مسلمان صحابۂ کرام کو نمونۂ عمل بنائیں!

پھر ان کی زندگیوں میں ایسا انقلاب آیا کہ اس کی نظیر اس دنیا نے نہ تو ماضی کی طویل ترین انسانی تاریخ میں کبھی دیکھا تھا اور نہ آیندہ کے دنوں میں ایسا ہوپایا،وہ دورجس میں نبی پاکﷺاپنے اصحاب کے ساتھ اس دنیا میں موجودرہے ،جوکل۲۳؍سال کے عرصے کو محیط ہے،وہ انسانی تاریخ کا افضل ترین،بہترین،حیرت انگیزانقلابات کا مرقع،حق کی سربلندی اور باطل کی شکست خوردگی و خود سپردگی کا ایسانمونہ تھا،جسے ہرکوئی دیکھ اور محسوس کر سکتا تھا۔آپؐکو صحابہ کی جو جماعت ملی تھی،وہ آپ ؐہی کی مانند منتخب تھی،اللہ نے خاص طورسے آپ کی مصاحبت کے لیے ہی انھیں پیدا کیاتھا،اسلام لانے کے پہلے وہ برائیوں کی پوٹ تھے،مگر دامنِ اسلام سے وابستگی کے بعدوہ ایسے بدلے کہ خوداچھائیاں ان پر رشک کرنے لگیں،شرافت کوان سے دوام ملا،حق پرستی کو آبرو نصیب ہوئی،صدق و صفاکے موتی ان ہی کے ذریعے چمکے،اخلاص ووفاکووقارواعتبارملا۔صحابہ کی سیرت،عادت؛بلکہ ان کی پوری زندگی میں جو تبدیلی واقع ہوئی،اس میں ایک توخود مشیتِ الہی کا دخل تھا ، کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ایسا ہی چاہتے تھے؛چنانچہ ایسا ہی ہوا،مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک اور بات یہ بھی تھی کہ ان لوگوں کو محمد مصطفیٰﷺجیسا مربیِ کامل،بے لوث محسن،شفیق استاذملا۔لسان العصراکبرالہ آبادی نے نبی پاکﷺکی پرتاثیرنظراورصحابۂ کرام کی زندگی میں آنے والے حیرت انگیزانقلاب کی جانب اشارہ کرتے ہوئے خوب کہاہے:
خودنہ تھے جوراہ پر،اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظرتھی،جس نے مردوں کومسیحا کردیا
قرآن کریم میں جگہ جگہ صحابۂ رسول کے اوصاف بیان کیے گئے ہیں،راہ حق میں ان کی قربانیوں کا تذکرہ کیاگیا ہے،عنداللہ ان کے مراتبِ عالیہ کی وضاحتیں کی گئی ہیں اوردنیا ہی میں انھیں رضائے الٰہی کی خوش خبریوں سے نوازاگیاہے۔سورۂ الفتح کی ایک قدرے لمبی آیت ہے،جس میں صحابۂ کرام کی عملی خصوصیات کا ذکر ہے،اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:’’محمداللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں،وہ کفار پر سخت اورآپس میں رحم دل ہیں،تم انھیں رکوع اور سجدے میں مشغول پاؤگے،وہ اللہ کے فضل اور اس کی رضاکی طلب میں مصروف رہتے ہیں،ان کی نشانیاں(شناخت نامے)ان کی پیشانیوں پر ہیں سجدوں کی وجہ سے ۔یہی ان کی صفت توریت میں(بھی بیان کی گئی)ہے اور انجیل میں ان کی مثال یوں دی گئی ہے کہ گویا ایک کھیتی ہے،جس نے پہلے کونپل نکالی،پھراس کو تقویت دی،پھراس میں اور مضبوطی آئی،پھر وہ اپنے تنے پر کھڑی ہوگئی،تاکہ کفار ان کے پھلنے پھولنے پر جلیں۔ان میں سے جولوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیاان کے لیے اللہ نے مغفرت اور اجرِ عظیم کا وعدہ کیاہے‘‘۔(آیت:۲۹)
صحابۂ کرام کی زندگیوں کی نقشہ کشی اس سے زیادہ جامع انداز میں نہیں ہوسکتی۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی ہر خصوصیت کو اس آیت میں کھول کر رکھ دیا ہے۔یوں تو ان کی یہی خصوصیت سب سے بڑی تھی کہ انھوں نے اللہ کے محبوب نبیؐکودیکھا ،ان کی جناب میں باریابی کا شرف حاصل کیااوران سے فیض حاصل کیاتھا،مگر ان کے ساتھ مل کر اعلاے حق کے راستے میں انھوں نے جس جاں سپاری کے ساتھ قربانیاں پیش کیں،اس نے انھیں اللہ کے نبی کی نگاہ میں اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے یہاں بھی بڑی سربلندیوں کا مستحق بنادیا۔ان میں سے ہر ایک کے دل میں اپنے نبیؐ،اللہ تبارک و تعالیٰ اور اپنے دینِ متین کی ایسی محبت جاگزیں ہوگئی تھی کہ وہ اس راہ میں اپنا سب کچھ قربان کرنے کو ہر وقت تیار رہتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ آپؐ نے بھی مختلف مواقع پر اپنے صحابہ کی عظمت کو بیان فرمایا اور امت کو تلقین کی کہ وہ نہ صرف ان کی تعظیم و تکریم کواپنا دینی و ایمانی فریضہ سمجھے؛بلکہ ان کی زندگی اور سیرت و کردار کو اپناتے ہوئے زندگی بھی گزارے۔آپ نے ایک موقعے سے ارشاد فرمایا’’میرے صحابہ کو گالیاں نہ دینا،اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابربھی سونا خرچ کرے(اللہ کے راستے میں)توان میں سے کسی ایک کے خرچ کیے ہوئے مد(معمولی مقدار)کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا‘‘ (صحیح مسلم،کتاب الفضائل،باب تحریم سب الصحابہ)اس حدیثِ پاک سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام میں صحابۂ کرام کی عظمت کتنی زیادہ ہے اوراللہ کے راستے میں ان کی دی گئی قربانیوں کی قدروقیمت کس قدر اعلیٰ ہے۔اسی طرح ایک اور حدیث میں،جو بہت ہی مشہور ہے اور ہر جمعہ میں خطبہ کے دوران امام صاحب اسے پڑھتے ہیں،آپؐ نے قیامت تک کے لیے پوری امت کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا’’میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرنا،میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرنا،جس نے ان سے محبت کی،اس نے مجھ سے محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا،اس نے مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھااوربہترین لوگ میرے زمانہ کے لوگ ہیں،پھرجوان کے بعد آنے والے ہیں،پھرجوان کے بعد آنے والے ہیں‘‘ اس حدیث سے بھی صحابۂ کرام کی بے پناہ عظمت کا اظہارہوتاہے ،کہ نبی پاکﷺ ان سے محبت کو اپنی محبت کا علامت قرار دے رہے ہیں اوران سے بغض کو اپنی ذات سے بغض کی علامت قرار دے رہے ہیں۔
صحابۂ کرام کی عظمت اور علوِ مرتبت کا تقاضا تھا کہ اسلام نبی پاکﷺ کے بعد بھی انفرادی و اجتماعی طورپر ان کی جماعت کومسلمانوں کے لیے نمونۂ عمل اور آئیڈیل قراردیتا،سواس نے جہاں یہ کہاکہ ’’نبی کی ذات تمھارے لیے اسوۂ حسنہ اور بہترین نمونہ عمل ہے‘‘،وہیں نبی پاکﷺکی زبانی یہ بھی کہلوایاگیا کہ ’’تم میری اور میرے خلفائے راشدین کی اتباع کرنا‘‘اوریہ کہ’’میرے صحابہ ہدایت کے ستارے ہیں،تم ان میں سے جس کی بھی اتباع کروگے،راہ یاب ہوجاؤگے‘ ‘مطلب یہ ہے کہ خلفائے راشدین ہی نہیں جماعتِ صحابہ کے ادنیٰ سے ادنیٰ انسان کی زندگی میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ کسی بھی انسان،معاشرہ اور قوم کی حیات میں انقلاب لاسکتی ہے،اسے ناکامیوں اور نامرادیوں کے بھنور سے نکال کر کامیابیوں کی بلندوبالامنزل تک پہنچا سکتی ہے،اسے دنیا میں بھی سرخ رو کرسکتی ہے اور مرنے کے بعد بھی دائمی نجات و بخشش کے پروانے دلوا سکتی ہے۔اس کی ضمانت زبانِ رسالت مآب نے لی ہے اور اس میں ادنیٰ شک و شبہے کی بھی دوردورتک کوئی گنجایش نہیں ہے۔پتہ چلاکہ مسلمان کی کامیابی کے لیے نبی پاکؐ کے بعد اگر کسی جماعت کی زندگی اور سیرت و کردار نمونۂ عمل،مشعلِ راہ اور قابلِ تقلید ہے،تو وہ صحابۂ کرام کی جماعت ہے۔ان میں سے جس کی بھی سیرت اور زندگی کے مطابق کوئی مسلمان اپنی زندگی کو ڈھالے، وہ کامیاب ہوگا،اسے اللہ کی قربت و رحمت اور مغفرت حاصل ہوگی ۔حضرت عبداللہ ابن مسعودؓنے ایک بارفرمایاتھا’’وہ لوگ جن کی اتباع کرنی چاہیے،وہ محمدﷺکے اصحاب ہیں،وہ لوگ اس امت کے افضل ترین لوگ تھے،ان کے دلوں میں اللہ کی اطاعت و فرماں برداری رچی ہوئی تھی،وہ دین کا گہرا علم رکھتے تھے،وہ تکلف اور تصنع سے دور رہتے تھے،ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی مصاحبت اوراپنے دین کی اقامت کے لیے منتخب فرمایاتھا،مسلمانو!تم ان کا مقام پہچانو،ان کی اتباع کرو،ان کے اخلاق و سیرت کو مضبوطی سے پکڑو،کیوں کہ وہ لوگ صراطِ مستقیم اور اللہ کی بتائی ہوئی راہِ ہدایت پر تھے‘‘۔(مشکوۃ المصابیح،کتاب الایمان)
حضرت عبداللہ ابن مسعودکا یہ ارشادِ گرامی آج بھی مسلمانوں کو اسی طرح صحابۂ کرام کے حوالے سے بیداروہوشیارکررہاہے،مگر مسلمان ہیں کہ وہ غفلت سے بیدار ہونے کو تیار نہیں۔یہ ہماری بد قسمتی کی انتہا نہیں تو اور کیاہے کہ ہمارے پاس انسانی دنیا کے اعلیٰ ترین نمونہ ہاے عمل موجودہیں،مگر ہمارے نوجوان آئیڈیل بناتے ہیں تو کس کو؟فلمی اداکاروں کو،کرکٹ اسٹاروں کواوران لوگوں کو،جوعیاشی و فحاشی کے پیغامبر،خودغرضی و مفاد پرستی کے نمونے اور زروزن کے گردچکرانے والے لوگ ہیں۔ہمارے نوجوان اپنی ظاہری شکل وصورت سے لے کرلباس وپوشاک تک میں ایسے ہی لوگوں کی نقالی کرتے نظرآتے ہیں، لڑکے تو لڑکے انسانیت کی مُردنی کا یہ عالم ہے کہ بہت سی مسلم لڑکیاں بھی مستقبل میں’اداکارہ‘بننا چاہتی ہیں؛چنانچہ وہ وہی سب کچھ کرنے کے لیے تیارہیں، جوپیشہ ور اداکارائیں فن کاری،اداکاری اورآرٹ کے نام پر کرتیں، اپنی عزت و عفت کوروشن خیالی و آزادی کی بھینٹ چڑھاتیں اور پوری طرح حیاباختہ ہوکر’کامیابیوں‘کی منزلیں طے کرتی ہیں۔
ہرقوم کا رشتہ ماضی سے بہت ہی اٹوٹ ہوتا ہے،چاہے وہ ماضی غمناک ہی کیوں نہ رہاہواوراگرماضی روشن و تابناک رہاہو،تب تواسے یاد رکھنے کے ہزار بہانے ہوتے ہیں اور کوئی بھی قوم کسی بھی موقعے پر اسے بھولنا نہیں چاہتی،مگرایسی یادکاکوئی فائدہ نہیں،جو صرف اپنے گزرے ہوئے اچھے دنوں پرفخر کرنے کے لیے ہو۔ہماری اجتماعی و انفرادی مجلسوں میں سیرتِ نبویؐسے لے کر صحابۂ کرام کی قابلِ رشک زندگیوں اور اسلامی شوکت و عظمت اور اسلامی سیاست کی خوبیوں ،خصوصیات اور ایک زمانے تک دنیا میں اس کی سربلندی کے بڑے چرچے ہوتے ہیں،مگر کیاہمیں کبھی یہ توفیق ہوتی ہے کہ ہم سوچیں کہ آخر وہ دن ہمیں اب کیوں میسر نہیں ہیں؟ہمیں سوچناہوگا،ہمیں اپنے عمل و کرداراور طرزِزندگی کی سمت بدلنی ہوگی،اپنے ’ہیروز‘بدلنے ہوں گے۔تبھی ہمارے وہ اچھے دن لوٹیں گے،جوآج سے چندصدیاں قبل ہمیں حاصل تھے۔ہمیں صحابۂ کرام کو،ان کی زندگیوں کو،ان کی سیرتوں کونمونہ بنانا ہوگااجتماعی زندگی میں بھی اور انفرادی زندگی میں بھی،اسلام ہمیں اسی کا حکم دیتا ہے اوراسی میں ہماری کامیابی کی بھی ضمانت ہے۔

«
»

خوف

افغان یوٹرن

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے