مملکتِ فلسطین ، اسرائیل اور مشرقِ وسطیٰ پر مغربی اجارہ داری

تجزیہ نگاروں کے مطابق فلسطینی عوام کودہشت گردی کے تحت موردِ الزام ٹھہراکر اسرائیلی حکومت کی جانب سے فلسطینی عوام پر بار بار ظلم و بربریت کا لا متناہی سلسلہ امن مذاکرات کے عمل کو تعطل کا شکار بناتا رہا ہے۔ اسرائیل اور امریکہ کے موقف کے مطابق فلسطینی مملکت کا وجود مذاکرات کے ذریعہ ممکن بنانا ہے لیکن فلسطین میں حالات کو بہتر بنانے کے بجائے اسرائیلی حکومت ہمیشہ کسی نہ کسی بہانے خراب حالات بنائے رکھنے کا سلسلہ جاری رکھا ہے اس کی ایک وجہ امن مذاکرات کو تعطل کا شکار بنائے رکھنا ہے کیونکہ امن مذاکرات ہموار ہوجاتے ہیں تو مملکت فلسطین کو تسلیم کرنا ضروری ہوجاتا ہے ۔ فرانس کی جانب سے فلسطین کو تسلیم کئے جانے کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نتین یاہو ضرور چراغ پا ہونگے کیونکہ انہوں نے اس سے قبل ہی خبردار کیا تھا کہ فلسطین کو تسلیم کرنا ایک سنگین غلطی ہوگی۔ فرانس میں 399ارکان نے تحریک کی تائید میں ووٹ دیا جبکہ 151ارکان نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ سویڈن اور برطانیہ کے قانون سازوں کے بعد فرانسیسی قانون سازوں کی طرف سے فلسطینی مملکت کے حق میں یہ قرار داد مغربی دنیا کی ایک مضبوط آواز ثابت ہوگی۔ گذشتہ چند ہفتے قبل امریکی نائب صدر جوبائیڈن نے اپنے ایک بیان میں بتایا تھا کہ اسرائیل کی بقاء کیلئے ہر منٹ کم و بیش چھ ہزار ڈالرس خرچ کئے جارہے ہیں اس طرح ہرروز لاکھوں ڈالرس صرف اور صرف یہودی بستی کو آباد رکھنے کے لئے اسرائیل پر خرچ کئے جارہے ہیں۔ اگر ہم اس بات کا جائزہ لیں کہ اسرائیل کی بقاء کے لئے جو بجٹ امریکہ خرچ کررہا ہے یہ اصل میں کہاں سے آرہا ہے تو گذشتہ اور حالیہ واقعات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ جن حالات سے گزر رہا ہے اس کے پیچھے کئی وجوہات پوشیدہ ہیں۔ سب سے اہم امریکہ کو اسرائیل کی بقاء کے لئے جو آمدنی چاہیے وہ شائد مشرقِ وسطی یعنی عالم اسلام سے حاصل ہورہی ہو کیونکہ تیل اور قدرتی گیس کے ذخائر پر کنٹرول کرنے کے لئے امریکہ نے جس پالیسی کو اپنایا ہوا ہے یہ سب کے سامنے عیاں ہے۔ عالم اسلام کے حالات جس قدر خطرناک موڑ اختیار کرتے جارہے ہیں اس کے پیچھے دشمنانِ اسلام کی سازشیں کارفرما ہیں ۔ شام میں بشارالاسد کے خلاف شدت پسندوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں اسلحہ فراہم کرنا، عراق اور شام کے سرحدی علاقوں اور مختلف قصبوں و شہروں پر دولت اسلامیہ عراق و شام (داعش) کی جانب سے خلافت کے اعلان کے بعد اس کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنے کا بہانا بناکر داعش کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کے نام پر شام اور عراق پر فضائی حملے اور وہاں کے مقامی کرد عوام میں ہتھیار و دیگر فوجی اسلحہ کی سربراہی، افغانستان ، پاکستان میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کو ختم کرنے کے بہانے ڈرون حملے اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ امریکہ خود اپنی معیشت کو بہتر و مستحکم بنانا چاہتا ہے اور اس کے ذریعہ اسرائیل کی بقاء بھی ممکن ہے ۔امریکہ عالم اسلام میں مسلمانوں کے درمیان نفرتیں پیدا کرکے ایک دوسرے کو لڑارہا ہے۔ ماضی میں بھی عراق و ایران کے درمیان طویل جنگ کے موقع پر عراق کی تائید و حمایت پھر عراق کی جانب سے کویت پر قبضہ کئے جانے کے بعد کویت کی تائید و حمایت اور عراق پر شدیدفضائی بمباری کے ذریعہ شدید تباہی مچائی گئی ۔ عراق کی اس تباہی و بربادی کے بعدمرحوم صدر صدام حسین نے عراق کو بہت جلد معاشی طور پر مستحکم کرتے ہوئے تعمیر نو کی ، اس کے بعد امریکی صدر بش نے پھر ایک مرتبہ عراق پر الزام عائد کرتے ہوئے اپنے حلیف مغربی ممالک کے ساتھ سازش کرکے پھر ایک مرتبہ خطرناک تباہی مچائی جس میں ہزاروں معصوم انسانوں کی جانیں گئیں ، عراقی معیشت تباہ و تاراج ہوئی اور عراق میں تاریخی عمارتیں، مختلف ادوار کی کتابیں مشہور ترین تاریخی لائبریری و دیگر علوم و فنون کی تاریخ ساز اشیاء جل کر خاکستر ہوگئیں۔ امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے کی گئی اس دہشت گردی کو سراہا گیا اگر جب مظلوم عراقی عوام نے ان دہشت گردانہ ماحول سے نکلنے کی کوشش کی تو یہاں پر آئے دن بم دھماکے، خودکش حملے روز کا معمول بن چکے ہیں۔ افغانستان جہاں پر طالبان نے اسلامی احکامات کے نفاذ کے لئے سخت قوانین لاگو کئے تھے اس کے خلاف سازش رچی گئی اور 9/11ورلڈ ٹریڈ سنٹرپر حملہ اور اسکی مسماری کا ذمہ دار اسامہ بن لا دین کوٹھہرا یاگیا اور انہیں پناہ دینے کے بہانے ملا محمد عمر کی قیادت والی طالبان حکومت کا صفایا کرنے افغانستان پر شدید بمباری کی گئی جس میں ہزاروں افغانی ہلاک ہوئے اور آج بھی افغانستان کے حالات بگڑے ہوئے ہی ہیں یعنی ہر روز بم دھماکے، خودکش حملے روز کا معمول بنا ہوا ہے۔پاکستان اور افغانستان میں طالبان کی جانب سے عوام پر سخت قوانین لاگو کئے جاتے ہیں ، مغربی علوم کے حصول سے روکا جاتا ہے ، خواتین پر سخت قوانین عائد ہیں اگر کوئی خاتون یا طلبہ مغربی علوم اور مغربی رواج میں ملوث پائے گئے تو انہیں سخت سزا دی جاتی ہے ۔ ایک طرف امریکہ اور مغربی ویوروپی طاقتیں عالم اسلام پر مختلف سازشوں کے ذریعہ حملے اور لوٹ مار کررہے ہیں تو دوسری جانب شدت پسند تنظیمیں و جماعتیں مسلمانوں کو بے دریغ ظلم و زیادتی کا شکار بنارہے ہیں۔ اور جب شدت پسند اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کررہے ہیں تو ان ممالک کے حکمرانوں کو اپنے دفاع کے لئے امریکہ اور دیگر مغربی و یوروپی ممالک سے مدد درکار ہے جس کے لئے یہ طاقتیں پہلے سے ہی اپنے پلان کے مطابق تیار ہیں۔ اس طرح اسرائیل کی بقاء میں عالم اسلام کی بگڑتی ہوئی صورتحال کارگر ثابت ہورہی ہے۔ عراق، شام، مصر ، یمن، افغانستان، پاکستان کے حالات اسی طرح بگڑتے رہے تو خام تیل کی قیمتوں میں مزید گراوٹ ہوگی جس کی وجہ سے ان ممالک کی معیشت پر شدید اثرپڑے گا۔ اگر مشرقِ وسطی کے ممالک متحدہ طور پر اپنے اندرونی حالات کا جائزہ لے کر دشمنانِ اسلام کی سازشیوں کو سمجھتے ہوئے شدت پسندوں سے نمٹنے کیلئے مذاکرات کا عمل شروع کرتے ہیں یا پھر متحدہ طور پر سخت قوانین کے نفاذکے ذریعہ قابو پانے کی کوشش کرتے ہیں تو مستقبل میں جس طرح کا خطرہ منڈلا رہا ہے اسے ختم کیا جاسکتا ہے۔ لیکن مشرقِ وسطی اس وقت جن حالات سے گزر رہا ہے اسے دیکھتے ہوئے مجموعی طور پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ خطہ میں اسرائیل کو مضبوطی اور طاقت عطا کرنے کے لئے امریکہ عالم اسلام کو کھوکھلا کرکے رکھ دے گا اور ان ممالک سے ہمدردانہ روش بنائے رکھنے کی ڈھونگ کرتے ہوئے جتنا چاہے دولت بٹورنے کی کوشش کرتا رہے گا۔ 
شام و عراق کی خواتین و بچوں کا پرسان حال کون؟
مشرقِ وسطی میں اس وقت ہزاروں خواتین اور بچے اپنی زندگیوں سے محروم ہورہے ہیں انہیں ایک طرف حکمرانوں کی فوج اور سیکیوریٹی فورسزکے قہر و غضب کا شکار بنایا جارہا ہے تو دوسری جانب شدت پسندوں کی وحشیانہ سرگرمیوں کا شکار ہورہے ہیں۔ شام میں دو لاکھ سے زائد افراد بشمول خواتین و معصوم بچے ہلاک ہوچکے ہیں، ہزاروں زخمی ہیں جبکہ لاکھوں کی تعداد میں بے گھر ہوگئے ہیں جو مختلف پناہ گزیں کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں انہیں امدادی ایجنسیوں کی جانب سے بھی برابر ضروریاتِ زندگی کے سامان میسر نہیں آرہے ہیں جس کی رپورٹ خود اقوام متحدہ کے ادارہ نے دی ہے۔عالمی ادارہ خوارک نے پیر سے اس اسکیم کو بند کردیا ہے جس کے تحت شام کے پڑوسی ممالک میں موجود 17لاکھ شامی پناہ گزینوں کو امدادی خوراک دی جاتی رہی ہے۔ ادارے کے مطابق اسے یہ اقدام مالی مشکلات سے مجبور ہوکر اٹھانا پڑا ہے کیونکہ امداد دینے والے کئی ممالک اور ادارے اتنی مالی مدد نہیں کررہے ہیں جس کا انہوں نے وعدہ کیا تھا۔ ادارے کے مطابق اس پروگرام میں تعطل کے بعد بے شمار شامی پناہ گزین گھرانے بھوک و پیاس کا شکار ہوجائیں گے۔اور شدید سرد موسم کی سختیوں سے بمشکل نبرد آزما ہونگے ۔ عالمی ادارے کی اسکیم بند ہونے سے شامی پناہ گزین شہریوں کی زندگیوں پر تباہ کن اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ان معصوم بچوں اور خواتین پر جو بیت رہی ہے شائد ہم اس کا اندازہ نہیں کرسکتے ۔اقوام متحدہ کو چاہیے کہ وہ کسی بھی طرح شام کے پناہ گزینوں کی خوراک اور ضروریاتِ زندگی کے لئے اہم اقدامات کریں ۔ امریکہ جو یہودی مملکت کی بقاء کے لئے کروڑوں ڈالرز سالانہ صرف کررہا ہے وہ شامی پناہ گزینوں کے لئے امدادی سرگرمیوں کا آغاز کریں۔
سعودی عرب میں خواتین کی کار ڈرائیونگ 
سعودی عرب دنیا کا واحد ملک ہے جہاں خواتین کو گاڑی چلانے پر پابندی عائد ہے۔خلاف ورزی کرنے پر انہیں گرفتار بھی کیا جاسکتا ہے اور جرمانہ بھی عائد کیا جاتا ہے۔ تقریباً بیس سال سے سعودی عرب میں خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت دینے کے لئے تحریک جاری ہے ۔ لیکن گذشتہ سال خواتین کی ڈرائیونگ کے حق میں کام کرنے والی تنظیم ’’ویمن ٹو ڈرائیو‘‘ نے ایک مہم چلائی تھی جس میں خواتین پر زور دیا گیا تھا کہ وہ حکومت کی جانب سے عائد کی گئی پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سڑکوں پر گاڑی چلائیں۔ اطلاعات کے مطابق 60سے زائد خواتین نے خلاف ورزی کرتے ہوئے مملکت کے مختلف شہروں میں گاڑیایں چلاکر احتجاجی مہم میں حصہ لیا تھا جس کے بعد سعودی حکام نے گاڑی چلانے والی 16خواتین کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ان پر جرمانے عائد کئے تھے۔ 
گذشتہ منگل کو متحدہ عرب امارات سے ایک خاتون لوجین ہتھلول سعودی عرب میں ڈرائیونگ کرتے ہوئے داخل ہورہی تھی جسے سعودی حکام نے روکا تھا اور اس واقعے کے بعد جب یو اے ای میں مقیم سعودی خاتون صحافی میسا المودی اس کی مدد کو پہنچی تو اسے بھی گرفتار کرلیا گیا ۔ان دونوں خواتین کی گرفتاری پر ویب سائٹ ’’گلف سینٹر فار ہیومن رائٹس‘‘ نے شدید مذمت کی تھی جس کے بعد اس ویب سائٹ کو سعودی عرب نے بلاک کردیا ۔ تنظیم نے ان دونو ں خواتین کی گرفتاری پر ردّعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سعودی حکومت کی جانب سے خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت دینے کے لئے کام کرنے والے کارکنوں کو ہراساں کرنے کی یہ ایک منظم مہم کا حصہ ہے قرار دیا۔
عمران خان کیا نیا پاکستان بناپائیں گے؟
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان پاکستانی عوام کو ایک نیا پاکستان بنانے کے خواب دکھا رہے ہیں اس سلسلہ میں پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف افغانستان کے حوالے سے لندن کانفرنس میں شرکت کے لئے برطانیہ پہنچے جہاں پر انہوں نے عمران خان کے نام ایک پیغام میں کہا کہ جو نیا پاکستان بنانے کی بات کرتے ہیں وہ پہلے خیبر بختونخوا میں نیا پاکستان بناکر دکھائیں۔ وزیر اعظم نے خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس کے پاس کوئی ایجنڈا نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ٹیم ہے۔ البتہ وزیر اعظم نے عمران خان کی جانب سے مذاکرات کے دوبارہ آغاز کی پیشکش کے بارے میں سوال پر کہا کہ ہمیں بات چیت پر کوئی تامل نہیں ہے ہم بات چیت اور جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں لیکن بات چیت بامقصد ہونی چاہیے۔ اگر تحریک انصاف خلوص کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتی ہے تو حکومت کو اعتراض نہیں ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف ایک طرف مذاکرات کی بات کرتی ہے تو دوسری جانب ملک بند کروانے کے اعلانات کئے جاتے ہیں اس طرح دو متضاد باتیں نہیں کرنی چاہیے ۔ وزیر اعظم کے اس بیان کے بعد ہوسکتا ہے کہ 6ڈسمبر کو عمران خان کی جانب سے احتجاج کے نئے سلسلے کی کال واپس لی جاسکتی ہے۔ جس کا اظہار پی ٹی آئی کے نائب چیرمین شاہ محمود قریشی نے کیا ہے۔اب دیکھنا ہے کہ عمران خان اپنے چاہنے والے پی ٹی آئی کارکنوں کے ساتھ جس طرح اگسٹ میں نواز شریف اور انکی حکومت کے خلاف دھاندلیوں کے مسئلہ کو لیکر احتجاج کرتے ہوئے ڈی چوک، شاہراہ دستور اور پھر پارلیمنٹ تک نکل آئے تھے اور اب نئے پاکستان کے خواب کا رُخ کس طرف کرتے ہیں۔

«
»

کیا ہندوستان فاشزم کے راستے پر جارہا ہے؟

مسلمان صحابۂ کرام کو نمونۂ عمل بنائیں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے