کیا میڈیا مودی کا قد بلند کرسکے گا؟

اور دہشت گردی کے حوالے سے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے دنیا بھر میں بڑے ڈرامے ہوئے بلکہ ہورہے ہیں لیکن مغربی طاقتوں اور اسرائیل نے حقائق کو چھپانے کے لئے بڑے جتن کئے اور کئے جارہے ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔ گجرات فسادات 2002ء جس سانحہ (یعنی فروری 2002ء میں گودھرا جنکشن پر سابھر متی ایکسپریس کی بوگی نمبر (6) کی آتشزدگی اور تقریباً60 افراد کی ہلاکت کو بنیاد بناکر نہ صرف ملک بلکہ انسانیت کو شرمسار کرنے والے فسادات نریندر مودی کے دور وزارتِ اعلیٰ میں ہوئے۔ گودھرا فسادات کی صحیح طریقے سے غیر جانبدارانہ انداز میں تحقیقات نہیں ہوئی۔ پارلیمان پر حملے، بٹلہ ہاوس اور 26/11 کے واقعات کے حقائق پر شکوک اور ابہام کے پردے میں ہوا یا گودھرا اور پارلیمان پر حملے کے واقعات بے شک این ڈی اے دور میں ہوئے تھے لیکن ان واقعات کے حقائق کے بارے میں تحقیقات کرنا یو پی اے حکومت کا فرض تھا لیکن یو پی اے حکومت نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے بی جے پی کو ردِعمل کے اظہار کا موقع ملتا! مختصر یہ کہ این ڈی اے دور میں مغرب، (سی آئی اے) صیہونیوں (موساد) کے مشورے پر اسٹیج کئے گئے ڈرامے کے حقائق پر پڑے پردے نہ اٹھاکر سنگھ پریوار کے حوصلے بڑھادئیے۔
اور اب جب چند ماہ قبل مودی کی حکومت برسر اقتدار آئی تو سچ کو چھپانے اور حقائق پر پردے ڈالنے کا کام مودی حکومت زور شور سے کررہی ہے۔ اپنے یا اپنے ساتھیوں کے خلاف جانے والی تمام باتیں ختم کی جارہی ہیں۔ گجرات کے جو بڑے افسر معطل تھے وہ اپنے عہدوں پر واپس ہوچکے ہیں۔ جیل میں بند ایسے افسران جو مقدمات کا سامنا کررہے ہیں وہ بھی ضمانت پاچکے ہیں کو ڈنانی جیسی سزا یافتہ مجرم بھی ضمانت پر رہا ہوگئی ہے ۔ ان مجرموں اور ملزموں کو کیسے ضمانت اور دوسری رعایتیں مل رہی ہیں؟ اس سوال کا جواب آسان ہے۔ ایک مثل کو آپ نے سنا ہی ہوگا کہ ’’سیاں بھئے کوتوال کو پھر ڈرکا ہے ؟‘‘ یہاں تو سیاں وزیر اعظم ہیں۔ دوسری بات یہ بھی سب ہی جانتے ہیں کہ آزادی کے بعد آر ایس ایس نے زندگی کے ہر شعبہ میں ہندتو کے علمبردار داخل کررکھے ہیں۔ سرکاری مشنری میں زعفرانی رنگ چڑھانے میں کانگریسی حکومت کی نہ صرف نااہلی اور ان کے اپنے ’’نرم ہندتو‘‘ پر ایقان کا دخل ہے۔ علاوہ ازیں گجرات 2002ء کے فسادات کے بعد مودی صاحب کی دہشت بھی کام کرتی ہے۔ یو پی اے کے اقتدار میں پھر بھی مودی کے مخالفوں کو ہمت اور حوصلہ تھا اب ’’وہی قاتل، وہی شاہد وہی منصف ٹھیرے‘‘ والی بات ہے۔ 
لوک سبھا کے انتخابات کے وقت ہی الیکشن کمیشن کا رویہ سامنے آگیا تھا۔ امت شاہ اور اعظم خاں کا معاملہ الیکشن کمیشن کے دوہرے معیار ہی نہیں بلکہ جانبدارانہ رویہ کا ثبوت ہے۔ مودی نے اور بی جے پی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران قواعط و ضوابط کی سنگین خلاف ورزیاں کیں۔ رپورٹس بھی درج ہوئیں۔ ایف آئی آر بھی کاٹی گئی لیکن مودی وزیراعظم بن گئے تو پتہ نہیں ساری کارروائیاں کدھر گئیں ان کا کیا ہوا ہے؟
مودی کی کابینہ میں تقریباً 30فیصد مجرمانہ ریکارڈ کے حامل وزرأ بھی ہیں مثلاً سنجیو بالیان (موصوف کا نام مظفر نگر فسادات کی داستانوں میں نمایاں رہا لیکن اگر کابینہ بنانے والے کے نام کے ساتھ فسادات کا ٹھپہ لگاہوتو ایسی کابینہ میں کوئی بھی وزیر ہوسکتا ہے!)
انتخابات میں پرچہ نامزدگی داخل کرنے میں مودی نے اپنے ہی بارے میں تضاد بیانی سے کام لیا تھا اس سلسلہ میں بھی کچھ نہیں ہوا۔ مودی کابینہ میں سمرتی ایرانی نے اپنی تعلیمی قابلیت اور استعداد میں مختلف مواقع پر مختلف باتیں بیان کیں پتہ نہیں ان کی غلط بیانیاں کیوں نظر انداز ہوگئیں؟ جب وزیر اعظم کی خلاف ورزیاں یا غلط بیانیاں نظر انداز کردی گئیں یا ان کو سردخانے میں ڈال دیا گیا تو سمرتی ایرانی کی غلطیاں اور غلط بیانیاں بھی نظر انداز کی جاسکتی ہیں نا؟
لوک سبھا کے انتخابات کے سلسلے میں مودی نے اپنی انتخابی مہم چلانے کے لئے جس طرح پانی کی طرح روپیہ (بلکہ زیادہ تر امریکی ڈالر) بہایا ہے اس کودیکھ کر سوچنا پڑتا تھا کہ اگر کوئی پارٹی یا جماعت انتخابات میں اگر ہزاروں کروڑ خرچ کرے جو عام طور پر دوسری پارٹیاں یا افراد نہ کرسکیں تو کیا ایسے انتخابات شفاف اور مساری مواقع فراہم کرنے والا کہا جاسکتا ہے؟ اب کانگریسی قائد اور سابق مرکزی وزیر آنند شرما نے واضح الفاظ میں بی جے پی اور مودی پر الزام لگایا ہے کہ انتخابات میں23 ہزار کروڑ خرچ کردئے گئے ہیں۔ اس خرچ کے علاوہ ذرائع ابلاغ کا خرچ بھی ہے جس کا انتخابات کے دوران بے دریغ استعمال کیا گیا تھا وہ اپنی جگہ کیا کم تھا ۔ وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد بھی ٹی وی چینلز پر بھی مودی مودی کی رٹ جاری ہے جبکہ عام خیال یہ تھا کہ انتخابات کے بعد وہ تمام ٹی وی چینلز جو مودی اور بی جے پی کے مداح سرمایہ داروں کے ہیں یا از خود زعفرانی رنگ میں رنگے ہوں یا مغربی، امریکی اور اسرائیلی میڈیا کے زیر اثر سنگھ پریوار کے ہم نواز ہوں، اپنے معمول پر لوٹ آئیں گے لیکن انتخابات کے بعد بھی کوئی فرق نہیں آیا لگتا ہے کہ 90تا95 فیصد ٹی وی چینلز مودی کے اپنے ذاتی ہیں جو مودی کے سرکاری کام ہی نہیں ان کی ذاتی مصروفیات (خواہ وہ سفر ہو یا پوجا پاٹ ہو) کو بھی بلاقید وقت ٹیلی کاسٹ کیا جانے لگا ہے۔ لگتا ہے کہ اہم بین الاقوامی اور یا قومی معاملات بھی سب مودی کی روزمرہ کی مصروفیات کے آگے ہیچ ہیں۔
منفی اثر رکھنے والی مودی کی مصروفیات اور باتوں کو بھی کسی ٹی وی چینل نے ایمانداری اور غیر جانبداری سے نہیں پیش کیا ہے۔ غیر ضروری تعریف مبالغہ آرائی ہی ان چینلز کی خصوصیت مانی جاتی ہے پتہ نہیں مودی کی ہر چیز تاریخی کیسے قرار دی جاتی ہے ہر وزیر اعظم بیرونی دوروں پر جاتا رہے لیکن کبھی ہم نے اس سے قبل کسی وزیر اعظم کے کسی دورہ کو تاریخی کہا جاتے سنا نہیں تھا بلکہ شائد ہی کسی نے سنا ہو لیکن اب مودی کے تاریخی دوروں کا کچھ حال دوسرے ذرائع کچھ اور بتاتے ہیں۔ دورۂ نیپال کو بلاوجہ ضرورت سے زیادہ اہمیت دی گئی ہندتوادی نیپال کو اب بھی دنیا کی واحد ہندومملکت مانتے ہیں۔ اسی لئے نیپال کا بڑا چرچا ہوا۔ مودی کے بیرونی ملکوں کے دوروں یا خارجہ پالیسی کی بنیاد ہندوستان میں زیادہ سے زیادہ بیرونی سرمایہ کو لانے کی مسادی ہے (بلکہ زیادہ تر سرمایہ کاری صرف گجرات میں ہوتو بہتر ہے) جاپان میں مودی کو توشیبا، ہتاشی اور دیگر بڑی کمپنیز کو سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دینے میں ناکام رہے۔ جاپان سے 35 بلین ڈالر کی امداد کا وعدہ ضرور ملا لیکن یہ رقم متوقع امداد سے نہ صرف کم ہے بلکہ وعدہ وفا ہوگا بھی یا نہیں یہ مشتبہ امر ہے۔ جاپان کے دورہ کے درمیان شہنشاہ جاپان کو سیکولر بھارت کے ہندتوادی وزیر اعظم مودی نے گیتا پیش کرکے نہ صرف ملک کے سیکولرازم کو داغدار بنایا اور دیارغیر یعنی جاپان میں ملک کے سیکولر عناصر پر پھبتی تک کسی لیکن مودی کے زیر اثر میڈیا (جس کو آپ موڈیا کہہ لیں)نے ان دونوں باتوں کو کوئی اہمیت نہیں دی گویا مودی کی مخالف سیکولرازم حرکتیں میڈیا کے لئے غیر اہم ہیں۔ یہی حرکت مودی نے امریکہ میں صدر اوباما کو گیتا دے کر کی لیکن اس موقعہ پر میڈیا خاموش رہا۔ امریکہ میں شاندار، تاریخی اور بے مثال استقبال کی خبریں ہیں اس کی اصلیت یہ ہے کہ استقبال کرنے والے سارے ہی ہندوستانی 90فیصد گجراتی وہی لوگ تھے جنہوں نے مودی کو وزیر اعظم بنانے کی مساعی کی تھی۔ دورہ امریکہ کی دیگر تفصیلات ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں۔ صرف یہ دہرادیں کہ مودی جی امریکہ سے خالی ہاتھ آئے۔
رمضان میں سیاسی افطار پارٹیوں کے ہم سخت خلاف ہیں لیکن رسم دنیا یہی ہے کہ ملک کا وزیر اعظم (بہ شمول واجپائی) افطار پارٹی کا اہتمام کرتے تھے لیکن مودی کو یہ وضعداری نبھانا بھی پسند نہیں ہے۔ عید کی مبارکباد تو ہر کوئی بلکہ اوباما جیسے مسلم دشمن بھی دیتے ہیں ہم نے تو سعودی عرب میں سنا تھا کہ اسرائیل کے وزیر اعظم بھی حسنی مبارک اور مصریوں کو دیتے تھے مگر واہ رے مودی کہاں تو سب کا ساتھ سب کا وکاس کہتے ہیں لیکن مسلمانوں سے اتنی دوری ہے کہ نہ عید نہ بقر عید کسی کی مبارکباد نہیں۔ ہم ہی نہیں سب کو نقوی، شاہنواز، ایم جے اکبر ، نجمہ ہبت اور دیگر غداران ملت یا عہد حاضر کے میر جعفروں اور میر صادقوں سے پوچھنا چاہئے کہ کیا ان ہی وجوہات کی وجہ سے بی جے پی مسلمانوں کے لئے ’’شجر ممنوعہ‘‘ نہیں رہی ہے۔ اپنی نام و نہاد صفائی کی مہم میں مودی نے جن مقامات کی صفائی کا خیال رکھنے کا ذکر ٹی وی چینلز بار بار دکھاتے رہے ہیں اس میں مودی نے مندر کے ساتھ مسجد کا نام تک لینا گوارہ نہیں کیا حالانکہ ہندی اردو میں مندر مسجد کا ذکر ساتھ ہوتا ہے مگر مودی کو مسجد کہنا بھی پسند نہیں ہے۔
مودی کی بھاجپا اور سنگھ پریوار والے مسلمانوں کو جو دل میں آئے کہتے رہتے ہیں لیکن مودی اپنے تابعداروں کو اس ضمن میں سرزنش تک نہیں کرتے ہیں۔ ہاں جب القاعدہ کا ذکر آتا تو کہتے ہیں کہ ہندوستان کا مسلمان القاعدہ کو کامیاب نہیں ہونے دے گا وہ ہندوستان کا وفادار ہے۔ حیرت ہے کہ مودی کو یہ تک خیال تک نہیں آتا ہے کہ جن مسلمانوں پر ان کو اس قدر بھروسہ ہے اسی مسلمان کو ان کی اپنی پارٹی والے الزامات ہی نہیں بہتانوں کا نشانہ بنارہے ہیں۔ ہندوستان جیسے عظیم ملک کے وزیر اعظم کا رویہ ملک کی عظمت سے نہ میل کھاتا ہے اور نہ یہ ہندوستان کی اعلیٰ اقدار کے مطابق ہے۔ گویا وزیر اعظم مودی وزیر اعظم کے عہدہ کی حرمت کو پامال کررہے ہیں (تازہ مثال ہریانہ مہاراشٹرا میں ان کی انتخابی مہم ہے) اور قومی میڈیا ان کی قابل اعتراض اور لائق مذمت باتوں اور حرکتوں کو چھپاکر اور مودی کی غلط بیانیوں اور مبالغہ اڑائی کی بے تحاشہ پبلی سٹی کرکے بھی ان کا قدہرگز بلند نہ کرسکے گا۔ 

«
»

میر تقی میرؔ اور عشق

انقلاب کیسے آئے گا ؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے