عالم اسلام …. راؤنڈ اَپ

محمود عباس کے مطابق مسلمانوں اور یہودیوں کے مشترکہ مذہبی مقام پر یہودی عبادت گزاروں کے مسلسل دوروں کی وجہ سے جھڑپیں ہو رہی ہیں، جس سے بڑے پیمانے پر فسادات کا خدشہ پیدا ہوتا جا رہا ہے۔اس سے قبل نیتن یاہو نے الزام عائد کیا تھاکہ محمود عباس معاملات کو بدترین حالت کی جانب لے جا رہے ہیں وہ صبر اور تحمل کا درس دینے کے بجائے اشتعال پیدا کر رہے ہیں۔دونوں رہنماوں کے ایک دوسرے پر لگائے جانے والے الزمات کے بعد اسرائیلی و فلسطینی رہنماؤں کے مابین کشیدگی میں ایک بار پھر اضافہ ہوا ہے۔جبکہ اسرائیلی وزیراعظم نتین یاہو نے اردن کے فرمانروا شاہ عبداللہ کو گذشتہ دنوں یقین دلایا تھا کہ مقبوضہ بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ کی موجودہ حیثیت کو برقرار رکھا جائے گا اور اس کے موقف میں کسی قسم کا ردوبدل کرنے اور یہودیوں کو وہاں پر عبادت کی غرض سے داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے جس طرح ٹیلی فون پر شاہ عبداللہ دوم کو یقین دلایا کہ پرتشدد کارروائیوں کے باوجود مسجد اقصیٰ کی موجودہ حیثیت کو نقصان نہیں پہنچنے دیا جائے گا۔ اردن کے شاہ عبداللہ دوم کو اسرائیلی وزیر اعظم کا تیقن بے معنی نظر آتا ہے کیونکہ گذشتہ کئی دنوں سے اسرائیلی بیت المقدس میں امن و سلامتی کو نقصان پہنچانے کی صورتحال پیدا کررہے ہیں۔ 1994میں طے پائے امن معاہدے کی رو سے اسرائیل نے بیت المقدس کے تمام مقدس اسلامی مقامات کی سرپرستی کا حق اردن کو دے رکھا ہے۔ معاہدے کے تحت مسجد اقصیٰ میں یہودی عبادت کی غرض سے داخل نہیں ہوسکتے تاہم اس کے برخلاف یہودی آبادکار ہر روز مسجد اقصیٰ میں گھس کر یہودی تعلیمات کے مطابق مذہبی رسومات ادا کرتے اور مقدس مقام کی کھلی بے حرمتی کررہے ہیں۔ بیت المقدس کی اسرائیلی پولیس بھی یہودی بازآبادکاروں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے ۔ اسرائیلی وزیر اعظم ایک طرف اردن کے شاہ عبداللہ کو یقین دہانی کراتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی نہیں کی جائیں گی لیکن دوسری جانب یہودی مسجد اقصیٰ کی مسلسل بے حرمتی کررہے ہیں جس کے خلاف فلسطینی مسلمان اسرائیلی فوج اور حکومت کے خلاف احتجاج کرنے پر مجبور ہورہے ہیں اور احتجاج کرنے والوں پر اسرائیلی فوج اپنے ظلم و بربریت کا اظہار فائرنگ کے ذریعہ کرتا ہے۔ان حالات میں اقوام متحدہ اور مغربی و یوروپی ممالک خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں جبکہ ان ممالک اور اقوام متحدہ کو چاہیے کہ تھا کہ وہ اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھاتے۔ اسرائیلی فوج ایک طرف احتجاج کرنے والے فلسطینیوں پر فائرنگ کرتی ہے تو دوسری جانب غزہ کی پٹی میں سمندر میں ماہی گیری کرنے والے فلسطینی شہریوں پر فائرنگ کرتی ہے جس میں متعدد افراد زخمی ہوئے ہیں اور کئی کشتیوں کو نقصان پہنچا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اسرائیلی فوج نے سمندر کے کنارے کھڑی ہوئی کشتیوں کو بھی نشانہ بنایااور پھر رفح اور خان یونس کے ساحل پر اسرائیلی فوج کے جنگی طیاروں نے فضا مسلسل نچلی سطح پر پروازیں شروع کردی تھیں جس کی وجہ سے مقامی آبادی میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ اس طرح اسرائیلی درندگی اور دہشت گردی فلسطینیوں کے ساتھ کی جارہی ہے لیکن عالمی سطح پر اسے نظرانداز کردیا جاتا ہے ۔ امریکہ اور مغربی ویوروپی طاقتیں عالم میں ہونے والے پرتشدد واقعات کے خلاف متحدہ کارروائیاں کرتے ہیں لیکن اسرائیل فوج کی جانب سے فلسطینیوں پرکئے جانے والے مظالم پر خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ 
داعش کے سربراہ ابو بکر البغدادی اور امریکہ 
گذشتہ جمعہ کو عراقی شہر موصل کے قریب دولتِ اسلامیہ عراق و شام کے قافلے پر یا میٹنگ کے دوران امریکی فضائی حملے کے بعد عالمی ذرائع ابلاغ میں یہ افواہ پھیل گئی کہ خلاف اسلامیہ کے امیر ابو بکر البغدادی زخمی یا ہلاک ہوچکے ہیں۔ دولت اسلامی (داعش ) کی جانب سے خاموشی کے بعد تجزیہ نگاروں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ حملے میں ابو بکر البغدادی کو کچھ نہ کچھ ضرور ہوا ہے۔ دولت اسلامیہ جس تیزی کے ساتھ شام اور عراق کے سرحدی علاقوں ، شہروں اور قصبوں پر فتوحات کے جھنڈے لہراتے ہوئے مزید پیش قدمی کررہی تھی اس میں کسی حد تک کمی واقع ہوگی کیونکہ اگر البغدادی زخمی ہوئے ہیں تو انہیں صحتیاب ہونے تک وقت لگ سکتا ہے لیکن کیا داعش ابو بکر البغدادی کے بغیر اپنی منزل طئے کرنے میں ناکام ہوجائے گی ، کیا داعش میں شامل مختلف جہادی تنظیموں کے اراکین دوبارہ اپنی اپنی تنظیموں میں دوبارہ لوٹ جائیں گے ایسے کئی سوالات ہے ۔ البغدادی کے حامیوں کی نظر میں البغدادی کے خلافت کے صحیح حقدار ہونے میں انکے اس دعویٰ نے بھی بہت مدد کی کہ ان کا حسب و نسب پیغمبر اسلام کے قبیلے سے ملتا ہے اس کے علاوہ ان کی بڑی شبیہ اس بات کا بھی خاصا عمل دخل ہے کہ وہ شریعت اور علوم اسلامی پر عبور رکھتے ہیں۔ ایسی صورت میں اگر البغدادی ہلاک ہوتے ہیں تو یہ داعش کے لئے ایک بہت بڑا نقصان ہوگا اور ان کا ثانی تلاش کرنے میں انہیں دقت پیش آسکتی ہے ، ہوسکتا ہیکہ داعش کی اعلیٰ قیادت پہلے سے ہی ابو بکر البغذادی کا جانشین مقرر کررکھی ہو کیونکہ جنگ کے دوران کسی کے جان کی سلامتی اور اسکی حفاظت کی گیارنٹی دینا محال ہے لہذا ہوسکتا ہے کہ البغدادی بہت جلد اپنا بیان جاری کرکے اپنے حامیوں کو اپنی زندہ رہنا کا یقین دلائیں گے ۔ 
عراق کے صدر سعودی عرب میں
عراقی صدر فواد معصوم اپنے ایک اہم دورے پر سعودی عرب پہنچ گئے ہیں، جہاں انہوں نے دارالحکومت ریاض میں سعودی فرمانرواشاہ عبداللہ بن عبدالعزیز خادمین الحرمین الشریفین سے ملاقات کی ۔ سعودی میڈیا کے مطابق دونوں رہنماؤں نے اس ملاقات میں علاقائی اور بین الاقوامی معاملات پر تبادلہ خیال کرنے کے علاوہ دو طرفہ باہمی امور پر بھی بات چیت کی۔ تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ فوادمعصوم وہاں کتنے دن قیام کریں گے۔واضح رہے کہ عراق اور سعودی عرب کے اعلیٰ رہنماؤں کے مابین کئی سالوں بعد رابطہ ہوا ہے، مبصرین کے مطابق دونوں ممالک کے رہنماؤں کی ملاقات خطہ میں امن و امان کے قیام اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے انتہائی اہم ہے۔سعودی عرب دولت اسلامیہ عراق و شام کا سخت مخالف ہے اور سعودی عرب میں کسی بھی قسم کی جہادی سرگرمیوں کو کچلنے کے لئے پوری مستعدی دکھارہا ہے۔ جبکہ مشرقِ وسطی کے یہ ممالک اپنی ایک متحدہ فوجی طاقت کے قیام کا منصوبہ بنائے ہیں ۔ کیونکہ سعودی عرب اور دیگر اسلامی ممالک کو ان ممالک میں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں اضافہ کا خدشہ لائق ہے ۔ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران عالم اسلام کی اہم شخصیات نے سعودی عرب کے شاہ عبداللہ سے ملاقات کی اور خطہ میں موجود کشیدہ حالات کا جائزہ لیا ہوسکتا ہے کہ اسی سلسلہ کی ایک کڑی عراق صدر فواد معصوم کی سعودی عرب آمد ہو۔ 
ایران اور روس کے درمیان جوہری معاہدہ 
ایران اور روس کے درمیان جوہری معاہدہ ایک ایسے وقت طئے پایا ہے جبکہ چند روز بعد آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری پروگرام پر حتمی معاہدے کے درمیان حائل رکاوٹیں دور کرنے کے لئے مذاکرات کا آخری دور منعقد ہونا ہے۔ بعض مغربی ممالک نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان معاہدے کے نتیجے میں ایران کی جوہری بجلی گھروں کے لئے خود ایندھن تیار کرنے کی حوصلہ افزائی ہوگی اور یہ معاہدہ ویانا میں منعقد ہونے والے مذاکرات پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔ گذشتہ اتوار کو عمان کے دارالحکومت مسقط میں جوہری پروگرام پر معاہدہ کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات بے ثمر ثابت ہوئے۔ ایران اور عالمی ممالک کے درمیان طئے پانے والے عبوری معاہدہ 24؍ نومبر کو ختم ہورہا ہے ان مذاکرات میں یورینیم کی افزودگی اور پابندیوں میں نرمی پر اختلاف ختم کرنے کے لئے راہمور کرنا ہے۔ گذشتہ سال ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری پروگرام پر عبوری معاہدہ ہوا تھا جس کے بعد ایران کے اقتصادی پابندیوں میں نرمی کی گئی تھی ۔ اقوام متحدہ کی جوہری توانائی کے نگران ادارے آئی اے ای اے کا کہنا ہے کہ حسن روحانی صدر ایران بننے کے بعد ایران کے ساتھ مکمل تعاون کرنے کا وعدہ کیا تھا ۔ اور ایران اس بات پر متفق تھا کہ وہ درجن بھر مشتبہ تنصیبات میں سے دو ک بارے میں مکمل معلومات رواں سال اگست تک فراہم کرے گا لیکن ایران نے ابھی تک معلومات نہیں دی ہیں۔ اور ایران کاکہنا ہیکہ اس کا جوہری پروگرام امن مقاصد کے لئے ہے۔عبوری معاہدہ کی مدت ختم ہونے کے بعد عالمی طاقتیں ایران کے ساتھ کس قسم کا رویہ روا رکھتی ہے اور جن پابندیوں میں نرمی کی گئی تھی اسے بحال رکھتی ہے یا پھر مزید پابندیاں عائد کیں جائیں گی اس سلسلہ میں کچھ کہنا قبلِ از وقت ہوگا۔ 
امیر قطر کے سوتیلے بھائی نائب امیر مقرر 
امیر قطر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی نے اپنے سوتیلے بھائی شیخ عبداللہ کو اپنا نائب امیر مقرر کردیا ہے ‘ 34 سالہ شیخ تمیم نے جون 2013ء میں برسراقتدار آنے کے بعد سے اپنے ولی عہد کا تقرر نہیں کیا تھا۔ وہ اپنے والد شیخ حمد کے اقتدار سے دستبردار ہونے کے بعد گیس کی دولت سے مالا مال اس خلیجی ریاست کے حکمران بنے ۔ 26 سالہ شیخ عبداللہ بن حمد آل ثانی قبل ازیں شاہی کابینہ کے سربراہ تھے اور جولائی 2013ء میں شیخ تمیم نے انہیں قطر انوسٹمنٹ اتھارٹی کا نائب سربراہ مقرر کیا تھا۔
پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف برطانیہ کے دورہ پر
پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف ان دنوں ملک کی فضاکو خوشگوار دیکھ کر بیرونی ممالک کے دوروں کا آغاز کردئے ہیں۔ امسال اگسٹ اور ستمبر میں عمران خان اور علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کی جانب سے انہیں وزارتِ عظمی سے استعفیٰ دینے کی سخت مانگ کی گئی تھی اور ان دونوں قائدین کی قیادت میں آزادی و انقلاب مارچ قومی شاہراہ دستور پہنچا تھا ۔ لیکن تقریباً تمام اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے وزیراعظم کی تائید کی گئی اور انہیں غیر دستوری طریقہ سے مستعفی ہونے سے روک دیا گیا تھا۔ وزیر اعظم نواز شریف ان دنوں جرمنی کے شہر برلن سے لندن کے دورے پر پہنچ چکے ہیں اور برطانیہ میں سرمایہ کاری کانفرنس کے افتتاح کریں گے۔ پاکستان بیرون ملک اپنی بہتر ساکھ بنانا چاہتا ہے لیکن اندرونی سطح پر مختلف دہشت گرد تنظیموں اور افراد کی جانب سے عالمی سطح پر اسے دہشت گرادانہ سرگرمیوں کو تقویت دینے کے حوالے سے بدنامی ہوتی رہی ہے ۔ کاش پاکستانی دہشت گردتنظیمیں مذہب اسلام کے تقدس کو محسوس کرتے ہوئے اپنے ملک کی سلامتی اور اسلام کی عظمت کا خیال کرتے ہوئے ملک کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی میں اہم رول ادا کرتے 

«
»

مذہب کے سیاسی استعمال پر روک کیوں ضروری؟

عبدالمتین خاںؒ : چند نقوش و تأثرات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے