عقابی روح کا بیدار ہونا

دلی کے چڑیا گھر میں ایک سترہ سالہ نوجوان کے ساتھ پیش آنے والا یہ واقعہ ابھی بھی ہمارے اور آپ کے ذہن میں گردش کررہاہوگا جب یہ نوجوان حادثاتی طورپر اُس احاطے میں گرگیا جو خاص طورسے جنگل کے ایک خونخوار جانور تیندوے کیلئے بنایا گیا تھا۔ اس نوجوان کا گرنا تھا کہ تیندوے کے دن پلٹ گئے وہ ٹہلتے ہوئے آیا اور نوجوان سے چھیڑخوانی کرنے لگا ۔ نوجوان کو بھی احساس ہوگیا کہ اب اس کی خیر نہیں ہے۔ اس نے تیندوے کے سامنے ہاتھ جوڑنا شروع کردیا تاکہ وہ اس کی جان بخش دے۔ اس کے باوجودتیندوے نے اس نوجوان کی گردن دبوچ کر اپنی سرنگ کی طرف لے کر چلاگیا اور بہت ہی آرام سے اس کے خون سے پیاس بجھانے لگا۔ اس تیندوے کا نام شاید انسانوں کی طرح ہی سنجے رکھا گیاتھا۔ اس واقعے کے بعد میڈیا میں بحث ہونے لگی کہ سنجے اس طرح پونچھ ہلاکر نوجوان کے ساتھ کھیل رہاتھا شاید وہ اس کے ساتھ پیار کررہاتھا اور اگر مجمع میں موجود کچھ لوگوں نے بیچا شورشرابہ اور پتھر بازی کرکے تیندوے کو مشتعل نہ کیاہوتا تو شاید وہ حملہ بھی نہ کرتا ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ درندوں کی فطرت میں رحم کی خاصیت عام نہیں ہوتی اور پھرجن کی غذا اور خوارک ہی خون اور گوشت پر منحصر ہو اگر وہ رحم کرنے لگیں تو بھوکے مرجائیں۔ جہاں تک سوال ہے کہ وہ نوجوان کے ساتھ پونچھ ہلاکر کھیل رہاتھا دراصل یہ عادت ہر خونخوار جانور کی فطرت میں شامل ہے کہ وہ اپنے شکار کو بہت قریب پاکر خوشی سے پونچھ ہلانے لگتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ اپنے شکار کو تھکاکر کچھ دیر کھیلے۔ کھیلنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اس طرح دوڑا اور تھکاکر اس کے خون کو گرم ہونے دیتاہے تاکہ شکارمیں اور بھی لذت پیداہوجائے۔ یہاں پر اہم سوال یہ ہے کہ کیا اس نازک حالات میں اس نوجوان کو بچانے کی بھی کوئی تدبیر کی گئی تھی۔ اس واقعے کے بعد ایک تبصرہ یہ بھی آیاکہ احتجاج اور شورشرابے کی بجائے اگر مجمع میں سے کچھ لوگ لوہے کی سلیا اور ڈنڈے وغیرہ کے ساتھ احاطے میں اترجاتے تو شاید تیندوے کے اندر خوف پیداہوتا اوراس کی نیت بدل جاتی یا وہ بھاگنے کیلئے مجبور ہوجاتا افسوس کہ اس مجمع میں سبھی لوگ یا تونہتے تھے یاان میں سے اکثر لوگ اپنی جان کو جوکھم میں ڈالنے کیلئے بھی تیارنہیں تھے۔ یہ بھی سچ ہے کہ طاقت نہ ہونے کی صورت میں طاقت ور دشمن کے سامنے اپنی جان کو جوکھم میں ڈالنا بھی دانشمندی نہیں ہے۔ لیکن اگر اس نوجوان کو بچانے کے لئے کچھ نوجوان تیندوے سے لڑنے کی جرأت کرتے ہوئے مارے جاتے تو ہم انھیں شہید کہتے اور ان کے جنازے کو بہت ہی عقیدت اور احترام کے ساتھ اٹھایاجاتا۔ خیر اس واقعے سے یہ سبق تو ضرور ملتاہے کہ وہ چاہے خونخوار جانور ہوں یا ظالم انسان اور انسانوں کی جماعت ان کی بدنیتی اور غلیظ ذہنیت کو اس وقت تک نہیں بدلاجاسکتا جب تک کہ ان کے خلاف کوئی ایسی طاقتور تدبیر نہ اختیار کی جائے جس کی وجہ سے وہ خود اپنے لئے خطرہ نہ محسوس کرنے لگیں۔ اسی طرح جو باشعور ہیں اور جو ملکی اور عالمی حالات اور سیاست پر نظررکھتے ہیں وہ یہ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ آج سیاست ، معیشت ،جمہوریت ، صحافت ،استعماریت ،جدیدت، مادیت اور یہاں تک کہ شوق وتفریح طب اور تعلیم وتربیت جیسے خوبصورت نام اور طریقے سے انسانیت پر اس طرح حملہ کیاجارہاہے کہ ہمیں یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم اپنی غیرت اخلاق واقدار اور خود اری جیسے قیمتی خزانے سے بھی محروم ہورہے ہیں ۔ اگر ہم سمجھ بھی پاتے ہیں تو بات احتجاج بھوک ہڑتال اور اجتماعات سے آگے اس لئے نہیں بڑھ پاتے کیونکہ ہم سب گاندھی کے پرستار جو ٹھہرے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ گاندھی کامیاب نہیں ہوئے۔ سچائی یہ ہے کہ کسی بھی ظلم اور لڑائی کے خلاف دل میں کراہیت محسوس کرنا بھی انسان کے زندہ ہونے کی علامت ہے اور یہی احساس کبھی کبھی اسے نہ صرف ظلم وجبر کے خلاف کھڑا ہونے کی جرأت اور تحریک پیداکرتا ہے کبھی کبھی کچھ دوسرے لوگ اپنی جان کو جوکھم میں ڈال کر لاکھوں انسانوں کے زندہ رہنے کی تحریک اور اسباب پیداکرجاتے ہیں۔ مہاتما گاندھی اوران کے ساتھیوں کو کم سے کم اس کا احساس تھا اورانہوں نے آزادی کی جنگ میں انگریزوں کے خلاف جو اہنسا کی تحریک شروع کی تھی اس تحریک نے انگریزی حکومت کے اندر یہ دہشت ضرور قائم کردی کہ ان کے پیچھے جو بھیڑ ہے اگران کے مطالبات کو اسی طرح ردکیا جاتارہا تو ممکن ہے کہ یہ لوگ تشدد کی طرف بھی راغب ہوجائیں اور پھر گاندھی اوران کے ساتھیوں کیلئے بھی ان پر قابو پانا ممکن نہ ہواسی لئے انگریزی حکومت نے بہتر سمجھا کہ قتل وخون اور گرفتاری کے ذریعے ان کے حوصولوں کو پست کردیاجائے۔ مگر جیسا کہ ہر احتجاج گفتگو اور بات چیت کی ناکامی کے بعد تشدد اور خون خرابے کا برپا ہونا لازمی ہے سبھاش چندربوس اور ان کے ساتھیوں نے انگریزوں کی نیت کو بھانپتے ہوئے اسی راستے کو اختیار کیا۔ اسی لئے اکثر مبصرین مہاتماگاندھی کے نظریے کو اسی طرح سبھاش چندربوس کے نظریے کا خالق یعنی Brain Child کہتے ہیں جیسے کہ 2012 میں بدعنوانی کے خلاف انّا ہزارے کی پرامن تحریک کی ناکامی کے بعد اروندکیجریوال کو سیاست کے مید ان میں کودنا پڑا۔ اسی تصویر کا دوسرا رخ جزیرۃ العرب کی موجودہ صورتحال ہے۔ مصر میں اخوان اگر تمام پرامن تحریک کے مرحلے سے گذرتے ہوئے عوامی حکومت کی بنیاد قائم کرنے میں کامیاب بھی ہوئے تو اس خطے کے دیگر آمروں اور ڈکٹیٹروں کی نیند حرام ہوگئی یہ لوگ یہ خطرہ محسوس کرنے لگے کہ کہیں یہ روایت عرب کے تمام علاقوں کیلئے مثال نہ بن جائے عرب کے تمام ڈکٹیٹروں نے مصری فوج کی مدد کرکے اخوان کے پرامن جمہوری انقلاب کو ناکام بنادیا۔ سوال یہ ہے کہ جب طاقت کا غلط استعمال ہونے لگے۔ جمہوری طورپر جب عوامی نمائندوں کو جیل میں ڈال کر اقتدار پر دجّال صفت حکمراں قابض ہونے لگیں ایسے میں عوام ناانصافی اور ظلم کے خلاف سڑکوں پر اترآئیں اور ان کے اوپر ٹینکوں اور میزائیلوں سے آگ کی بارش ہونے لگے تو اس کا ردعمل کیاہوگا۔ مشرق وسطیٰ کاموجودہ بحران مصری، شامی ،ایرانی اور سعودی حکمرانوں کے ظلم کا ردعمل ہے۔ اس لئے عرب کے ان خونخوار تیندوؤں کے خلاف اترنے والے انقلابیوں کو جہنمی اور خارجی کہہ کر حسینیت کی توہین اور یزیدیت کی پردہ پوشی کی جارہی ہے ۔ اقبال نے انہی بیدار روحوں کی شان میں انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہاہے کہ۔
عقابی روح جب بیدارہوتی ہے جوانوں میں
نظرآتی ہے منزل ان کو اپنی آسمانوں میں

«
»

تاریخ میں رنگ آمیزی کے مضمراثرات

پیشگی تنخواہ…ایک افسانہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے