یہ آزمائش اور ہمارے امتحان کی گھڑی ہے

جمعہ کے دن ہولی کے مسئلہ پر بارہ بنکی کے ڈی ایم اور ایس پی نے امن کمیٹی کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہولی جیسے بھائی چارہ پرمبنی تہوار میں کوئی نئی روایت نہ شروع کی جائے اور خوشی میں مدہوش ہوکر کوئی ایسا عمل نہ کیا جائے جس سے کسی بھی فرقہ کے جذبات مجروح ہوں۔ شراب اور دوسری نشہ والی چیزوں سے پرہیز کیا جائے اور دوپہیہ گاڑیوں پر تین افراد سفر نہ کریں۔ ڈی ایم بارہ بنکی مسٹر یوگیشور رام مشرا نے جو کچھ کہا ہے ان میں سے کسی ایک بات پر بھی کوئی ہندو عمل نہیں کرے گا میڈیا کی ہندو نوازی کا ہی اثر ہے کہ ہر تہوار کے موقع پر وہ نئی روایتیں جو پہلے الگ الگ علاقوں میں وہیں کے لوگ مناتے تھے اب ملک کے چپہ چپہ پر پھیل گئی ہیں جیسے دسہرہ کے موقع پر صرف بنگال میں دُرگا پوجا ہوتی تھی لکھنؤ میں صرف بنگالی کلب ماڈل ہاؤس میں سب بنگالی مل کر دسہرہ کے بجائے پوجا کو تہوار کے طور پر مناتے تھے۔ اب ہر جگہ دسہرہ اسی طرح ہوتا ہے اور اس میں پوجا کو اسی طرح منایا جانے لگا ہے جیسے بنگال میں منایا جاتا ہے۔ دو چار سال پہلے تک شمالی ہند میں شری گنیش کی پوجا کا تہوار کوئی جانتا بھی نہیں تھا۔ اب جیسا ممبئی مہاراشٹر اور گجرات میں ہوتا ہے بالکل ایسا ہی لکھنؤ میں ہونے لگا چھٹ پوجا جسے چند سال پہلے کوئی جانتا بھی نہیں تھا وہ صرف بہار کا تہوار تھا اب ہر جگہ چھٹ پوجا ہوتی ہے۔
رہی شراب کی بات تو ہولی سے متعلق اخبارات میں خبر آچکی ہے کہ گاؤں گاؤں بھٹیاں بن گئی ہیں اور ہر گاؤں میں غیرقانونی شراب بن رہی ہے۔ اس کے لئے کوئی ڈی ایم کہیں کے وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کہیں تو رتّی برابر بھی اثر نہیں ہوگا اور ایک ہفتہ رنگ کیچڑ گوبر شراب چرس بھنگ کا اتنا استعمال ہوگا جتنا سال بھر میں بھی نہیں ہوتا اس مسئلہ میں اس لئے ہمیں کچھ نہیں کہنا ہے کیونکہ بے وقوفوں میں ہم شامل نہیں ہونا چاہتے۔ ہمیں صرف اپنے مسلمان بھائیوں سے صرف اتنا کہنا ہے کہ جیسے صبر اور ضبط کا مظاہرہ وہ 16 اپریل 2014 ء سے کررہے ہیں اس سے زیادہ انہیں جمعہ کے دن کرنا ہے۔ ہندوؤں کا وہ طبقہ جو ہولی میں بالکل مدہوش ہوجاتا ہے اسے ہر صاف چیز کو گندہ کرنے میں ہی مزہ آتا ہے۔ آپس میں رنگ کھیلنے میں اس لئے مزہ نہیں آتا کہ وہ جس پر رنگ ڈالیں گے وہ پہلے ہی سے رنگا ہوا ہوتا ہے۔ مسلمان جمعہ کے دن جیسا بھی ہو صاف اور پاک کپڑے ضرور پہنتا ہے وہ اگر ہولیاروں کے سامنے پڑجائے تو اس پر رنگ ڈالنے میں انہیں اتنا ہی مزہ آتا ہے جتنا اپنے مخالف کو نیچا دکھانے میں کسی کو آتا ہے زیادہ تر مساجد میں جمعہ کی نماز ظہر کی نماز سے پہلے ہوجاتی ہے یہ کوئی شرعی حکم نہیں ہے ہولی کی وجہ سے اور ہولیاروں کی شرارت سے بچنے کے لئے اگر ہر مسجد کے منتظم حضرات یہ فیصلہ کرلیں کہ جمعہ کی نماز ہر مسجد میں دو یا ڈھائی بجے ہوگی تو یہ کوئی غیرشرعی فیصلہ نہیں ہوگا۔ اسی طرح ہر مسلمان یہ فیصلہ کرلے کہ وہ رنگ ختم ہونے تک اپنے گھر کے اندر ہی رہے گا تو یہ اس لئے ضروری ہے کہ یوں بھی باہر کا کوئی کام نہیں ہوپائے گا۔ اگر کسی کو ڈاکٹر کے پاس یا ریل میں سفر کے لئے جانا ضروری ہو تو یہ فیصلہ کرکے گھر سے نکلیں کہ رنگ پڑجائے تو اسے خاموشی سے برداشت کرلینا ہے احتجاج نہیں کرنا شہر کے ہولیارے عام طور پر صرف رنگ ہی ڈالتے ہیں نالی کی کیچڑ گائے کا گوبر یا دوسری ناپاک چیزیں دیہاتوں میں زیادہ استعمال ہوتی ہیں رنگ کے معاملہ میں مسلمانوں میں یہ بات عام ہے کہ جس جگہ ہولی کا رنگ پڑجائے جسم کا اتنا حصہ جہنم میں جلے گا۔ میں اپنی کم علمی کا اعتراف کرنے کے بعد یہ عرض کررہا ہوں کہ یہ جاہلانہ اور مفسدانہ وہ پروپیگنڈہ ہے جو مسلم لیگ کے لیڈروں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت بڑھانے کے لئے کیا تھا۔ جو لوگ میرے ہم عمر یا مجھ سے دو چار سال چھوٹے ہیں ان میں شاید کوئی ایسا ہو جس نے اپنی بیوی یا ماں یا چچی تائی یا خالہ کو گھر کے اندر دوپٹہ رنگتے ہوئے نہ دیکھا ہو یہ اس زمانہ کی بات ہے جب ملک نے اتنی ترقی نہیں کی تھی کہ ہر رنگ کے گہرے اور ہلکے پچاس ساٹھ دوپٹے بازار میں ملتے ہوں۔ میری والدہ نامور محدث اور درجنوں دینی کتابوں کے مصنف مولانا محمد منظور نعمانی کی اہلیہ تھیں۔ میری عمر دس بارہ سال ہوگی کہ مجھے اپنی پیاری ماں کے حکم کی تعمیل میں اتنی بار محلہ کی دُکان پر جانا پڑتا تھا کہ ایڑیاں دُکھنے لگتی تھیں۔ وہ عام طور پر سفید کپڑے اور پیازی رنگ کا دوپٹہ اوڑھتی تھیں جو کئی رنگوں سے مل کر بنتا تھا۔ جمعہ کی صبح کو والدہ مکرمہ دوپٹہ رنگنے بیٹھتی تھیں اور بارہ بجے تک ایک ہی کام تھا کہ حفیظ ننھے بھائی کی دُکان سے ایک پڑیا لال رنگ کی اور لادے پھر پیلے کی اور لادے پھر ہرے کی اور لادے اللہ جھوٹ نہ بلوائے مجھے دس دس بار دُکان دوڑاتی تھیں اور ان کا پیازی رنگ نہیں بن پاتا تھا آخرکار جمعہ کی اذان ہوجاتی تھی اور ہم مسجد چلے جاتے تھے واپس آکر ان کو پیازی دوپٹہ اوڑھے دیکھتے تھے۔
اس زمانہ میں یہ کام گھر گھر ہوتا تھا کیونکہ سفید ململ کے دوپٹے ہوتے تھے جو گھروں میں رنگے جاتے تھے رنگ پر یاد آیا کہ جیسے آج لڑکیوں میں مہندی لگانا ایک فن ہے اس زمانہ میں دوپٹے رنگنا ایک فن تھا اور فرمائش پر دوپٹے رنگے جاتے تھے۔ اسی شوق کی وجہ سے عام طور پر ماں بیٹیوں کے ہاتھوں میں رنگ لگا ہوتا تھا۔ اسی رنگین دوپٹہ سے نماز پڑھی جاتی تھی اور وہی رنگ ہے جس سے ہولی کھیلی جاتی ہے اگر کوئی آپ کے کپڑوں پر ڈال دے تو چپ چاپ جہاں جانا ہے چلے جایئے یا آپ کی مسجد پر یا آپ کے سفید مکان پر یا آپ کی دکان کے بورڈ پر رنگ ڈال کر دل کی بھڑاس نکالنا چاہے تو آپ پلٹ کر جواب نہ دیجئے۔ لکھنؤ میں تو رنگ کا کاروبار کرنے والے نہ جانے کتنے مسلمانوں کو میں جانتا ہوں ان میں کئی وہ تھے جن کے لیبل لاکھوں کی تعداد میں میں نے چھاپے ہیں ان دوستوں میں سے کئی نماز کے بے حد پابند تھے اور ان کے کپڑوں پر بھی رنگ لگا ہوتا تھا اور ہاتھوں پر بھی ہم نے کبھی انہیں نہیں دیکھا وہ مسجد نہ جاتے ہوں۔ میری طبیعت بہت خراب ہے ڈاکٹر کا حکم ہے کہ چند دن قلم نہ پکڑوں لیکن یہ مسئلہ اتنا حساس ہے کہ میں قربان ہونے کے لئے تیار ہوں یہ صرف اسی لئے لکھا ہے کہ میرے بھائی میرے تمام نوعمر یا جوان بچے اس معاملہ میں جذباتی نہ ہوں آج ملک کی صورت حال بہت کچھ بدلی ہوئی ہے اس میں ہماری غلطی نہیں ہے لیکن جن کی وجہ سے بدلی ہے ہم ان کا کچھ بگاڑ بھی نہیں سکتے صرف صبر و ضبط اس کا علاج ہے۔ یہ کام میرے جیسے کم علم اور کمتر آدمی کے کرنے کا نہیں تھا۔ یہ اپیل مسلم پرسنل لاء بورڈ کی طرف سے آنا چاہئے تھی جس میں ہر مسلک کے عالم ہیں یا ہمارے علماء اور مشائخ مسلمانوں کو اس کی شرعی اور سماجی حیثیت بتاتے۔ آج تک میری نظر سے نہ کسی صوبہ کے وزیر اعلیٰ کی اپیل گذری ہے نہ وزیر اعظم کی نہ سیاسی پارٹیوں کے کسی لیڈر کی سامنے آئی ہے نہ کسی مسلمان دانشور یا لیڈر کی۔ جبکہ یہ اتنا حساس مسئلہ ہے کہ پورے ملک کے ہر شہر ہر قصبہ اور ہر گاؤں کا امن خطرہ میں ہے۔ لکھنؤ شاید ایسا اکیلا شہر ہے جہاں ایک بجے سے پہلے پہلے عام طور پر رنگ گلال سب ختم ہوجاتا ہے اور 90 فیصدی ہولیارے نہا دھوکر نئے کپڑے پہن لیتے ہیں لیکن کان پور، الہ آباد اور بریلی کے بارے میں تو میں جانتا ہوں کہ وہاں ایک ہفتہ تک جگہ جگہ رنگ کے ڈرام رکھے رہتے ہیں۔ ایک بار الہ آباد میں میں خود اس کا شکار ہوچکا ہوں اور اتنا نقصان برداشت کرنا پڑا تھا کہ ذکر بھی مناسب نہیں اس وقت جو میری عمر تھی اس کا تقاضہ تو یہ تھا کہ یا میں کسی قابل نہ رہوں یا اسے کسی قابل نہ چھوڑوں جس نے اپنے مکان کی چھت سے میرے اوپر رنگ کی پوری بالٹی اُلٹ دی تھی لیکن اس وقت بھی عقل نے ساتھ دیا اور میں نے رکشہ والے سے کہا واپس ہوٹل چلو۔
آج کے بعد شاید میں چند روز حاضر نہ ہوسکوں یہ معالج کا مشورہ ہے اور میری صحت کی مجبوری لیکن اگر کوئی ایسی ہی بات ہوگئی جس کے لئے میرے دل نے مجھے آواز دی تو اس کی خلاف ورزی بھی ہوسکتی ہے آپ سے اپنے لئے دعا کی درخواست ہے۔ اور یہ گذارش کہ میں نے اگر کوئی بات ایسی لکھ دی ہو جو شریعت کے خلاف ہو یا ملت کے جذبات کو ٹھیس پہونچانے والی ہو تو بے تکلف اس سے مطلع فرمائیں میرا ٹیلی فون نمبر ہے 0522-2622300 ۔

«
»

ملک کی تقسیم کیلئے جناح سے زیادہ نہرو، پٹیل ذمہ دار

جرائم کے بڑھتے مانسون کے آگے انتظامیہ کی خودسپردگی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے