آر ایس ایس اور عیسائی دنیا آمنے سامنے

نوبل پرائز یافتہ مدر ٹریسا کی خدمت خلق کے پیچھے کا مقصد کیا تھا؟ کیا وہ لوگوں کو عیسائی بنانے کے لئے سماج سیوا کرتی تھیں؟کیا ان کا مقصد تھا لوگوں کا مذہب تبدیل کرانا؟ان دنوں یہ بحث شروع کی آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت کے ایک بیان نے۔ جس میں انھوں نے کہا ہے کہ غریبوں کی خدمت کرنے کے پیچھے مدر ٹریسا کا اہم مقصد لوگوں کو عیسائی بنانا تھا۔اس بیان کے آنے کے بعد سے نہ صرف موہن بھاگوت مدر ٹریسا کے حامیوں کے نشانے پر ہیں بلکہ بھاگوت کے حامی بھی ان کے دفاع میں سامنے آگئے ہیں۔ حالانکہ اندیشہ یہ بھی ہے کہ بھاگوت کا یہ بیان مغربی ممالک میں وزیر اعظم نریندر مودی کے لئے مشکلیں کھڑی کردے گا۔مغربی ممالک میں سنگھ پریوار کو ایک انتہا پسند گروپ کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اس کے سربراہ کی طرف سے مدر ٹریسا کے لئے ایک متنازعہ بیان کے آنے سے مغربی ممالک چراغ پا ہیں اور اس کا نقصان مودی کی تصویر کو پہنچ سکتا ہے۔ واضح ہوکہ راجستھان کے بھرت پور شہر میں ایک غیر سرکاری تنظیم ’اپنا گھر‘ کے ایک پروگرام کے دوران انہوں نے کہا تھاکہ ’مدر ٹریسا کی خدمت اچھی رہی ہوگی۔ پر اس میں ایک مقصد چھپا ہوا تا تھا کہ جس کی خدمت کی جا رہی ہے اس کو عیسائی بنایا جائے۔ آر ایس ایس کے سربراہ نے مزید کہا تھا کہ ’سوال صرف مذہب تبدیل کرنے کا نہیں ہے بلکہ یہ خدمت کے نام پر کیا جاتا ہے، تو اس سے خدمت کی قیمت ختم ہو جاتی ہے۔جس ادارے کی دعوت پر موہن بھاگوت وہاں گئے تھے اس کی تعریف کرتے ہوئے بھاگوت نے کہا کہ اس این جی او کا مقصد خالصتاً غریبوں اور بے سہارا لوگوں کی خدمت کرنا ہے۔بھاگوت کا بیان ایسے
وقت سامنے آیا ہے جب گزشتہ چند مہینوں میں دارالحکومت دلی سمیت کئی مقامات پر عیسائیوں کے گرجا گھروں پر حملے ہوئے ہیں۔وزیر اعظم نریندر مودی نے کچھ دنوں پہلے ہی عیسائیوں کے ایک پروگرام میں حصہ لیا تھا اور انہیں یقین دلایا تھا کہ کسی بھی مذہب پر ہونے والے حملوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
بیان پر بوال
آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت کے اس بیان پر مختلف لوگوں کے الگ الگ رد عمل سامنے آئے ہیں۔ ترنمول کانگریس کے راجیہ سبھا ممبر پارلیمنٹ ڈیریک او برائن نے کہا کہ مدر ٹریسا کا تبدیل�ئ مذہب جیسے کام سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کا نام لیے بغیر اشارہ کرتے ہوئے پوچھا کہ اب دیکھنے والی بات ہے کہ مودی آر ایس ایس سربراہ کو کیا کہتے ہیں۔ موہن بھاگوت کے بیان پر احتجاج کرتے ہوئے دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے کہا کہ انہیں آنجہانی مڈرٹریسا کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ہے مدر ٹریسا مقدس روح تھیں ان کا احترام ہونا چاہئے انہیں تنازعات میں نہیں گھسیٹناچاہئے۔ کانگریس کی طرف سے بھی بھاگوت کے بیان کی مذمت کی گئی ہے اور کچھ دوسری سیاسی پارٹیوں اور مدر ٹریسا کا احترام کرنے والوں نے بھاگوت ک بیان پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے ۔ کانگریس لیڈر اور سابق مرکزی وزیر سچن پائلٹ کا کہنا ہے بھاگوت کا بیان ان سبھی لوگوں کی توہین ہے جو انسانیت کے لئے کام کرتے ہیں۔ مدر ٹریسا نے ہمیشہ انسانیت کے لئے کام کیا اور غربیوں کی خدمت کرتی رہیں۔ حالانکہ بی جے پی کی طرف سے کانگریس پر بھی حملہ کیا گیا ہے۔ مدرٹریسا کے تعلق سے آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کے ریمارکس کا ’’سیاسی فائدہ‘‘اٹھانے کی کوشش کرنے کا کانگریس پر الزام عائد کرتے ہوئے بی جے پی لیڈر میناکشی لیکھی نے دعوی کیا کہ مدر ٹریسا نے ہی از خود ایک انٹریو میں یہ اعتراف کیا تھا کہ ان کا کام عوام الناس کو عیسائیت کی صف میں لانا ہے۔ پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے بی جے پی رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ اس طرح کے تبصروں کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش سے گریز کیا جانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کانگریس ارکان اور دیگر کئی قائدین کی جانب سے اس مسئلہ پر کئے گئے تبصرہ کو ناقابل اعتراض قرار دیا۔ میناکشی لیکھی نے کہا کہ میں جیوتیرا دتیا سندھیا اور شریمتی سونیا گاندھی سے درخواست کرتی ہوں کہ براہ کرم وہ ان لوگوں کو سر پر نہ بٹھالیں جن کے تعلق سے وہ بہت اچھا تصور کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نوین چاؤلہ نے اپنی کتاب میں مدر ٹریسا کا بیان نقل کیا ہے کہ انھوں نے خود کہا تھا کہ وہ عوام کو مذہب عیسائیت میں لانے کیلئے کام کررہی ہوں۔میناکشی لیکھی کے مطابق اس کتاب میں مدر ٹریسا کا ایک انٹرویو ہے کہ جس میں انھوں نے کہا ہے کہ میری سماجی خدمات کے بارے میں کئی افراد کو الجھن ہے میں ایک سوشیل ورکر نہیں ہوں بلکہ میں یسوع مسیح کی خدمت میں سرگرم ہوں اور میرا کام مذہب عیسائیت کی تبلیغ کرنا ہے۔ جب لیکھی سے پوچھا گیا کہ آیا وہ موہن بھاگوت کے تبصرے کو حق بجانب قرار دے رہی ہیں،تو ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے جو کچھ کہا ہے اس کا بھاگوت کے بیان سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن سیاستدانوں کو ایسے تبصروں سے گریز کرنا چاہئے۔حالانکہ مدر ٹریسا کی مشنری آف چیریٹی کی ترجمان سنیتا کمار کا کہنا ہے کہ مدر کے ادارے میں ایسا کام نہیں ہوتا تھا۔ بھاگوت کی جانکاری درست نہیں ہے ۔ مدر ٹریسا صرف غریبوں کی خدمت کیا کرتی تھیں اور اس کے پیچھے تبدیلی مذہب کا کوئی معاملہ نہیں ہوتا تھا۔ کارڈینل مار بیس لیوس کا کہنا ہے کہ
مدر ٹریسا کو نوبل پرائز برائے امن ملا تھا اور وہ بھارت رتن کے اعزاز سے سرفراز کی گئی تھیں ،ایسے میں ان کے لئے نازیبا باتیں کہنا ان اعزازات کی توہین ہے۔ دوسری طرف آر ایس ایس کے ایک دوسرے نظریہ ساز ایم کے وید نے بھی موہن بھاگوت کی بات کو دہرایا ہے اور اسے حق بجانب قرار دیا ہے۔ وشو ہندو پریشد کے ایک لیڈر وینکٹیش کا کہنا ہے کہ تمام عیسائی مشنریاں ہندووں کو عیسائی بنانے کا کام کرتی ہیں۔ ان کا اصل ایجنڈا صرف یہی ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جن غریب بچوں کے لئے مدر کام کرتی تھیں وہ کہاں گئے؟ ان میں بہت سے ہندو بھی تھے مگر اب کہاں غائب ہوگئے اس کی جانچ ہونی چاہئے۔ 
بات تو ٹھیک ہے مگر
مدر ٹریسا نے سماجی خدمت کس لئے کی؟ کیا ان کا مقصد اس خدمت کے ذریعے دوسرے مذاہب کے لوگوں کو عیسائی بنانا تھا؟ ان سوالوں پر بحث پہلے بھی ہوتی رہی ہے اور آگے بھی ہوتی رہے گی۔ موہن بھاگوت نے جو کچھ کہا ہے اس میں کچھ بھی عجیب نہیں ہے۔ عیسائی مشنریاں پورے ملک میں سماجی کام کرتی ہیں اور اسی کے ساتھ وہ تبدیلی مذہب بھی کراتی ہیں۔ مدر بھی اگر ایسے ہی لوگوں میں سے ایک تھیں تو اس میں کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئے۔ خود مسلمان اور عیسائیوں کو ایک بڑا طبقہ مانتا ہے کہ وہ سماجی خدمت کے ساتھ ساتھ تبدیلی مذہب کے لئے بھی کام کرتی تھیں۔ اگر وہ ایسا کرتی تھیں تو کوئی غیر قانونی کام نہیں ہے کیونکہ ہمارے ملک کا آئین اس بات کی اجزات دیتا ہے کہ ہر شخص اپنے نظریات کی پر امن طریقے سے تبلیغ کرسکتا ہے اور کوئی بھی شخص رضاکارنہ طور پر اپنا مذہب بدل بھی سکتا ہے ،اگر مدر نے بھی ایسا کیا تو اس میں کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ مدر ٹریسا کے لئے تبدیلی مذہب کی بات آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت نے کہی ہے جو اگر اچھی بات بھی کہہ دیں تو وہ منفی رخ اختیار کر لیتی ہے۔ سنگھ پریوار کی پہچان ایک دائیں بازو کی جماعت کی ہے جو غیر ہندووں کے ساتھ اپنے برتاؤ کے لئے اکثر سوالوں کے گھیرے میں رہتا ہے۔ بھاگوت کا بیان ممکن ہے درست ہو اور کسی دوسرے آدمی کی زبان سے یہ بیان آتا تو اس پر مثبت بحث بھی ہوسکتی تھی۔
عالمی ردعمل
بھاگوت کے بیان کی گونج عالمی سطح پر سننے میں آرہی ہے اور صر ف بھارت ہی نہیں بلکہ ویٹیکن سٹی سے بھی اس پر ردعمل سامنے آچکا ہے۔ بات صر اسی ایک بیان تک محدود نہیں رہے گی بلکہ پورا مغرب اسے ہندتو اور مذہبی شدت پسندی سے جوڑ کر دیکھے گا۔ یہ بیان اگر کسی مسلمان کے تعلق سے ہوتا تو دنیا کے کسی بھی ملک میں ردعمل نہیں دکھائی دیتا۔ اسلام کے خلاف ہوتا تو دنیا کے تمام مسلم ممالک خاموش رہتے اور بھارت کا اندرونی معاملہ کہہ کر چپی سادھ لیتے مگر جب کسی عیسائی کے بارے میں کوئی بیان سامنے آتا ہے تو تمام مغربی ممالک متحد ہوجاتے ہیں۔ دلی کے گرجا گھروں پر حملے کی بات ابھی زیادہ پرانی نہیں ہے جس کے ردعمل کے طور پر امریکی صدر نے دو دو بار بیان دے دیا اور آخر کار مودی کو صفائی دینی پڑی ۔ اب ایک بار پھر موہن بھاگوت نے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر پورے مغرب کو وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف کھڑا کرانے کا کام کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سنگھ پریوار مودی کے راستے میں کانٹے بونے کا تہیہ کر چکا ہے۔ مودی چونکہ سرکار میں ہیں لہٰذا فرقہ پرستی کی آگ پر پانی ڈالنے کا کام کر رہے ہیں مگر سنگھ مزید اسے ہوا دے رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب باتیں مسلمانوں سے
متلعق نہیں ہیں ورنہ کوئی کچھ نہیں بولتا۔ یہاں تو مسلم کش فسادات اور مسجد کی شہادت کے بعد بھی دنیا خاموش رہ جاتی ہے مگر عیسائیوں کو چھیڑنے کی کوشش کوئی تو ساری دنیا بھارت کے خلاف کھڑی ہوجائیگی اور اگر ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی بھارت کے خلاف اقدام شروع کردیں تو حیرت نہیں ہونی چاہئے۔

«
»

تاریخ میں رنگ آمیزی کے مضمراثرات

پیشگی تنخواہ…ایک افسانہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے