رام مندرکی تعمیر کاسوال

تاریخی حقیقت جو بھی ہو لیکن پلاننگ بہت زبردست تھی۔ بھلا بھارت جسے ملک میں جہاں ہندوؤں کی نہ صرف اکثریت ہو بلکہ جو رام میں آنکھ موند کر عقیدت رکھتے ہوں، اُس کے بھگوان کی جنم بھومی پر نہ صرف مسلم راجہ نے جبراً قبضہ کر لے بلکہ مندر توڑ کر مسجد بنا ڈالے ، اسے کیسے برداشت کیا جا سکتا ہے۔ ایک تو مذہبی مسئلہ اور وہ بھی سب سے زیادہ جذباتی، مزید جسے منصوبہ بند طریقے سے اس ڈھنگ سے چلا گیا کہ آج ہر ہندو فرقے کے رگوں میں ایک ہی بات سما گیا ہے۔ خواہ وہ نوجوان ہوں،بوڑھے ہوں، عورت ہوں، مرد ہو، افسر ہوں یا پروفیسر ہوں‘ ایوان میں ہوں یا عدالت میں ہوں، سماج میں ہوں یا فورس میں ہوں، مزدور ہوں یا مجبور ہوں اگر آپ اُن کے دل سے پوچھیں کہ کیا وہاں رام مندر قائم ہونا چاہئے تو اُس پر وہ کیا جواب دیں گے آپ خوب اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ کہیں جھونک میں آکر یہ نہ کہہ دیں کہ رام مندر وہاں نہیں بنے گا تو کیا ……… میں بنے گا؟ ہمیں خود بھی سمجھنا ہوگا کہ مذہبی اعتبار سے یہ سب سے زیادہ سنجیدہ معاملہ ہے جس کی مخالفت کرنا کسی بھی اعتبار سے آسان نہیں ہے اور وہ بھی موجودہ سیاسی ماحول میں جب کہ اقتدار پر ہی سنگھ پریوار کا قبضہ ہے اور وہ اسی کلیدی مدے ( بابری مسجد۔ مندر) کی بنیاد پر آج مزکر میں اکثریت کے ساتھ ہے ۔ پلاننگ کے تحت یہ تنازعہ اُنیسویں صدی میں محض ایک دعوے کی شکل میں شروع کیا گیا تھا۔اس پرسب سے بڑا جھنجھٹ تب کھڑا ہوا جب 23؍ دسمبر1949کو رام للا کے وہاں جنم ہونے کی خبر ایک سنسنی کی طر ح پھیلائی گئی اور تب سے رام للا کے درشن اور قدیم مسجد کو ہٹاکر عالیشان رام مندر بنانے کے معاملے کو رام زادے کی زندگی کا مقصد قرار دیا گیا۔ سب سے زیادہ اہمیت کی بات تو یہ ہے کہ ایک ایسے سال (1949)اور ایک ایسے وقت میں اسے چھیڑاگیا جہاں آئین اپنی تیاری کے آخری دور میں تھا اور گاندھی جی کو راستے سے ہٹانے کے بعد ہندو مہاسبھا والے اس فراق میں لگے ہوئے تھے کہ جمہوری نظام میں کس طرح سے مسلمانوں کو اپنے آئینی حقوق سے ایسا بے دخل کیا جائے کہ آزاد ہندوستان میں یہ اچھوتوں سے بھی بدتر زندگی گذارنے پر مجبور ہو جائیں اور مستقبل میں ’’ گھر واپسی‘‘ آسانی سے کرائی جاسکے۔ آخر انہیں ہندی ، ہندو ، ہندوستان کا دعویٰ جو پورا کرناتھا۔ حالانکہ 26؍ نومبر1949کو آئین پوری طرح سے نہ صرف مکمل ہو گیا بلکہ سارے ممبران نے اس پر دستخط بھی کر دیئے تھے لیکن اسے نافذ کرنے میں دو ماہ لگے کیونکہ سارے دباؤ کے باوجود بھی جب آئین مکمل طورپر ویسا ہی بنا جیسا کہ 9؍دسمبر 1946کے سنویدھان سبھا میں قرارداد پاس کیا گیا تھا تب سنگھ پریوار ( ہندومہاسبھا) کا پارہ آسمان پر چڑھ گیا کیونکہ اقلیتوں کا حق کٹوانے میں وہ فیل کر گئے تھے اور تب تک آئین نافذنہ ہونے دیا جب تک مسلمانوں کا حق کاٹے جانے پر معاہدہ نہیں ہوا۔ اپنی ا سی مانگ پر دباؤ پیدا کرنے کے لئے ہی 22-23دسمبر1949کی رات میں رام للا کے جنم ہونے کا ڈرامہ رچاگیا اور ملک کا ماحول خراب کر دینے کی ایسی دھمکی دی گئی کہ آخر کار یہ سمجھوتہ طے پایا کہ بابری مسجد کی حفاظت کیلئے اس پر تالا ایک ہی شرط پر جاری رہ سکتا ہے کہ آئین کی دفعہ 341پر مذہبی قید لگا کر اقلتوں کو شیڈول کاسٹ ریزرویشن سے خارج کیا جائے۔ اُنہیں پتہ تھا کہ دفعہ 341ہی ایک ایسا قانون ہے جس میں مسلمانوں کی اکثریت آبادی کو آزاد ہند میں ترقی کرنے کا ویسا ہی موقع ملے گا جیسا کہ دلتوں کو مل رہا ہے اور اگر اس سے وہ بے دخل کر دیئے جائیں گے تو آئین نافذ ہونے کے 50-60برسوں میں جہاں دلت سماج ترقی کر اوپر اٹھے گا وہیں اس سے پیدا شدہ خلاء کو دلتوں سے پیچھے ہوتی چلی جانے والی مسلم آبادی سے بھرنے کا کام بھی ساتھ ساتھ ہو تا جائے گا ۔ اس طرح سے آئین کے تیار ہونے اور اُس کے نافذ ہونے کے بیچ کے دو ماہ میں سنگھ پریوار کی یہ حکمت اتنی کامیاب ہوئی کہ آج کی تاریخ میں جہاں ایک طرف اس متنازعہ مقام سے مسجد ہٹا دی گئی اور آلہٰ آباد کورٹ کے فیصلے کے مطابق ملکیت کا ہمارا حق تقریباً ختم ہے وہیں دوسری طرف مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی خراب ہو گئی ( سچر کمیٹی رپورٹ)۔ اس پر ستم یہ کہ اقتدار میں بھی سنگھ پریوار مضبوطی سے آگئی اور اب وہ جب چاہیں وہاں مندر تعمیر کر لیں، بھارت کو ہندو راشٹر بنالیں، مسلمانوں کو جبراً تبدیلئ مذہب کے لئے مجبور کریں ۔آج تو حالت یہ ہے کہ ہم ایک ایسے چوراہے پر آکر کھڑے ہو گئے ہیں جہاں سے کس سمت میں ہمیں جانا چاہئے پتہ نہیں چل رہا ہے۔کون سی عدالت ، کون سی سرکار ،کو ن سی سیاسی جماعت ، کون سی پولس فورس انہیں ایساکرنے سے روک لے گی ۔ آج تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے 1949کا وہ ڈرامہ جس کے آڑ میں دفعہ 341پر یکے بعد دیگرے دو شرطوں کا نفاذ کیا جانا ، ان کی اس حکمت نے مسلمانان ہند کی اکثریت آبادی کو تعلیمی، مالی و سماجی و سیاسی دوڑ میں ایسا پیچھے چھوڑ دیا کہ اپنے دو جون کی روٹی کمانے کیلئے چھوٹے سے چھوٹے کام کرنے کو مجبور ہوگیا۔ اس کے سامنے آج روٹی ، کپڑا اور مکان کا مسئلہ ایسا ہے کہ ملک کے کسی بھی حصے میں آگرہ کا واقعہ جبراً دوہرایا جا سکتا ہے ۔ کہاں کہاں آپ روکتے پھرینگے جبکہ ایسے مسلمانوں کی اکثریت ہے جو پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں اور برادران وطن کی آبادیوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ بہار کے مظفر پور میں جس طرح سے پوری بستی کو گھیر کر لوٹ مار اور آگ زنی ہوئی ہے۔ اس طرح کے حادثات ملک کے مختلف حصوں میں دوہرائی ہی جائے تو اسے اب کون روک لے گا۔ دلت سماج تو S C Act کے تحت ظلم سے بچ جاتا ہے لیکن مسلمان تو اس سے بھی محروم ہے۔ ہمیں اب تو کم سے کم یہ بات سمجھ میں آجانی چاہئے کہ 23، دسمبر 1949کو مسجد کے اندر رام للا کے جنم لینے کی جو سازش ہندو مہاسبھا کے ذریعہ رچی گئی تھی وہ ایودھیا کے متنازعہ مقام سے مسجد ہٹانے اور رام مندر تعمیر کرنے کے غرض سے تھوڑے ہی کی گئی تھی بلکہ مسلمانوں کو اقتدار میں حصہ داری سے بے دخل کرنے کے لئے ایک حکمت عملی تھی۔ لیکن ہمارے سمجھ میں یہ بھر دی گئی کہ بابری مسجد سے ہمیں بے دخل کر دینے کیلئے ایسا کیا جارہا ہے ۔ تب سے لے کر آج تک جوں جوں ایودھیا کی تحریک آگے بڑھی ویسے ویسے ہمارے جذبات کو بھی اسی سمت میں بھڑکانے کے لئے طرح طر ح کے شوشے چھوڑے گئے کہ آج بابری مسجد پر آفت آئے گی تو پھر کل دوسری ، تیسری اور چوتھی مسجدوں پر ۔ یہ سنگھ پریوار والے بھی کہتے تھے اور ہمارے لوگ بھی دُوہراتے تھے لیکن ہم یہ دھیان دینے سے قاصر رہے کہ سنگھ پریوار کی اس مہم میں بہتے جانے کی وجہ کر دوسرے محاذ پر ہمیں کتنا نقصان اُٹھانا پڑرہا ہے۔ ایودھیا تنازعہ کی موجودہ صورتحال کے بعد بھی ہمارے لئے یہی بھاری پڑرہا ہے کہ کیسے وہاں مندر تعمیر سے اُنہیں روکا جائے جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اُن کی نظر میں مندر قائم کرنے سے زیادہ بڑا کام یہ ہے کہ کیسے ؍ اسپین کی طر ح مسلمانوں کا یہاں شدھی کرن ہوتا کہ ہندی، ہندو، ہندوستان کا اُن کا عزم پور ا ہو ۔ ہمارا تو دعوہ ہے کہ آج بھی اگر تعمیر کی مخالفت سے دھیان ہٹاکر دفعہ 341میں ترمیم کر مسلمانوں کو ریزرویشن کے دائرے میں لانے کی مانگ کو تیز کریں تو مندر قائم کرنے کی اُن کی مانگ پھیکی پڑ جائیگی اور ہماری ہی مانگ اُن پر بھاری پڑ جائے گی۔اگر ہم اُن کی مندر تعمیر کرنے کی شروعات کے پہلے دفعہ341میں ترمیم کرانے میں کامیاب ہو گئے تو یہ ہماری پہلی جیت ہوگی اور اُن کی پہلی ہار ہوگی بشرطیکہ ہم حکمت عملی کے تحت اس اُلٹی چال کو چل کو دیکھیں۔

«
»

مذہبی رواداری پر اوباما کے دو بیانات

میڈیا قیام عدل وامن و اماں کا ایک موثر ذریعہ۔۔۔لیکن!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے