خاك سے اٹھتی ہے گردوں پہ گذر ركھتی ہے

اس كے سینے میں وہ نفخۂ الہی اور روح ربانی ہے جس كے بارہ میں خود اسكا خالق یوں گویا ہے "ونفخت فیہ من روحی” (میں نے اس میں اپنی روح پھونك دی)۔ یہی وہ نفخۂ ربانی ہے جو اس مٹی سے بنی ہوئی مخلوق كو ایك الگ ہی مخلوق بنادیتی ہے جس كی عظمتوں كے سامنے فرشتے بھی سجدہ ریز ہوجاتے ہیں ۔
اگر انسان خود اپنی حقیقت سے واقف ہوجائے اور اپنے اندر چھپے ہوئے اس الہی پہلو كی طرف متوجہ ہوجائے تو وہ كچھ اور ہی بن جائے جس كا كوئی مقابلہ نہ كرسكے بلكہ آسمان وزمین كی كوئی مخلوق اپنی ہر قوت وتوانائی اور عظمت وسطوت كے باوجود اس كی خاكِ پا كو بھی نہ پاسكے۔
یہ ایك چنگاری ہے جو اس كے پہلو میں دبی رہتی ہے، مادیت خواہشات اور شہوتوں كے ملبے تلے دم توڑتی اور سسكتی رہتی ہے، بلكہ ضلالت وگمراہی كی گھٹاٹوپ تاریكیوں میں اس كی طرف نگاہ تك نہیں جاتی، جسد خاكی اور قفسِ عنصری كا منوں بوجھ اس پر پڑا رہتا ہے بلكہ یہ مادی جسم ایك طرح سے اس كے لئے حجاب ہے جو اس پر پردہ ڈال دیتاہے اور یہ كثافت آلود مادی آنكھیں ان حجابوں كو چیر كر اس تك رسائی بھی حاصل نہیں كر پاتیں، وہ ایك لو كی مانند ہے جو اندر ہی اندر تڑپتی اور پھڑكتی رہتی ہے، وہ كسی ایسے انسان كی منتظر اور پیاسی رہتی ہے جو اپنے اندر دم عیسی كی سی تاثیر ركھتا ہو جو اپنی ایك پھونك سے اس مادی نشیمن كو جلاكر خاكستر كردے ، اور اس پر جمی ہوئی تہ بتہ غبار كوہٹاكر اس خوابیدہ چنگاری كو شعلۂ جوالہ بنا ڈالے، پھر دیكھتے ہی دیكھتے وہ ایك نیا ہی انسان بن جاتاہے ایسا لگتا ہے كہ وہ كوئی نئی مخلوق ہے جس نے از سر نو جنم لیا ہے۔ "يهدي الله لنوره من يشاء” (اللہ جس كی چاہتا ہے اپنے نور كی طرف رہنمائی كرتاہے)، اور "ومن لم يجعل الله له نورا فما له من نور” (جس كے لئے اللہ نے ہی نور نہ بنایا ہو اس كے لئے كوئی نور نہیں)۔
جیسے اس كے خالق كے نور سے پوری كائنات روشن اور منور ہے اور اس كے رخِ انور كی تابانی ودرخشانی سے ظلمتوں كے پردہ چاك ہوجاتے ہیں اسی طرح اس كا خلیفہ جس پر اس نے اپنے نور كی ایك ہلكی سی پرچھائی ڈالی ہے جب وہ جاگ جاتا ہے اور اس كے باطن میں پڑا ہوا یہ نور جگمگا اٹھتا ہے، اور جب وہ اس ذات لافانی اور ابدی وسرمدی سے جڑ جاتا ہے اور اس چشمۂ حیواں سے سیراب ہونے لگتا ہے تو اس ظلمت كدہ میں بھی نور كی ندیا ں رواں ہوجاتی ہیں اسكا ہر ہر ذرہ چمك اٹھتا ہے، ساتوں طبق روشن ہو جاتے ہیں ، تاریكی پیٹھ پھیركر بھاگ جاتی ہے تہ بتہ جمے ہوئے بادل چھٹ جاتے ہیں، كرۂ ارضی ایك بقعۂ نور میں تبدیل ہوجاتا ہے، ایسا لگتا ہے كہ جیسے آسمان سے ستارے زمین پر اتر آئے ہیں، اور اسكا ہر ذرہ مہر تاباں بن كر جگ مگ جگ مگ كرنے لگاہے۔ "وأشرقت الأرض بنور ربها” (زمین اپنے رب كے نور سےجگمگا اٹھی)۔ 
ہائے رے انسان تیری اٹھان كتنی عظیم تھی لیكن تو كس قدر حقیر ہوچكا ہے كتنی پستی میں جاگرا ہے ، تیرے اندر كتنی سعادتیں پنہاں ہیں لیكن ہائے افسوس تونے شقاوت وبدبختی كی چادر اوڑھ لی ہے اور اسی میں محو خواب ہے، آہ تو مسجود ملائك تھا اور تیرے سر پر خلافت كا تاج ركھا گیا تھا لیكن آج تو پستی كا مكیں بن چكا ہے اور خود اپنی بد كرداری سے تو نے یہ ثابت كردیا ہے كہ تو اس لائق نہیں ع
"ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم كو دے مارا”
تو خوداپنی حقیقت سے واقف نہیں ، تو اپنے مقصد وجود كو بھول چكاہے اور در در كی ٹھوكریں كھارہاہے ،ادھر ادھر بھٹك رہا ہے۔ كاش تجھے معلوم ہوتاكہ تیرے پہلو میں وہ نور ہے جو بیاباں كی شب تاریك میں قندیلِ رہبانی بن سكتا ہے، جو تیرہ وتاریك رات كو پرنور كر سكتاہے، تیرے دل میں وہ نفخۂ ربانی ہے كہ اگر تو "قم باذن اللہ” كہہ دے تو مردے اٹھ كھڑے ہوجائیں، تیرے ہاتھ میں وہ عصائے موسے ہے جس كی ضرب كلیمی اور معجز انگیزی سے تو واقف نہیں، جس كی ایك ضرب اگر پتھر پر پڑے تو اس سے چشمے ابل پڑیں جس سے پوری انسانیت سیراب ہو، جسے تو اگر سمندر پر مارے تو اسمیں راستے بن جائیں جس پر چل كر انسانیت كا قافلہ امن وامان كے كنارے پہونچ جائے، جسے اگر تو زمین پر ڈال دے تو وہ افعی موسی بن كر زمین پر پھیلے ہوئے تمام زہریلے سانپوں كو نگل لے جو اپنی زہرناكیوں سے پوری دنیا كی فضا مسموم بنا چكے ہیں جس سے دلوں میں نفرتیں اور دشمنیاں پیدا ہوچكی ہیں اور ایك انسان دوسرے انسان كے خون كا پیاسا بن چكا ہے۔
یقینا تو ضلالت وگمراہی كے دلدل میں پھنسا ہواہے، تو سڑی ہوئی مٹی میں رل گیا ہے، آج تیری سڑان سے پورا ماحول متعفن ہے لیكن افسوس كہ خود تجھے اپنا تعفن پریشان نہیں كرتا ، تیری بدبو سے سارے وجود كا دم گھٹ رہا ہے لیكن خود تجھے اپنی بدبو محسوس نہیں ہوتی، تو شہوت وہوس رانی كی مضبوط زنجیروں میں جكڑ چكا ہے، تیرے دل پر حیوانیت كے دبیز پردے پڑے ہوئے ہیں، اور تیری آنكھوں میں مادیت نے دھول جھونك دیا ہے، یہاں تك كہ تجھے اپنی آنكھوں كے سامنی كی چیز نظر نہیں آتی، تو ادھر ادھر بھاگتا پھرتا ہے ہر در كی خاك چھانتا ہےلیكن تجھے كہیں حل نظر نہیں آتا، آخر كار تو تھك ہار كر بیٹھ جاتا ہے، كاش كہ تجھے پتہ چلتا كہ تو جس اپسرا كی تلا ش میں ہے اور جس فردوس گم گشتہ كے پیچھے دوڑا جارہا ہےوہ خود تیرے اندرہی موجود ہے لیكن تو اس سے بے خبر ہے اور تجھے اس كا شعور بھی نہیں۔ 
اقبال كی نظر ہلالِ نو پر پڑتی ہے تو اس سے مخاطب ہوكر اس كی آڑمیں نوجوانوں كو یوں پیغام دیتا ہے ع
بر خود نظر كشا زتہی دامنی مرنج در سنیۂ تو ماہِ تمامے نہادہ اند
اے ہلالِ نوتو اپنی تہی دامنی كا غم نہ كراور اپنی بے بضاعتی كا شكوہ نہ كر ذرا اپنے آپ پر نظر تو ڈال كر دیكھ لے كے تیرے سینے میں ہی بدرِ كامل پوشیدہ ہے۔
فارسی كا عظیم شاعر میرزا بیدل انسان كو جہانِ رنگ وبو كے طلسموں كوتوڑ كر جہانِ دل كی طرف آنے اور اس كی نیرنگی سے وجد انگیز ہونے اور اس بحر بیكراں میں غوطہ زن ہوكراس كے لؤلؤ ومرجان سے متمتع ہونے اور اسكے اسرار ورموز سے واقف ہونے كی دعوت دیتے ہوئے كہتا ہے ع
ستم ست گر ہوست كشد كہ بہ سیر سر وسمن درا تو زغنچہ كم نہ دمیدئی درِ دل كشا بہ چمن درا
ارے ناداں ! اس سے بڑھ كر ستم ظریفی كیا ہوگی كہ تیرے اندر گل وبلبل كے نغموں اور گلشن ہستی كی رنگینیوں سے لطف اندوز ہونے كے جذبات انگڑائیاں لیں ، كیا تو نہیں جانتا كہ تیرے خم خانۂ دل میں جو بربط ومضراب ہیں ان كی موسیقیت و نغمگی كسی بلبل خوش نوا كی نغمہ سرائی اور طرب انگیزی سے كم نہیں، تیرے چمنستان دل میں جو باغ وبہار ہے اس كی شگفتگی وتازگی اور اس كے روح پرور جھونكوں كی دل آویزی زلفِ لیلے كے عطر بیز اور دلنواز جھونكوں سے كم نہیں، تو كہاں بھٹك رہا ہے ذرا اپنے دل كی دنیا كا دروازہ تو كھول اور ذرا جھانك كر دیكھ كہ اس میں كتنی رعنائی اور گل افشانی ہے اور كس قدر كیف وسرور اور سرمستی ہے۔
اسی بات كو میرزا درد نے اس انداز میں ادا كیا ہے ع
جائیے كس واسطے اے درد میخانہ كے بیچ كچھ عجب مستی ہے اپنے دل كے پیمانہ كے بیچ
لیكن ہائے رے انسان تو كہاں مارا گیاتیری مثال اس آدمی كی طرح ہے جو صحراء میں سراب كو آبِ زلال سمجھ كر دوڑتا رہتا ہے دوڑتا رہتا ہے اس تمنائے خام میں كہ شاید اس كی تشنہ لبی دور ہو اور اسكے خشك ہونٹوں كو تری میسر ہو، لیكن سوائے حسرت ویاس كے اسكے ہاتھ كچھ نہیں آتا آخر كار وہ دم توڑ دیتا ہے۔ قرآن مجید نے كتنے بلیغ پیرائے میں یہ تمثیل بیان كی ہے "والذین كفروا أعمالهم كسراب بقيعة يحسبه الظمآن ماء حتى إذا جاءه لم يجده شيئا…” (جن لوگوں نے كفر كیا ان كے اعمال اس سراب كی مانند ہیں جسے پیاسا چٹیل میدان میں پانی سمجھ كر اس كے پیچھے بھاگتا رہتا ہے لیكن جب اس كے پاس پہونچتاہے تو كف افسوس ملتا رہ جاتا ہے كہ كچھ ہاتھ نہیں آیا) 
یہی مثال ان لوگوں كی ہے جو اپنی حقیقت سے غافل ہیں اور دنیا كے سراب كے پیچھے اسی كو سب كچھ سمجھ كر دوڑ رہےہیں جب موت انكا قصہ تمام كردیگی اور خدائے رب العزت كے روبرو پیش ہوں گے تب اس حقیقت پر سے پردہ اٹھے گا اس وقت ان كے ہوش ٹھكانے لگ جائیں گے كہ ہم كس وادی غیر ذی زرع میں بھٹكتے رہے اور عمر عزیز كی متاع گرانمایہ اور بیش قیمت پونجی كہاں كھودی ہا ئے ہم بڑے گھاٹے میں رہے۔ (قل هل ننبئكم بالأخسرين أعمالا الذين ضل سعيهم في الحياة الدنيا وهم يحسبون أنهم يحسنون صنعا أولئك الذين كفروا بآيات ربهم ولقائه فحبطت أعمالهم فلا نقيم لهم يوم القيامة وزنا ذلك جزاؤهم جهنم بما كفروا واتخذوا آياتي ورسلي هزوا)
كہو كیا ہم تمہیں بتائیں كہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناكام ونامراد لوگ كون ہیں؟ وہ كہ جن كی ساری سعی وجہد دنیا كی زندگی ہی میں گم ہو كر رہ گئی اور وہ اس خوش فہمی میں پڑے رہے كہ وہ بہت اچھے كام كر رہے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب كی آیات كو ماننے سے انكار كیا اور اس كے حضور پیشی كا یقین نہ كیااس لئے ان كے سارے اعمال ضائع ہوگئے قیامت كے روز ہم انہیں كوئی وزن نہیں دیں گے، ان كا بدلہ جہنم ہے كیونكہ انہوں نے كفر كیا اور میری آیتوں اور میرے رسولوں كا مذاق اڑایا۔

«
»

پانچ بیماریاں ۔ایک ٹیکہ

دولت کی بھوک اور شہرت کا روگ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے