خس کم جہاں پاک

دہلی میں 15 برس سے کانگریس کی حکومت تھی اُس کے خلاف جب کجریوال عام آدمی نام کی پارٹی بناکرمیدان میں آئے اس وقت بیشک یہ دونوں جی جان سے شریک تھے ان میں پرشانت بھوشن کے متعلق تو یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ وہ بی جے پی کے آدمی ہیں رہے یوگیندر یادو اُن کے متعلق ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ اُن کے دل میں بھی بی جے پی کے لئے نرم گوشہ ہے یا نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ عقل کل بس وہ ہیں اور اروند کجریوال کو آنکھ بند کرکے ان کے مشوروں پر عمل کرنا چاہئے۔
اب ذرا ان کی ذہنی حالت کو دیکھئے کہ جب سیاسی امور کمیٹی سے ان کو الگ کیا گیا تو انہوں نے نہ جانے کتنی بار کہا کہ ہم دونوں اگر پارٹی کے پودے کی کھاد بن جائیں تو یہ کوئی معمولی خدمت نہیں ہے۔ اس بات کو وہ پورے ایک مہینہ تک کہتے رہے۔ لیکن چھوٹے بھوشن بی جے پی کا حق ادا کرتے رہے اور وہ مسلسل کجریوال اور پارٹی کے وفاداروں پر الفاظ کے زہر برساتے رہے۔ اس کے بعد شاید بی جے پی کی طرف سے حکم ملا کہ کھل کر میدان میں آؤ تو دونوں ایک آواز میں کہنے لگے کہ ’’نہ توڑیں گے نہ چھوڑیں گے۔‘‘ اور پرشانت بھوشن نے تو باقاعدہ ٹی وی چینلوں کی گود میں بیٹھنا شروع کردیا۔ ہر دن اور ہر رات وہ میڈیا کے ذریعہ دہلی کے عوام کو ایک ہی سبق پڑھا رہے تھے کہ کجریوال خود کہتے ہیں کہ میں ایسی پارٹی میں نہیں رہ سکتا جہاں صرف میری بات نہ مانی جائے۔ انہیں ڈکٹیٹر اور مغرور جیسے الفاظ سے مسلسل یاد کیا گیا۔ دو دن سے ایک حرکت انہوں نے یہ کی کہ آپس کی گفتگو کے ٹیپ ٹی وی چینلوں کو دے دیئے جن کا کام ہی یہ ہوگیا کہ ہر چینل پر وہ ذاتی گفتگو کے ٹیپ سنائے جاتے رہے جو راز دارانہ گفتگو تھے۔
بی جے پی اور مودی کے زرخرید غلام انڈیا ٹی وی کے رجت شرما کا حال تو یہ تھا کہ جیسے سب کچھ مودی یا جیٹلی کو کہہ دیا ہے۔ وہ سنا رہے تھے کہ سپریم کورٹ کے نامور ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن کے متعلق کجریوال نے کہا کہ کسی اور پارٹی میں ہوتے تو لات مارکر نکال دیئے جاتے اور انہوں نے کمینہ بھی کہا۔ البتہ روئے تو نہیں لیکن غم ایسا ہی منایا جیسے سب اُن کے آقاؤں کو کہا ہے۔ آئی بی این سیون (IBN-7) اور آج تک بھی بھوشن کی توہین پر ٹپ ٹپ آنسو بہا رہے تھے۔
بات بہت صاف ہے کہ ٹی وی چینل کے مالکان یا تو وہ ہیں جن کا بی جے پی سے رشتہ ہے یا مودی کے خریدے ہوئے ہیں یا حکومت کی نظر کرم کے محتاج ہیں اور یا اُن کے کارکنان سنگھ کے پالے ہوئے ہیں۔ یہ سب وہ ہیں جو بی جے پی کی تین مورتیاں دیکھتے ہیں اور ماتم کرتے ہیں وہ ہزاروں کروڑ روپیہ اس پر خرچ کردیں گے کہ بھوشن اور یادو 67 ممبروں میں سے 35 ممبروں کو توڑکر حکومت گرادیں اور بغاوت کرنے والے ممبروں کو یا وزیر بنادیں یا چیئرمین اور جو بچ جائیں اُنہیں مودی حکومت کے خزانے سے اتنا دلوادیں جتنے کا انہوں نے تصور بھی نہ کیا ہو۔ ان کے سامنے نہ آج ہے نہ 2015 بلکہ ان کے سامنے مستقبل ہے وہ چاہ رہے ہیں کہ کجریوال کو سکون نہ ملے وہ اگر حکومت کو نہ ٹوٹنے دیں تو اندرونی خلفشار میں اُلجھے رہیں اور بی جے پی چھ مہینے کے بعد ہونے والے بہار کے الیکشن، اس کے بعد بنگال اور پھر اُترپردیش میں امت شاہ کو ذلیل کرنے کے لئے میدان میں آجائیں۔ پوری بی جے پی کو ہی نہیں اس کی ساری اولادوں کو بھی کجریوال کے ہاتھوں ان کے مرد آہن نریندر بھائی مودی اور صدر امت شاہ کی ذلت کلیجوں میں چھید کئے دے رہی ہے۔ امت شاہ کجریوال سے اتنی نفرت کرتے ہیں کہ دہلی الیکشن کے زمانے میں ایک تقریر میں کہہ رہے تھے کہ کجریوال جب پہلی بار وزیر اعلیٰ نہیں بنے تھے تو کیسی گاڑی میں سفر کرتے تھے؟ پھر مجمع سے معلوم کیا کہ بتاؤ بتاؤ کیسی گاڑی تھی؟ آوازیں آئیں کہ چھوٹی اور نینی پھر شاہ زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ بولے اور اب؟ یہ اس زمانہ کی بات ہے جب کسی وزیر کی گاڑی سے زیادہ اچھی گاڑی یا امت شاہ کی گاڑی سے کہیں زیادہ اچھی گاڑی میں اسمگلروں اور مافیا کے گروہ کے کتے تفریح کرنے جاتے ہیں۔ یہ صرف وہ ذہنیت ہے جو کہ کوئی مودی کے مقابلہ کی ہمت نہ کرے۔
نیشنل ایگزیکٹیو کی میٹنگ میں بھوشن بغیر شور شرابے کے چلے گئے تھے انہوں نے فساد کا منصوبہ یوگیندر یادو کے سپرد کردیا تھا۔ اسی لئے یادو پورے گروہ کے ساتھ داخل ہونا چاہتے تھے جس میں انہیں کامیابی نہیں ملی اور وہ دھرنے پر بیٹھ گئے اس کے بعد نعرے لگوائے ہنگامہ کرایا اور بھگوا میڈیا جو دو دن سے کہہ رہا تھا کہ ہوسکتا ہے مارپیٹ ہو، خون خرابہ ہو، اس کی بھی کوشش کی لیکن جو مجمع بہت بڑی تعداد میں موجود تھا اس کی بڑی اکثریت کجریوال کے ساتھ تھی اور یہ سننے کے بعد کہ کجریوال کہتے ہیں کہ اگر یہ دونوں رہے تو میں کام نہیں کرپاؤں گا اکثریت نے ان دونوں کو اور اُن کے دو اور ساتھیوں کو نیشنل کمیٹی سے نکالے جانے پر خوشی منائی کہ دشمنوں سے پارٹی پاک ہوگئی۔
اس پورے فساد کے پیچھے امت شاہ کا دماغ سرمایہ داروں کی دولت اور پورے میڈیا کا اہم کردار تھا یہ وہی سب تھے جو کجریوال کو ہرانے کے لئے ایک تھے اور اب ان کی حکومت گرانے کے لئے ایک ہوگئے تھے۔ کس قدر غیرصحافیانہ حرکت ہے کہ ہر چینل پر مذاکرہ ہورہا ہے ’عاپ‘ کے متعلق کہا جارہا ہے کہ دیکھئے عام آدمی پارٹی کا کیا ہوتا ہے؟ مزید کہا جارہا ہے کہ کجریوال کہہ رہے ہیں کہ میں دوسری پارٹی بنا لوں گا یہ لوگ عاپ کو لے کر چلائیں۔ سب سے زیادہ مضحکہ خیز یہ حرکت ہے کہ مذاکرہ میں ایک عاپ کا، ایک بی جے پی کا، ایک کانگریس کا اور ایک غیرجانبدار۔ کسی بھی ٹی وی ایڈیٹر سے معلوم کرنا چاہئے کہ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ کسی سیاسی پارٹی کے بحران پر بات ہوئی ہو اور اس کے دشمنوں کو بلاکر مذاکرہ کرایا ہو؟ اگر بلانا تھا تو ایک آدمی کجریوال کا ایک بھوشن کا اور ایک یادو کا بلاتے۔
وہ یوگیندر یادو جو پہلے کھاد بننے پر فخر کا اظہار کررہے تھے اس کے بعد بھوشن کا کھلونا بن گئے اور انہوں نے بھی وہ حرکتیں شروع کردیں جو بھوشن کررہے تھے۔ یوگیندر یادو بہت ذہین اور قابل قدر ہیں لیکن بھوشن وکیل کی طرح چالاک نہیں ہیں اب انہوں نے کہنا شروع کردیا کہ ہمارے پانچ مطالبات مان لئے جائیں تو ہم استعفیٰ دے دیں گے۔ ہمیں حیرت ہوئی کہ کجریوال کے ساتھیوں نے مطالبات پر غور کرکے ماننے کی باتیں شروع کردیں۔ سوال یہ ہے کہ جب وہ جارہے ہیں اور پارٹی انہیں نکال رہی ہے تو پھر ان کے مطالبات یا ان کی شرطوں کی کیا حیثیت تھی؟ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ کجریوال خوبصورتی سے الگ کرنا چاہتے تھے اور وہ وکیلانہ پیترے دکھا رہے تھے اس لئے کہ بھوشن پیدائشی پیترے باز ہیں۔ یہ دونوں شاید آج تک کسی سیاسی پارٹی میں اسی لئے نہیں رُک پائے کہ ان کا مزاج ہی تخریبی ہے۔ انہوں نے کجریوال کو لونڈا سمجھا تھا لیکن آخرکار یہاں بھی انہیں حقیقت معلوم ہوگئی۔ یہ صرف کجریوال تھے جنہوں نے سونیا، راہل اور 15 برس کی رانی کو، اُس کے علاوہ شہنشاہ ہند نریندر بھائی مودی اور ان کے پروردہ امت شاہ کو دہلی کے لال قلعہ سے ناک رگڑی اور قطب مینار سے نیچے پھینک دیا۔ اس کے بعد بھوشن اور یادو کی حقیقت ہی کیا تھی؟ وہ اگر شریف ہیں تو بھوشن وکالت کریں اور یادو ہریانہ میں کسان سبھا۔ ہم دل سے اروند کجریوال کو مبارکباد دیتے ہیں کہ انہوں نے دشمنوں کو پھر ایک مرتبہ ان کی اوقات بتادی۔

«
»

میں اسے کیا جواب دوں؟

صبر کرو ۔ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے