دنیائیں دیں اور جنت کا تخت عطا کیا۔‘‘
یزیدی دن میں پانچ بار عبادت کرتے ہیں۔ لیکن ان میں زیادہ تر لوگ صرف دو بار ہی عبادت کرتے ہیں۔ سورج طلوع ہونے پر اور غروب ہونے پر۔ عبادت کرتے وقت انہیں سورج کی سمت رخ کرنا ہوتا ہے۔ مگر دوپہر کی عبادت لالسیس کی طرف رخ کرنے کی ہوتی ہے جہاں طاؤس ملک کے نمائندے شیخ عدی دفن ہیں۔ سخت ہدایت ہے کہ عبادت کے وقت کوئی غیر یزیدی موجود نہ ہو۔ بدھ متبرک دن قرار دیاگیا ہے اور سنیچر آرام کا دن۔ دسمبر میں تین روزہ رکھنے کی ہدایت ہے۔
یزیدیوں کا نیاسال موسم بہار میں ہوتا ہے۔ اس وقت خواتین قبرستان میں جاکر گریہ کرتی ہیں اور بعد میں خوشیاں مناتی ہیں۔ رقص کرتی ہیں اور دعوت کرتی ہیں۔ اس موقع پر گانے ہوتے ہیں اور ڈھول پیٹے جاتے ہیں۔ اور خاص طورسے انڈوں کو سجایا جاتا ہے۔ ایسا ہی جشن دیہات کے اطراف میں منایاجاتا ہے اور رقص وسرور کی محفل کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ اہم جشن طاؤس گران کا ہوتا ہے۔ اس موقع پر قوال اور دوسرے اعلیٰ نمائندے دیہات میں جاتے ہیں جہاں وہ اپنے ساتھ مقدس طاؤس کی شبیہیں لاتے ہیں۔ لوگ ان کی زیارت کرتے ہیں کیونکہ یہ ملک طاؤس کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مذہبی رہنماؤں سے مالی امداد حاصل کی جاتی ہے۔ وعظ کہے جاتے ہیں اور مقدس پانی تقسیم کیاجاتاہے۔
سب سے زیادہ مقدس ہفت روزہ لالسیس کا جشن ہوتا ہے۔ یہ ایک سماجی تعلقات کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ یہ ہفتاد کا اس موقع پر اسی مقدس شہر کی عظمت کا اعتراف اور اعلان ہوتا ہے۔ اس موقع پر شیخ شمس کے مزار پر بیل کی قربانی دی جاتی ہے اور محفل سماع منعقد ہوتی ہے۔ ان کے عقیدے کے مطابق زندگی کے چار عناصر ہیں۔ مٹی، ہوا، آگ اور پانی۔ ان چاروں کو مقدس مانا جاتا ہے۔ ان کے مطابق زمین پر تھوکنا مذہبی بدنظمی ہے۔ اسی طرح کسی دیگر عنصر کو بھی صدمہ پہنچانا گناہ ہے۔ وہ غیر یزیدیوں سے قربت کو غلط سمجھتے ہیں وہ فوج میں داخلے کو غلط قرار دیتے ہیں۔ دوسروں سے کپ اور پلیٹ میں شرکت بھی غلط سمجھتے ہیں۔ موصل کے قریب اگنے والی سلاد کو کھانا ممنوع ہے کیونکہ خیال کیاجاتا ہے کہ اس کی پیداوار میں انسانی فضلے کی کھاد استعمال کی جاتی ہے حالانکہ 2010 کی بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق یہ اعلان کیاگیا ہے کہ یزیدی جو کھانا چاہیں وہ کھائیں۔ صرف ان کے رہنماؤں پر یہ پابندی ہے کہ وہ ایسی ترکاریوں سے دوررہیں جو ریاح پیدا کرتی ہیں جیسے پتہ گوبھی، وہ لباس میں نیلارنگ ناپسند کرتے ہیں کیونکہ وہ مور کا رنگ ہے اور مور ان کے رہنما کے نام کا حصہ ہے۔
بچوں کو پیدائش کے فوراً بعد ہی یزیدیت میں داخل کرلیا جاتا ہے۔ ختنہ ہوتا ہے حالانکہ وہ لازمی نہیں ہے۔ مردوں کو تکونے مزار میں دفن کیا جاتا ہے، اور ہاتھ سینہ پر رکھ دیئے جاتے ہیں۔ عام یزیدی ایک بیوی رکھتے ہیں مگر رہنماؤں کو ایک سے زائد بیویوں کی اجازت ہے۔ انہیں غیر یزیدیوں میں شادی کی اجازت نہیں ہے۔ یہاں تک کہ وہ کردیوں میں بھی شادی نہیں کرسکتے۔ وہ اپنے کو آدم کی اولاد مانتے ہیں لیکن حواکی نہیں۔ انتہائی سزا کے طورپر کسی کو یزیدیت سے خارج کیا جاسکتا ہے۔ 
مسلمان یزیدیوں کو شیطان پرست مانتے ہیں جس کے نتیجہ میں ان سے دوری رکھتے ہیں یہاں تک کہ ترکی عثمانیہ حکومت میں بھی ان سے سخت برتاؤ روا رکھا جاتا تھا۔ انیسویں صدی میں عثمانیہ اور کردی حکومت نے ایک طرح سے ان کا صفایا کردیا تھا۔ موصل اور بغداد کے گورنروں نے ان کے خلاف بہت سخت احکامات جاری کئے تھے۔ ان سزاؤں کوفتوؤں کے ذریعہ جائز قرار دیا گیا تھا اور اس کا مقصد محض یہ تھا کہ انہیں مجبور کیاجائے کہ سنی حنفی فرقہ میں داخل ہوجائیں۔
حال ہی میں یعنی 2014 میں عراق میں سنی فرقے نے اس پر سختی کا برتاؤ کیا۔ اگست 2014 میں سنجر شہر میں سنیوں کا دبدبہ بڑھ گیا اور کرد فوجی دستے انہیں روکنے میں ناکام ثابت ہوئے۔ سنیوں نے شیطان پرست قرار دے کر موصل کے قریب کے پٹرول کے علاقے اور زمر شہر پر قبضہ کرلیا تاکہ آگے بڑھ کر وہ موصل کے ڈیم پر قبضہ کرلیں۔ سنجر میں سنیوں نے ایک شیعہ عبادت گاہ کو تباہ کردیا اور سب کو سنی بن جانے کی سختی سے ہدایت دی ورنہ جزیہ کی ادائیگی کا حکم دیا۔ 40ہزار یزیدیوں سمیت تقریباً دولاکھ افراد نے شہر چھوڑ دیا۔
سنجر سے فرار ہونے والی آبادی کا زیادہ حصہ گھوم کر پہاڑیوں میں پناہ گزیں ہوگیا اور عراقی کردستان کے شہر ڈولک کی طرف مزاجعت کرنے کا منصوبہ بنانے لگا۔ سن رسیدہ اور نحیف ولاغر لوگ جو فرار نہ ہوسکے ان کو سنیوں نے بے رحمی سے ہلاک کردیا۔ پہاڑ پر پانی اور غذا کی کمی سے لوگ بھکمری کے شکار ہونے لگے۔ یزیدی پارلیمانی حاجی غندور نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ یزیدی 72 بار سخت بے رحمی کا شکار ہوچکے ہیں اور یہ 73 واں موقع ہے جب اس تباہ کاری کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 40ہزار یزیدی پہاڑی پر پناہ گزیں ہیں اور اگر وہ بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں قتل کردیا جاتا ہے۔ امریکی صدر باراک اوبامہ نے سنیوں پر ہوائی حملے کی اجازت دی ہے۔ نتیجہ میں20سے30 ہزار عراقی پناہ لینے کے لئے پہاڑی سے ہٹ گئے ہیں۔ کردی فوج نے یزیدیوں کو اپنی حفاظت میں لے کر پناہ گاہ تک پہنچادیا ہے۔ لیکن امریکی ہوائی حملوں کا سلسلہ جاری ہے اور سنیوں کے مظالم بھی بند نہیں ہوئے ہیں۔ بہت سے یزیدی جرمن میں پناہ لے چکے ہیں جہاں وہ پہلے سے بھی آباد تھے۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مضمون کا خاتمہ ایک فوجی مشاہدہ کار کے نتیجے کے طورپر کیاجائے جو کہتا ہے:
’’یزیدی فرقے کے متعلق بہت سی باتیں صیغۂ راز میں ہیں اور بے شمار باتیں ایک دوسرے کے برخلاف کہی جاتی ہیں، لیکن میں ان کے اعتقادات سے دلچسپی رکھتا ہوں۔ یزیدیوں میں کوئی شیطان نہیں ہے۔ ملک طاؤس جو مخصوص فرشتہ ہے اس کو اس طرح جنت سے نہیں نکالاگیا جس طرح شیطان کو نکالا گیا۔ اس کے برخلاف وہ جنت سے اترا، دنیا کی تکالیف اور مصائب کو دیکھا، ہزاروں سال تک ان کیفیات پر آنسو بہائے، جس کے نتیجے میں دوزخ کی آگ سرد ہوگئی۔ اب دنیا میں جو بھی برائی اور تکلیف باقی ہے وہ نہ تو اس فرشتہ سے متعلق ہے اور نہ دوزخ کے۔ دنیا کی تمام تکالیف انسان کی اپنی بنائی ہوئی ہیں۔ اس سب کے باوجود انسان دنیا میں اس طرح رہ سکتا ہے جیسے ملک طاؤس رہا تھا اور ساتھ ہی اچھی زندگی گزارسکتا ہے۔‘‘

«
»

سعودی عرب میں مسجد توڑی جاسکتی ہے تو بھارت میں کیوں نہیں؟ سبرامنیم سوامی

کیامصرکا فوجی ڈکٹیٹرالسیسی اسرائیل اور روس کا ایجنٹ ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے