جرائم کے بڑھتے مانسون کے آگے انتظامیہ کی خودسپردگی

کہنے کو جرائم آج پوری دنیا میں ہورہے ہیں اور ہر جگہ ان کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے لیکن ہمارے ملک میں جرائم کی رفتار اس کی آبادی میں اضافہ سے کہیں زیادہ ہے۔چنانچہ ۱۹۹۱ء سے ۲۰۰۰ء کے درمیان اگرچہ ۲۵ فیصد آبادی بڑھی مگر اس دوران جرائم کی تعداد میں ۵۰ فیصد کا اضافہ نوٹ کیا گیا جبکہ جرائم کے اعداد وشمار کی کھوج کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ واقعات جن کی تفصیلات عام طور پر معلوم ہوجاتی ہیں وہ حقیقی طور پر رونما ہونے والے واقعات کا بہت کم حصہ ہوتے ہیں اور حکومت ان کی تفصیل جاننے کے بعد واحد کام یہ کرتی ہے کہ پولس کی بھرتی میں بہت معمولی اضافہ کردیتی ہے مگر اضافہ کے بعد بھی جرائم کی شرح میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی کیونکہ مجرمانہ سرگرمیوں پر نظر رکھنے والی پولس بھی جرائم کا انسداد نہ کرکے مجرموں کی پشت پناہ بن جاتی ہے، آج اگر ہمارے معاشرے میں قتل وغارت گری، ڈاکہ، لوٹ اور عصمت فروشی، عصمت دری روز مرہ کا معمول بن گئے ہیں تو اس کی بنیادی ذمہ داری انتظامیہ اور اس پولس پر عائد ہوتی ہے جس پر سالانہ کروڑوں اربوں روپے خرچ ہورہے ہیں۔
جرائم میں روز مرہ اس اضافہ کا دوسرا سبب یہ ہے کہ ہمارے ملک کے عام لوگ سماج دشمن عناصر سے مقابلہ کی ہمت کھو بیٹھے ہیں وہ اپنی نگاہوں کے سامنے ظالم کے ظلم اور مظلوم کی بے کسی کو دیکھتے ہیں لیکن مداخلت کی جرأت کرتے ہیں، نہ مجرموں کی نشاندہی اور نہ عدالت تک جاکر ان کے خلاف گواہی دینے کا حوصلہ دکھاتے ہیں جبکہ یہ طرز عمل کسی بھی ذمہ دار شہری کے شایانِ شان نہیں انسانی خودداری کا تقاضا یہ ہے کہ اپنی جان خطر ہ میں ڈالکر بے گناہوں کی زندگی کو بچالیا جائے۔ 
سماج دشمن عناصر کی سرگرمیوں میں اس ہوش ربا زیادتی کی تیسری وجہ یہ ہے کہ آج ایسے عناصر کو سماج میں باعزت مقام دے دیا گیا ہے، تمام اخلاقی اقدار کو بالائے طاق رکھ کر انہیں نہایت بے ڈھٹائی کے ساتھ سیاسی جماعتوں میں جگہ دے دی گئی ہے الیکشن کے موقع پر ٹکٹ پیش کردیئے جاتے ہیں اور جو جتنا بڑا مجرم ہے اسی قدر اس کے اثر ورسوخ سے فائدہ اٹھایاجاتا ہے ظاہر ہے کہ معاشرتی اقدار میں یہ تبدیلی ایک دو سال کا نہیں بلکہ گذشتہ چالیس پچاس برس کے سیاسی عمل ودخل کا ایک فطری نتیجہ ہے۔
پہلے عام طور پر کم پڑھے لکھے جرم کی دنیا میں پناہ لیتے تھے ، آج تجربہ میں یہ بات آرہی ہے کہ نوجوان اور تعلیم یافتہ عناصر کی تعدا دمجرمانہ سرگرمیوں میں بڑھ رہی ہے جو سائنس وٹیکنالوجی کی ترقی کا منفی استعمال کرکے راتوں رات مال دار بن جانا چاہتے ہیں، جعلی کرنسی، جعلی سرٹیفیکٹ ، جعلی پاسپورٹ اور ویزا کے واقعات کے علاوہ سائبر کرائم جیسی نئی اصطلاحات اسی لئے وجود میں آرہی ہیں۔
دوسری طرف ہمارے ملک کے قانون میں انصاف دلانے کی طاقت کم ہوتی جارہی ہے، معاشرہ میں نا انصافی، ظلم وزیادتی ، حق تلفی اور بداخلاقی کا بول بالا ہے، جرائم کے اس مانسون کو روکنے کیلئے جن تجاویز پر اب تک غور وفکر ہوا، وہ بھی بارآور ثابت نہیں ہوسکیں کیوں کہ ایسی تجاویز کے محرکین یہ نہیں جانتے کہ جرم کہاں سے کہاں پھیلتا اور کیونکہ برگ وبار لاتا ہے ان میں سے بعض کے نزدیک لباس کی یکسانیت، زبان وتہذیب کا اشتراک، ملک وقوم کی خدمت اور کچھ کے خیال میں علم ودولت، وسائل کی افراط اور مادری ترقی اس کا حل ہے لیکن ہمارا کہنا ہے کہ جرائم کی دنیا کو بدلنے میں دل کا بڑا کردار ہے اور جب تک دل کی دنیا نہ بدلے گی زیادہ فائدہ نہ ہوگا کیونکہ پوری دنیا کی باگ ڈور دل کے ہاتھ ہوا کرتی ہے، زندگی کا تمام بگاڑ اسی دل سے شروع ہوتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے سب جگہ پھیل جاتا ہے اس لئے ہمارے مصلحوں اور سماجی خدمت گاروں کا یہ فرض ہے کہ وہ معاشرہ سے جرم کا انسداد کرنے کے لئے صرف انتظامیہ، پولس اور سیاست دانوں پربھروسہ نہ کریں بلکہ ذمہ دار شہری بنانے کی جدوجہد بھی کریں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جو لوگ دل کو درست کرنے کی دعوت دے رہے ہیں ان کے بلاوے کو مجذوب کی بڑ سمجھ کر ٹال نہ دیں ورنہ معاشرے میں مجرموں کی تعداد اسی طرح بڑھتی جائے گی اور اس سلسلہ کا کوئی فروعی علاج کارگر ثابت نہ ہوگا۔

«
»

پانچ منٹ

ہندوستان تمام مسلمانوں اور انسانوں کا آبائی وطن ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے