پھر مسلم یونیورسٹی موضوع بحث

تھے برلا کے پٹھو ٹاٹا کے ٹٹو ہائے ہائے اور شو بوائے کے نعروں سے اس وقت تک اسٹیشن گونجتا رہا جب تک ٹرین کھڑی رہی۔ یہ وہ مولانا آزاؔ د تھے جن کے علم، جن کے تدبر، جن کی فراصت کا نہ کوئی اس وقت ہمسر تھا اور نہ اس کے بعد ہوا۔ اسی یونیورسٹی کے لڑکوں نے شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ کی پگڑی اُچھالی اور انہوں نے ہی جگہ جگہ امیر شریعت اور جمعیۃ علماء کے جلسوں پر پتھراؤ کیا۔ اس کے باوجود اُن ہی بزرگوں کی قربانی تھی کہ انہوں نے مسلم یونیورسٹی کو بچا لیا اور جو گندگی تھی وہ سب پاکستان چلی گئی۔
مسلم یونیورسٹی کا تو ہندوؤں سے کسی بھی محاذ پر ٹکراؤ نہیں ہوا نہ پوری تحریک میں انہوں نے کسی ہندو لیڈر کو نشانہ بنایا اس کے باوجود معلوم نہیں کیا بات ہے کہ مسلم یونیورسٹی میں کسی بھی قسم کے اختلاف کی خبر آجائے تو ہندو پریس کی مشینیں گھسنے لگتی ہیں اور الیکٹرانک میڈیا میں کسی کی زبان تالو سے نہیں گھستی جبکہ بنارس ہندو یونیورسٹی، الہ آباد یونیورسٹی، لکھنؤ یونیورسٹی، چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی اور ہر یونیورسٹی میں خدا جانے کیسی توڑپھوڑ مارپیٹ اور غنڈہ گردی ہوتی ہے لیکن چھوٹی سی ایک خبر چھاپ کر اور ٹیلی ویزن اُسے سناکر ایسا خاموش ہوتے ہیں جیسے معمولی سی بات تھی ختم ہوگئی۔
موجودہ وائس چانسلر ضمیرالدین شاہ سے عبداللہ گرلس کالج کی لڑکیوں نے درخواست کی کہ وہ مولانا آزادؔ لائبریری کا کارڈ اُن کو بھی بنواکر دے دیں وہ بھی لائبریری سے کچھ فائدہ اُٹھانا چاہتی ہیں۔ انہوں نے جواب دیا اور جن الفاظ میں دیا اس نے ایسی قیامت ڈھائی کہ سارا قومی پریس اور پورا میڈیا اس طرح ہاتھ دھوکر پیچھے پڑا جیسے ان کے حلق کی روٹی اور پانی بند کردیا ہو۔ انتہا یہ ہے کہ فروغ انسانی وسائل کی فاضل منسٹر نے بھی اس میں مداخلت ضروری سمجھی۔ وائس چانسلر کا کہنا ہے کہ عبداللہ کالج کی عمارت یونیورسٹی کی عمارت سے تین کلومیٹر دور ہے اور عبداللہ گرلس کالج میں جو لائبریری ہے وہ ان کی ضرورت کے لئے بہت کافی ہے۔ عبداللہ کالج کے ہاسٹل میں جو لڑکیاں رہتی ہیں وہ انٹر تک کی تعلیم حاصل کرتی ہیں ان کلاسوں میں جس عمر کی لڑکیاں ہوتی ہیں اسے تجربہ کار لوگوں نے خطرناک عمر قرار دیا ہے۔ مزید یہ کہ وہ کارڈ کے سہارے تین کلومیٹر رکشے سے جائیں اور آئیں۔ یا کسی اور سواری سے یہ فاصلہ طے کریں تو ان کی ذمہ داری کون لے گا؟ وہ کالج سے لائبریری کب گئیں یا لائبریری کے بہانے کہاں گئیں؟ اس کی خبر کون رکھے گا؟
عبداللہ کالج کے ہاسٹل میں ہندوستان کے ہر صوبہ کی لڑکیاں رہتی ہیں یہ اتنی نازک ذمہ داری ہے کہ ذراسی غفلت کالج کی نیک نامی کو خاک میں ملادے گی۔ رہا مولانا آزاد لائبریری سے لڑکیوں کے فائدہ اُٹھانے کا مسئلہ تو جو لڑکیاں میڈیکل کی یا انجینئرنگ کی یا ریسرچ تعلیم حاصل کررہی ہیں جن کی تعداد ہزاروں ہے ان سب کے پاس کارڈ ہے اور سب فائدہ اُٹھاتی ہیں فروغ انسانی وسائل کی عالمہ فاضلہ وزیر اسمرتی ایرانی نے وائس چانسلر کو نوٹس بھیج کر کہا ہے کہ آپ نے بیٹیوں کی بے عزتی کی ہے۔ منترائن صاحبہ کا یہ پہلا قدم ہے اسی لئے انہوں نے اسے بے عزتی کہہ دیا۔ اُنہیں سوچنا چاہئے کہ جن لڑکیوں کا مسئلہ ہے وہ مسلم یونیورسٹی کی طالبہ نہیں ہیں۔ ایرانی صاحبہ کو معلوم ہونا چاہئے کہ بے عزتی اس وقت ہوتی جب کسی لڑکی کو بھی لائبریری کارڈ نہ دیا جاتا۔ عبداللہ گرلس کالج کی لڑکیاں کیا دہلی یونیورسٹی کی لائبریری کے کارڈ بنوانا چاہیں تو کیا کوئی لائبریری بناکر دے دے گی؟
نئی حکومت کے ہر وزیر نے کیا یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ جس باتوں سے قوم کو اور ان کے بچوں کو بے وقوف بناتے رہیں گے۔ ملک کی حالت اور لڑکیوں کی عزت کی یہ حالت ہے کہ ایک اخبار میں اوپر مسلم یونیورسٹی کی مفصل خبر ہے اور اس کے نیچے دل دہلا دینے والی خبر ہے کہ ایک لڑکی کی میرٹھ سے سرسکا پارک الور گھومنے آئی تو ٹرین میں اس کا بیگ چوری ہوگیا جس میں روپئے تھے موبائل تھا اور ٹکٹ تھا اس کی پریشانی دیکھ کر دو شریف زادے آئے اور مدد کے وعدے پر ساتھ لے چلے اپنے گھر پہونچے تو رات ہوگئی۔ وہاں ایک عورت جس نے لڑکوں کی ماں کی حیثیت سے اپنے کو متعارف کرایا اس نے تسلی دی اور رات کو نہ جانے کا مشورہ دیا مجبور لڑکی رُک گئی۔ اور اسی رات میں ان دونوں نے پوری رات وہ سب کیا جو کسی کو قتل کردینے جیسا تھا اسے بار بار بے آبرو کیا برہنہ سی ڈی بنائی دھمکی دی دھونس دی قتل سے ڈرایا۔ آخرکار وہ تینوں گرفتار ہوگئے لیکن طالبہ کی تو آبرو تار تار ہوگئی ایسی حالت میں ہر نوجوان لڑکی کو کھلی چھوٹ دے دینا کہ وہ مولانا آزاد لائبریری کا کارڈ دکھاکر جائے پھر کسی ایسے ہی حادثہ کا شکار ہوجائے تو نہ وائس چانسلر کو کوئی معاف کرے گا نہ پرنسپل کو۔ مسلم یونیورسٹی مسلمانوں کی آبرو ہے اسمرتی ایرانی تو کیا ہم نے وزیر تعلیم چھاگلا کو رگڑ رگڑکر بونا بنا دیا تھا۔ اس لئے اچھا یہ ہے ہر کوئی ٹانگ نہ اَڑائے کیونکہ 20 کروڑ مسلمانوں کی حمایت اُسے حاصل ہے۔

«
»

مذہب کے سیاسی استعمال پر روک کیوں ضروری؟

عبدالمتین خاںؒ : چند نقوش و تأثرات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے