کوئلے کی دلالی میں ہاتھ کالا؟

کوئلہ بلاکالاٹمنٹ میں ہوئے مبینہ گھپلے کی آنچ آخر کارسابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ تک پہنچ ہی گئی اورسی بی آئی کی اس رپورٹ کے با وجود کہ ان کے خلاف مقدمہ چلانے لائق کوئی ثبوت اور مواد نہیں مل سکا ہے سی بی آئی کی ہی خصوصی عدالت نے انہیں عدالت میں بطور ملزم طلب کرلیا ہے ان کے ساتھ ہی ممتاز صنعت کار اور ہنڈالکو گروپ کے چیئر مین کمار منگلم بر لا اور سابق کوئلہ سکریٹری پی سی پاریکھ کو بھی طلب کیا گیاہے ۔ یہ درست ہے کہ منموہن سنگھ کا دوسرا دور حکومت گھپلوں اور گھوٹالوں کی وجہ سے سب سے زیادہ بد نام اور رسوا دور رہاہے لیکن بی جے پی جیسی بد ترین کانگریس دشمن پارٹی کے لیڈران بھی ڈاکٹر منموہن سنگھ کی ذاتی ایمانداری پر شک کی انگلی نہیں اٹھا رہے ہیں بلکہ وہ ان گھپلوں کے لئے صدر کانگریس سونیا گاندھی راہل گاندھی وغیرہ کو گھیرنا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب ڈاکٹر منموہن سنگھ سے اظہار ہمدردی اور اظہار یکجہتی کے لئے مسز سونیا گاندھی کی قیادت میں کانگریس کے تمام سینئر لیڈروں نے مارچ کیا تو بی جے پی اور اس کے جھنڈا بردار صحافیوں اور ٹی وی اینکروں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ مسز سونیا گاندھی اپنی گردن بچانے کے لئے منموہن سنگھ کی حمایت میں سڑک پر اتری ہیں کیونکہ انہیں خوف ہے کہ کہیں ڈاکٹر منموہن سنگھ ’’ سچ‘‘ نہ اگل دیں اور ان کے خیال میں ’’الہامی سچ‘‘ صرف یہی ہے کہ سونیا گاندھی نے پیسہ کھایا ۔ دوسری جانب قانونی پیچیدگیوں سے انجان لوگوں کو یہ خوف بھی ہورہاہے کہ کہیں ابتدائی مرحلہ میں قانون کسی غلط آدمی کی گردن نہ پکڑ لے جس سے کسی کی نیک نامی کوبٹہ لگے اورکسی کا سیاسی مقصد پورا ہو کیونکہ بدعنوانی تبھی ہوتی ہے جب کسی فیصلے کے عوض میں کوئی فائدہ لیا گیا ہو محض نام نہاد نقصان کی بنیاد پر بدعنوانی کا الزام لگانا نا انصافی ہے کسی بھی شخص سے فیصلہ لینے میں کوئی بھی غلطی ہوسکتی ہے قانون بھی ’’شبہ کا فائدہ ‘‘ ملزم کو دیتاہے۔
اس پورے معاملہ کے پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے ۔ در اصل اڈیسہ کی تالا بیراکوئلہ بلاک 2 کے الاٹمنٹ کا یہ فیصلہ اس وقت ہوا تھا جب منموہن سنگھ کے پاس وزارت کوئلہ کی بھی ذمہ داری تھی اور تب انہوں نے ہینڈالکو کمپنی کو یہ کول بلاک الاٹ کرنے میں غیرضروری دلچسپی دکھائی تھی جس کی وجہ سے ایک دوسری سر کاری زمرہ کی کمپنی نیو لی لگنائٹ کارپوریشن (NLC) کو نقصان اٹھاناپڑا جبکہ اڑیسہ کے وزیر اعلی نوین پٹنائک نے وزیر اعظم اور وزیر کوئلہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کو خط لکھ کر یہ بلاک ہنولی لگنائٹ کو دینے کی مخالفت کرتے ہوئے اسے ہنڈالکو کو ہی دینے کی سفارش کی تھی ان کا کہنا تھا کہ ہنڈالکو اس کوئلہ سے بننے والی بجلی اڑیسہ کو ہی دے گاجبکہ نیولی لگنائٹ بجلی دوسری ریاستوں کو فروخت کردے گااور اڑیسہ کے حصہ میں صرف ماحولیاتی کثافت آئے گی ڈاکٹرمنموہن سنگھ کی غلطی شاید یہی ہے کہ انہوں نے ایک ریاست کی بجلی کی ضرورت وہاں ماحولیات کی صفائی اور متعلقہ وزیر اعلی کی سفارش کو اہمیت دی انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے کہ جن فاضل جج صاحب نے سابق وزیر اعظم سابق کوئلہ سکریٹری متعلقہ صنعت کار کو بطور ملزم طلب کیاہے وہ یہ سفارشی خط لکھنے پر متعلقہ وزیر اعلانوین پٹنائک کو بھی بطور ملزم طلب کریں کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ مسٹر نوین پٹنائک نے کسی ذاتی مفاد کے تحت یہ سفارشی خط لکھاہو عدالت اور فاضل جج صاحب بغیر مقدمہ کی کارروائی اورسماعت کے کسی کورحمان اورکسی کوشیطان کیسے سمجھ سکتے ہیں ۔ پہلے کمپٹرولاورآڈیٹرجنرل ونود رائے نے اپنے حداختیارسے تجاوز کرتے ہوئے کوئلہ بلاک نیلام کرنے کے بجائے الاٹ کرنے پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے ممکنہ گھاٹا کی رقم پہاڑ جیسی بنادی جبکہ پالیسی تیار کرناحکومت کا حق اور اختیار ہے اورتب تک کوئی نئی پالیسی نہ بنے حکومت جاری پالیسی پر عمل کرنے کا حق رکھتی ہے یہی اس معاملہ میں بھی ہوا۔سپریم کورٹ نے بھی کہاہے کہ قدرتی وسائل کی نیلامی حکومت کے پاس واحدمتبادل نہیں ہے یعنی وہ مفاد عامہ میں نیلامی کے علاوہ دوسرے طریقہ بشمول الاٹمنٹ کابھی اختیار کر سکتی ہے۔ سابق کوئلہ سکریٹری اوراس معاملہ میں شریک ملزم پی سی پرکھ نے کہاہے کہ ہنڈالکو کمپنی پہلی درخواست گذارتھی مالی اورتکنیکی صلاحیت بھی درست اور مناسب تھی اورانکاپروجیکٹ بھی تیارتھا لیکن نیولی لگنائٹ چونکہ عدالتی زمرہ(PSU) کی کمپنی تھی اس لئے دونوں کوالاٹمنٹ میں شامل کرلیا گیا تھا تاکہ دونوں کونقصان ہو۔
معاملہ عدالت میں ہے اور کسی نہ کسی مرحلہ پر انصاف ضرور ہوگا اگر منموہن سنگھ وغیرہ نے بے ایمانی کی ہے تو انہیں اس کی سزا ضرور ملنی چاہئے لیکن اگر کسی سیاسی مقصد سے انہیں نشانہ بنایا جارہاہے تو اس کی پوری طاقت سے مخالفت کی جانی چاہئے یہ پورا معاملہ حکمرانی سے وابستہ ہے ہندوستان جیسے متنوع اور بڑے ملک کی حکمرانی کوئی آسان کام نہیں ہے اسے ریاضی اور سائنس کے فارمولوں کے مطابق نہیں چلایا جاسکتااس میں جگہ جگہ لچک معاملہ فہمی دو ر اندیشی ، سمجھوتہ وغیرہ کرنا ہی پڑتاہے عدالت کے اجلاس میں بیٹھ کریا صحافیوں کا قلم کی جو لانی اور ٹی وی انکروں کا چرب زبانی دکھلانا بہت آسان ہے مگر حکمرانی بہت مشکل مرحلہ ہے۔
اس معاملہ کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں سی بی آئی اور سی بی آئی کی عدالت آمنے سامنے ہیں ان حالات میں سی بی آئی کا وکیل عدالت میں کیا موقف اختیار کرے گا یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا اس کے ساتھ ہی مودی حکومت کو بھی واضح کرنا ہوگا کہ وہ اپنی ایک ایجنسی سی بی آئی کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے یا سی بی آئی کی عدالت کے ساتھ مودی حکومت بننے کے بعد ہی عشرت جہاں فرضی مڈبھیڑ معاملہ کی سماعت کررہے سی بی آئی کے خصوصی جج کا تبادلہ اور نئے جج صاحب کی عدالت سے امت شاہ راجستھان کے ایک وزیر گلاب چند کٹاریا ،پولیس افسر و نجارا پانڈے اور گپتا جو بری وغیرہ کو جو راحت ملی وہ بھلے ہی تکنیکی اور قانونی اعتبار سے درست ہو لیکن متاثرین اور عوام کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ جج صاحب نے بی جے پی کے لیڈران کو راحت پہونچائی اسی لئے کہا جاتا ہے کہ انصاف ہونا ہی بڑی بات نہیں ہے انصاف ہوتے دیکھنا اسی سے بھی بڑی بات ہے۔ منموہن سنگھ کے معاملہ میں بھی عدالت کا فیصلہ اسی پیمانہ پرکھاجائے گا۔

«
»

آج کی دنیا کے قارون

آر ایس ایس اور عیسائی دنیا آمنے سامنے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے