دوستی دشمن کی ہے جی کا زیاں ہوجائے گا

اسی طرح دستور میں رہے تو کیا اور دستور سے نکال دیا جائے تو کیا؟؟ آج اس کی حمایت کرنے والے حکومت سے جواب طلب کررہے ہیں اور ہم یہ کہتے ہیں کہ جب ہر اشتہار میں موٹے حروف میں سیکولرازم اور سوشلزم چھاپنے والوں کی حکومت تھی تب اس پر کتنا عمل ہورہا تھا؟
اصل مسئلہ وزیر اعظم کا ہے ہندوستان میں دو طرح کے وزیر اعظم ہوئے ایک پنڈت جواہر لال نہرو، لال بہادر شاستری جیسے اور دوسرے ڈاکٹر منموہن سنگھ جیسے جواہر لال اور شاستری جیسے تو وہ بھی تھے جو کسی پارٹی کے منتخب کئے ہوئے تھے جیسے مرارجی بھائی ڈیسائی اور ان کے بعد جنتا پارٹی کے دوسرے یا جنتادل کے بنائے ہوئے راجہ وشنو پرتاپ سنگھ یا نرسمہاراؤ اور ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حیثیت ایسی تھی جیسے خارجہ سکریٹری سجاتا سنگھ کی کہ انہیں وزیر خارجہ کی مخالفت کے باوجود وزیر اعظم نے ہٹاکر ایس جے شنکر کو بنا دیا۔ شری نریندر دامودر مودی کی حیثیت وہ ہے جو نہرو جی اور شاستری جی کی تھی مودی کو بی جے پی نے نہیں آر ایس ایس نے بنایا ہے۔ بی جے پی کی حیثیت سیاسی پارٹی کی نہیں ہے وہ آر ایس ایس کی بے وردی فوج ہے لیکن جب حکم ہوتا ہے تو ہر ایک کو وردی پہن کر وردی والوں کے ساتھ شامل ہونا پڑتا ہے۔
پنڈت نہرو جتنے دن بھی وزیر اعظم رہے انہیں پٹیل، پنت، ٹنڈن اور ڈیسائی جیسوں سے اسی سیکولرازم اور سوشلزم کے لئے قدم قدم پر لڑنا پڑتا تھا شری کامراج اور رفیع احمد قدوائی جیسوں کی حمایت سے وہ اپنی بات منواتے تھے یا استعفے کی دھمکی دے کر سب کو خاموش کرتے تھے۔ ان کی بیٹی اندرا گاندھی نے جب اقتدار ہاتھ میں لیا تو سب سے پہلے وہ پارٹی کو اس طرح بغل میں دباکر باہر آگئیں جیسے اپنے دونوں بیٹوں کو لے کر فیروز گاندھی کے گھر سے آگئی تھیں اور اس کے بعد رفتہ رفتہ انہوں نے وہ سارے پر کاٹ دیئے جس سے پارٹی اُڑتی تھی اور وہ سارے پنجے توڑ دیئے جن سے وزیر اعظم کے ساتھی ان پر حملہ کیا کرتے تھے۔
امریکی صدر مسٹر براک اوبامہ کو وزیر اعظم نے بلایا تھا حالانکہ وہ اقتدار کے چھ سال گذار چکے ہیں اور وہ دو جو باقی رہ گئے ہیں زوال کے سال ہوتے ہیں۔ شاید اسی لئے وہ ایک ایسی تقریب میں شرکت کے لئے آبھی گئے جو صرف ایک ملک کی ذاتی تقریب تھی۔ وزیر اعظم مودی نے انہیں ضرورت سے زیادہ اوپر اُٹھایا اور ان کے دل و دماغ سے زوال کے اثرات نکالنے کی کوشش کی تو انہوں نے بھی اپنائیت کا ثبوت دیا اور کھچاکھچ بھرے دانشوروں کے ہجوم سے وہ کہہ دیا جسے سننے کے لئے نہ آر ایس ایس تیار تھا نہ شیوسینا نہ وشوہندو پریشد اور نہ کوئی بھی ہندو سینا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستانیوں کو اپنی رنگارنگ مذہبی اور تہذیب کی قدر کرنا چاہئے اور تفریق پیدا کرنے والے نظریات سے خود کو بچانا چاہئے۔ مسٹر اوبامہ نے ہمارے دستور کی دفعہ 25 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دستور کسی بھی شہری کو مذہب اور عقیدے پر چلنے اور عبادت کرنے کی آزادی دیتا ہے۔ اوبامہ نے اپنے ملک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں کی یہی طاقت ہے۔
وزیر اعظم شری مودی کو اب دو میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا ہے یا تو وہ براک اوبامہ کی اس دوستی کی لاج رکھیں جیسے انہوں نے اپنے کو بہت نیچے گراکے حاصل کیا ہے اور یہاں تک لے آئے ہیں کہ تم کتنے گھنٹے سوتے ہو اور میں کتنا سوتا ہوں؟ اور خوشی میں دیوانگی کا یہ حال کہ 26 جنوری کو جب صدر نے پرچم لہرایا تو صرف صدر کو ہی سلوٹ دینا تھا لیکن مودی بھول گئے اور انہوں نے بھی سلوٹ مار دیا اور ان کے ساتھ جو ان کے اپنے تھے وہ بھی سلوٹ کربیٹھے اس لئے نائب صدر حامد انصاری کے بعد میں یہ قضیہ کھڑا کردیا توگڑیا برانڈ ہندوؤں نے کہا کہ مسلمان حامد انصاری نے قومی پرچم کی توہین کی اور سلوٹ نہیں کیا اس کا جواب دستور کو چاٹے ہوئے دانشوروں نے دیا کہ توہین تو صدر کی وزیر اعظم اور ان کے ابوالخیروں نے کی۔ کیونکہ دستور میں صاف صاف لکھا ہے کہ صرف صدر سلوٹ کریں گے باقی سب ادب سے کھڑے رہیں گے جیسے نائب صدر حامد انصاری کھڑے رہے۔
اب وزیر اعظم شری مودی کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ہندوتو کے وعدے اور آر ایس ایس کی تربیت یا اپنے پرانے دوستوں اشوک سنگھل، پروین توگڑیا وغیرہ اور شیوسینا کے ساتھ چلتے ہوئے دستور سے سیکولرازم اور سوشلزم نکالیں گے اور ہندو راشٹر کا اضافہ کریں گے۔ توگڑیا کی قیادت میں گلی گلی رام مندر بنانے کے لئے مہم چلانے میں شرکت کریں گے یا ہندوستان کو امریکہ کی طرح ہر رنگ کے پھول کا گلدستہ بنائیں گے اور اپنے گرو موہن بھاگوت کو منائیں گے وہ نہیں مانے تو مورچہ لیں گے اور اگر یہ محسوس کیا کہ قوم ان کے ہی ساتھ ہے تو نہرو کی طرح استعفیٰ لے جاکر ان کو دے دیں گے کہ اپنی پسند کے گڈکری کو وزیر اعظم بنوالیں۔
ہم کیسے سمجھیں کہ امریکہ جانے کی للک اوبامہ سے قربت اور دنیا کو یہ دکھانے کی دُھن کو دنیا کے سب سے طاقتور ملک کے سب سے طاقتور صدر سے میری دوستی ہے، یہ بات شری مودی کی کوئی نئی نہیں ہے بہت ایسے چھوٹے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے چھپر میں خوش، اپنی گدڑی میں مست اور سوکھی روٹی کھاکر چین کی نیند سوجاتے ہیں ورنہ یہ بیماری عام ہے کہ ہر کوئی اپنے سے بڑے سے تعلقات بنانا چاہتا ہے۔ جیسے ملکھا سنگھ اور شاہ رُخ خاں کا اوبامہ نے صرف نام لے لیا تو ان کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں ہے حالانکہ اپنی دنیا میں ملکھا سنگھ وہ ہے جس کا نام ہر اس آدمی کی زبان پر آیا ہوگا جسے دوڑ دیکھنے یا دوڑنے کا شوق ہے۔ اسی طرح شاہ رُخ وہ اپنی دنیا کے شاہ مانے جاتے ہیں۔ لیکن اوبامہ نے نام لے لیا تو مودی کی طرح جو نہیں کرنا تھا وہ کئے ڈال رہے ہیں۔
اب مودی سخت کشمکش میں ہیں انہیں معلوم ہے کہ وہ اکیلے کچھ نہیں ہیں وہ اگر اپنی بھگوا نگری کو چھوڑکر وہاں آتے ہیں جہاں 70 برس سے صرف ایک ہی خاند ان کا قبضہ ہے تو وہاں لکھا ملے گا کہ ؂ ہماری نگری میں تمہارا کیا کام ہے؟ اور طاقت کے بل پر داخل ہوتے ہیں تو انہیں وہ مقام نہیں ملے گا جس کی تلاش میں جائیں گے۔ ان کے لئے سب سے اچھی بات یہ ہے کہ وہ سنگھ کو سمجھائیں کہ آپ کو ملک چاہئے تھا سو مل گیا رہا ہندوتو اس میں رکاوٹ کا کوئی خطرہ نہیں اب رہے مسلمان تو روس نے سب کچھ کرکے دیکھ لیا چین نے لوہے کے خول میں بند کردیا مگر انہیں وہ نہ بنا سکے جو بنانا چاہتے تھے تو پھر ہم کوئی قدم ایسا کیوں اٹھائیں کہ پورے عرب اور ایران دشمن سمجھنے لگیں؟ کیوں نہ ہم نہرو خاندان سے زیادہ کشادہ دل کرکے اپنے ساتھ ملالیں؟

«
»

مذہبی رواداری پر اوباما کے دو بیانات

میڈیا قیام عدل وامن و اماں کا ایک موثر ذریعہ۔۔۔لیکن!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے