دینی مدارس دینی فہم ودانش کے سرچشمے

عہد رسالت سے لے کر قیامت تک اسلام اور مسلمانوں کی شناخت اسی وحی پر ایمان وعمل سے وابستہ ہے اور رب کائنات نے اس کی حفاظت وبقاکا ذمہ بھی لیا ہے جس کا عملی طریقہ یہ ہے کہ تاریخ کے ہردور میں وحی پر مبنی اسلامی تعلیمات کے حصول اور فروغ کے لئے اُمت مسلمہ میں سے ایسے باکمال رجال علم وعمل پیدا ہوتے رہے ہیں جنہوں نے علم وآگہی اور جہد وعمل کے آفتاب وماہتاب بن کرنسل درنسل یہ ورثہ منتقل کیااور بحمد اللہ آج نزول وحی کے دور سے چودہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی قرآن کریم __اپنے الفاظ وکلمات کے علاوہ حرکات وسکنات سمیت __اور یہ آسمانی تعلیمات ،تاریخ کے مختلف ادوار میں ہرطرح کے نامساعد حالات کے باوجود من وعن ، پوری طرح محفوظ ہیں۔
بشری تاریخ میں وقفے وقفے سے تمدنی اور سماجی تغیرات ایک اٹل حقیقت ہے جبکہ وقت کے ساتھ ساتھ انسانوں کی نفسیات میں بھی اتارچڑھاؤ آتا ہے ،اِن زمینی حقائق کو علوم دینیہ کے حامل ، علمائے راسخین نے بھی ہمیشہ پیش نظر رکھایہی وجہ ہے کہ ہرجگہ کے معاشرتی ماحول میں ، شرعی احکام ، اقدار اور تہذیبی روایات کی حقیقی روح کو برقرار رکھتے ہوئے علم وآگہی کے لئے بتقاضائے حالات، تجدید ی اسلوب اخیتار کرنے سے کبھی دریغ نہیں کیاگیا،تعلیم وتعلّم قدم بقدم کا یہ تاریخی تسلسل خلافت راشدہ سے لے کر آج تک ،علوم ومعارف کی تدوین تصنیف اور تدریس کی تاریخ کا روشن باب ہے ، یہاں تک کہ جب انگریز برصغیر پر قابض ہوا اور اس علاقے سے تقریباً ہزار سالہ مسلم اقتدار کا خاتمہ ہوگیا،اُس دور میں بھی دینی فہم وآگہی کے لئے ، جگہ جگہ مدارس قائم تھے کہ قرآن وسنت کی ہدایات کے مطابق دینی تعلیم وتربیت،کلمہ گومسلمانوں کے لئے اساسی اہمیت کا معاملہ ہے ، قرآن کریم کی پہلی وحی کی ابتدائی آیات ہی قراء ۃ (پڑھنے) تعلیم اور قلم کے ذکر پر مشتمل ہے ، مشہور مؤرخ مقریزی نے اپنی کتاب خطط میں، دہلی شہر سے متعلق ،شاہ محمد تغلق کے دور کا حال لکھا ہے کہ اس شہر کا رقبہ چالیس مربّع میل ہے اور اس میں ایک ہزار مدارس قائم ہیں___ انگریز نے آکر سب سے پہلے ان مدارس کا قلع قمع کیا کہ مسلمانوں کی دینی روایات اور تہذیبی اقدار کی آبیاری یہیں سے ہوتی تھی ، انگریز نے کمال ہشیاری سے یہاں ایسا نظام تعلیم رائج کیا جس کی روح لارڈ میکالے کی رپورٹ میں کچھ اس طرح تھی :
"ایک ایسی جماعت تیارکی جائے جو رنگ ونسل میں تو ہندوستانی ہومگر فکر وعمل کے لحاظ سے مغر ب کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہو۔”
___________________________________________
انگریز کے قبضے کے بعد یہاں کے مسلمان، ظلم وجبر کے المناک حالات سے دوچار ہوئے، نامورعلماء ومشائخ اور مسلم آبادی کے قائدین کو جگہ جگہ چوراہوں پر، تختہ دار پر شہید کیا گیا اور مسلمانوں کو اگر ایک ہزار سالہ حکمرانی سے محروم کیا گیا تو لشکر کشی ، سیاسی حربوں اور ہرطرح کے کشت وخون کے علاوہ ، ان کی معیشت اور نظام تعلیم پر بھی ضرب لگائی گئی تاکہ برصغیر کے مسلمان پسماندگی اور بے علمی کی وجہ سے سرنہ اٹھاسکیں۔ 
لیکن ان ناگفتہ بہ حالات اورظالمانہ طرزِ عمل کے باوجود مسلمان سخت جان ثابت ہوئے اور بہت کچھ دینی وتہذیبی اثاثہ جات گنواکر بھی اپنے دین سے دست بردار نہیں ہوئے ، اس وقت کچھ ایسے ربّانی علماء بھی تھے جنہوں نے تنہائی اور گمنامی میں جبروتشدّدکے سخت ترین ناسازگار حالات کے باوجود ،درس وتدریس کا سلسلہ جاری رکھا تاکہ مسلمان اپنے دین اوراس کی اقدارسے وابستہ رہے ،اسی سلسلے کی ایک کڑی وہ تھی جب متحدہ ہندوستان میں یوپی کے ضلع سہارنپور کے ایک قصبے ،دیوبند میں مدرسہ کا آغاز___انار کے ایک درخت کے سایہ میں___ صرف دوہی افراد سے ہواتھا جن میں ایک استاذ اور ایک شاگردتھے ، بعض دیگر جگہوں پر بھی اسی نہج کو اختیار کیا گیا تھا کہ بڑے بڑے شہروں میں ، باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ کسی ادارے کے افتتاح کے لئے حالات مناسب نہیں تھے۔
یہ بالکل ابتدائی درجے کی خالص دفاعی نوعیت کی کوشش تھی جس کی روسے قابض مسیحی حکمرانوں کی طرف سے مسلمانوں کو مرتد بنانے کی مہم جوئی کا مقابلہ کرنے، مسلمانوں کی نسل کو کفرکی یلغار سے بچانے، اور علمی وعملی طورپر اسلامی اقدار اور دینی تعلیمات کی حفاظت کے لئے ،اللہ کے نام پرنظریاتی اور عملی سنگ بنیاد کا ابتدائی خاکہ بروئے کارلایا گیا تھا۔اللہ رب العزت نے اس چھوٹے سے پودے کو اس طرح بارآور کیاکہ رفتہ رفتہ اس سے ،سوسال کے دورانیہ میں ایساپربہار شجرہ طیبہ وجود میں آگیا جس کی شاخیں،بحمد اللہ، ایشیا سے نکل کر اب دیگر براعظموں میں بھی برگ وبار لارہی ہیں۔ پاکستان میں شہر شہراورقریہ قریہ اور قائم ان مدارس کی تعداد تقریباً بیس ہزار کے لگ بھگ ہے اور وفاق المدارس سے منسلک ان مدارس میں صرف تحفیظ قرآن کریم کے ہی شعبے میں سالانہ تقریباً ساٹھ ہزار حافظ طلبہ وطالبات تکمیل حفظ کی دولت ونعمت سے سرفراز ہوتے ہیں۔
جن مقاصد کے لئے یہ مدارس بنے تھے اللہ کے فضل وکرم سے وہ مقاصد حاصل ہورہے ہیں ، دینی اقدار اور اسلامی علوم بحمد اللہ محفوظ ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں ان مدارس سے وابستہ مسلم گھرانوں کے چشم وچراغ ، بچے اور بچیاں جہاں دینی آگاہی اوراسلامی اخلاق واعمال سے بہرہ ور ہورہے ہیں وہاں ان کی وجہ سے ملک میں خواندگی کی شرح میں بھی اضافہ ہے بحمد اللہ ان مدارس کی فضا مثالی طوپر پرامن ہے ،یہ مدارس لسانی ، علاقائی اور نسلی تعصبات کے جراثیم سے پاک ہیں اور یہاں اساتذہ اور طلبہ کے درمیان بیگانگت ، تناؤ اور بے احترامی کی نہیں،خیر خواہی اور احترام کی فضاہے ، جبکہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کا ماحول سب کے سامنے ہے۔ 
یہ مدارس چونکہ موجودہ دور میں دین اور شعائر دین کے تحفظ کا واحد ذریعہ ہیں اس لئے معاندین اسلام کو ایک آنکھ نہیں بھاتے جس طرح کسی بھی مسلمان ملک کی سائنسی اور معاشی ترقی ان کو ہضم نہیں ہوتی ، پاکستان کی جوہری صلاحیت بھی توان کی آنکھوں میں کانٹا بنی ہوئی ہے ___ دینی غیرت وحمیت کی بقاء، دفاع ملک وملّت کے لئے جان کی بازی لگانے، اور عملی مسلمان بننے جیسے اوصاف کاحصول بھی ان مدارس کے ثمرات میں سے ہے، یہ دینی غیرت وحمیت ہی کا کرشمہ تھا کہ افغانستان پر روسی یلغار اور اس کی رسوا کن پسپائی کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ۱۳ سالہ جنگ سے بھی ، بہت کچھ گنوانے کے باجود، مغرب کی خواہش پوری نہیں ہوسکی ، اوردوسپر طاقتوں کی خوفناک جنگی مشین اُس جذبہ فداکاری کو کچل نہیں سکی جوجہاد فی سبیل اللہ کے آسمانی تعلیمات پر مبنی جذبہ ہے،یہی جذبہ ہردور میں دشمنان اسلام کی راہ میں سنگ گراں رہا ہے ، اسی لئے یہ غیر مسلم طاقتیں کسی مسلمان کے دینی تصلّب اور شرعی احکام میں اس کی پابندی وپختگی کو برداشت کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہیں اور ہر اُس کھڑکی کو بند کرنے پر تلی ہوئی ہیں جس سے دینی فہم ودانش کی روشنی آتی ہو اور عملی مسلمان بننے کی صدابلند ہوتی ہو۔ ؂
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تاا مروز چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی
___________________________________________
لیکن افسوس اس کا ہے کہ دینی مدارس کے خلاف بہت سی بے بنیاد باتیں اور غلط پروپیگنڈا بسااوقات "اپنوں ” کی طرف سے بھی آنے لگتا ہے ۔ بالعموم یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے کبھی کسی مستند دینی ادارے میں جاکر نصاب ونظام سے متعلق ذمہ دارانہ آگاہی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی، مغربی میڈیا جس طرح کے جملے ،ان مدارس پر کستا ہے اور جس قسم کی الزام تراشی کرتا ہے ، وہ سب کچھ "ہمارے لوگوں” ٰ کی زبان وقلم پر بھی جاری ہوجاتا ہے ، مغربی میڈیا کا یہ خوفناک شاطرانہ ہنر ہے کہ وہ اپنی بات دوسروں کے حلق سے نکلوانے او ر دوسرے کی نوک قلم سے لکھوانے میں کامیاب ہوجاتا ہے ۔
اس کی تازہ مثال یہ ہے کہ ۱۶؍ دسمبر ۲۰۱۴ ؁ ء کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں نے حملہ کرکے معصوم بچوں اور ان کے قابل احترام اساتذہ کو سفاکانہ دہشت گردی کا نشانہ بنایا جو بلاشبہ اپنی نوعیت کا المناک سانحہ ہے اور جس کا درد ملک کے ہر باشندے نے اپنے دل میں محسوس کیا ہے ، شاید ہی ملک کا کوئی طبقہ ایسا ہو جس نے اِ س واقعے پر اپنے رنج وغم اور کرب والم کااظہار نہ کیا ہو اور اس المناک سانحے کے ذمہ داروں کو عبرت ناک سزادینے کا مطالبہ نہ کیا ہو ، حکومت اور ریاستی ادارے بھی اِ س ضمن میں سرگرم عمل ہیں اور پورے ملک کے عوام کی انہیں مکمل تائید حاصل ہے ___ ہم سب کی دعاء ہے کہ یہ ملک آئندہ اس طرح کے سانحات سے محفوظ رہے ، اور پاکستان کا کوئی بھی شہری کسی بھی جگہ قتل ، اغوا ، بھتہ خوری ، چوری ڈکیتی اور دہشت گردی کا نشانہ نہ بنے ۔
قرآن کریم جو ہمارے دین کا سرچشمہ ہے اس میں ایک بے گناہ کے قتل کو تمام انسانوں کے قتل کے برابر سخت مجرمانہ فعل قراردیا گیا ہے جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کے مطابق ایک مسلمان پر حملہ کعبۃ اللہ پر حملہ کے مترادف ہے ، ہمارے دین کی یہ بھی واضح ہدایت ہے کہ دشمن کے ساتھ عین میدانِ جنگ میں بھی ، جب ہرطرف خون کی ندیاں بہَ رہی ہوں اور کشتوں کے پشتے لگ رہے ہوں دشمن کے کسی بچے اور کسی عورت پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں ہے___ پشاور کے اس المناک سانحے کے پس پردہ حالات ومحرکات نہیں کہا جاسکتا کہ مستقبل قریب میں سامنے آسکیں گے یا نہیں لیکن بیرون ملک بھی وطن عزیز کے دشمنوں کی کمی نہیں ہے ، ہم ماضی میں بھی بہت زخم کھاچکے ہیں ، آرمی پبلک اسکول کا سانحہ،منصوبہ بندی اورگہرائی کے لحاظ سے کسی بھٹکے ہوئے مختصر ٹولے کی حرکت نہیں معلوم ہوتی ، ملک کی ایجنسیوں کے پاس یقیناًمعلومات ہوں گی بلوچستان اور خیبر پختون خواسمیت، ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کے ان واقعات کا درست کھوج لگانا سب سے بڑا قومی چیلنج ہے ۔
پشاور یا اس جیسے دیگربے رحمانہ سانحات کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے_____ لیکن اس واقعے کے حوالے سے بہت سے تیروں کارخ دینی مدارس کی طرف بھی ہونے لگا ہے اور ان مدارس کی ساکھ خراب کرنے کے لئے من گھڑت الزامات کا سلسلہ جاری ہے ، خاص طور پر سیکولر ذہنیت کے عناصر نے اس واقعہ کو مدارس ، مساجد ، دینی وضع قطع اور اوردینی وشرعی امور کے خلاف ایک مورچہ بنالیا ہے ملک اور بیرون ملک اسلامی اقدار اور مسلم تہذیب سے عناد رکھنے والے ،برملادین سے عملی وابستگی کو انتہاء پسندی قرار دے رہے ہیں ،اور میڈیا پر بے سروپا الزامات کی بھرمار ہے ۔ 
اس لئے دوربیٹھ کراظہار خیال کرنے اور مغربی میڈیا ___جس کی اسلام دشمنی ڈھکی چھپی نہیں ہے___سے متأثر ہوکر مدارس پر سنگ باری کرنے والوں کے لئے چند حقائق کی طرف توجہ دلانا ناگزیر ہے ۔
دینی مدارس کے بارے میں شاید بے خبرلوگ یہ سمجھتے ہوں کہ یہاں چند مذہبی قصے کہانیاں، موت وحیات سے متعلق کچھ رسومات اور مختلف اوقات وواقعات کے لئے مذہب کے تعلق سے محض کچھ غیر ضروری چیزوں کی تعلیم کا انتظام ہوتاہوگا جو ریاست اور فرد کی حقیقی ضرورت نہیں ہے ، اس لئے ___ان ناواقف و معاند عناصر کے خیال میں___ان مدارس سے معاشرے کو کوئی فائدہ نہیں ہے ۔اور حکومت کو مداخلت کرکے ان کی "اصلاح ” کرنی چاہیے۔
___________________________________________
دراصل بے خبر لوگ اسلام اور اسلامی تعلیمات کو دنیا میں رائج دیگر مذہبی رسومات کی طرح ہی سمجھتے ہیں جوبہت بڑی غلط فہمی ہے ، بلاشبہ دیگر مذاہب انسان کے مید انہائے حیاۃ سے متعلق مفصل اور مستند ہدایات وتعلیمات سے تہی دامن ہیں چند رسومات ہی متعلقہ مذہب کا محور ہوتی ہیں اور ان سے بھی مذہب سے نکلے بغیر،جان چُھڑانا مشکل نہیں ہوتا ، مسیحیت ، یہودیت ، ھندوازم ، بدھ مت کسی بھی مذہب کے اساسی مآخذمیں سیاست ، معیشت ، معاشرت ، ایمانیات اور باطنی اخلاق سے متعلق ان دقیقہ رس اور حکیمانہ تعلیمات واحکام کا کوئی تصور بھی نہیں ہے جن کی تفصیلات قرآن وسنت میں ہیں ۔
جبکہ اسلام انسان کی پیدائش سے موت تک اس کی فکری اور عملی نشیب وفراز کے لئے باقاعدہ نظام حیاۃ اور حکیمانہ تعلیمات پر مشتمل مکمل دین ہے ، یہ مغربی تصور کا وہ مذہب نہیں ہے جو کارگاہ زندگی کے لئے، شب وروز کی سرگرمیوں کے لئے ، اجتماعی اور انفرادی معاملات کے لئے اور ظاہر وباطن کی اصلاح کے لئے کسی بھی راہنمائی سے یکسر خالی ہے ، یہی وجہ ہے کہ جب کبھی مغرب کا کوئی طالب حق وصداقت، حقیقت پسندانہ جستجو کرکے اسلام سے آگاہی حاصل کرتا ہے تو اس کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور اسلام عقیدے اور عمل سے اس کے دل میں اترجاتا ہے___دینی مدارس اسی دین حق کے احکام وتعلیمات کی مفصل آگہی کی درسگاہیں ہیں ، اس دین کی تعلیمات دنیا میں بھی سکون کی ضامن ہیں اور آخرت میں بھی فلاح کا واحد ذریعہ ہے ، اس اسلام کو بطور دین اور بطور نظام حیاۃ ہر صاحب ایمان کے لئے سمجھنا ضروری ہے ، اور ان دینی مدارس میں اللہ کے فضل وکرم سے ، اندرونی اوربیرونی عناصر کے بغض وعناد کے ہوتے ہوئے اور ہرطرح کے نامساعد حالات، معاشی مسائل اور دیگر مشکلات کے باوجود یہ مبارک سرگرمیاں جاری ہیں ___مسلمانوں کی معاصر تاریخ کا یہ المیہ ہے کہ ۵۶ ممالک پر اقتدار کے باوجود ، کسی ریاست کو تعلیمات اسلام کا مظہر نہیں کہا جاسکتا کہ یہ ریاستیں ایک طرف عالمی طاقتوں کے زیر اثر ، معاشی ، سیاسی اور تزویراتی دباؤ میں ہیں جبکہ ان سے وابستہ ارباب اقتداربھی اور یہاں کی بیوروکریسی بھی ،مخصوص سماجی اور تعلیمی ماحول کی تربیت یافتہ ، دین اور تعلیمات دین سے نابلد،بالعموم ، خالص مغربی سوچ کی حامل ہے اور اس طرح اسلام اپنوں میں بیگانہ بنا ہوا ہے ۔
پاکستان جو اسلام کے نام پر بناتھا ، یہاں کا نظام تعلیم اگر درست ہوتا اور حکومت عصری تعلیم کے ساتھ مستند دینی تعلیم کی بھی ذمہ داری لیتی تو یہ ملک عالم اسلام کا قبلہ بن جاتا ، لیکن یہاں تو عصری تعلیم بھی مختلف دھاروں میں منقسم ہے اورقیام پاکستان سے لے کر اب تک تقریباً ستر سال ہونے کو ہیں، لیکن اس طویل عرصے کے بعد بھی ہم اعلیٰ تعلیم ، فنی مہارت اور مطلوبہ ٹیکنالوجی میں خود کفیل نہیں ہوسکے ہیں نہ ملک میں قائم بڑے بڑے تعلیمی اداروں کی جاری کردہ ڈگری کو بیرونی دنیا میں کوئی پذیرائی حاصل ہے ___ ملک کے کسی شعبے میں ہنر سے متعلق اگر کوئی "جوہر قابل "نظر آتا ہے تووہ "باہر”کا تعلیم یافتہ ہے ۔ ان حالات میں ہمارا حوصلہ مندنوجوان اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے دیگر ممالک میں جاکر قسمت آزمائی پر مجبور ہے___ ؂ آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
جبکہ دینی مدارس نہایت محدود وسائل اور ہرطرف سے طعن وتشنیع کے باوجود ملک وملت کے لئے مفید خدمات انجام دے رہے ہیں ، یہاں کے ہرطالب علم کے لئے کم از کم مڈل تک عصری مضامین کی تعلیم لازمی ہے ، جبکہ بعض مدارس نے میٹرک کوبھی ضروری قراردیا ہے ، جس کے بعد شرعی اور عربی علوم وفنون پر مشتمل آٹھ سالہ نصاب ہے جو طالب علم کو ہمہ جہتی صلاحیتوں سے بہرہ ورکرتا ہے ۔اردو زبان جس کو ملک میں قومی اور دفتری زبان کا درجہ حاصل ہونا چاہیے تھا اب رفتہ رفتہ تعلیمی اداروں سے بھی خاصی حدتک بے دخل کی گئی ہے جبکہ سرکاری اداروں کے دفتری نظام میں تواس کا کوئی حصہ ہی نہیں ہے ، ملک بھر کے دینی مدارس میں عربی کے علاوہ یہی زبان ذریعہ تعلیم ہے اور ہر سال لاکھوں طلبہ اس زبان میں لکھنے پڑھنے اور اظہار خیال کی صلاحیت حاصل کرتے ہیں ، بلکہ بہت سے دیگر ممالک کے دینی مدارس میں بھی، اردو ہی ذریعہ تعلیم ہے ،دینی مدارس کے علاوہ ملک بھر میں شاید ہی کوئی دوسراادارہ اس زباں کامحافظ ہو۔
___________________________________________
ان مدارس میں بقدر ضرورت انگریزی اور فارسی بھی سکھائی جاتی ہے کہ انگریزی ملک کی سرکاری جبکہ فارسی کی ضرورت بھی علمی مآخذ سے استفادہ کے لئے مطلوب ہے ، ان تین زبانوں کے ساتھ مڈل تک کے تمام عصری مضامین مدارس کے نصاب کا بھی لازمی حصہ ہے۔
ان مدارس کا اصل مقصد قرآن وسنت کی تعلیمات واحکام پر توجہ مرکوز رکھنا ہے اس لئے مدارس کا مبتدی طالب علم سب سے پہلے قرآن کریم ناظرہ___ قواعد تجوید کی مکمل رعایت کے ساتھ___ مکمل کرتا ہے ، جو تلاوت قرآن کی اساسی ضرورت ہے اور ایک کلمہ گو مسلمان جہاں قرآن کریم کے احکام اور علوم سے آگہی کا مکلف ہے وہاں قرآن کریم کی تلاوت مستقل اور اولین مقصد ہے ، اس دوران بہت سے طلبہ دوتین سال کے دورانیہ میں حفظ قرآن کریم کی بھی سعادت حاصل کرلیتے ہیں جو مزید اعزاز ہے ___ پھر عربی زبان سیکھنے کے لئے ،عربی زبان کے قواعد ، لغات اور عربی ادب کی تعلیم، طالب علم کی ذہنی سطح کے پیش نظر، مختلف سالوں میں درجہ بدرجہ ترقی کرتی ہے تاکہ طالب علم قرآن کریم اور احادیث نبویہ کی زبان سے پوری طرح آگاہ ہوسکے اوراس کو دین کے ان بنیادی سرچشموں سے باقاعدہ استفادہ کرنے کے لئے درکار ناگزیر صلاحیت حاصل ہو۔
اس دوران اسلام کے عملی احکام سے آگاہی کے لئے فقہ ، اصول فقہ اور ترجمہ قرآن کریم کی تعلیم بھی نصاب کے آغاز ہی سے شروع ہوجاتی ہے جو پانچ چھ سال تک جاری رہتی ہے، یہاں تک کہ نصاب کا ساتواں اور آٹھواں سال حدیث اور تفسیر کے لئے مختص کئے جاتے ہیں ، اِس دوران منطق اور فلسفے کے فنون بھی بقدر ضرورت پڑھائے جاتے ہیں کہ علمی مآخذ میں ان کے حوالے آتے ہیں ، علم ہیئت اور فلکیات کا مضمون بھی پڑھایا جاتا ہے کہ اقات نماز کی تخریج اور رؤیت ہلال کے مسائل کے لئے اس فن کا حصول ناگزیر ہے ۔
عصری تعلیمی اداروں میں سیکنڈری کے مرحلے کے بعد طالب علم آئندہ کے میدان عمل کے لئے ، کامرس ، سائنس اور میڈیکل یا پری میڈیکل میں سے کوئی مضمون اختیار کرنے کا فیصلہ کرتا ہے اور پھر ایک ہی مضمون کی طرف توجہ مرکوز ہوجاتی ہے لیکن اس ایک مضمون میں بھی طلبہ کی صلاحیتوں میں زمین وآسمان کا فرق ہوتا ہے ۔ جبکہعربی مدارس کے طالب علم کوبہت سے علوم وفنون میں سے معتدبہٖ خوشہ چینی کرنی پڑتی ہے تاکہ یہ علوم تفقہ فی الدین کے حصول میں معاون بنیں اور دین کے اصل مآخذ قرآن وسنت تک رسائی آسان ہوسکے۔
آج کل بہت سے کالم نگار عربی مدارس کے نصاب ونظام سے متعلق ان کے حقیقی مقاصد اور درپیش مشکلات کو سمجھے بغیر دور دور کی کوڑیاں لارہے ہیں ، مثلاً یہ کہ عربی مدارس میں قرآن کریم کو ثانوی درجہ دیا گیا ہے اور یہ کہ قرآن کریم کے بجائے ،یہاں فقہ کی تعلیم پرزیادہ زور دیا جاتا ہے ۔
___________________________________________
یہ دونوں ہی باتیں ناواقفیت پر مبنی ہیں ، قرآن کریم کی اہمیت کا انداز اس سے لگایاجاسکتا ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم تو اس وقت ہی شروع ہوجاتی ہے جب بچہ شعور کی عمر میں قدم رکھنے لگتا ہے ،اور حروف کی پہچان اور ادائیگی پر قادر ہوجاتا ہے ۔ریڈنگ کا یہ مرحلہ حروف مفردہ اور کلمات مرکّبہ کی تعلیم وتربیت کے لئے بنیادی قاعدے (نورانی ، بغدادی ، یسرنا القرآن وغیرہ ) سے شروع کرادیا جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ کچھ عرصے میں بچہ روانی سے قرآن کریم پڑھنے لگتا ہے ، جبکہ باقاعدہ آٹھ سالہ عربی نصاب تو مڈل / میٹرک کی تکمیل کے بعد ہی شروع ہوتا ہے اور اس سے پہلے ایک بڑی تعداد حفظ بھی مکمل کرلیتی ہے ، بحمداللہ اس ملک میں ایسے متعددادارے وجود میں آچکے ہیں جو دس سال کے تعلیمی دورانیہ میں میٹرک کے ساتھ حفظ بھی کرادیتے ہیں ، پھر عربی نصاب کے پہلے سال عربی قواعد___نحو وصرف___ (گرامر) عربی زبان کے الفاظ اور عربی جملوں کی ابتدائی تعلیم ، طالب علم کو رفتہ رفتہ فہم قرآن کے قریب کرتی چلی جاتی ہے کہ ان مراحل کی تعلیم کا واحد مقصد ہی قرآن فہمی کی صلاحیت پیدا کرنا ہے ، دوسرے سال ،ثانویہ عامہ / دوم سے پانچویں سال عالیہ / سال اول تک ترجمہ قرآن اور طالب علم کی ذہنی استعداد کے پیش نظر، مختصر تفسیر کے ساتھ قرآن کریم نصابی طور پر مکمل ہوجاتا ہے ، پھر ساتواں (عالمیہ/ اول) اورآٹھواں سال (عالمیہ / دوم ) مرحلہ عالمیہ کے یہ دو سال استدلالی طور پر قرآن وحدیث کی عمیق اور جامع تعلیم کے لئے مختص ہیں ۔ دینی مدارس میں نصاب کی یہ تفصیل جس پر سالہا سال سے عمل ہورہا ہے ان مدارس میں پورے سال ذمہ دارانہ پابندی، یکسوئی اور اہتمام کے ساتھ زیر عمل رہتاہے جس کا کسی بھی مدرسہ میں جائزہ لیا جاسکتا ہے ۔ پھر بھی یہ کہنا کہ دینی مدارس میں قرآن کریم کو مرکزی نہیں بلکہ ثانوی حیثیت حاصل ہے ،کوتاہ بینی کے سوا کیا ہے ؟
دینی مدارس میں تعلیم کا دورانیہ کم از کم ۱۶ ؍ سال اور بعض مدارس میں ۱۸؍ سال ہے ، مختلف علوم وفنون پر مشتمل بھاری بھرکم نصاب کی وجہ سے سال کے تقریباً دس ماہ نہ طالب علم غیر نصابی مشاغل میں وقت لگاسکتا ہے اور نہ معلّم کو فرصت ملتی ہے ، یہاں بحمد اللہ نہ اسٹرائک کا کوئی ماحول ہے اور نہ غیر ضروری تعطیلات کا ، ہفتہ میں صرف ایک دن چھٹی کا ہوتا ہے اورتعلیم کے ایام میں یومیہ چھ حصص (گھنٹوں) کی درسگاہ میں حاضری ضروری ہوتی ہے ، جبکہ متعلقہ مضمون کو اچھی طرح سمجھنے اور مستحضر کرنے کے لئے طالب علم رات کو بھی مطالعہ اور باہمی مذاکرے (تکرار)کا پابند ہوتا ہے ،حاضر ی کی پابندی ،تعلیمی ہمہ گیری اور مسلسل محنت جس قدران مدارس میں ہوتی ہے ، عصری تعلیمی اداروں میں شاید ہی ایسا ہوتا ہو ۔
لیکن اس میں دورائیں نہیں ہوسکتیں کہ تعلیم کا میدان لچکداراوروسعت پذیر میدان ہے اور کسی بھی نظام ونصاب کو قطعی اور آخری نہیں کہا جا سکتا ، دینی مدارس کایہ موجودہ نہج تاریخی تسلسل کاایک حصہ ہے اورہرگز اس کا دعوی نہیں کیا جاسکتا کہ مزید بہتری کی گنجائش نہیں ہے نہ یہ کہنا درست ہے کہ نصاب ونظام کا یہنہج ہر طرح کے نقائص سے بالاتر ہے ، لیکن تعمیری تنقید کی بجائے ، بلاتحقیق ،بدگمانی اور الزام تراشی بھی نامعقول اور غیر منصفانہ طرز عمل ہے ۔
___________________________________________
ایک عجیب بات یہ بھی ہے کہ جب طالبان کا ذکر آتا ہے تو اس کے ساتھ ہی مدارس کی طرف بھی زبانیں پھسلنے لگتی ہیں لفظ” طالبان” جس نے پچھلے کم از کم تیس سال سے سیاسی ، عسکری اور عالمی میڈیا پر ایک اصطلاح کی شکل اختیار کرلی ہے "طالب” کی جمع ہے جو کسی بھی چیز کے طلب گار کے لئے عربی، اردو اور دیگر زبانوں میں مستعمل لفظ ہے لیکن فارسی اور پشتو بولنے والے علاقوں میں ، علوم دین کے طلب گاروں کے لئے اس کا استعمال زیادہ ہے ، پندرہ سال پہلے ، افغانستان میں روسی شکست وپسپائی کے بعدجب سخت ابتری اور افراتفری پھیلی تھی اور جگہ جگہ جنگجو سرداروں نے اپنی اپنی حکومتیں بنائی تھیں اورنوبت یہاں تک آگئی تھی کہ ایک ہی شہر کے مختلف حصوں پر متحارب گروہ قابض نظر آتے تھے جن کی ظالمانہ حرکتوں اور ناجائز مطالبات سے عوام کی زندگی اجیرن ہوگئی تھی ، کابل کی حکومت بالکل بے بس تھی اور عوام سخت اضطراب میں تھے کہ اس دوران عوام کا درد رکھنے والے چند فکر مند افراد نے اصلاح حال کے لئے قدم اٹھایا ان کے مقاصد دیکھ کر عوام کی طرف سے بھی ان کو بھر پور پذیرائی ملی اور دیکھتے ہی دیکھتے طالبان کے نام سے اٹھنے والی یہ تحریک قندھار اور دیگر صوبہ جات تک پہنچ گئی ، ایک دوسال کے بعد کابل بھی قبضے میںآ گیا___ "طالبان” نام کی حیرت انگیز پذیرائی دیکھ کر ، پاکستان میں بھی کچھ مہم جو لوگوں نے اس نام کا استحصال کرکے اسے استعمال کرنا شروع کردیا اور خیبر پختون خوا میں واقع مختلف سرحدی علاقوں میں بعض اطلاعات کے مطابق تیس ،چالیس گروہ وجود میں آگئے ،ان کو طالبان کے نام سے شہرت ملی اورحیرت انگیز طور پر "طالبان”نام کی وجہ سے مدارس کے ساتھ ان کی وابستگی کا غلط تصوّر پھیلتا چلاگیا ، افغانستا ن کے طالبان نے 9/11 سے پہلے اور بعد میں جو کچھ عسکری پیش قدمی کی ان کا ہدف ملک کے عوام نہیں مفسدین اور غیر ملکی قابض فوجیں تھیں یہ جنگ ملک اور نظریہ کی حفاظت کے لئے جھاد فی سبیل اللہ کے مخلصانہ جذبے پر مبنی تھی جس کے لئے افغان عوام نے ناقابل تصور قربانیاں بھی پیش کیں آج وہ اسی جذبۂ فداکاری کی وجہ سے کامیاب بھی ہیں ___ لیکن پاکستان میں "طالبان” کے نام پر بنے ہوئے گروہوں نے سرکاری اہلکاروں کے علاوہ غریب عوام ، نامور علماء ، معصوم بچوں اور قومی اثاثہ جات کو بھی نہیں بخشا، ملکی حدود کے اندر طالبان کا نام استعمال کرنا نہ ان کے جرائم کے جواز کا بہانہ بن سکتا ہے اور نہ اس لفظ سے یہ سمجھنے اور تأثر قبول کرنے کا کوئی جواز ہے کہچونکہ” طالبان "اور دینی مدارس میں رشتہ ہے اس لئے "طالبان” کے ساتھ ملک میں قائم دینی مدارس کو بھی بلڈوز کرو___ موجودہ حالات کا تقاضا اور ملکی عوام کا جائز حق ہے کہدہشت گردی میں ملوّث ان گروہوں سے متعلق اگر مستندمعلومات حکومتی اداروں کے پاس ہوں ،تو انہیں عوامی آگاہی کے لئے مشتہر کیا جائے اور پشت پناہی کرنے ، سرمایہ فراہم کرنے اور کو تربیت دینے والوں کو راز میں نہ رکھا جائے ۔ 
___________________________________________
مدار س کے نصاب سے متعلق ایک حیرت انگیز غلط فہمی یہ بھی ہے کہ فقہ کو قرآن کریم اور احادیث نبویہ کے متوازی علیحدہ سا مضمون سمجھا جاتا ہے حالانکہ قرآن وسنت کا ادنی طالب علمبھی یہ سمجھتا ہے کہ قرآن کریم میں سورتوں اور آیات کی ترتیب تصنیفی منہج پر نہیں ہے بلکہ حالات اور واقعات کے تحت وحی کا نزول ہوتاتھا جو ۲۳؍ سال، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاۃ تک جاری رہا ،یہی وجہ ہے کہ ایک ہی آیت یا ایک چھوٹی سی سورۃ میں بعض اوقات ایمانیات ، عبادات اور تزکیۂ باطن سے متعلق مختلف مضامین ہوتے ہیں ، یہی صورتحال احادیث نبویہ کی ہے جو قرآن کریم کی ہی تفسیر وبیان ہے ، یہ علمائے سلف اور ائمہ مجتہدین کا امت پر احسان عظیم ہے کہ انہوں نے ایک ہی نوع کے مضامین یکجا کرکے مختلف علوم مرتب کئے تاکہ استفادہ کرنے والا آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ کی جستجو سے بچ جائے کہ ہر آدمی میں اس کی صلاحیت نہیں ہوتی ، ان علوم میں ہرہر حکم سے متعلق قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں سے اخذ واستنباط کے تفصیلی حوالے بھی موجود ہیں ___ ایمانیات وعقائد کے لئے "علم کلام” کا ، احسان وسلوک کے مسائل کے لئے” علم تصوّف” اور روزمرہ کی عملی زندگی سے متعلق عبادات ، معاملات وغیرہ کے لئے "علم الفقہ” مدون کیا گیا ، تصنیف وتدوین کے ابتدائی دور میں تواس پورے مجموعے کو ہی فقہ کہا جاتاتھا اس وقت فقہ کی حقیقت یہ بیان کی جاتی تھی معرفۃ النفس مالھا وماعلیہا(نفس انسانی کے حقوق وفرائض کی معرفت حاصل کرنے کا نام فقہ ہے )___لیکن بعد میں بتقضائے حالات تینوں کو علیحدہ علیحدہ فنون کی شکل دی گئی جس کے بعد فقہ کی تعریف یہ ہے العلم بالاحکام العملیۃ من ادلتھا التفصیلیۃ ( شریعت کے ان عملی احکام کا علم حاصل کرنا جو مفصل دلائل سے اخذ کئے گئے ہیں، فقہ ہے) یہ مفصل دلائل وہ ادلہ اربعہ کہلاتے ہیں جو تمام شرعی احکا م کے مآخذ ہیں ، کتاب اللہ ، احادیث نبویہ ، اجماع اور اجتہاد۔
چنانچہ فقہ کی ہر مستند اور مفصل کتاب ، مندرجہ ذیل سات مرکزی موضوعات پر ضرور مشتمل نظر آئے گی جس میں ہرموضوع کے تحت قرآن وسنت سے اخذکردہ مفصّل شرعی احکام ،واقعاتی ترتیب کے ساتھ مدوّن ہیں اور یہ احکام خلافت اسلامیہ کے ہردور میں عدالتوں کا منبع رہے ہیں ، فقہ کے یہ عنوانات حسب ذیل ہیں اور ان سے ہر خواندہ شخص نتیجہ اخذ کرسکتا ہے کہ فقہ قرآن وسنت سے الگ کوئی فن نہیں ہے ، بلکہ سہولت کے لئے قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں پھیلے ہوئے احکام، موضوعاتی (subject wise)ترتیب کے ساتھ فقہ میں جمع کئے گئے ہیں چنانچہ کسی بھی موضوع سے متعلق قرآن وسنت سے اخذ کردہ احکام یکجا طور پر فقہ کی ہرمستندکتاب میں دستیاب ہیں:
*عبادات___ طہارۃ ، صلوۃ ،زکوٰۃ ، حج اور صیام رمضان 
*معاملات (Transactions)ہمہ جہتی تفصیلات کے ساتھ فقہ کے کتاب البیوع ، کتاب الاجارۃ ، کتاب المزارعۃ وغیرہ وغیرہ عنوانات کی شکل میں منضبط ہیں۔
*دعاوی وخصومات (Civil laws)باہمی تنازعات سے متعلق تما م تر دیوانی معاملات
*جنایات ودیات (Criminal laws)جرم وسزا سے متعلق امور
*شخصی امور(Personal laws)نکاح وطلاق ، نفقات وغیرہ کے شخصی معاملات 
*دستوری امور (Constitutional affairs)دستوری معاملات، حکومتی اداروں اور ملکی نظم ونسق سے متعلق امور ، کتاب الامارۃ وغیرہ کے عنوان سے 
* بین الاقوامی امور(Inteational affairs)بین الاقوامی معاملات ، صلح وجنگ کے احکام کتاب السیر وغیرہ کے عنوان سے
ان موضوعات کے تحت مدون احکام ومعاملات ہر ملک میں ،فرد اور معاشرے کی ضرورت ہے چنانچہ ہر ریاست اپنے اپنے حالات کے مطابق ان کے لئے قانون سازی کرتی ہے ،خلافتِ راشدہ سے لے کر خلافت عثمانیہ تک یہ احکام نافذ العمل اوررائج رہے ہیں اور آج بھی جزوی طورپر بعض ممالک اسلامیہ میں ان کے مطابق فیصلے ہوتے ہیں جبکہ دینِ حنیف اور شریعت اسلامیہ کا قیمتی اثاثہ ہونے کی وجہ سے اب ان دینی مدارس نے ہی ان کی حفاظت کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے ۔
تاہم ان کی تعبیرات واصطلاحات قدیم دور کی ہیں جن کو جدید اسلوب میں ڈھالنا مسلم حکمرانوں کی ذمہ داری ہے اور اس کے لئے نگاہیں کسی صاحب بصیرت ، غیور اورحوصلہ مند بندۂ مؤمن کی تلاش میں ہیں۔ 
مدارس پر الزامات کی سنگ باری کرنے والے کاش تحقیق ، علمی رسوخ، دقیقہ رسی ، اور وسیع النظری پر مبنیان مساعی جمیلہ کا بیڑا اٹھائیں اور تاریخ کا یہ قرض اتارنے میں دینی مدارس کا ہاتھ بٹاسکیں ، کہ یہ عظیم ،مبارک اورمحنت طلب کام ریاستوں کے کرنے کا ہے !۔
رب کریم ملک وملّت کو ہر طرح کے فتنوں سے اپنی حفظ وامان میں رکھے اور اپنی رضا کے کاموں کی توفیق سے نوازے ، آمین ۔

«
»

پانچ بیماریاں ۔ایک ٹیکہ

دولت کی بھوک اور شہرت کا روگ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے