گیسو ئے تابدار کو اور بھی تابدار کر

ہاں جب گفتگو کرتی تو انہیں لوگوں کا حصہ نظر آتی …. سب ہمہ تن گوش تھے … بزرگ خاتون کے لفظوں سے نور کا ایک ہالہ پیدا ہو رہا تھا ، لوگوں کے تاثرات دیدنی تھے ، ان کی آنکھوں سے نکلنے والی بھیگی بھیگی روشنی سے ماحول سحر انگیز ہورہا تھا ….قریب جانے پرسنائی دیا خاتون فرما رہی تھیں- 
کیا کروں شرح خستہ جانی کی ….میں نے مر مر کے زندگانی کی .
حال بد، گفتنی نہیں میرا …….تم نے پوچھا ، تو مہربانی کی .
شاید مجمع سے کسی نے خاتون کا حال پوچھ لیا ہوگا …ہم نے قریب ہو کر ذرا غور سے دیکھا تو پایا کہ ….. بزرگ خاتون جانی پہچانی، بلکہ کو ئی اپنی سی لگ رہی تھیں …. بولتی تو کسی خوبصورت شہزادی کی طرح نظر آتی ……اور خاموش ہوجاتی تو ایک پر وقار بزرگ ملکہ کی طرح…… سر تا پا چادر اوڑھے ، کچھ کچھ نظریں جھکایے ہویے تھیں ، ضعیفی پر زبان و بیان کی دھاک ……اور اس پر طرا ان کا لباس فاخرانہ – اور ان سب کے علاوہ عظیم الشان سراپا ، بے نظیر چہرہ و بشرہ ، اور بے حد مہذب رکھ رکھاو … یہ سب دیکھ یکبارگی ا یسا محسوس ہوا کہ اگر کوئی نا آشنائے شرم و حیا یہاں ہو تو اسے آج حیا کا مفہوم سمجھ آجایے ، اور وہ بھی حیا آشنا ہو جایے …. بس یوں کہیے……کہ میر کا سوز و گداز اور غالب کا غرور عاجزانہ لئے بیٹھی تھیں…
کسی نے پوچھا جناب انہیں پہلے کبھی دیکھا نہیں یہاں….. فورا بول پڑیں ….
باغ میں سیر، کبھو، ہم بھی کیا کرتے تھے …..روش آب رواں پھیلے پھر ا کرتے تھے ……..
…لیکن..
اب اپنے قد راست کو خم دیکھتے ہیں، ہائے!……ہستی کے تئیں ہوتے عدم دیکھتے ہیں ، ہائے!!
خاتون کے تاثرات، اور رہ رہ کر بے چین ہو اٹھنے سے محسوس ہو رہا تھا کہ خاتون زخمی ہے … اور کبھی کبھی پہلو بدلنے سے درد کا احساس نمایاں ہوجاتا تھا… لیکن چہرے پر صبر و اسقامت کا عکس صاف نظر آرہا تھا ……….
ایک درد مند انسان کہنے لگا…… خاتون آپ زخمی ہیں …آپ کہیں تو علاج معالجہ کا انتظام کر دیا جائے……. یہاں ولایتی اور دیسی دونوں علاج ممکن ہے …. حکومت کے ذمہ داران کو اطلاع کیوں نہ دی آپ نے…… صحت عامہ حکومت کی ذمہ داری ہے……خاتون ہنس کر کہنے لگی…… بجا فرمایا…. لیکن جناب …..
اس شوق نے دل کے بھی ، کیا بات بڑھا ئی ہے………. رقعہ اسے لکھتے ، تو طومار لکھا جاتا 
ایک کہنے لگا کہ ولایتی علاج کروالیں.. یوں پڑے رہنے سے تو کو ئی غنڈہ آکر قتل کر جاوے ہے.. اب وہ زمانہ نہیں رہا … اب تو مردہ کی ہڈیاں بھی خریدی اور بیچی جاتیں ہیں……. ایک احمق نے تو پیشن گو ئی بھی کردی کہ آپ زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکیں گی…بدن سے خون رس رہا ہے …….
ایک من چلا ، ہنس کر مذاق اڑانے لگا اور کہنے لگا……..بی بی یہ پرانا شہزادیوں کا لباس تبدیل کرلیں…… ولایتی علاج میں مشکلیں آتی ہیں…کچھ حلیہ درست کر لیں …. زلفیں تراش لیں….فرمانے لگیں ….
پھیل اتنا پڑا ہے کیوں یاں تو ……یار اگلے گیے کہاں؟ ٹک سوچ!!
ہونٹ اپنا ہلا نہ سمجھے بن……یعنی جب کھولے تو زباں، ٹک سوچ!
ایک دوسرا جو ذرا تہذیب یافتہ تھا ، کہنے لگا……. پہلے محترمہ کا سولہ سنگار کروالیتے ہیں….ہنستے ہوئے کہنے لگیں …
ناوک انداز جدھر دیدہ جاناں ہونگے ……..نیم بسمل کئی ہونگے کئی بے جاں ہونگے……
ایک تیسرا بھی جو شکل سے مقامی لگ رہا تھا کود پڑا ، یہ کہتے ہویے کہ… اگر یہ مر گئی یا قتل ہو گئی تو ہم سب مل کر اسے یہیں اسی چمن میں ہی دفنا دیں گے… خاتون پھر گو یا ہو ئیں….
اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن بعد قتل……….میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے ؟……
ایک دیوانہ آگے بڑھا اور کہنے لگا …. ا س کا مزار بھی بنا دیں گے … پھر اس کا صندل و عروس نکالیں گے…….عاشقوں کا ایک نیا ٹولہ بنائیں گے اور اسکے غم و یاس ، اور بے خودی میں چرس کے دم لگا ئیں گے…….حکومت جلد ہی زمین بھی دے دے گی…… لوگ باگ آنے جانے لگیں گے .. یہ شہر اودھ و بنارس بن جایے گا ….. پھر مغنی، طوائفیں ، طبلہ نواز، پنڈت و کٹھ ملا، مجاور، فاتحہ خواں ، مٹھا ئی فروش و گل فروش، نان بائی، بنیے، مارواڑی سنار ، کپڑا فروش، طبیب ، الغرض زندگی کے ہر ایک میدان سے لوگ یہاں آنے لگیں گے …. صنعتی انقلاب کے بعد شہر ایسے ہی تو بستے رہے ہیں……… ایک لڑکا تعلیم یافتہ لگ رہا تھا … کہنے لگا .. ہاں … حکومتیں ایسی جہالت اورتوہم پرستی کے لئے فورا زمین دے دیتی ہے..لیکن اسکول کے لئے زمین دینے میں برسہا برس لگ جاتے ہیں …….خاتون کے چہرے پر تشویش کے آثار نمودار ہویے … کہنے لگی
لے نام آرزو کا ، تو دل کو نکال لیں….مومن نہ ہوں ، جو ربط رکھیں بد عتی سے ہم .

ایک صاحب جو اپنی حالت زار سے کو ئی ادیب لگ رہے تھے، بلبل ہزار سوال ہویے ….. پوچھنے لگے ….. اے دلآویز شخصیت کی مالک ، اے خوش لباس محترم خاتون، آپ ستم زدہ اور مظلوم معلوم ہوتیں ہیں، اور دنیا کا طویل سفر کر تھکی تھکی سی لگ رہی ہیں. آپ کون ہیں؟ آپکے قیمتی لباس اور انداز بیان سے محسوس ہوتا ہے آپ کسی اور دنیا کی ہیں…… اور چادر سے جھانکتے یہ زخم کیسے ہیں ؟ آپ کہاں سے آئیں ہیں ؟ کہاں کا ارادہ ہے ؟ اور کیا چاہتی ہیں….
فرمانے لگی…. سب بتاتی ہوں.. اب تم سب کے ہر ایک سوال کا جواب دونگی ……..
میں کون ہوں اے ہم نفساں ،سوختہ جاں ہوں……اک آگ مرے دل میں ہے، جو شعلہ فشاں ہوں…..
لایا ، مرا شوق مجھے پردے سے باہر….. میں ورنہ وہی خلوتی راز نہاں ہوں.
.جلوہ ہے مرا مجھ سے اب دریائے سخن پر …….صد رنگ مری سوچ ہے، میں طبع رواں ہوں.
.دیکھا ہے مجھے جس نے سو دیوانہ ہے میرا ……. میں با عث آشفتگی طبع جواں ہوں ….
میں اردو زباں ہوں!!!!! ہاں میں اردو زباں ہوں!!!!!
پھر گویا ہوئیں، ہم نے ایک دنیا دیکھی ، اور طویل دور بھی دیکھا…….اس جہاں کے ہر گوشے سے، ہر ایک گلی سے گزرے ہیں ہم…. کبھی عاشقوں کے سروں پہ بیٹھ کر تو کبھی انکے سروں میں سما کر …… عزت و محبت میں سر تا پا شرابور رہے ہم….. شاہ ہو یا گدا، ناصح ہو یا رند، ساقی ہو یا واعظ، سیاسی ہو یا سماجی، عاشق ہو یا معشوق، شاعر ہو فقیر، صوفی ہو یا سنت، سب نے ہمیں چاہا، دانشوروں کے افکار سے نور بن کر نکلے اور بذریعہ قلم صفحه قرطاس پر کبھی احکام بن کر پھیل گئے، اور کبھی قانون، کبھی علم و ادب اور کبھی فن بن کر …. جب جب ہمارا ذکر ادب کے ریگستان میں ہوا ، بہاروں نے اس ریگستان کو اپنا مسکن کرلیا… اور اگر کسی ادبستان میں ہوا تو وہاں افکار و بیان کی صورت جنت کی ہواؤں نے گزر بسر کر لیا ….
میری زلف پیچاں سنوارنے والے اب نہ رہے… اب چند لوگ ، میری مغربی خالہ کے پروردہ …….. اس زلف کو … جسے غالب نے کبھی سر ہونے نہ دیا….. جسے دیکھ کر آتش کہتے نہ تھکتا کہ.
.جو دیکھتے تری زنجیر زلف کا عالم…….اسیر ہونے کی، آزاد آرزو کرتے.
جسے مومن دیکھ دیکھ کر کہا کرتا تھا ……
آتا ہے خواب میں بھی تری زلف کا خیال … بے طور گھر گیے ہیں پریشانیوں میں ہم
… اسے اب تم کٹوانا چاہتے ہو…..جو ملکوتی لباس فاخرانہ مجھے اپنے جد امجد سے ملا ، وہ تم اب اتار کر مجھے برہنہ کرنا چاہتے ہو اور اسے تبدیل کروانا چاہتے ہو …… وہ مشرقی ادایے ناز و دلربائی جو مجھے میری ماں اور مشرقی خالاوں سے وراثت میں ملی تھی …وہ اتروانا چاہتے ہو….. کیا چا ہتے ہو…… اب میں رومن میڈی یا منی زیب تن کروں، یا چیتھڑے اوڑھوں؟…….. پھر کیا کروگے؟ مجھے ڈانس بار میں یا ڈسکو میں نچاوگے؟..یا مجھے دھوپ میں "پینسل ہل” پہنا کر حسرت کے کوٹھے ملاقات کے لئے بھیجنا چاہتے ہو ، جہاں میں کبھی ننگے پاؤں جایا کرتی تھی……..یا زمانہ میں میرا تذکرہ میر کے اس سچے شعر سے کروانا چاہتے ہو کہ. ….. مارا تھا کس لباس میں عریانی نے مجھے ……جس سے تہہ زمین بھی ، میں بے کفن گیا…… یا غالب کے اس لازوال شعر سے کہ…..ڈھانپا کفن نے داغ عیوب برہنگی …….میں ورنہ ہر لباس میں ننگ وجود تھا…… میری جوانی میں ہی میرے اوباش عاشقوں نے میرا ذکر کوٹھوں سے لے کر قحبہ خانوں تک پہنچا دیا تھا… وہ دور ابھی گزرا بھی نہ تھا کہ فحش فلموں نے میری حجاب آرائی اور ادائے دلبری کو بے حجاب کر سر عام کر دیا. …اور افسوس کے ان میں ادب کے علمبردار بھی شامل ہوگیے …… میرے ناز و اعجاز کے تحفظ کی ذمہ داری بھانڈوں اور طوائفوں نے اٹھا لیں…. دیانت دار اہل ادب تو بیچارے میرے ناز اٹھانے میں خود برباد ہوگئے…. بنا کسی صلہ کی تمنا اور ستائش کی چاہ لئے…… اور جو خود غرض، شہرت و دولت پرست تھے انہوں نے میرے نام کا خوب فایدہ اٹھایا.. میرے ایک شیدایی نے کیا خوب کہا تھا کہ… صیاد و گلفروش ہی خوش بخت ہیں فراز……..جو بھی چمن پرست تھا زندانیوں میں تھا……. میرے سچے چاہنے والے یا تو زندگی کی قید و بند میں رہے یا پھر حکومت کی ….. اور جو ان دونوں سے بچ گئے وہ اپنی انا کی قید و بند میں برباد ہویے ..میرا عاشق میرا چکبست .کہتا تھا……در زندہ پہ لکھا ہے کسی دیوانے نے …. وہی آزاد ہے جس نے اسے آباد کیا………… میں جو تہذیب و انسانیت کی علمبردار تھی…. میری آغوش میں انسانیت جوان ہوئی… وہی انسانیت جسے میری والدہ اور میری خالاؤں نے جنم دیا تھا …… ہمارا سارا خاندان ہی مہذب، شائستہ اور شرم و حیا اور انسانیت اور اخلاقی اقدار کا پیامبر رہا ہے….یہ اور بات کہ ترقی کے نام پر انسان نے ہمارے خاندان کو تکڑوں میں بانٹ دیا. 
یہ جو زخم ہیں..یہ سب اپنوں کے ہیں……ان میں کچھ میرے "مائیکے” والوں نے دیے اور کچھ میرے "سسرال” والوں نے..جو مجھے بڑے چاؤ سے ڈولی میں بٹھا کر لے تو گیے تھے… لیکن کیا بتاوں اور کیا نہ بتاؤں…. خدا جھوٹ نہ بلوائے کیسے کیسے زخم دیےہیں اپنوں نے … لیکن سچ یہ بھی ہے کہ ان دونوں رشتوں داروں میں اکثر نے میرا بہت خیال رکھا….. یہ وقار ، یہ بے داغ لباس فاخرانہ میرے ایسے ہی شیدایوں کا رہین منت ہے…. …. لیکن یہ بھی کہوں ہوں… اور دکھ سے کہوں ہوں… کہ ……

مجروح بدن ، سنگ سے طفلاں کے نہ ہوتے………کم جاتے جو اس کوچے میں، پر ہم تھے دوانے
گلیوں میں بہت ہم تو پریشاں سے پھرے ہیں…….اوباش کسی روز لگا دیں گے ٹھکانے..
ماضی قریب میں اوباش واقعی ٹھکانے لگا دیے ہوتے… اگر ہمیں ہمارے سچے چاہنے والوں نے سنبھالا نہ ہوتا …جو احمق ہمارے مشرقی لباس کے پیچھے پڑے ہیں انہیں یہ کہنا ہے کہ …. دے مجھ کو شکایت کی اجازت، کہ ستم گر …کچھ تجھ کو مزہ بھی میرے آزار میں آوے…….
میرا علاج میرے ذکر خیر ، میری ترویج اور میرے لباس فاخرانہ میں مضمر ہے… اور لباس تبدیل کرنے سے کسی کی اجل کب ٹلی ہے …. … جب ہمیں جیتے جی مار رہے ہو … باتیں میری صحت تندرستی کی ، اور علاج مغربی لباس اور میک اب میں ڈھونڈ رہے ہو…. نرے احمق ہو……. کو ئی اپنی ماں بہن بیٹیوں کے متعلق ایسا سوچتا ہے بھلا …. کیا وہ مغرب زدگی کا اثر قبول کرتے ہویے اپنا مشرقی لباس تبدیل کرنے راضی ہو جائیں گی ؟… نہیں نا ….. بس یہی حال میرا ہے اور یہی خیال بھی……. میرے لباس سے کیا عار ہے تمہیں…میں مرتی مرجاؤں کبھی برہنہ نہ ہووں ، اور نہ رومن لباس زیب تن کروں …… جس کے حسن و نزاکت کا یہ عالم کہ چاندنی میں نکلے تو دامن کے جل جانے کا خوف ہو….. اب اسے غسل آفتاب لینے پر مجبور کرتے ہو…اسے مغربی لباس زیب تن کروانا چاہتےھو .. کیسے مسیحا ہو؟….. کون ہو؟ … کیا ہو؟……. اب خدا ر ا یہ نہ کہنا کہ آفتابی غسل صحت کے لئے بے حد ضروری ہے خاصکر جنہیں مکمل لباس کی قید میں "وٹامن ڈی” نہیں ملتا……. کمبختوں جب میرا نور ، افکار و بیان کے سینکڑوں پردوں کو پار کر روح کو صحت و تندرستی دے سکتا ہے، تو آفتاب کی کرنوں کی جسم تک رسائی میں لباس کہاں سے حائل ہوتا ہوگا ……. میرے اس لباس فاخرانہ کو میرا انگریز خادم ، میرا دم بھر نے والا، ڈاکٹر ولیم گلکلرسٹ بھی پسند کرتا تھا… بلکہ اسی نے میرے اس لباس میں مختلف الاقسام جواہرٹانکے ، میرے شیدایوں کو اس فن سے آشکار کرایا…….اسے تو کبھی یہ گمان نہ ہوا کہ وہ میرا لباس تبدیل کردیتا .. جبکہ میرے لباس فاخرانہ کی تراش خراش پر اسے پورا تصرف بھی تھا… احمقوں ، تم نے مغربی ذہنی غلامی کو اب دل سے قبول کرلیا ہے ….. الله مجھے تمھارے شر سے بچائے…. میر میرے لئے اسی لئے کہا کرتا تھا …
اصلح ہے حجاب اس کا، ہم شوق کے ماروں سے……بے پردہ جو وہ ہوتا تو کس سے رہا جاتا ؟ 
میرا چکبست لاکھ وسیع المشرب سہی…… کہا کرتا تھا کہ.
یہ مانا بے حجابانہ نگاہیں قہر کرتی ہیں…..مگر حسن حیا پرور کا عالم دوسرا ہوتا ……
میرے آتش و ناصح و غالب بھی سب مجھ سے یہی کچھ کہا کرتے تھے
نقاب اک دن الٹ کر تم نے یہ منہ سے نہ فرمایا……….جمال آفتاب ذرہ پرور دیکھتے جاؤ
خواب ہی میں نظر آتا وہ شب ہجر کہیں…..سو مجھے حسرت دیدار نے سونے نہ دیا
دیکھنا قسمت، کہ آپ اپنے پہ رشک آجایے ہے …..میں اسے دیکھوں، بھلا کب مجھ سے دیکھا جایے ہے؟
مجھے مغربی پنجرے میں قید کرنے کے بجایے میری قوت پرواز کو نیا آسمان دو..خیال رہے کہ ……
یہاں کو تا ہی ذوق عمل ، ہے خود گرفتاری …… جہاں بازو سمٹتے ہیں ، وہیں صیاد ہوتاہے..
مجھے پڑھو، لکھو، اور وں سے پڑھواو ..میرے لباس فاخرانہ میں نیئے جواہر ٹانکوں……. میری خالہ زاد بہنوں کے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھو………. انکے عروج سے مجھ کو ئی اعترا ض کیسے ہوسکتا ہے …. وہ سب مادیت کے آسمان میں پرواز کرتی ہیں ، مگر میری پرواز روحانیت کے آسمان میں ہے .. اپنے پرایوں سے ذرا پوچھ کر دیکھو… میں آج بھی انکے لئے اتنی ہی نئی، اتنی ہی تر و تازہ ہوں جتنی کبھی دلی، اودھ اور حیدر آباد میں ہوا کرتی تھی … یہ نہ بھولو کے آسمانی صحائف کے تراجم سے میری روح کو بحر نور میں نہلایا گیا ہے… بھلے ہی میرے اعضا کہیں کہیں سے گرد آلود ہویے ہیں ، میرا دل مجروح ہوا ہے، میرا لباس بھی کہیں کہیں سے کچھ تار تار ہوا ہے، لیکن میں آج بھی اپنے خاندان میں اتنی ہی اہم ہوں جتنی پہلے کبھی تھی. مجھ سے محبت کے بلند بانگ جھوٹے دعوے کرنا بند کرو….میری ترویج اور میرے رسم الخط کی بقا کے لئے پہلے اسے خود استعمال کرو، اپنے گھروں میں وہ ماحول پیدا کرو جس سے اہل خانہ کے دلوں میں میرے لئے محبت قائم ہو، اور انہیں میری ضرورت محسوس ہو – مغرب میں اگر تمہارا طوطی بولتا ہے تو میرے مہ پاروں اورفن پاروں کو مغربی زبانوں میں ترجمہ کر میری ذات سے سب کو واقف کراؤ ….. اب یہ سب اس لاسلکی دور میں اتنا مشکل بھی نہیں رہا….. جتنا کسی دور میں قلم و دوات سے ہوا کرتا تھا ، اور میرے پروانے اس مشکل کو ہنستے ہویے قبول کرلیتے تھے. جور و ستم یہ ہے کہ اب ہر ایرا غیرا میرے لباس کو مغربی لباس سے تبدیل کرنے کا فتوی دینے لگا ہے …جبکہ اسکی کو ئی تصنیف کجا دو چار سطریں بھی تکمیل کے درجہ کو نہیں پہنچی ہوگی ….چند من چلے میرے گیسو بھی کتروانے کی فرمایش کر نے لگے ہیں . جبکہ میرا اقبال جس سے بلند ہوا …..وہی اقبال، میرا اقبال ، کہا کرتا تھا .

 گیسوئے تابدار کو،  اور بھی تابدار کر …….ہوش و خرد شکار کر، قلب و نظر شکار کر

«
»

اْداسی(ڈپریشن) سے نجات کے طریقے!

اسلام کی موجودہ تصویر بدلنے کی کوشش میں لگے ہیں اسماعیلی مسلمان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے