مولانا آزاد کی معنویت دورِ حاضر میں

تعجب کی بات یہ ہے کہ۲۶ برس قبل اس وقت کے وزیراعظم راجیوگاندھی کی سربراہی میں ’’آزاد صدی‘‘ منانے کے لئے جو قومی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اس نے بھی غلطی کے سدھار پر توجہ نہ دی لہذا مولانا کی سالگرہ اب بھی ۱۱؍نومبر کو منائی جارہی ہے اور اس دن ملک کے بعض حصوں میں تقاریب منعقد کرکے ان کی شخصیت وخدمات کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔
مولانا آزاد کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں جن میں سب سے اہم ان کا مسلمان اور ایک زبردست عالمِ دین ہونا ہے، وہ خود اس بات پر فخر کیا کرتے تھے بحیثیت مسلمان اسلام کی عظیم ترین روایتیں ان کے حصے میں آئی ہیں، اسلامی تعلیمات، علوم وفنون اور اس کی تہذیب کو وہ اپنا سرمایہ تصور کرتے تھے ایک مرتبہ تو انہوں نے نہایت واضح الفاظ میں کہہ دیاتھا کہ ’’میں تیار نہیں کہ اسلام کا چھوٹے سے چھوٹا جزو بھی ضائع ہونے دوں، میرا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کروں‘‘اور انہوں نے اپنے اسلامی ورثے کی حفاظت کا فرض اس طرح انجام دیا کہ رانچی کے اپنے چار سالہ زمانہ اسیری میں گھر سے باہر نکلنے کی پابندی کو قبول کرنے سے انکار کرکے مسجد میں نمازکی ادائیگی کا سلسلہ جاری رکھا۔
مولانا ابوالکلام آزاد ہندوستان کی متحدہ قومیت کے سب سے بڑے علمبردار تھے مگر اس قومیت میں وہ اکثریت کے تہذیبی غلبہ کے حامی نہ تھے اور ان کے یہ جملے تو تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں کہ ’’ہم میں چند ایسے دماغ ہیں جو چاہتے ہیں کہ ایک ہزار برس پہلے کے ہندوطرز زندگی کو واپس لائیں تو وہ خواب دیکھ رہے ہیں‘‘ مولانا آزاد اگر آج زندہ ہوتے تو ہندوستان کی پرانی تہذیب کی بازیافت کے نام پر اکثریت کے تہذیبی غلبہ کی جاری مہم کو ہرگز گوارہ نہ کرتے اسی طرح بائیں بازوں کے نظریات کے بارے میں بھی وہ طرز فکر کی لچک اور ذہنی وسعت کے کسی قدر حامی ہونے کے باوجود ہندوستانی حکومت کے بارے میں زیادہ وسیع النظری سے کام لینے پر آمادہ نہ ہوتے بلکہ کانگریس کے سوشلزم کو بطور طریقہ حکومت اختیار کرنے کی تجویز کو مسترد کردیتے جس کا اشارہ انہوں نے ۱۹۵۳ء میں منعقدہ آوادی سیشن کے دوران ان الفاظ میں کیاتھا کہ ’’ہم نے سوشلسٹ طرز کی حکومت قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، سوشلسٹ حکومت قائم کرنے کا نہیں، اس بات کو ایک بار پھر ذہن نشین کرلیجئے کہ ہندوستان کے سوشلسٹ حکومت میں بدلنے کا کوئی سوال نہیں ہے بلکہ صرف سوشلسٹ طرز کی حکومت یہاں قائم ہوگی‘‘۔
مولانا آزاد اگر اندراگاندھی کے دور حکومت تک حیات ہوتے تو اس زمانے کی سوشلسٹ اصلاحات کے بارے میں ان کے جو بھی خیالات ہوتے اس سے قطع نظر سیکولرازم کی تشریح کے تعلق سے کانگریسی قیادت میں وہ آخری آدمی ہوتے جو مذہب کو پوری قوت کے ساتھ باقی رکھ کر سیکولرازم کے فلسفہ کے ساتھ اسے ہم آہنگ نہ کرنے کا اصرار کرتے اور اس لحاظ سے ان کے سیکولر ازم کا عقیدہ اس سیکولرازم سے یقیناًمختلف ہوتا جس کی تعبیر وتشریح بعد میں فخرالدین علی احمد اور ڈاکٹر ذاکر حسین کے فکر وعمل سے ہوتی رہی، اسی طرح سوشلزم کے بارے میں مولانا آزاد کے موقف کو سوویت یونین کے زوال نے پوری طرح سے صحیح ثابت کردیا ہے۔ آج کے ہندوتوا کو تو وہ کسی قیمت پر برداشت نہیں کرتے۔

«
»

اْداسی(ڈپریشن) سے نجات کے طریقے!

اسلام کی موجودہ تصویر بدلنے کی کوشش میں لگے ہیں اسماعیلی مسلمان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے