۶؍دسمبر! بابری مسجد کی شہادت اور ممبئی کے مسلم کش فسادات کا المناک دن

بابری مسجد کی شہادت کو 22 برس بیت چکے ہیں۔ 
ممبئی کے مسلم کش فسادات بھی 22 سال پرانے ہوچکے ہیں اور ممبئی کے سلسلہ واربم دھماکے بھی۔ بابری مسجد نہ تعمیرہوئی ہے اورشایدنہ تعمیر ہوگی ‘ممبئی کے مسلم کش فسادات کے قصوروار نہ سلاخوں کے پیچھے ڈالے گئے ہیں اورشاید نہ ہی ڈالے جائیں گے ۔۔۔ ہاں ممبئی کے سلسلہ واربم دھماکوں کے ’ملزمین ‘ ایک طویل مقدمے کے بعد’مجرمین ‘ قراردے کرسزائیں پاچکے ہیں۔ عمرقیدسے لے کر پھانسی تک کی سزائیں۔ مطلب یہ کہ وہ انتہا پسندی ‘یا ’دہشت گردی ‘جو ایودھیا کی 6دسمبر1992ء کی بنیادی ’یرقانی دہشت گردیوں‘ یعنی بابری مسجد کی شہادت اور ممبئی کے مسلم کش فسادات ‘ کا ردعمل تھی وہ تواپنے انجام کو پہنچ گئی مگرمذکورہ بنیادی دہشت گردی ‘کے مقدموں کا نہ ہی کوئی حل نکلاہے اورنہ ہی قصوروار اپنے انجام کوپہنچے ہیں۔ 
بابری مسجد کا ’سچ‘ دن کے اُجالے کی طرح روشن ہے ۔ 
ایودھیا کی اس زمین پر جہاں آج رام مندر کا ’عارضی ڈھانچہ ‘کھڑا ہے کبھی بھی رام مندریا کوئی دوسر ا مندر نہیں تھا۔۔۔ یہ وہ سچ ہے جوسرکاری ریکارڈوں سے بھی ثابت ہے اور تاریخی شہادتوں سے بھی ۔ 
یہ سچ بھی صاف عیاں ہے کہ بابری مسجد جس جگہ کھڑی ہوئی تھی وہ جگہ نہ کبھی کسی رام مندرٹرسٹ کی ملکیت تھی اورنہ ہی مغل فرمانروا ء ظہیرالدین محمد بابر کے زمانے سے اس کی ملکیت متنازعہ تھی ۔
سرکاری دستاویزات مذکورہ سچائیوں کا ثبوت ہیں۔ مورخ ۔۔۔ یہاں بات یرقانی مورخوں کی نہیں ہورہی ہے جوتاج محل کوبھی مندرقراردیتے ہیں۔۔۔ اس سچ کوچھپاتے نہیں ہیں کہ ایودھیا کی ’جگہ ‘ مسلمانوں کی تھی اوراس ’جگہ ‘پر بنی ہوئی عبادت گاہ یعنی بابری مسجد بھی مسلمانوں کی تھی اوراس مسجد میں برسہا برس پنچ وقتہ نمازوں کی ادائیگی کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ مگراس ملک میں جیسا کہ باربار ہوتا آیاہے اورآج بھی ہورہا ہے صحیح ’کوجھوٹ ‘ بنادیاجاتا ہے ۔ یرقانی ذہنیت رکھنے والے شرپسندوں نے سیاسی اور دھارمک مفادات کے لیے بابری مسجد پرقبضہ کرنے کی سازش رچی اور وہاں سے ’رام للا‘ کی ایک مورتی پرکٹ یعنی ظاہر کرادی۔۔۔ جِس روزبابری مسجد کی جگہ سے مورتی پرکٹ کرائی گئی اسی روزسے گویا اس پر قبضے کی مہم شروع ہوئی جس کا انجام 6دسمبر 1992ء کی شکل میں سامنے آیا یعنی بابری مسجد کی شہادت ۔ اب بابری مسجد کی جگہ نام کے اعتبار سے ’عارضی ‘مگرکام کے اعتبار سے ’مستقل ‘ رام مندر کی بنیاد ڈال دی گئی ہے اور وہ جگہ جوکبھی اذانوں اور تکبیروں سے گونجاکرتی تھی وہاں اب پوجا ارچنا اوربھجنوں کی ایک نہ ختم ہونے والی آوازسنائی دیتی ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ ایک ’جمہوری ملک ‘میں ایک ’غیرجمہوری ‘ کام کیاگیاتو بجا ہوگا۔ مگراس ملک کی جمہوریت کے اندازاور طورطریقے نرالے ہیں‘ اب یہاں اس عبادت گاہ کو جوسینکڑوں برسوں تک بابری مسجد کہی جاتی رہی اور سرکاری دستاویزات میں جس کا ذکربابری مسجد کے طورپرہے ‘اگراسے بابری مسجد کہہ دیا جائے تو عدالتی نوٹس مِل جاتی ہے ! صدرکانگریس سونیاگاندھی کوایک ایسی نوٹس مِل چکی ہے کہ ’اسے بابری مسجد کیوں کہا ‘؟
اب ’یرقانی ٹولہ ‘جس میں توگڑیا سنگھل اوربھاگوت پیش پیش ہیںیہ کہہ رہا ہے کہ مسلمان بابری مسجد کوبھول جائیں اوراُن دوسری مسجدوں سے بھی دستبردارہوجائیں جوان کے بقول ’مندر‘ہیں۔ ہزاروں مسجد پردعویٰ کیاجارہا ہے صر ف متھرا اور کاشی کی مسجدوں ہی پرنہیں۔ مہاراشٹرمیں ایسی مسجدوں کی تعداد تین سوبتائی جارہی ہے ۔ ان مسجدوں کی بازیابی کی مہم جوبقول سنگھ پریوار کبھی مندرتھے‘ دھارمک اورسیاسی تو خیر پہلے ہی تھی اب مرکزمیں نریندرمودی کی سرکار کے قیام اورآر ایس ایس کواپنے ایجنڈے پرعمل کرنے کے لیے ملی کھلی چھوٹ کے بعد‘ مزیدشدید ہوگئی ہے۔ بابری مسجد کا استعمال عرصہ سے سیاسی دکانیں چمکانے کے لیے ہوتا آیاہے ‘بی جے پی توخیر آگے آگے تھی ہی سیکولر کہلانے والی سیاسی پارٹیاں بھی بابری مسجد کی آگ پرسیاسی روٹیاں سینکتی رہی ہیں‘لیکن اب نام نہادسیکولر پارٹیوں کے ہاتھوں سے بابری مسجد کا ’معاملہ ‘ پِھسل سا گیاہے اوربی جے پی کی گرفت مزید مضبوط ہوگئی ہے۔ وہ افراد جوبابری مسجد کی شہادت کے قصوروار ہیں ‘مثلاً اوما بھارتی ‘ایل کے اڈوانی ‘مرلی منوہرجوشی وغیرہ وغیرہ وہ اقتدار کے مزے چکھ رہے ہیں‘لہٰذا وہ کون سی پولس اور ایجنسی اوروہ کون سا قانون ہے جوان کے خلاف اقدام کرنے کی اب سوچ بھی سکے !
سیاّ ں بھئے کوتوال تواب ڈرکاہے کا
بات کچھ ایسی ہی ممبئی کے دومرحلوں میں ہونے والے مسلم کش فسادات کی بھی ہے ۔ 
6 ؍دسمبر 1992ء کے روزجب بابری مسجد شہید کی گئی تھی ممبئی میں مسلم کش فسادات شروع ہوئے تھے ۔ اتفاق سے 6دسمبرباباصاحب امبیڈکر کی برسی کا بھی دن ہے ۔امبیڈکر کی جنہیں’آئین ساز‘کہا جاتاہے ‘ برسی پرہی اس روزفرقہ پرست فسادیوں کے ایک ٹولے نے ‘جس کی قیادت وہ فرقہ پرست اورمتعصب سیاست داں کررہے تھے جنہیں اس وقت کی نام نہاد سیکولرکانگریس کی ریاستی اور مرکزی حکومتوں کی درپردہ پشت پناہی حاصل تھی ‘ آئین کی دھجیاں بکھیردی تھیں۔۔۔ امبیڈکرکی موت کے دن ملک کے آئین کو بھی موت دے دی گئی تھی ۔ اس روزجوقتل وغارتگری کا سلسلہ شروع ہوا تھا وہ 6جنوری 1993کے کئی دنوں بعد تک جاری رہا۔۔۔ سیاست داں اورپولس دونوں ہی نے اپنی آنکھوں پر تعصب کا چشمہ پہن لیاتھا۔۔۔ اوررہی مسلم قیادت تووہ بھی غائب تھی۔ 
6؍دسمبر 92سے لے کر6جنوری 93کے بعدتک ممبئی شہرمیں جوکچھ بھی ہوا وہ ملک کی سیاہ ترین تاریخ کا ایک حصہ بن چکا ہے ۔ شری کرشنا کمیشن کی رپورٹ نے سب کچھ دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی کردیاہے۔ کمیشن نے شیوسینا‘آربی آئی اورکانگریس کے ان سیاست دانوں کے نام بھی گنوائے ہیں جو فسادات کا محرک تھے اوران پولس والوں پربھی اُنگلیاں اٹھائی ہیں جوفسادی بھیڑ کے ساتھ گھل مل کرخودبھی فسادی بن گئے تھے۔ کمیشن نے سفارشات کیں‘تجاویزپیش کیں اور اِس امیدکے ساتھ اپنی رپورٹ حکومت کے حوالے کردی کہ رپورٹ کی سفارشات اورتجاویزپرعمل درآمد کیاجائے گا مگریہ رپورٹ اٹھا کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دی گئی جہاں آج تک وہ پڑی ہے اورشاید اب اسے دیمک لگ گئی ہوگی۔ 
اب ’ماہِِ حساب ‘ہے ۔ 
سیکولرسیٹوں کے لیے یہ سوچنے کا دن ہے کہ اس ملک میں جنہوں نے جمہوری قدروں کو پیروں تلے روندا وہ بھلا کیوں اورکیسے مسندِ اقتدار پر متمکّن ہوگئے ؟کیوں اس ملک کے شہریوں نے جمہوریت اورسیکولر ازم کے اس تصورکو ٹھکرادیا جو اس ملک کے آئین کی بنیادہیں؟ کہیں نہ کہیں کوئی چوک ہوئی ہے ۔۔۔ نام نہاد سیکولرسیاسی پارٹیوں بالخصوص کانگریس اور این سی پی کے لیے یہ سوچنے کا دن ہے کہ کیسے ان کی وہ سوچ جِسے وہ سیکولر اورجمہوری کہتے چلے آرہے تھے شکست کھاگئی اور کیوں اس ملک پر فرقہ پرست غالب آگئے؟کہیں انکی سیکولر اورجمہوری سوچ دکھاوا تونہیں تھی ؟
اورمسلمانوں کے لیے بھی یہ سوچنے کا دن ہے ۔
یہ سوچنے کا کہ وہ جس ’مسلم قیادت ‘پرتکیہ کیے ہوئے ہیں بھلا وہ انہیں کیوں بیچ منجدھارمیں چھوڑکر بھاگ کھڑی ہوتی ہے ؟6 دسمبر کے حوالہ سے یقیناً مسلمانوں کے دماغوں میں ایک تصویر بن رہی ہوگی ‘ سوالات اٹھ رہے ہونگے ۔وہ سوچ رہے ہونگے کہ کانگریس اوراین سی پی کی حکومت نے توکئی بار شری کرشنا کمیشن رپورٹ پرعمل درآمد کا وعدہ کیاتھا‘ وعدے پر یقین دلانے والوں میں تو مسلم لیڈربھی شامل تھے ‘پھربھلا کیوں وعدہ وفا نہیں ہوا ؟ ہری مسجد اورسلیمان عثمان بیکری کی گولی باری اور نمازیوں کی شہادت یاد آرہی ہوگی۔ یہ بھی یاد آرہا ہوگاکہ دلتوں کوتو اندومل کی زمین باباصاحب امبیڈکر کی یادگار بنانے کے لیے دی جارہی ہے اور یہ بھی یاد آرہا ہوگاکہ بابری مسجد کی شہادت کے ایک کردار بال ٹھاکرے کی موت پراین سی پی کوایسا غم ہوا تھا کہ اس نے اخباروں میں ’تعزیت‘ کے بڑے بڑے اشتہار چھپوائے تھے اورکانگریس کی ریاستی حکومت نے سرکاری اعزازسے انکا کریا کرم کرایاتھا۔ سب یاد آرہا
ہے اوریادرہے گا ۔۔۔ یادرکھنا بھی چاہئے ۔ ساتھ ہی ’مسلم قیادت‘ کی بزدلی بھی یادرکھنی چاہئے ۔ آج یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ’مسلمان بابری مسجد بھول گئے ہیں‘۔ اس تاثر کو زائل کرنا ہوگا ‘جمہوری حق کا استعمال کرنا ہوگا۔۔۔ ’مسلم قیادت‘پر لعنت بھیج کر متحد ہونا اوراپنے اتحاد کے بَل پر منزل تک پہنچنا ہوگا ۔۔۔ پہلے بھی یہ سطریں لکھی جا چکی ہیں ‘اب پھرانہیں دوہرانے کا وقت ہے :’’ مسلمان کچھ نہ بھولیں‘نہ بابری مسجد‘نہ شری کرشنا کمیشن رپورٹ ‘نہ اسمٰیل یوسف کالج ‘نہ وقف املاک اورنہ ہی جیلوں میں قید بے قصور مسلمانوں کی اکثریت اور نہ ہی سماجی حیثیت کو بے مرتبہ کرنے کی سرکاری کوشش‘ سب یادرکھیں اور جمہوری انداز میں مطالبے کرتے رہیں کیونکہ اگر یادیں ختم کردیں اور مطالبے بند کردیئے تو مسلمانوں کے پاس کچھ نہیں بچے گا۔ ‘‘

«
»

کیا ہندوستان فاشزم کے راستے پر جارہا ہے؟

مسلمان صحابۂ کرام کو نمونۂ عمل بنائیں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے