جانے کس جرم کی پائی ہے سزا

بھلا ہوسپریم کورٹ کا جس نے حال ہی میںاپنا موقف پیش کیاہے کہ ان زیر سماعت ملزمان کوفوری طور ضمانت پر رہا کیا جائے جنہوں نے اپنے اوپر عائد الزامات کی ممکنہ زیادہ سے زیادہ سزا کا نصف وقت بطور ملزم جیل میں بسر کر لیا ہے۔ عدالت نے یہ بھی ہدایت کی ہے کہ ضلع عدالتی سروس اتھارٹی سے متعلق عدالتی افسر اپنے دائرہ کار میں ہر جیل میں جاکر اس طرح کے قیدیوں کی رہائی کیلئے ضروری عمل کی نگرانی کریں گے۔ ان احکامات کے بعد طویل مدت سے جیلوں میں بند سماعت قیدی رہا ہو سکیں گے۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کا کیا ہو گا، جو تھوڑے وقت کیلئے زیر سماعت قیدی کے طور پر جیل بھیج دیئے جاتے ہیں۔ بھلاسماعت قیدیوں کا جیلوں میں کیا کام؟حالات حاضرہ پر نظر رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ ایساپہلی بار نہیںہوا ہے کہ طویل عرصہ سے جیلوں میں بند ملزمان کے تئیں تشویش ظاہر کی گئی ہو۔ 2010 میں قومی قانونی مہم کے تحت بھی سماعت قیدیوں کی تعداد کم کرنے کا بیڑا اٹھایا گیا تھالیکن اس کا کیا کیجئے کہ آج بھی یہ صورتحال جوں کی توں ہے۔ ملک کی 1353 جیلوں میںمقید کل تین لاکھ پچاس ہزار قیدیوں میں دو لاکھ چون ہزار قیدی زیرسماعت ہیں۔ یعنی تقریبا دو تہائی قیدی ایسے ہیں، جو بغیر کسی سزا کے جیلوں میں بند ہیں۔ اس تناظر میں سپریم کورٹ کا فیصلہ اس قابل ہے کہ اس کا خیر مقدم کیا جائے۔زیر سماعت قیدیوں کی اتنی زیادہ تعداد کے پس پشت بنیادی طورپر پولیس کے ہاتھوں گرفتاری کے اختیارات کا غلط استعمال ہے۔ ہندوستان میں ہر سال تقریبا 75 لاکھ شخص گرفتار کئے جاتے ہیں۔ ان میں80 فیصد لوگ چھوٹے موٹے جرائم میں ملوث ہوتے ہیں جن میں 7 سال تک کی سزا کا قانون ہے۔ ایسے مجرموں کے عدالت میں حاضر نہ ہونے یا گواہوں کو ڈرانے دھمکانے کا خدشہ تقریبا نہ کے برابر ہوتاہے۔ اس لئے ان کو زیرسماعت قیدی کے طور پر جیل بھیجنے کی کوئی معقول قانونی توجیہہ پولیس کے پاس نہیں ہوتی۔اس کے باوجود پولیس اس قسم کے تمام ملزمان کو جیل بھیجتی رہتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخرپولیس ایسا کیوں کرتی ہے؟
ہرسنگین جرم میں گرفتاری کیوں؟
ایمرجنسی کے بعد پولیس اصلاحات کیلئے قائم دھرم ویر کمیشن نے کہا تھا کہ تقریبا اکسٹھ فیصد گرفتاریاں ضروری نہیں ہوتیں۔ 1994 میں جوگےندر سنگھ کیس میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ پولیس کو صرف ان معاملات میں ملزمان کو گرفتار کرنا چاہئے جہاں اس کی ضرورت ہو؛ جن معاملات میں گرفتاری کئے بغیر تفتیش پوری ہو سکتی ہو وہاں ملزم کی گرفتاری نہیں کی جانی چاہئے۔ 2000 کے دوران قومی انسانی حقوق کمیشن کی طرف سے بھی یہی ہدایت جاری کی گئی تھی۔ مجرمانہ انصاف کے نظام میں بہتری کے مقصد سے بنائی گئی ملی متھ کمیٹی نے بھی 2000 میں اپنی رپورٹ میں غیر ضروری گرفتاریوں پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کچھ تجاویز پیش کی تھیں۔ اس سب کے باوجود گرفتاریوں کی تعدادہر سال بڑھتی رہی۔ شاید پولیس ان کی سب سے اہم حق یعنی گرفتاری کے حق میں کسی قسم کی کمی کے مشورہ کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں تھی۔سنگین جرائم میں ملوث افراد کو گرفتار کرنے کیلئے قانون پولیس کو بااختیار بناتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ قطعی نہیں ہے کہ ہر سنگین جرم میں گرفتاری ضروری ہے۔ قانون کے اس موجود جذبہ کو 2010 میں دوبارہ تعزیرات ہند میں ایک نئی دفعہ 41 اے کا واضح طور پراضافہ کر دیا گیا تھا۔ اس نئے ضابطہ کے مطابق، 7 سال سے کم سزا والے مقدمات میں اگر پولیس کسی کو گرفتار کرنا چاہتی ہے تو اسے گرفتاری کی ضرورت کو وجہ بتا کرسبب واضح کرنا ہوگا۔اس کے باوجود حالات میں بہتری نہیں آئی۔ قومی کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار شاہد ہیں کہ 2010 کے بعد 2 سال میں ہی ملک میں گرفتار کل افراد کی تعداد تقریبا 74 لاکھ سے بڑھ کر79 لاکھ ہو گئی۔

جیل بھیج دینے کی ذہنیت:
پولیس کی طرف سے قانون کے ساتھ آنکھ مچولی کا کھیل کسی حد تک سمجھا جا سکتا ہے لیکن پولیس کی طرف سے گرفتار افراد کو عدالتوں کی طرف سے ضمانت پر چھوڑنے کی بجائے زیر سماعت قیدی کے طور پر جیل بھیج دینے کی ذہنیت ایک قابل غور موضوع ہے۔ قانون کی روح یہ ہے کہ سات سال تک کی سزا والے جرائم سے متعلق مقدموں میں عام طور پر ملزمان کو ضمانت پر چھوڑ دیا جانا چاہئے لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ زیادہ تر ملزمان کو کچھ وقت کیلئے سماعت قیدی کے طور پر جیل ضرور بھیجا جاتا ہے۔ اس ذہنیت کو سمجھنے اور تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ تقریبا38 فیصد زیرسماعت قیدیوں کو ابتدائی3 ماہ کے اندر اندر جیل سے ضمانت پر رہا کر دیا جاتا ہے۔ تقریبا 60 فیصد زیرسماعت قیدیوں کو ایک سال کے اندر ضمانت مل جاتی ہے۔ اسی صورت میںیہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب 60 فیصد زیرسماعت قیدیوں کو سال بھر کے اندر اندر ضمانت پر چھوڑ دیا جاتا ہے، تو پھر انہیں جیل بھیجا ہی کیوں گیا تھا؟ انہیںزیر سماعت قیدی کے طور پر کچھ دنوں کیلئے جیل بھیج کر سبق سکھانا اس طرح کی قید کی واحد دلیل دکھائی دیتی ہے لیکن یہ قانون کی اصل روح کے خلاف ہے۔
کون دے گا توہین عدالت کی دہائی؟
سپریم کورٹ نے پولیس اور عدالتوں کی ذہنیت کو بخوبی سمجھتے ہوئے حال ہی میں ارنےش کمار بمقابلہ بہار حکومت کیس میں پولیس اور عدالتوں کیلئے واضح احکامات جاری کئے ہیں۔ ان میں کہا گیا ہے کہ پولیس گرفتاری کرتے وقت تعزیرات ہند کی دفعہ 41 اے کی دفعات کا احترام کرتے ہوئے ضرورت کی بنیاد پر ہی ملزمان کو گرفتار کرے گی۔ عدالتوں پر بھی یہ ذمہ داری عائدکی گئی ہے کہ جب ان کے سامنے کسی گرفتار شخص کو پیش کیا جاتا ہے تو اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ کیا گرفتاری ضروری تھی؟ اگر نہیں، تو اس شخص کو ضمانت پر چھوڑنے پر غور کیا جانا چاہئے۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی موقف پیش کیاہے کہ ان ہدایات کیخلاف ورزی کرنے والے پولیس اور عدالتی افسران عدالت کی توہین کے اہل مانے جائیں گے۔ ایسے زیرسماعت قیدی بھی کافی تعداد میں ہیں جو قانون سے عدم واقفیت کی وجہ سے یا مناسب پیروی کی عدم موجودگی میں جیلوں میں بند ہیں۔تعزیرات ہند کی دفعہ 436 اے ان زیر سماعت قیدیوں کو ضمانت پر چھوڑنے کی تجویز پیش کرتی ہے جنہوں نے اپنے الزامات کیلئے ممکنہ زیادہ سے زیادہ سزا کا نصف وقت جیل میں گزار لیا ہو۔ دفعہ 436 یہ گنجائش بھی میسر کرواتی ہے کہ قابل ضمانت معاملات میںمقید ان ملزمان کو ایک ہفتہ کے بعد ان کے ذاتی مچلکہ پر رہا کر دیا جائے جن کیلئے کوئی ضمانت دینے کیلئے تیار نہیں ہے۔ اس کے علاوہ تعزیرات ہند کی دفعہ 167 (2) اور دفعہ 437 (6) میں بھی درپیش عدالتی کارروائی میں ہونے والی تاخیر کی وجہ سے زیرسماعت قیدیوں کو ضمانت پر چھوڑنے کی گنجائش ہے جن کا استعمال اتنا نہیں ہو رہا ہے جتنا ہونا چاہئے۔
تمام تجاویز بالائے طاق:
زیر سماعت قیدیوں کی تعداد کم کرنے کے مقصد کے تحت 2006 کے دوران تعزیرات ہند میں ایک اہم ترمیم کر کے146پلی بارگےنگ145کا نیا باب شامل کیاگیا۔ اس کے تحت سات سال تک کی سزا کے معاملات میں باہمی رضامندی سے مقدموں کا تصفیہ کرنے کا اختیار فراہم کیا گیا ہے۔ ملزم اپنا جرم قبول کرنے کے عوض میں سزا میں آدھی سے زیادہ چھوٹ حاصل کرکے رہا ہو سکتا ہے۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں یہ اصول زیادہ تر ملزمان کی طرف سے استعمال میں لایا جا رہا ہے۔ پر ہندوستان میں یہ استعمال ناکام رہے۔ہندوستان میں146پلی بارگےنگ145کی فراہمی عملی طورپرنافذ نہیں ہیں جس کی وجہ سے زیرسماعت قیدی اس کا استعمال نہیں کر رہے ہیں۔ ان دفعات کو عملی طورپرموثر کرکے زیر سماعت قیدیوں کی تعداد مزید کم کی جا سکتی ہے۔ سزا کے عمل اخلاق کی دفعہ 320 میں ان کے جرائم کی فہرست دی گئی ہے جن میںفریقین آپس میں سمجھوتہ کرکے لوک عدالتوں کے ذریعہ مقدموں کا تصفیہ کر سکتے ہیں۔ اس فہرست میں کئی چھوٹے جرائم کو شامل کرکے اس کا دائرہ کار بڑھایا جا سکتا ہے لیکن ان سب سے زیادہ کارگر تجویز ملیمتھ کمیٹی کی تھی۔ اس نے تجویز میںکیا تھا کہ پولیس کو گرفتاری کا حق دینے والے سنگین جرائم کی تعداد کم کی جائے۔ کچھ سنگین جرائم کو چھوڑ کر باقی معاملات کو سنگین جرم کے طور پر دوبارہ درجہ بندی کی جائے تاکہ پولیس ان مقدموں میں گرفتاری ہی نہ کر سکے۔ ان جرائم کو اس طرح سے درجہ بندی کیا جا سکتا ہے کہ پولیس بغیر عدالت کی اجازت کے ملزمان کو گرفتار نہ کر سکے۔

عمل سے کورے:
بد قسمتی سے اس تجویز پر ابھی تک سپریم کورٹ کا دھیان نہیں گیا ہے جبکہ اس پر عمل کرنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ ہندوستان میں انصاف کا نظام کا ایک پہلو اور ہے۔حقیقی قصوروار شخص چاہتا ہے کہ پولیس اس کی حمایتی بن کر ملزم کو فورا گرفتار کرے، چاہے معاملہ چھوٹے موٹے جرائم کا ہی کیوں نہ ہو۔ شہریوں کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ پولیس ایک قانونی نظام ہے، شکایت کرنے والے فریق کی حامی ایجنسی نہیں۔ انہیں یہ بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ اب ہر مقدمہ میں ملزمان کو گرفتار کرنا پولیس کیلئے قانونی طورپر ضروری نہیں ہے۔ہندوستان جیسے ملک میں سنگین جرائم میں ملوث کچھ مجرموں کو فورا گرفتار کرکے قید میں ڈالنا ہمیشہ ایک ضرورت رہے گی لیکن چھوٹے جرائم کے مقدمات میں اتنی زیادہ تعداد میں سماعت قیدیوں کو جیل میں رکھنا انصاف کے درست اصولوں کے خلاف ہے۔ سماعت قیدیوں میں تقریبا پچہتر فیصد باججت بری ہو جاتے ہیں؛ ان کی قید کے دنوں کی تلافی کون کرے گا؟ جیل سجآاپھتا قیدیوں کے ہی رہائش ہونے چاہئے۔اس صورت حال کو قائم کرنے کیلئے قانون میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ پولیس اور عدالتی افسران کی ذہنیت تبدیل کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ اس موضوع پر انصاف کا نظام کے ہر عضو کو سنویدنشیلتا کے ساتھ غور کرنا چاہئے۔ دائرہ نظام سے منسلک اعلی افسران کو غیر ضروری گرفتاریوں کیلئے ذاتی طور پر جوابدہ بنا کر سماعت قیدیوں کی تعداد اور بھی کم کی جا سکتی ہے۔
مسلمانوں کی شامت:
ملک میں اگر چہ مسلمانوں کی آبادی کم ہے لیکن جیلوں میں زیادہ تر قیدی مسلمان ہیں۔حالانکہ 23دسمبر2012کو ابھی زیادہ عرصہ نہیں گذرا ہے جب یہ حقیقت منظرعام پر آئی۔بھلا ہو ممبئی کی ایک غیر سرکاری تنظیم کا جس نے حق معلومات یعنی آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت معلومات حاصل کیں اور قومی جرائم کے بیورو کے ریکارڈ کے مطابق ملک بھر کی30 سے زیادہ جیلوں میں مسلمانوں کو گرفتار کرنے میں اور انہیں جیلو ں کی ہوا کھلانے کے معاملہ میں ملک کی سیکولرذہنیت کی حامل ریاستی حکومتوں ا و ر بھگوا قیادت والی ریاستی حکومتوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ایک طویل عرصہ تک بایاں محاذ کا قلعہ کہلائے جانے والے مغربی بنگال میں ہر چوتھا شخص مسلمان ہے لیکن وہاں بھی جیلوں میں جتنے قیدی ہیں ان کی نصف تعداد مسلمانوں پر مشتمل ہے جو دہشت گردی سمیت مختلف مقدمات میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔عجیب بات یہ ہے کہ مغربی بنگال میں کبھی فرقہ پرست پارٹی اقتدار میں نہیں رہی؛اس کے باوجود مسلمانوں کی یہ حالت قابل تشویش ہے جبکہ مہاراشٹر میں ہر تیسرا نیز اتر پردیش میں ہر چوتھا قیدی مسلمان ہے۔ 
امریکہ کے نقش قدم پر:
یہ حالات بالکل ایسے ہیں جیسے امریکہ میں سیاہ فام قیدیوں کے ہیں۔ امریکی جیلوں میں قید 23 لاکھ لوگوں میں سے تقریباً نصف تعداد سیاہ فام قیدیوں کی ہے جبکہ آبادی میں ان کا حصہ محض 13 فیصد ہی ہے۔جموں وکشمیر ، پانڈیچری اور سکم کے علاہ ہندوستان کے عموماً ہر صوبہ میں مسلمانوں کی جتنی آبادی ہے اس سے زیادہ فیصد میں مسلمان جیلوں میں مقید ہیں۔ 2001 کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی 13.5 فیصدتھی اور دسمبر 2011 کے قومی جرائم رکارڈ بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق جیلوں میں مسلمانوں کا شرح فیصد قریب 21ہے اعداد و شمارشاہدہیںکہ اتر پردیش کی جیلوں میں5فیصد قیدی مسلمان ہیں جبکہ ریاست میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب محض 9 فیصد ہی ہے جبکہ ہندوستان کے دا رالخلافہ کی جیلوں میں اتر پردیش ہی کی طرح 23 فیصد قیدی مسلمان ہیںحالانکہ دہلی میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 12 فیصد ہی ہے۔اسی طرح مدھیہ پردیش کی جیلوں میں مسلمان قیدیوں کا تناسب 13فیصد ہے جبکہ کل مسلم آبادی کا تناسب ریاست میں صرف 6 فیصد ہے۔سوال یہ پیدا ہتا ہے کہ کیایہ اعداد و شمار آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زارکی ترجمانی نہیں کرتے؟ کیا ہندوستانی مسلمانوں کا ٹھکانہ جیل کی چار دیواری ہی ہے جہاں وہ محفوظ بھی نہیں۔کیایوپی میںخالدمجاہداورقتیل صدیقی کا پونے یروڈہ جیل میں دیگر قیدیوں کے ذریعہ قتل کیا جا نا اس کی واضح مثالیں نہیں ہیں؟مہاراشٹر کے پاورلوم شہر مالیگاوں جہاں ایک بڑی تعدا میں مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزام کے تحت گرفتا ر کیا گیا ہے ان بے قصور نو جوانوں کی رہائی کیلئے کوشش کرنے والے سماجی خادم عبدالخالق فارقلیط کے بقول سیکولر حکومتیں انتخابات کے دوران تو بیشمار وعدے کرتی ہیں کہ وہ مسلمانوں کی رہائی کو یقینی بنائیں گی لیکن اقتدار میں آجانے کے بعد انہیں بھی سانپ سونگھ جاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ حال اترپریش سرکار کا ہے جس نے دوران انتخاب اعلان تو کیا تھا کہ اقتدار میں آنے کے 100 دن کے اندر دہشت گردی کے الزامات کے تحت گرفتار مسلم نواجوانوں کی رہائی کو یقینی بنایا جائے گالیکن آج تک اس پر کوئی عمل نہیں کیا گیا۔سونے پر سہاگہ یہ کہ اتر پردیش حکومت نے اس جانب کچھ کرنے کی کوشش کی بھی تو مرکزی حکومت نے اس کی بھانجی ماردی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سپریم کورٹ کی موجودہ ہدایت سے جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے افراد کوواقعی رہائی نصیب ہوسکے گی؟عجیب بات یہ ہے کہ حق معلومات میںصاف کہا گیا ہے کہ یہ اعدا و شمار مسلمانوں کی دہشت گردی کے الزامات کے تحت گرفتاری سمیت دیگر چھوٹے موٹے اور سنگین جرائم کے تعلق سے ہیں۔مسلم نوجوانوں کو قانونی امداد کی فراہمی میں مدد کرنے میں میں سرگرم نوجوان ایڈووکیٹ شاہد ندیم انصاری کے بقول مہاراشٹر سمیت ملک کی دیگر ریاستوں میں 50 فیصد سے زائد ایسے مسلم قیدی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں جنہوں نے اپنے جرائم کی سزاوں کی میعاد تو پوری کرلی ہے لیکن عدالت نے جوچند ہزار وں روپے جرمانہ ان پر عائد کیا ہے اس رقم کی ادائیگی وہ نہیں ادا کر پا رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ سزائیں پوری کرنے کے باوجودبھی وہ اب تک جیلوں میں موجود ہیں۔
پولیس کی بے لگامی:
ہندوستان میں پولیس بے لگام ہے اور وہ کھلے طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتی ہے لیکن وہ جوابدہ کسی کو بھی نہیں ہے۔دنیا بھر میں انسانی حقوق پر نظر رکھنے والی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ گواہ ہے کہ ہندوستان کے محکمہ پولیس میں ذات پات اور امیری غریبی کی بنیاد پر امتیازی سلوک ایک عام بات ہے اور ملک کی جمہوری اقدار کو نظر انداز کرتے ہوئے پولیس اپنے آپ کو قانون سے بالا تر سمجھتی ہے۔ محض شک و شبہ کی بنیادپرافراد کو غیر قانوی طور پر حراست میں رکھنا، انہیں ایذائیں دینا اور کئی بار حراست میں ہی جان سے مار دینا پولیس کے رویہ میں شامل ہے۔4اگست2009کی اس رپورٹ کے مطابق پولیس کیسوںکو حل کرنے کیلئے اکثر غیر قانونی طریقوں کا استعمال کرتی ہے۔ ہیومن رائٹس کی مینکاشی گنگولی کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ میں بڑے افسروں کے بجائے توجہ جونیئر اہلکاروں اور تھانوں پر دی گئی جس سے عام لوگوں کا اکثر واسطہ پڑتا ہے اور اسی سطح پر سب سے زیادہ خلاف ورزیاں ہوتی ہیں۔90 فیصدمعاملات میں پولیس ملزمین کے خلاف ثبوت نہیں جمع کر پاتی ہے اسی لئے وہ چھوٹ جاتے ہیں، تو انہیں لگتا ہے کہ عدالت انہیں چھوڑ دیگی اس لئے وہ خود سزا دینے لگتے، مارتے پیٹتے ہیں اور کئی بار مار ڈالتے ہیںجبکہ منموہن سنگھ کی سابقہ حکومت نے پولیس اصلاحات کا وعدہ کیا تھا۔ایک سو اٹھارہ صفحات پر مشتمل ہیومن رائٹس واچ کی اس رپورٹ میں سینئرپولیس افسران، جونیئر اہل کار اور متاثرین کے انٹرویوز شامل ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ معاملات کو حل کرنے کیلئے پولیس اکثر غیر قانونی طریقوں کا استعمال کرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ پولیس اکثر لوگوں کی امیدوں پر کھرا نہیں اترتی ہے اور وہ سماج میں غیر موثر تصور کی جاتی ہے۔
برطانوی دور کے قوانین:
جمن شبراتی نہیں بلکہ کامن ویلتھ ہیومن رائٹس واچ تنظیم کے رکن ڈاکٹر پشکر راج کے مطابق ہندوستان میں سب سے بدعنوان اور خراب پولیس کا ادارہ ہے جس میں فوری طور پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ہندوستانی پولیس برطانوی دور کے قوانین کے تحت آج کل بھی کام کر رہی ہے اس کی اصلاحات کیلئے کئی کمیشن بنے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی جماعت جب اقتدار میں آتی ہے تو اپنے مقاصد کیلئے وہ اسے اپنے قبضہ میں رکھنا چاہتی ہے۔ایشیامیں ہیومن رائٹس واچ کے ڈائریکٹر بریڈ ایڈم کا کہنا تھا کہ ہندوستان معاشی سطح پر ترقی کی راہ پر ہے اور دنیا کا بڑا جمہوری ملک بھی لیکن پولیس کا رویہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے پر اور غیر جمہوری ہے۔اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں کام کیلئے پولیس پر ضرورت سے زیادہ دباو 191 ہے اور وہ جدید ٹیکنالوجی اور تربیت سے لیس نہیں ہے جبکہ بیشتر جونیئر پولیس اہل کار اچھی حالت میں کام نہیں کرتے اس لئے دباو میں بھی وہ ایسی حرکتیں کرتے ہیں جس سے حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں۔

«
»

اْداسی(ڈپریشن) سے نجات کے طریقے!

اسلام کی موجودہ تصویر بدلنے کی کوشش میں لگے ہیں اسماعیلی مسلمان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے