عام آدمی کیوں نہیں بننا چاہتے یوپی کے نیتا؟

حالانکہ لال بتی ولے نیتاؤں کی چھٹی سے خود ملائم سنگھ یادو ناراض ہیں کیونکہ بعض ان کے قریبی لوگوں کو یہ درجہ حاصل تھا۔ یونہی وزیر اعلیٰ کے اقدام سے ان کے چچا شیوپال یادو بھی خوش نہیں ہیں جن کے قریبی لوگوں کو بھی لال بتی ملی ہوئی تھی۔ پارٹی کے اندر ابھی لال بتی ہر جنگ چل رہی ہے اور دوسری طرف لوک سبھا الیکشن میں ہار کا تجزیہ بھی جاری ہے۔ اصل میں لال بتی والوں پر نزلہ گرنے کا سبب پارٹی کی خراب تصویر بھی ہے،جس کے لئے وہ لوگ خاص طور پر ذمہ دار ہیں جنھیں سرکار نے وزیر مملکت کا درجہ دے رکھا تھا اور اسی درجے کی وجہ سے انھیں اپنی گاڑیوں پر لال بتی لگانے کی اجازت ملی ہوئی تھی۔ ایسے لوگوں کو اکثر دیکھا گیا ہے کہ وہ اپنے وی آئی پی ہونے کا رعب عوام اور افسران پر گانٹھتے تھے اور اس چکر میں انھوں نے سرکار کی تصویر خراب کی۔ ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں میں بعض دبنگ قسم کے افراد بھی تھے جنھوں نے سب سے برے اثرات ڈالے۔ جن لوگوں کو وزیر مملکت کا درجہ ملا ہوا تھا ان میں کچھ تو وزیر اعلیٰ کئے قریبی تھے تو کچھ ملائم سنگھ یادو کے قریبی تھے اور بعض رام گوپال یادو و شیو پال یادو کے قریبی بھی تھے۔ گویا کہ ملائم خاندان کے قریبی لوگوں کو یوپی میں وی آئی پی کا درجہ ملا ہوا تھا جن سے ناراض ہوکر وزیر اعلیٰ نے ۸۲ افراد کا یہ درجہ ختم کردیا۔ حالانکہ پہلے کسی کو بھی اس کی اطلاع نہیں تھی کہ وزیر اعلیٰ اس قسم کا قدم اٹھانے والے ہیں لہٰذا وہ اپنی کرسی اور حیثیت بچانے کے لئے کچھ بھی نہ کرسکے۔ صبح کے اخبار اور ٹی وی چینلوں پر انھوں نے خبر دیکھی تو پاؤں کے نیچے سے زمین کھسک چکی تھی اور ان کے پاس اب کرنے کے لئے کچھ بھی نہ تھا۔ 
لال بتی نے سماج وادی پارٹی کا بیڑا غرق کیا
اترپردیش ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے اور یہان کے بارسوخ لوگوں کا یہ عجیب شوق ہے کہ وہ لال بتی والی گاڑیوں میں چلنا چاہتے ہیں تاکہ عوام پر اپنی وی آئی پی حیثیت کا رعب گانٹھ سکیں۔ یہاں کے مالدار اور دبنگ لوگوں کو پہلے تو شوق تھا کہ وہ بندوق لے کر چلتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ دیکھنے والوں پر اس کا اثر پڑ رہا ہے مگر پھر ان کا شوق اور بڑھا اور وہ سرخ بتی والی گاڑی میں چلنے کا شوق پالنے لگے۔ اصل میں اس طریقے سے وہ یہ جتانا چاہتے ہیں کہ وہ کوئی معمولی آدمی نہیں ہیں بلکہ بارسوخ ہیں اور ان کی پہنچ اعلیٰ کرسی پر بیٹھے لوگوں تک ہے لہٰذا عام لوگوں کو ان سے خوف کھانا چاہئے۔ اس نفسیات کا سماج وادی پارٹی نے خوف فائدہ اٹھایا اور اس کی قیمت وصول کر کے لال بتی دے دی۔ ایسے لوگوں کو وزیر مملکت کا درجہ مل گیا اور سرکار کی طرف سے تنخواہ بھی ملنے لگی۔ اس قسم کے لوگوں نے سرکار کی امیج کو نقصان پہنچایا اور ان کی ذلیل حرکتوں کو عوام نے پسند نہیں کیا۔ ان لوگوں نے سرکار کی تصویر خراب کی اور جنتا میں غلط پیغام گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پارٹی کو لوک سبھا الیکشن میں ذلیل شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ آج جب کہ وہ اس ہار کے وجوہات پر غور کر رہی ہے تو اس پر دباؤ پڑ رہا ہے کہ وہ ایسے افراد سے پیچھا چھڑائے لہٰذا دبنگ قسم کے نیتاؤں سے وہ الگ ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔ لال بتی والوں پر نزلہ گرنے کی اصل وجہ یہی تھی۔ وزیر اعلیٰ پر خود بھی دباؤ پڑ رہا تھا کہ وہ حکومت اور پارٹی کی امیج کو سدھاریں ورنہ مستقبل میں حالات ارو بھی خراب ہوسکتے ہیں۔ اس دباؤ کے پیش نظر انھوں نے یہ قدم اٹھایا۔
دوبارہ لال بتی ملے
لال بتی والے نیتاؤں کی بھیڑ ،اب ملائم سنگھ یادو، شیوپال یادو اور رام گوپال یادو کے آستانوں پر سجدہ ریز ہونے پہنچنے لگی ہے۔ان لوگوں کی کوشش ہے کہ کسی طرح دوبارہ انھیں وہی سابقہ پوزیشن حاصل ہوجائے۔ ملائم سنگھ یادو بیٹے پر زور ڈال رہے ہیں کہ وہ کم ازکم تیس ایسے افراد کو دوبارہ ان کی سابقہ پوزیشن دیدیں۔ شیوپال یود بھی اسی سبب بھتیجے سے ناراض ہیں اور کسی بھی طرح اپنے کچھ لوگوں کا یہ درجہ بحال کرانا چاہتے ہیں مگر وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو بضد ہیں کہ وہ کسی قیمت پر ان لوگوں کو سابقہ پوزیشن نہیں دینگے۔ ان کا ماننا ہے کہ جن لوگوں سے پارٹی کو فائدہ نہیں ہوا بلکہ نقصان ہی ہوا ہے انھیں وی آئی پی درجہ دینے اور سرکاری سہولیات فراہم کرنے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ حالانکہ ان نیتاؤں کو پارٹی کی تصویر سے کچھ لینا دینا نہیں ہے ، وہ تو صڑف اپنی پوزیشن چاہتے ہیں۔ وہ پارٹی کے ممبران اور ورکر حالات سے کس قدر بے فکر ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حال ہی میں دیوریا میں ایک چنتن شیوِر چل رہا تھا جس میں پارٹی کے ورکروں کے دو گروہ آپس میں بھڑ گئے اورایک دوسرے پر ہاتھ ہی نہیں بلکہ بانس اور ڈنڈے سے پل پڑے۔ ظاہر ہے کہ لڑائی صرف حکمراں خاندان کے اندر ہی نہیں ہے بلکہ باہر بھی ہے۔ 
دبنگ نیتاؤں کو دور کرنے کی کوشش
سماج وادی پارٹی ان دنوں ملک کے بدلتے سیاسی ماحول سے خوف زدہ ہے اور اب کسی بھی طرح حالات کو اپنے حق میں کرنا چاہتی ہے۔ اس نے پارٹی کی تصویر بدلنے کے لئے کوشش شروع کردی ہے۔ اب تک لال بتی والوں پر گاج کرچکی ہے مگر اب پارٹی کے عہدیداروں پر بھی کارروائی کی تیاری ہے۔ وہ تمام عہدیدار یا ممبران جن کی امیج مجرمانہ ہے اور پارٹی کو لگتا ہے کہ ان کے سبب نقصان پہنچ
رہا ہے ان کی چھٹی ہونے والی ہے۔ کئی ضلع صدر بدلے جائینگے اور ان کی جگہ صاف ستھری تصویر والے لوگ لائے جائیں گے۔ اس قسم کے دوسو سے زیادہ نیتا اورورکر پارٹی سے نکالے جاسکتے ہیں کیونکہ ان کی شناخت کرلی گئی ہے۔ اسی پر بس نہیں سماج وادی پارٹی اپنی امیج کو لے کر اس قدر فکر مند ہے کہ وہ ایسے ممبران اسمبلی کی پہچان کر رہی ہے جن کی امیج دبنگ والی ہے اور انھیں آئندہ اسمبلی الیکشن میں ٹکٹ سے محروم کیا جائے گا۔ حالانکہ ابھی صوبائی اسمبلی کے چناؤ کو ڈھائی سال باقی ہیں مگر یہ ڈھائی سال بھی پارٹی میں سدھار کے لئے کم لگتے ہیں۔ اصل میں اس وقت سماج وادی پارٹی کے اندر خود احتسابی کا دور چل رہا ہے اور پارٹی لیڈران کو لگتا ہے کہ اگر ابھی خود کو نہیں بہتر کر پائے تو آئندہ انتخابات میں عوام مسترد کردیں گے۔اکھیلش سرکار کے قیام کے دوسال بعد لوک سبھا الیکشن ہوا جس میں پارٹی کو بری طرح ہار کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس سے پارٹی نے سبق لیا ہے اور خود احتسابی میں مصروف ہوگئی ہے۔ اسی کے ساتھ اسے دوسری فکر یہ ستا رہی ہے کہ اب عوام سیاست کو بدلتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ انھیں دبنگ نیتا نہیں چاہئے بلکہ صاف ستھری تصویر والا عوام دوست لیڈر چاہئے۔ انھیں ایسے نیتاؤں کی ضرورت نہیں ہے جن پر کرپشن اور گھوٹالوں کے الزمات لگے ہوں اور وہ عوامی دولت کو لوٹنے میں مصروف ہوں بلکہ انھیں ایسے لیڈروں کی ضرورت ہے جو ملک اور عوام کی ایمانداری سے خدمت کرسکیں۔ آج یہی حالات سماج وای پارٹی کو بدلنے پر مجبور کر رہے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ خود ملائم سنگھ یادو اور ان کے خاندان پر آمدنی سے زیادہ دولت رکھنے کا الزام ہے اور اس سلسلے میں ان پر کیس چل رہا ہے۔ حالانکہ پچھلی یوپی اے سرکار کو وہ حمایت دے رہے تھے ارو اس کے بدلے میں سرکار نے ان کے مقدمے کو ہلکا کرنے کا کام بھی کیا تھا مگر وہ اپنی اس تصویر کو کیسے بدلیں گے؟ ملائم سنگھ یادوکے آس پاس خراب تصویر کے نیتاؤں کی کوئی کمی نہیں ہے جن میں ایک بڑا نام راجہ بھیا کا ہے۔ اترپردیش کا بچہ بچہ اس نام سے واقف ہے اور اس کے کام بھی بخوبی آگاہ ہے مگر راجہ بھیا کو ملائم سنگھ یادو سے قربت ہے اور وہ اسے اپنا منہ بولا بیٹا قرار دیتے ہیں۔ سنگین مقدامات میں ماخوذ راجہ بھیا کو منتری بنانے کے لئے ملائم سنگھ یاود نے اپنے مسلم وٹروں کی ناراضگی کا بھی خیال نہیں کیا۔ 
ملائم سنگھ یادو ان دنوں خود بھی اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ پارٹی کی گرتی ہوئی ساکھ کو بہتر بنائیں اور اس سلسلے میں وہ مختلف لوگوں سے بات کر رہے ہیں۔ انھوں نے جب لوک سبھا الیکشن میں ہار کا جائزہ لیا تو انھین بتایا گیا کہ بیشتر سیٹوں پر پارٹی کی ہار کا سبب اپنے لوگوں کی بے وفائی اور دھوکے بازی ہے مگر جب اصل ھقیقت کھلی تو پتہ چلا کہ عوام کو جس بات سے سب سے زیادہ نارض کیا اور وہ پارٹی سے دور ہوئے اس کا سبب دبنگ نیتا ہیں لہٰذا انھیں درکنار کرنے کی کوشش شروع ہوگئی۔ وزیر اعلیٰ کا دعویٰ ہے کہ ان کی حکومت نے کئی اہم کام کئے ہیں جن کا فائدہ عوام کو پہنچ رہا ہے۔ وہ فکر مند تھے کہ کام کے باوجو د ان کی پارٹی کیوں ہاری اور پہلے وہ اس کے لئے اپنے افسران کو ذمہ دار ٹھہراتے تھے مگر دھیرے دھیرے یہ راز کھلا کہ اس کے لئے زیادہ ذمہ دار پارٹی کے وہی لیڈر ہیں جن کی تصویر عوام دشمن کی بنی ہوئی ہے۔ 

«
»

مذہب کے سیاسی استعمال پر روک کیوں ضروری؟

عبدالمتین خاںؒ : چند نقوش و تأثرات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے