لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی

پراچی کی بدزبانی اور بے گناہی تالابوں کے پانی تک محدود رہتی ہے یا آدھے جسم کا ننگا رکھنے کی حد تک لیکن یہ جو ہمارے لیڈروں کو تعداد کی بیماری ہوگئی ہے کہ جسے آنجہانی سنجے گاندھی نے شروع کیا تھا کہ جیتنے والا گھوڑا لاؤ اب اتنا گرگیا ہے کہ کہ جیتنے والا لاؤ چاہے کتا ہو خنزیر ہو گدھا ہو۔ اور پھر جب وہ جیت کر آئیں گے تو اپنی بولی نہیں بولیں گے تو کیا سنسکرت بولیں گے یا انگریزی بولیں گے؟؟ حکومت تو ملک کے آزاد ہونے کے بعد سے ہندوؤں کے ہی ہاتھ میں ہے لیکن یہ وہ ہندو تھے جنہیں گفتگو کرنا بھی آتی تھی اور جو چاہتے تھے کہ ملک ترقی کرے اور جو جانتے تھے کہ ترقی کے لئے کیا کیا جاتا ہے؟ 2014 ء کے متعلق شری موہن بھاگوت اور اشوک سنگھل جیسے ہندو کہہ رہے ہیں کہ اب ہندو حکومت آئی ہے ان کے نزدیک ہندو حکومت وہ ہے جس میں سنیاسی، سادھو اور سادھوی ملک کی ترقی کے لئے بس یہ سمجھیں کہ ہر ہندو عورت چار بچے پیدا کرے اور خود بھگوا لباس پہن کر دنیا کو دکھائیں کہ وہ خود بچے پیدا نہیں کرسکتیں۔ حالانکہ انہیں بس اتنا کرنا ہے کہ ملک کی ترقی کے لئے خوبصورت ساڑی پہننا ہے اور ہر سال ایک بچہ پیدا کرنا ہے اور جب چار ہوجائیں تو پھر بھگوا ساڑی باندھنا ہے اور اپنی جیسی سادھوی ناریوں سے کہنا ہے کہ ملک کی ترقی کے لئے تم بھی چار بچے پیدا کرو۔
بات صرف سادھوی پراچی یا ساکشی یا اشوک سنگھل کی نہیں ہے بلکہ اب ایک مہم چلی ہے کہ دیش پتا مہاتما گاندھی کی کردارکشی کی جائے۔ لکھیم پور کھیری میں ہندو سمیلن میں پراچی نے کہا کہ ملک کو گاندھی کے چرخے اور سوت نے آزاد نہیں کرایا بلکہ چندر شیکھر آزاد اور بھگت سنگھ نے کرایا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک کو مسلمانوں نے آزاد کرایا ہے رہے چندر شیکھر اور بھگت سنگھ تو انہوں نے نہ گیروے کپڑے پہنے اور نہ چمٹا ہاتھ میں لے کر گاؤں گاؤں بھیک مانگی بلکہ سینہ پر گولی ماری اور کھائی۔
اس مسئلہ میں وزیر اعظم کو سوچنا چاہئے کہ انہوں نے لوک سبھا میں اپنی اکثریت کے لئے جو بھالو بندر جمع کرلئے ہیں ان کا کیا علاج کیا جائے؟ کس قدرشرم کی بات ہے کہ امریکی صدر براک اوبامہ کو گاندھی جی کے چرخے کی نقل دی جائے اور مسٹر اوبامہ گاندھی جی کا قصیدہ پڑھیں اور ان کی تعلیمات کو مشعل راہ بنائیں اور ان کے دوست شری نریندر مودی کے بھالو بندر گاندھی جی کے قاتل کو محب وطن کہیں اور کلکتہ میں ایک ریٹائرڈ فوجی اپنے گھر کا نام گوڈسے ہاؤس رکھے یا میرٹھ اور سیتا پور میں گوڈسے کی مورتی رکھ کر اس کی پوجا کے لئے مندر بنانے کی تیاری کریں؟
آنے والے کل کو دہلی کے الیکشن کا نتیجہ آجائے گا۔ غیب کا حال تو پروردگار کو معلوم ہے لیکن اب تک جتنے تبصرہ کرنے والوں نے اپنا خیال ظاہر کیا ہے وہ نہ تو شری مودی کے مشن 60 کے مطابق ہے اور نہ بی جے پی کے بے صلاحیت صدر کے دو تہائی ممبروں کے آس پاس ہے بلکہ شری مودی سے ہر اعتبار سے بہت چھوٹے اور کمتر اروند کجریوال کے حق میں جاتے ہوئے بتائے جارہے ہیں۔ عام آدمی پارٹی کو بغیر مانگے جامع مسجد کے امام احمد بخاری نے پیشکش کی تھی کہ مسلمان ان کو ووٹ دیں کجریوال کے ہر ممبر نے ان کی عنایت ان کے منھ پر ماردی۔ جبکہ بظاہر عام حالات میں ہر کوئی قبول کرلیتا اور اٹل جی سے لے کر سونیا گاندھی تک سب انہیں خرید چکے ہیں کجریوال کے اس فیصلہ نے ان کو بہت فائدہ پہونچایا ہوگا۔ اور شری مودی کو انہوں نے ہی نقصان پہونچایا ہے جو ان کی حکومت کو ہندو حکومت کہتے ہیں اور جن کو انہوں نے پارلیمنٹ کے ممبروں سے معاف کرنے کی درخواست کی اور معاف کرایا۔
وزیر اعظم کی پشت پناہی کا ہی نتیجہ ہے کہ وہ پراچی جس کے باپ دادا اور وہ خود ننگی ٹانگیں کرکے تالاب میں سنگھاڑے توڑکر زندگی گذارتے ہیں وہ کہہ رہی ہے کہ 1400 برس پہلے ہندوستان میں کوئی مسلمان نہیں تھا اور آج جتنے بھی مسلمان ہیں ان کے آباء و اجداد سب ہندو تھے۔ پراچی کے ان جملوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سادھو سادھوی بالکل جاہل ہوتے ہیں۔ اگر کچھ بھی پڑھے لکھے ہوتے تو معلوم ہوجاتا کہ مسلمان کیرالہ میںآئے اور برسوں تجارت کے لئے آتے رہے پھر سندھ میں آئے تو فتح کرنے آئے اور پھر برابر آتے جاتے رہے یہاں تک کہ بابر آئے تو پھر صدیاں گذر گئیں یہیں کے ہورہے اور یہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے دہلی اور آگرہ کے قلعے بنائے تاج محل بنایا قطب مینار بنایا اور پورے ملک میں جو بنایا وہ ایسا بنایا کہ سادھوی پراچی تو بیچاری گھڑوں کی سواری کے علاوہ اور کچھ نہیں جانتی ان کے بڑے سے بڑے راجے مہاراجے کوئی ایک عمارت بھی ایسی نہ بنا سکے۔ اور رام زادی پراچی کو معلوم ہونا چاہئے کہ کروڑوں روپئے سال ان عمارتوں کے ٹکٹ سے حکومت کو ملتے ہیں جو مسلمان بنا گئے اور جن کے متعلق پراچی کہہ رہی ہے کہ مسلمان لوٹ کر لے گئے مسلمان انگریز نہیں تھے جو لے گئے مسلمان تو دے گئے اور اتنا دے گئے کہ ابھی کم از کم سو دو سو سال تک پراچی جو کھائیں گی اس میں کچھ نہ کچھ مسلمانوں کا ہوگا۔
وزیر اعظم نے لوک سبھا کو جانوروں کا باڑا بنا دیا ہے۔ انہوں نے ٹکٹ دیتے وقت تو صرف یہ سوچا کہ میرے اشارے پر ہاتھ اٹھا دیں گے لیکن اب انہیں اندازہ ہوگیا کہ ان سے کیا غلطی ہوگئی۔ اب وہ ایک کام تو یہ کریں کہ جو پراچی اور ساکشی جیسے ہیں ان کو پڑھانے کے لئے ماسٹر رکھ دیں جو پڑھا بھی دیں اور بات کرنا سکھا دیں۔ دوسرا کام یہ کریں کہ پارلیمنٹ سے یہ پاس کرادیں کہ پارلیمنٹ کا الیکشن بی اے سے کم تعلیم والا نہیں لڑسکتا اگر اس وقت یہ نہ کیا تو ایک وقت وہ آئے گا کہ پھر سب پراچی جیسے ہی آجائیں گے اور پارلیمنٹ سرکس ہوکر رہ جائے گا۔

«
»

اعداد وشمار کی بازی گری سے معاشی حقائق بدلنے کی کوشش

’’ماجرا۔ دی اسٹوری ‘‘ ڈاکٹر منصور خوشترکے صحافتی فکر کا ترجمان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے