مودی، فوج اورعمر عبداللہ نے کشمیریوں کے دلوں کو جیتنے کا سنہرا موقع گنوادیا

’کرن ‘ ابھی چند دنوں کی ہے ۔ 
کشمیرکے تباہ کن سیلاب سے متاثر بہت سارے ہندوؤں میں سے جب ایک ہندوجوڑا جان بچانے کے لئے اپنے ڈوبے ہوئے مکان سے بھاگا تو اسے سرچھپانے کے لیے جگہ حیدرپورہ کی جامع مسجد میں ملِی۔ مردبے حد پریشا ن تھاکیونکہ اس کی حاملہ بیوی پورے دِنوں سے تھی ۔۔۔ مگرحیدرپورہ جامع مسجد کے ذمے داران نے اس جوڑے کوتسلی دی ‘اسے ٹہرایا ‘اس کے کھانے پینے کا انتظام کیا اورجب بیوی کودردزہ شروع ہوا توجامع مسجد کے اطراف کی مسلم عورتیں اس کے پاس جمع ہوئیں اور جامع مسجد کے ہی ایک گوشے میں ننھی ’کرن ‘ پیدا ہوئی ۔۔۔یہ ’کرن ‘اپنے والدین کے لیے بھی امیدکی ’کرن ‘ ہے اورسارے کشمیرکے لیے بھی کیونکہ اس ’کرن ‘ نے یہ ثابت کیا ہے کہ کشمیر میں’بھائی چارہ ‘مرانہیں ہے ۔ 
’کرن ‘ کے والدین ہی کی طرح وہ سکھ خاندان بھی کشمیر کے اچھے دنوں کے لیے پُرامید ہیں جوہمامہ کی جامع مسجد میں پناہ لئے ہوئے تھے اور اپنے ’مسلمان بھائیوں ‘ کے ساتھ ایک ہی پلیٹ میں کھانا تناول کرتے تھے ۔ جب یہ سکھ ‘ مسجد میں پہنچے تھے توانہوں نے یہ گذارش کی تھی کہ ’ابھی ہمیں کچھ کھانا پینا نہیں ہے ابھی توہمیں اپنے رب سے پرارتھنا کرنی ہے کیا ہمیں اس کی اجازت ملے گی ‘۔اجازت ملی اوریہ سکھ مسجد کے ایک کونے میں ہی بیٹھ کرعبادت میں مشغول ہوگئے ۔ انہو ں نے اپنے لیے دعائیں کرنے سے قبل سارے کشمیر اوران سارے کشمیری مسلمانوں کے لیے دعائیں کیں جنہوں نے اپنی جانوں کی بازی لگا کر انہیں بچایا‘ مسجد میں پناہ دی اوراپنے ساتھ کھانا بھی کھلایا۔ 
کشمیرکی وہ 90 سالہ ہندوپنڈت ضعیفہ بھی یقیناً کشمیر اور نوجوانوں کشمیریوں بالخصوص نوجوان سجاد کے لیے دعائیں کرتی ہوگی جس کا مکان تقریباً تین منزلہ تک پانی میں ڈوبا ہوا تھا اور وہ چھت پرپڑی ہوئی تھی ۔سجّاد نے بہتے ہوئے پانی میں چھلانگ لگائی تھی اورتیرتے ہوئے مکان کی چھت تک پہنچا تھا اور ضعیفہ کو اپنے کندھوں پر سوارکرکے کسی طرح واپس پلٹا اوراسے اس کے رشتے داروں اوراحباب تک پہنچایاتھا۔ 
راجستھان کی وہ ہندوعورتیں آج راجستھان پہنچ چکی ہیں جو پانی میں پھنسی ہوئی تھیں‘جنہیں بچانے کے لیے نہ سلامتی دستے آگے آئے تھے ‘نہ ہی پولس اور آرمی کے جوان مگر جذبۂ انسانیت سے سرشار چند مسلم نوجوانوں نے انہیں بچانے کی ٹھان لی تھی ‘انہیں بچایا اور ریلیف کیمپ میں رکھا ۔۔۔ وہ عورتیں کہتی ہیں کہ ’’ہم نے اس سے قبل کبھی مسلمانوں کے دیے کھانے کوہاتھ نہیں لگایاتھا مگر آج ان مسلمانوں نے ہی ہماری جانیں بچائیں یہی ہمارے کام آئے ‘‘۔
نوجوانوں میں ایک جوش تھا ‘ولولہ تھا ۔۔۔ کشمیریونیورسٹی کے طلبا ء بھی سرگرم تھے ۔ ’بچاؤ کے کام میں‘ریلیف کے کام میں اور اب بازآبادکاری کے کام میں۔ 
یونیورسٹی کے فزکس کے پروفیسر اورچیف پراکٹر ڈاکٹر نصیراقبال بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ ’’طلبا ء نے کہا ہمیں کچھ کرناچاہئے اورمشورہ کرکے ہم نے کام شروع کیا‘بچاؤ اورریلیف کا کام ‘ پہلے دن کشمیریونیورسٹی کے اندر چارہزار افراد پناہ گزین تھے ‘ ہم نے بیرون ریاست کے 17 سوطلبا ء کوبچا کریہاں پناہ دی ‘ اب ہم بازآبادکاری کے کام کی فکرکررہے ہیں کیونکہ سردی میں اگرلوگوں کو ’کھانا ‘بستر‘ گرم کپڑے اوربلینکٹ وغیرہ نہ ملے تو بڑی اموات ہوسکتی ہیں‘‘۔۔۔ کشمیریونیورسٹی کے طلبا ء میں مسلم توتھے ہی سکھ اورہندو بھی تھے ‘ سب مل کر صرف اور صرف کشمیرکوبچارہے تھے ۔ 
سارے سیلاب زدہ کشمیرمیں محبت‘ بھائی چارے اورقومی یکجہتی کی ایسی ہی بے شمار سچی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ کشمیری نوجوانوں نے مصیبت کے اِن ایاّم میں نہ مذہب دیکھا ‘نہ ذات پات اورنہ ہی ریاستی اور غیرریاستی کا امتیازکیا۔ ’’کشمیری نوجوانوں کی سرگرمیوں کے سبب انسانی جانوں کا اتلاف کم ہوا ورنہ ہزاروں مرجاتے ‘‘۔ تحریک حریت کے چیئرمین سیدعلی گیلانی کا یہ دعویٰ بجاہے ۔ یہ وہ نوجوان تھے جنہوں نے رات دِن ایک کردیئے تھے ۔ شارق خان 12ویں جماعت کا طالب علم ہے ‘اس کااپنا گھر اوراپنے گھر والے جواہر نگرمیں خودڈوبے ہوئے تھے اوریہ دوسروں کی زندگیاں بچاتے پھررہا تھا ۔ 
کسی طرح یہ کشتیاں حاصل کرتا اور بجلی کے تاروں کے سہارے اِدھر سے اُدھر کشتیوں کولے جا کر لوگوں کوبچاتا اورپناہ گزین کیمپوں میں منتقل کرتا۔یہ کام ضروری تھا کیونکہ آرمی اپنا بچاؤ کام شام کے چاربجے تک بند کر دیتی تھی ۔بچے رات بھراورپھر دن بھربچاؤ کام میں لگے رہتے۔ بچاؤ کے کام میں کئی نوجوان شہید بھی ہوئے ۔ تحریک حریت سے جڑے فردوس احمد تیلی اورعبیداللہ لوگوں کوبچاتے بچاتے خودجان سے گئے ۔ 
سکھ نوجوانوں کی ٹولیاں بھی بچاؤ کام میں سرگرم تھیں‘ ’والنٹیرزسکھس ‘کے نوجوان بوٹ وغیرہ لے کرجاتے اور لوگوں کوگھروں سے نکالتے۔ اس ٹولی نے جواہرنگر سے 22لاشیں نکالی تھیں۔ آج بھی جواہرنگر کے ملبے میں لاشوں کے دبے ہونے کا اندیشہ ہے ۔ 
یہ تمام نوجوان ‘مسلم ‘سکھ اورہندو ایک نئے کشمیر کے لیے امیدکی ’کرن ‘ ہیں۔۔۔ ان سب نے مصیبت کی گھڑی میں ایک دوسرے کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے رکھا۔۔۔اگر ایک جانب کچھ شدت پسند لیڈرصرف اس لیے ’بہاریوں‘اور’یوپی والوں‘کے تئیں ناراضگی کا اظہار کررہے تھے کہ بقول ان کے آرمی صرف انہیں بچارہی تھی تودوسری جانب کشمیری نوجوان مصیبت کی اس گھڑی میں’بہاریوں ‘ اور’یوپی والوں‘کوبھی گلے لگارہے تھے ‘ان کے لیے بھی ریلیف کیمپوں کے دروازے کھول رہے اورانہیں بھی ریلیف کا سامان تقسیم کررہے تھے اور اگرکوئی اعتراض کرتا تو انہیں خاموش بھی کرارہے تھے ۔ 
سیلاب حالانکہ قدرتی آفت تھی مگریہ سارے ملک کے لیے ‘مرکزی اورصوبائی سرکار کے لیے اورفوج کے لیے بھی ایک موقع تھا‘سنہرا موقع کشمیریوں کے دلوں کو جیتنے کا ۔ مگر یہ موقع ہاتھ سے چلاگیا ۔۔۔ عمرعبداللہ کی سرکار کشمیریوں کا دل جیتنے میں ناکام رہی ۔ صوبائی سرکارنے نہ توان کشمیری نوجوانوں کی سرگرمیوں کوسراہا جنہوں نے جانوں کوخطرے میں ڈال کردوسروں کی زندگیاں بچائیں اورنہ ہی اُن غیر سرکاری تنظیموں کی حوصلہ افزائی ہی کی جو تباہ حال کشمیریوں تک پہنچنا چاہتی ہیں۔ صوبائی سرکار اوّل روزسے ڈوبی تھی اور آج بھی ابھرنہیں سکی ہے ۔ سرینگر نیشنل کانفرنس پارٹی کا گڑھ ہے ۔ یہاں کے آٹھوں ایم ایل اے اسی پارٹی کے ہیں اوریہیں عمرعبداللہ سے لوگ سب سے زیادہ ناراض ہیں۔۔۔ عوامی ناراضگی دیکھ کریہ پیشن گوئی کی جاسکتی ہے کہ اب کی بار عمر عبداللہ کی پارٹی بالکل اسی طرح غرق ہوجائے گی جس طرح کہ سرینگر غرق ہوا تھا ۔الزامات لگ رہے ہیں کہ نیشنل پارٹی ریلیف کے سامانوں کی بندربانٹ کررہی ہے ۔۔۔ کہا جاتاہے کہ وزیراعلیٰ کے بنگلے پرریلیف کے سامانوں کا انبا رلگا ہواہے جونیشنل کانفرنس کے کارکنان اٹھا اٹھا کرلے جارہے ہیں اور آپس میں ہی بانٹ رہے ہیں ۔کہایہ بھی جارہا ہے کہ ریلیف کے ذریعے عمر عبداللہ اپنی نااہلی چھپانے کے لئے کوشاں ہیں۔جِن علاقوں سے نیشنل کانفرنس کوزیادہ ووٹ مِلے ہیں وہاں ریلیف کا سامان پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن اس صوبائی سرکار کا المیہ یہ ہے کہ عمر عبداللہ ناتجربہ کار ہیں اوران سے کہیں سینئر لیڈر‘ ان کے پیرکھینچنے کو تیارہیں۔ یہ سینئرلیڈر وزارت اعلیٰ کی اپنا حق سمجھ رہے تھے لہٰذا یہ عمرعبداللہ کوپریشان دیکھ کر خوش ہیں۔ گویایہ کہ نیشنل کانفرنس اورعمر عبداللہ پرچارو ں طرف سے یلغار ہے اوریہ سیلاب نیشنل کانفرنس سرکار کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوسکتاہے۔ 
کانگریس ریلیف کے کاموں میں سرگرم ضرورہے مگر وادی میں کانگریس کے پاس ورکرو ں کا فقدان ہے ۔ سابق وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد ن رات ایک کیے ہوئے ہیں‘سیف الدین سوزبھی سرگرم ہیں مگر ان کی دوڑ ان علاقوں ہی کی طرف ہے جوکانگریس کا گڑھ مانے جاتے ہیں۔ 
رہی مفتی محمد سعید کی جموں وکشمیر پیپلزڈیموکریٹک پارٹی ( پی ڈی پی) تویہ صوبائی سرکار پر انگلیاں اٹھانے کے علاوہ کچھ نہیں کررہی ہے ‘ مفتی محمد سعید کئی دِن سے دہلی میں پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں‘محبوبہ مفتی بھی دہلی چلی گئیں ہیں بلکہ حکمراں اوراپوزیشن جماعتوں کے بہت سارے لیڈران مصیبت کے اِن ایاّم میں سرینگرسے باہرہیں۔ ایک کشمیری طنزاًکہتا ہے ’’ان سب کو انفیکشن سے ڈرلگتاہے ‘‘۔۔۔
وزیراعظم نریندرمودی نے سیلاب زدہ کشمیرکا دورہ کرکے اچھی باتیں کہی تھیں گیارہ سورکروڑ روپئے کی امداد کا اعلان بھی کیا تھا لیکن ان کی سیاسی پارٹی بی جے پی سرینگر اوراطراف کے اضلاع میں سرگرم ہونا تودورکہیں نظر تک نہیں آئی ۔ 
مرکزی وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ آئے اورکشمیری پنڈتوں کو بسانے کے لیے علاحدہ زمین دیکھنے کی بات کہہ کر عام کشمیریوں کو ناراض کرگئے ۔۔۔ مرکزی وزیرنتن گڈکری آئے اور تجارتی برادری کے مفاد کی باتیں کرکے واپس چلے گئے عام کشمیریوں کے لیے انہوں نے کوئی بات نہیں کی۔۔۔ بی جے پی کے لیے سارے کشمیریوں تک پہنچنے کا یہ سنہرا موقع تھا جِسے اس نے کھودیا ہے ۔ مودی بھی جیسے ایک بارکشمیر آنے کے بعد اسے بھول گئے ہیں۔ 
کشمیرکا المیہ ہے جیساکہ میرواعظ عمر فاروق کہتے ہیں کہ ’’ہرمعاملہ سیاسی بنادیاجاتاہے ‘‘۔ سیلاب پر بھی سیاست ہورہی ہے ۔ کچھ سیاسی طاقتیں عمر عبداللہ اوران کی سرکار کو اس سیلاب میں ڈبونے پر تلی ہیں تو کچھ کانگریس اورپی ڈی پی کواور رہی بی جے پی توجیسے اس میں وادی میں سرگرم ہونے کی ہمت ہی نہیں ہے ۔ 
فوج نے بھی ایک سنہرا موقع کھویا ہے ۔ فوج کے پاس موقع تھاکہ وہ کشمیریوں کا دل جیت لیتی لیکن جیسا کہ کشمیری کہتے ہیں بعض بعض مواقع پر فوج نے ’بچاؤ کام ‘کے دوران کشمیریوں پرغیرریاستی باشندوں اورسیاحوں کو نکالنے پر ترجیح دی ۔۔۔ شاید ابھی بھی سب کچھ ختم نہیں ہوا ہے ‘ کشمیری نوجوانوں نے اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر محبت اور بھائی چارے کی جوبنیادیں ڈالی ہیں ان پرایک پختہ عمارت تعمیر کی جاسکتی ہے ‘ صوبائی ریاست بھی سامنے آئے ‘ مرکز بھی ‘فوج بھی اورمقامی تنظیمیں بھی اور’سیاست‘ کوپرے رکھ کر ان بنیادوں سے ایک نئے کشمیرکی شروعات کرے۔ یہ ممکن بھی ہے کہ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ہرتنگی کے بعد فراخی ہے ۔ 


ندیوں نے راستہ بدل دیا اور ڈل جھیل اُبل پڑی 

جھیل کا پانی حضرت بل درگاہ کی بنیاد سے ٹکرا کر واپس پلٹ پڑا، کلگام شوپیان اور اننگ ناگ میں قادیانی اور عیسائی مشنریاں سرگرم .ایک ناگوار بو جو جگہ جگہ بدبو میں تبدیل ہوجاتی ہے نتھنوں میں گھسی جا رہی ہے۔ان دنوں اس بو اوربدبو نے سارے سری نگر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔سری نگر میں جموں کی جانب جانے والی شاہراہ سے گذرتے ہوئے جب جنوبی کشمیر کی جانب آپ بڑھتے ہیں یہ بدبو بڑی دورتک آپ کا پیچھا کرتی ہے،جب آپ کلگام،شوپیان اور اننت ناگ تک پہنچتے ہیں توبو قدرے گوارا ہوجاتی ہے۔شمالی کشمیر کی جانب بڑھتے ہوئے سری نگر کے ’ڈاؤن ٹاؤن‘‘علاقے سے گذرکر ڈل جھیل سے آگے کی طرف بڑھتے ہوئے بانڈی پورہ اورسوپور کی طرف بڑھتے ہوئے بھی یہ بو کبھی گوارااورکبھی ناقابل برداشت بن جاتی ہے۔


یہ سڑے ہوئے پانی کی بدبو ہے۔ 

کروڑپتی سڑک پر:کشمیر میں ۴؍ستمبرکو بارشوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا تھا۔بارشیں تیز نہیں تھیں۔تین دن تک پانی برستا رہا،۶؍ستمبر کو لوگوں کو یہ احساس ہواکہ یہ برسات عام برسات نہیں ہے۔سری نگر کو درمیان سے چیرتے ہوئے دریائے جہلم گذرتا ہے۔اس دریا پر کئی پل بنے ہوئے ہیں جو وادی کو شہر اور بیرون شہر سے جوڑتے ہیں۔فلڈ چینل بھی ہے جو عام طورپر شہر سے پانی کی نکاسی کاکام کرتا ہے اس کی حیثیت ایک نالے سے زیادہ نہیں ہے۔اس روز یعنی ۶؍ستمبر کوجہلم تو اُبل پڑا ہی تھا۔ فلڈ چینل بھی ایک تیزوتند ندی میں تبدیل ہوگیاتھا،پانی بڑھتا رہا بڑھتا رہا،اطراف کے تین علاقے غریبوں کی بستی مہجورنگر اور پوش جواہرنگر اور راج باغ کے علاقوں میں پانی پہلے دوچار پانچ فٹ چڑھا اوردیکھتے ہی دیکھتے ان علاقوں کے مکانات کے دوسرے منزلوں ک پانی جا چڑھا۔’’ہم نے پہلے سامان پہلے منزلے پر چڑھایا،پھر دوسرے پر لیکن دوسرے منزلے پر بھی پانی بھرگیا،اسکے بعدسامان کی کسے فکر رہی ہم جان بچانے کے لیے ہاتھ پیر مارنے لگے‘‘جواہر نگر کا ایک شخص بتاتاہے۔یہ وہ کالونی ہے جہاں مالدار طبقہ رہتاہے،سرکاری افسران ،ایم ایل اے حضرات اوراورچند وزراء رہتے ہیں۔آج بیسویں دن بھی جواہر نگر اور قریب کا ہی دوسرا پوش علاقہ راج باغ بدبودار پانی میں ڈوبا ہواہے۔مہجورنگر کی حالت زیادہ خراب ہے کیونکہ یہاں قدرے غریب لوگ بستے ہیں تینوں علاقوں میں بڑی تعداد میں مکانات گرے ہیں۔و ہ افراد جو کل تک کروڑوں میں کھیلتے تھے سڑک پر آگئے ہیں۔
عمر عبداللہ کی سرکار ڈوب گئی: سری نگر کے اندرگھستے جائیے تباہی اور بربادی کی بے حد دردناک تصویر آپ کے سامنے کھڑی ہو جائیگی۔بخشی اسٹیڈیم سیاسی ہنگاموں کا مرکز رہا ہے،اس کے قریب ہی اقبال پارک واقع ہے،یہ علاقہ تجارتی مرکز تھا،یہاں تیل اور مصالحوں وغیرہ کابڑا ہی نفع بخش کاروبار چلتا تھا۔یوں لگتا ہے جیسے یہ شہر کاتجارتی اور رہائشی علاقہ نہیں کوئی بے حد بدبودا دریاہے۔سرائے بالا کا علاقہ بھی تجارتی علاقہ ہے،یہ ہنوز پانی میں ڈوباہواہے۔جہانگیرچوک پرہمیشہ رونق رہا کرتی ہے مگر یہاںآج سیلاب کے ۸۱؍دنوں بعد بھی سناٹا ہے،پانی چوک میں ہلکورے لے رہاہے۔اس علاقے میں کئی بڑے بڑے شاپنگ مال ڈوب گئے ہیں۔جہانگیر چوک میں ہی گورنمنٹ سینٹرل مارکیٹ ہے،تین دن قبل اس مارکیٹ کی چھت تک پانی تھا لیکن آج پانی اترا ہے اوربے شمار بند پڑی دوکانوں کے اندرسے بدبو پھوٹ رہی ہے۔کشمیر کا سب سے بڑا بس اڈہ بٹمالو پانی میں ڈوبا ہوا تھا۔اب یہاں سے بسوں نے اپنا سفر شروع کیا ہے مگر یہ سفر بے حد المناک اورافسوسناک ہے۔بس ڈرائیوروں کو آج بھی یقین نہیںآرہا ہے کہ ’کشمیر میں پانی بھر سکتاہے۔‘
سلک فیکٹری روڈ پر آگے بڑھتے ہوئے ایک دیوار پر’غزہ زندہ باد‘ کا نعرہ لکھا نظر آتا ہے لیکن اب اس دیوار کے پاس نوجوان کھڑے نظر نہیں آتے۔ اسمبلی، سیکریٹریٹ، کورٹ ہنوز پانی میں ہیں۔ سیلاب کے ابتدائی 24گھنٹوں تک ریاست کی عمر عبداللہ کی سرکار بھی ڈوبی ہوئی تھی۔ ویسے سچ یہ ہے کہ ریاستی سرکار آج بھی ڈوبی ہوئی ہے۔ 
اور جانور بھی ڈوب گئے: لوگ یہ سوال دریافت کرتے ہیں کہ سیلاب کے ایام میں عمر عبداللہ کی پولس کیا کررہی تھی؟ اس سوال کا جواب اس حقیقت سے لگایاجاسکتا ہے کہ شہر کا پولس ہیڈ کوارٹربھی پانی میں ڈوب گیا تھا۔ ڈسٹرکٹ پولس ہیڈکوارٹر بھی محفوظ نہیں تھا۔ بِمنا پولس کالونی آج بھی پانی میں ڈوبی ہوئی ہے۔ اس علاقے میں 9سو گائیں ڈوب کر مری ہیں ان کی لاشیں نکالنے کا کام اب شروع ہوا ہے۔ سارے سرینگر اور کشمیر کے اضلاع میں بڑی تعداد میں جانور مرے ہیں۔ گائیں ، بیل بچھڑے، کتے اور بلیاں، یہ لاشیں اب سڑ کر پانی کو متعفن ہوا کو اور آلودہ کررہی ہیں۔ بھیگ کر سڑنے والے کپڑے اور بستر علاحدہ سے ہیں۔ چاول سڑ گئے ہیں۔ بڑ ی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جن کے پاس کچھ بھی نہیں رہا ہے۔ درالعلوم رحیمیہ کے مہتمم مولانا رحمت اللہ قاسمی کا کہنا ہے ’’اللہ تعالیٰ کا بڑا کرم ہے کہ لوگ چل رہے ہیں ورنہ لگ یہی رہا تھا کہ کوئی نہیں بچ سکے گا‘‘۔ پانی کا یہ’قہر ‘ کس قدر شدید تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ پٹرول پمپ کی ٹنکیاں پھول کر خود بخود اوپر کی جانب اٹھ رہی ہیں۔ قمر واری روڈ پر ایسی ہی ایک ٹنکی نظر آئی، پٹرول اور ڈیزل تو پانی بہالے گیا مگر یہ ٹنکی پانی میں پڑے پڑے پھول کر زمیں کے اندر سے ابھر آئی۔ سرینگر بلکہ سارے کشمیر کی معیشت پھل فروٹ پرٹکی ہوئی ہے مگر اس معیشت کا کیا حال ہوگا اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایاجاسکتا ہے کہ سیلاب کے دوہفتے بعد بھی سرینگر کی فروٹ منڈی جو پارم پورہ میں ہے، دریابنی ہوئی ہے۔ 
یاسین ملک کی گلی ڈوب گئی: تجارتی شعبہ کو تین سو ارب روپئے کا نقصان پہنچا ہے۔ 3674کروڑ روپئے کی فصلیں تباہ ہوئی ہیں، سیب کے باغات ختم ہوگئے ہیں۔ زعفران کی کھیتیاں تباہ ہوگئی ہیں۔ بمنا پارم پورہ سے گزرتے ہوئے دونوں ہی جانب کروڑوں روپئے کی لکڑیاں پڑی سڑتی نظر آتی ہیں۔ صنوبر، چنار اور سرو کی ان قیمتی لکڑیوں کے تاجر دیکھتے ہی دیکھتے کنگال ہوگئے ہیں۔ لال چوک سرینگری کا تجارتی مرکز ہے۔ یہیں پریس کالونی بھی ہے ۔ یہ علاقہ سب سے زیادہ متاثر ہے۔ شوکت نامی ایک نوجوان بتاتاہے کہ ’’میراموبائل کا ایک بڑا شوروم تھا جو پورا کا پورا پانی میں ڈوب گیا تھا، میرے اطراف کے شوروم بھی پانی میں ڈوبے تھے بلکہ سارے لال چوک کی دکانیں ڈوب گئی تھیں آج ہم لوگ صاف صفائی کے لیے آئے ہیں مال تو خیر کچھ نہیں بچا مگر اہم تجارتی اور سرکاری دستاویزات بھی تباہ ہوگئی ہیں‘‘۔ اس لال چوک پر ایک شخص اپنے شوروم کی صفائی کرتے ہوئے فریادکرتا ہے ’’ایک گھونٹ پانی پلادیں‘‘۔ یہیں قریب ہی میصومہ کے علاقے میں علاحدگی پسند کشمیری یاسین ملک کا مکان ہے، ان کی گلی سے فائر بریگیڈ والے پمپوں کے ذریعے پانی نکال رہے ہیں۔ 
جب ڈل جھیل اُبل پڑی: وادی میں زبردست تباہی سے متاثر ہونے والوں کی بڑی تعداد اپنے گھروں کو آج بھی نہیں جاسکی ہے کیوں کہ دوہفتے سے زائد پانی بھرے ہونے کے سبب مکانات اس قدر کمزور ہوگئے ہیں کہ کبھی بھی گر سکتے ہیں۔ سرینگر میں ہزاروں کی تعداد میں مکانات گرے ہیں۔ ڈاؤن ٹاؤن اور نگین کے علاقے قدرے محفوظ تھے۔ وزیر اعلیٰ اور ریاست کے لیفٹنٹ گورنر کی کوٹھیاں محفوظ رہیں۔ مفتی محمد سعید کا سرکاری مکان محفوظ رہا مگر آبائی مکان پانی میں ڈوب گیا۔ ڈل جھیل میں پا نی کی سطح بقول محمد یاسین کے ہنوز سواگز اوپر ہے۔ بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ ڈل جھیل خود ایک شہر ہے۔ کبھی یہ 80کلو میٹر میں پھیلی ہوئی تھی آج سکڑکر 18کلو میٹر رہ گئی ہے لیکن اس جھیل میں 6گاؤں ہیں ، بازار اور کھیتیاں ہیں۔ شکارے میں بیٹھ کر تقریباً تین گھنٹوں تک ڈل جھیل کے گاوؤں کا نظارہ جہاں متاثر کن ہے وہیں یہ تباہی اور بربادی کی مثال بھی ہے۔ گاؤں کے گاؤں تباہ ہوچکے ہیں۔ شکارے الٹ گئے۔ ڈل جھیل میں مولی، شلغم ، گاجر اور کدو وغیرہ کی کھیتی تو کی ہی جاتی ہے کشمیریوں کی مرغوب سبزی نارو کی کھیتی بھی کی جاتی ہے۔ ڈل جھیل کے ایک باشندے غلام محمد کے بقول ’’ایک معمولی اندازے کے مطابق کھربوں کے نادرو تباہ ہوگئے ‘‘۔ اگر ہم کھربوں کی جگہ کروڑوں مانیں تب بھی بہت بڑا نقصان ہے۔ نادرو بیرون ملک ایکسپورٹ کیاجاتا ہے اور مقامی سطح پر تین سو روپئے ایک گھٹی ملتا ہے۔ بے حد قیمتی فصل تھی۔ ڈل جھیل کے ایک باشندے بلال احمد بتاتے ہیں کہ ’’یوں لگ رہا تھا جیسے کہ یہ جھیل اُبل پڑے گی، پانی کی سطح اچانک ابھرنا شروع ہوئی اور دیکھتے دیکھتے دسیوں فٹ اونچی ہوگئی‘‘۔ 
پانی حضرت بل کی بنیاد سے ٹکرا کر لوٹ گیا: ڈل کا پانی حضرت بل تک بھی پہنچا، جہاں ایک روایت کے بقول اللہ کے رسول حضرت محمد ﷺ کے موئے مبارک رکھے ہیں، مگر پانی حضرت بل کی بنیادوں کو چھوکر نیچے اتر گیا۔ کشمیر یونیورسٹی میں بھی پانی نہیں پہنچا اورجھیل کے کنارے ہی واقع شیخ عبداللہ کی مزار بھی محفوظ رہی اور سرینگر کی تاریخی جامع مسجد بھی۔ ڈل جھیل کیوں اُبلی، اس سوال کا جواب ڈل جھیل کو دیکھ کر بآسانی دیاجاسکتا ہے۔ غیر قانونی تعمیرات کاایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ جگہ جگہ سے جھیل کو پاٹ کر اس پر گاؤں اور بازار بنالیے گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ڈل جھیل کو اپنی بے توقیری پر کسی نہ کسی روز غصہ آنا ہی تھا اور وہ آیا ۔ اب لوگ ہاتھ مَل رہے ہیں۔ چونکہ تباہ ہونے والے گاؤں جھیل کے اندر ہیں اس لیے لوگوں کی توجہ ان گاؤں کی طرف نہیں جارہی ہے۔ غلام محمد کا کہنا ہے ’’ریلیف آئی ضرور مگر ڈل جھیل میں نہیں آئی‘‘۔ ساری جھیل گدلی ہوگئی ہے، سیلاب کا متعفن پانی جھیل میں شامل ہوگیا ہے۔ نادرو کے سڑے ہوئے پتے بدبو کو مزید بڑھارہے ہیں۔ اس جھیل میں بڑی قیمتی مچھلیاں پائی جاتی ہیں ان پر سیلاب کا کیا اثر ہوا ہے اس کا اندازہ لگانا ابھی باقی ہے مگرماہرین کا یہ کہنا ہے کہ مچھلیوں پر بھی گندگی کے اثرات پڑیں گے۔ سب سے بڑا کام ڈل جھیل کی صفائی کا ہے، یہ کام ریاستی اور مرکزی سرکار یں ہی کرسکتی ہیں۔ دیکھئے یہ کب جاگتی ہیں۔ 
ندی نے راستہ بدل دیا: سرینگر سے باہر جنوبی کشمیر کی جانب بڑھئے تو کلگام ، اننت ناگ، شوپیان یہ اضلاع کافی متاثر ہیں۔ کلگام سب سے زیادہ متاثر ہے، یہاں ویشوندی نے کئی جگہ دو سے تین کلو میٹر کے رقبے میں اپنا راستہ بدل دیا ہے۔ ایک گاؤں چھم گنڈ ہے اور اس سے لگا ہوا دوسرا گاؤں آڑی گتنو ہے، یہاں نالہ اس وقت ندی میں تبدیل ہوگیا جب ویشوندی راہ بدل کر نالے میں آسمائی۔ ندی گاؤں سے گزری اور سب کچھ بہا لے گی۔ جان سب کی محفوظ رہی مگر مکان اور مال واسباب کچھ نہیں بچا۔ حیرت انگیز طور پر مسجدیں محفوظ کھڑی ہیں! میں سنا کرتا تھا کہ گاؤں صفحۂ ہستی سے مٹ گیا، پہلی بار جانا کہ اس کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ قریب ہی ایک گاؤں کیلم گنڈ ہے، ندی نے یہاں بھی راستہ بدل لیا تھا اوربے حد مضبوط دو پلوں کو تنکے کی طرح بہالے گئی، ساتھ ہی مکان، دکان اور پرانے درخت بھی۔ اس گاؤں کا ایک فرد بھی نہ بچ پاتا اگر قریب کے گاؤں اوشمو گنڈ کے لوگوں نے ’بچاؤ کا کام‘نہ کیا ہوتا۔ کلگام ضلع میں تقریباً 22گاؤں مکمل طور پر تباہ ہوگئے ہیں۔ کئی جگہ جیسے جنگل پورہ میں لوگ ٹینٹوں میں رہ رہے ہیں۔ یہ ٹینٹ فوج نے بنائے ہیں۔ یہ سب گاؤں بے حد خوبصورت تھے۔ یہاں ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے لوگوں میں احساس پایا جاتا ہے، علم سے لوگوں کو لگاؤ ہے۔ جگہ جگہ دیواروں پر تحریر نظر آتا ہے ’’کھلے میں پاخانہ کرنا گندی عادت ہے‘‘ ۔ ’’اپنے آس پاس پڑوس سے گندگی دور رکھئے‘‘ ۔ ’’علم بڑی دولت ہے‘‘۔ اور ’’لڑکیوں کی تعلیم ضروری ہے‘‘۔ 
قادیانی اور عیسائی مشنریاں سرگرم: کلگام ضلع میںآرونی، گاؤں ہے جہاں عیسائی مشنریاں سرگرم ہیں۔ عیسائی مشنریاں اور قادیانی آس پاس کے گاوؤں میں بھی سرگرم رہے ہیں۔ کلگام قادیانیت کا گڑھ ہے یہاں 22 گاؤں قادیانی ہیں۔ دو تین گاؤں مکمل طور پر قادیانی ہیں۔ قادیانی اور عیسائی مشنری ریلیف کے بہانے اپنے اپنے مذہب کی تبلیغ کے لیے سرگرم ہوگئے ہیں۔ آرونی کے ایک شخص نے بتایا ’’عیسائی آئے تھے اور ہمیں رقم دے رہے تھے اور ہمارے فون نمبرمانگ کر ہم سے کہہ رہے تھے کہ آپ لوگ آئیں اور ہم سے ملیں مگر نہ ہم نے رقم لی اور نہ فون نمبر دئیے‘‘۔ شوپیان اور اننت ناگ میں بھی یہ ’ارتدادی ٹولہ‘ سرگرم ہے۔ بانڈی پورہ اوربارہمولہ کے اضلاع میں بھی اس ٹولے کی سرگرمیاں بڑھی ہیں۔ کشمیر میں 95فیصد مسلم آبادی ہے، بے شمار کشمیری غریب اور کم علم یا ان پڑھ ہیں، انہیں بہکانا بڑا آسان ہے۔ ’ارتدادی ٹولے‘ کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے دینی اور ملی تنظیمیں سرگرم ہوگئی ہیں مگر ایک ایسے موقع پر جب سب کو ہی ریلیف کی ضرورت ہے، قادیانی اور عیسائی مشنریوں کو روکنا آسان نہیں ہوگا۔ 

اتربھارت کے باشندوں اور آرمی سے کیوں ناراض ہیں کشمیری؟ 

کشمیر بالخصوص سرینگر میں ایک بہت بڑی تعداد میں یوپی بہار والے رہتے ہیں۔ایک معمولی اندازے کے مطابق بہاریوں اور یوپی والوں کی تعداد پانچ لاکھ سے زائد ہے۔محمد شریف بجنور کے رہنے والے ہیں۔یہ گزشتہ۸۱؍برسوں سے سری نگر کے پیر باغ چوک علاقے میں’حسان بوٹک ٹیلرنگ شاپ‘ کے نام سے سلائی کا کام کرتے ہیں۔یہ بھی دوسرے غیر کشمیری باشندوں کی طرح جنہیں کشمیری’غیر ریاستی ‘کہتے ہیں ایک کرایے کے مکان میں رہتے ہیں، مکان نہیں بناسکتے کیونکہ آرٹیکل370 کے تحت غیر کشمیری کو زمین خریدنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ محمد شریف بتاتے ہیں کہ’’یوپی والوں میں اکثریت پیشہ ور لوگوں کی ہے،نائی ، بیکری والے،ر نگ ساز، پھل فروش،ٹھیلہ اور چھپڑی لگانے والے جبکہ بہاریوں کی اکثریت مزدروں کی ہے۔۷؍ستمبر کو جب پانی بھرنے لگا تو ہم لوگوں نے سامان چوتھی منزل پر پہنچادیا،بہار کے لوگ بڑی تعداد میں جمع ہوگئے تھے اور تقریباََ۰۲ ہزار بہاری پیدل جموں گئے اب دوفی صد مزدور ہی یہاں بچے ہیں،یوپی والوں میں سے بھی اکثر نے اپنے گھر والوں کو واپس بھیج دیا ہے بس چند ہی خاندان بچے ہوئے ہیں۔‘‘
سیلاب کے ابتدائی دنوں میں بہاریوں اور’غیر ریاستی‘افراد کے تئیں کشمیریوں میں شدید غصہ تھا،ان کا یہ ماننا تھا کہ آرمی نے انہیں بچانے میں فوقیت برتی اور جانبداری سے کام لیا۔ویسے بھی کشمیر میں عصبیت ایک عام مرض ہے۔کشمیری حالانکہ مہمان نواز ہوتے ہیں اور ان دنوں میں بھی جبکہ حالات مخدوش ہیں مہمان نوازی کرتے نظر آتے ہیں لیکنکہیں کہیں ریلیف اور راشن وغیرہ کی تقسیم میں،مخصوص سرکاری راشن کی تقسیم میں،یہ ’غیر ریاستی‘ باشندوں کو نظر انداز کردیتے ہیں حالانکہ کشمیری سارا الزام فوج پر ڈال رہے ہیں کہ اس نے ریاستی اور غیر ریاستی کا رویہ اپنایا ،میڈیا جانبدار رہا لیکن سچ یہ بھی ہے کہ فوجی بھی سیلاب میں مرے ہیں اور فوجی کالونیاں بھی تباہ ہوئی ہیں اور فوج کے اسلحہ گودام بھی بہے ہیں۔ممکن ہے چند جگہوں پر’بچاؤ‘کے کاموں میں فوج نے پہلے ’غیر ریاستی‘ باشندوں اور سیاحوں کو نکالنے کی ضرورت محسوس کی ہو مگرکشمیریوں کو بھی بچایا گیا ہے ۔صحافت سے وابستہ غلام جیلانی چشتی کہتے ہیں کہ ’’کشمیری اس وجہ سے بے حد ناراض ہیں‘۔‘مگر دوسری جانب ایک کشمیری نوجوان حافظ مشتاق احمد کی مانیں تو بڑی حد تک اس کے ذمے دار کشمیری بھی ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ’’جب جہازوں سے اامدادی پیکٹ پھینکے جارہے تھے تولوگ چھ چھ سات سات بوریاں لادے اپنے ٹھکانے کی طرف بھاگ رہے تھے،انہیں اپنے دوسرے بھائیوں کی فکر نہیں تھی۔میں نے کئی لوگوں کو اس حرکت سے روکا تو ایک آرمی افسر نے مجھ سے دریافت کیا کہ آپ نے کوئی پیکٹ کیوں نہیں رکھاَ میں نے اسے جواب دیا’ اللہ ہمارے ساتھ ہے‘آرمی افسر بڑا خوش ہوا اور کہنے لگا’ہمیں ایسے ہی لوگوں کی ضرورت ہے‘ پھر مجھے تلاش کرکے میرے ذریعے ہی ریلیف تقسیم کراتا تھا۔‘‘


کشمیر میں سیلاب کیوں آیا؟ 

کشمیریوں پر عذاب نہیں مگر عذاب سے پہلے کا قہر اور ایک وارننگ ہے .اگر ریاستی سرکاراور مرکزی سرکار نے متحد ہوکر کام نہیں کیا تو سردی میں بڑی تعداد میں کشمیری جان سے جاسکتے ہیں .کشمیربالخصوص سری نگر میں سیلاب کیوںآیا؟یہ وہ سوال ہے جس کا جواب لوگ اپنے اپنے انداز میں دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ایک بات پر سب ہی متفق ہیں کہ’’یہ اللہ تعالیٰ کا قہر تھا۔‘‘تحریک حریت جموں وکشمیر کے چیئرمین سیدعلی گیلانی کاکہنا ہے کہ ’’یہ سیلاب اللہ رب العزت کی طرف سے ایک وارننگ تھی‘جب کسی معاشرے میں خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں توعذاب نہیں وارننگ آتی ہے،قہر کی صورت میں لوگوں کو جھنجھوڑا جاتا ہے،اللہ رب العزت نے اس سیلاب کے ذریعے ہم سب کو جھنجھوڑا ہے۔‘‘
دارالعلوم رحیمیہ بانڈی پورہ کے مہتمم مولانا رحمت اللہ قاسمی بھی اس سیلاب کو قہر الہیٰ قراردیتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ’’ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ گرمی سے پانی بھاپ بن کر اڑتا ہے پھر بارش ہوتی ہے اورفصل اگتی ہے،یہ ظاہری اسباب ہیں مگر یہ اسی وقت ممکن ہے جب ان کا بنانے والامالک اس کی اجازت دے گا،ظاہری طور پر یہ سیلاب ہمارے گناہوں کی وجہ سے آیاہے،تین دن تک بارش ہلکی ہلکی ہوتی رہی،پیشین گوئی ہوتی رہی کہ سیلاب کا خطرہ ہے،پانی بتدریج بڑھنے لگا،سارا کشمیر متوجہ تھا کہ کیا ہو رہا ہے،مگر سب کے سب یاتو ٹی وی پر لگے بیٹھے تھے یا انٹرنیٹ اور واٹس اپ پر ،جب کہ اللہ کی طرف رجوع کرنا ضروری تھا۔‘‘مولانا موصوف مزیدبتاتے ہیں کہ’’کشمیر میں اس سے کہیں تیز اورکہیں زیادہ دنوں تک پانی برسا ہے ،اس بار اس کے باوجود کہ سیلاب کا خطرہ بتایا جا رہا تھا ۔ نہ عام لوگ جاگے اور نہ انتظامیہ جاگی،ماضی میں اس طرح کے حالات میں الرٹ جاری کیا جاتا تھا،اس بار الرٹ تک جاری نہیں کیاگیا،اسپتالوں میں ڈاکٹر غائب تھے،کسی میں احساس ذمے داری نہیں تھا،لاپروائی کا ایک عالم تھا لہٰذا جب سیلاب آیا توسب کچھ بہالے گیا۔‘‘
مولانا رحمت اللہ قاسمی کا ماننا ہے کہ ’’کشمیر کا مسلمان ایمان کے اعتبار سے بگڑگیاہے،اس بار جب محکمۂ موسمیات پیشن گوئی کررہا تھا تب لوگ ایک دوسرے کو فون بجا کر خبر دے رہے تھے،ایک تماشہ تھا،۵؍ستمبر سے پانی کی سطح بڑھنے لگی تھی ،کشمیر کے’بون اینڈ جوائنٹ اسپتال‘میں پانی بھر گیاتھا،میڈیا والے توموجود تھے مگر انتظامیہ غائب تھی،ہم عمر عبداللہ کی سرکار کو الزام نہیں دیتے بس یہ کہتے ہیں کہ آدمی بگڑ گیاہے،کسی کی بھی سرکار ہوتی یہی حالات ہوتے۔‘‘
کشمیر کے سابق ڈی آئی جی عبدالسبحان لون بھی سیلاب کو’’اللہ کا قہر‘‘قرار دیتے ہیں۔وہ کہتے ہیں ’’ہمارے گناہ زیادہ ہو گئے تھے اللہ تعالیٰ نے ذرا سا جھٹکا لگایاہے،غیر اسلامی فعل بڑھ گئے تھے،معاملات ‘بہت خراب تھے اب کشمیریوں کو اللہ کے سامنے سربسجود ہوکر معافی مانگنی چاہیے۔‘‘وہ سیلاب کے ظاہری اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے بتاتے ہیں کہ’’یہاں اگست اور ستمبر میں ہمیشہ سیلاب آتا ہے اس بار بھی آیا،فصلیں پکی ہوتی ہیں ،پانی کی سطح بھی اوپر ہوتی ہے،فلڈ چینل ،نالوں اور واٹر باڈیز پرغیر قانونی تعمیرات کر لی گئی ہیں۔سرکار نے بھی غیر قانونی تعمیرات کی ہیں،ظاہر ہے کہ یہ قدرتی عمل کوروکنے کی کوشش تھی اور یہ سیلاب قدرت کاردعمل تھا۔‘‘ان کا یہ ماننا ہے کہ’’فلڈکنٹرول کاکوئی سسٹم نہیں ہے،ندی نالے صاف نہیں کیے گئے ہیں لہٰذا قدرت بپھراٹھی،قہرآیااور سب پرآیا،جنوبی اورمرکزی کشمیر میں زیادہ نقصان ہوا،شمالی کشمیرمیں قدرے کم ہوا مگر وہاں سیب کی فصل مکمل طورپر تباہ ہوگئی،اب اندازہ کریں کہ کشمیر کا جس کی ستر فیصدمعیشت سیب پرمنحصر ہے ،کیا ہوگا،زعفران اور چاول کے کھیت ختم ہوگئے،۴؍ہزارکروڑروپئے سے زائد کی فصلیں تباہ ہوئی ہیں،سیب کی فصل کا ساڑھے تین ہزارکروڑروپئے کانقصان ہے،دوکانیں ختم ہوگئی ہیں،سری نگر کی مرکزی ہری سنگھ بائی اسٹریٹ مارکیٹ آج تک پانی میں ڈوبی ہوئی ہے۔‘‘
تمام کشمیریوں کی طرح عبدالسبجان لون بھی عمر عبداللہ کی سرکار سے خوش نہیں ہیں،ان کاکہنا ہے کہ ’’سرکار سوئی ہوئی ہے ،بس کہیں کہیں جاگ رہی ہے۔انفراسٹرکچر کی بحالی کا کام توسرکار ہی کر سکتی ہے،عام لوگ تو بس دال،چاول اورکپڑے لتّے ہی تقسیم کر سکتے ہیں،مجھے لگتا ہے کہ کشمیر کو اپنے پیروں پرکھڑا ہونے میں دس برس لگ جائیں گے۔صوبائی اور مرکزی سرکاروں کو مل کرکام کرنا ہوگالیکن سیلاب پھرآسکتا ہے اور لیے یہ ضروری ہے کہ گناہوں کی تلافی کے لیے اللہ سے خوب معافی مانگی جائے۔‘‘
سیدعلی گیلانی کایہ ماننا ہے کہ’’ریاستی سرکار نے غفلت کا مظاہرہ کیا۔‘‘وہ کہتے ہیں کہ’’محکمہ موسمیات کا یہ کہنا ہے کہ ہم نے ۲؍ستمبر کو بارش اور سیلاب کے اندیشے کی اطلاع دی تھی مگر ریاستی سرکار نے الرٹ جاری نہیں کیا،سیلاب آنے کے بعد بھی ریاستی سرکار سوتی رہی،بچاؤ کے کام کی کوئی کوشش نہیں کی گئی،انتظامات ناقص ہیں،پولس آج بھی غائب ہے۔یہ سیلاب حوصلہ شکن ہے۔اس کی تلافی ہوگی یانہیں کچھ اندازہ نہیں لگایاجاسکتا۔‘‘
عرفان نقیب ایک مقامی کانگریسی لیڈر ہیں وہ سیلاب کو ’’گمراہی کے سبب اللہ کا قہر‘‘قرار دیتے ہیں۔گمراہی کا یہ عالم ہے کہ کشمیر میں خواتین عام طور پر بے نقاب اوربنا برقعہ کے پھرتی ہیں۔علماء کے نزدیک بے حیائی،سود،رشوت اورجھوٹ کی بہتات قہرالہیٰ کو دعوت دیتے ہیں،دین سے دوری اللہ کے غضب کا سبب بنتی ہے اور یہ سب کشمیر میں عام ہے۔دارالعلوم دارالہدیٰ ،ہمامہ کے مفتی محمدابراہیم بخاری نے ایک واقعہ سنایا ’’ایک امیر ترین خاندان سیلاب سے تباہ ایک گھر میں پناہ گزین تھا،اس سے کہا گیا کہ آپ لوگ فلاں فلاں جگہ منتقل ہوجائیں وہاں آپ لوگوں کو زیادہ بہترسہولت فراہم ہوگی،اس خاندان کی عورتوں نے یہ کہہ کر جانے سے انکار کردیاکہ وہاں جائیں گے تونماز پڑھنا پڑے گا۔‘‘یوپی کے محمد شریف نامی ایک شخص بتانے لگے کہ ’’میرے گھر میں ایک خاندان پناہ لیے ہوئے تھا جب میری اہلیہ نے عصر کے وقت اس گھرانے کی عورتو ں سے کہا کہ آؤنماز پڑھ لیں تووہ کہنے لگیں کہ’ہم کیوں نمازپڑھیں ہم نے کوئی گناہ تھوڑی کیاہے۔‘‘
ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو سیلاب کا سبب ریلوے لائن کو بتاتی ہے کدلہ بَل ،پانپور کے میر ظہورکاکہنا ہے کہ’’ان علاقوں میں جہاں سیلاب کا خطرہ رہتا ہے سرکار نے ایسی تعمیرات کیں کہ شہر ڈوب جائے۔‘‘وہ سرکار سے بے حد ناراض ہے،ان کاکہنا ہے کہ کشمیری زیادہ ٹیکس دیتے ہیں ،مگرانہیں سہولیات کم اورجموں کو زیادہ دی جاتی ہیں،بجلی پیدا ان کے یہاں کی جاتی ہے مگر بانٹی غیروں کو جاتی ہے۔میر ظہور کو یہ اندیشہ ہے کہ اگر حالات جلد از جلد نہ سدھرے توکشمیر میں قحط آجائے گا۔چاول سب کے برباد ہو گئے ہیں،کوئلے بھی نہیں بچے،رضائیاں اور بلینکٹ سڑ گئے۔ وہ کہتے ہیں’’ضروریات زندگی کا فقدان ہے،لوگوں کوکمبل ،گیس اورراشن کی سخت ضرورت ہے،سردیاں آئیں گی تولوگ مرئیں گے ،ضروری ہے کہ سرکار جاگے۔‘‘
میر واعظ عمر فاروق کا کہنا ہے کہ’’سیلاب کیوں آیا اس کی تحقیقات ہونی چاہیے،بارش اتنی نہیں ہوئی کہ سیلاب آجاتا،جب پانی کی سطح بڑھ رہی تھی تب دھیان نہیں دیاگیا کہ کیا کرنا چاہیے،کوئی نظام نہیں بنایاگیا،حکومت کا سارانظام ٹھپ تھا،یہ کیوں ہوا،سازش کی بات بھی کہی جا رہی ہے،کہا جا رہا ہے کہ بادامی باغ میں فوجی علاقے کو بچانے کے لیے دھماکہ کر کے پانی کار خ شہر کی طرف موڑ دیاگیا،ریلوے لائن پر بھی انگلی اٹھ رہی ہے کہ اس کی اونچائی کی وجہ سے پانی نکل نہیں سکا،سرکار کی طرف سے بڑی بدنظمی تھی مگر اللہ کاکرم ہے کہ جانی نقصان کم ہوا ہاں اقتصادی نقصان بے پناہ ہے،سب ہی کشمیریوں کے سری نگر سے لے کر راجوری،پونچھ تک مکانات ختم ہو گئے۔‘‘
میر واعظ یہ مانتے ہیں کہ ’’ریاستی سرکا راب کچھ سرگرم ہوئی ہے،کام کر رہی ہے،ایک افسوسناک بات یہ ہے کہ کشمیر سے متعلق ہر چیز سیاسی بن جاتی ہے،ایسانہیں ہوناچاہیے ہم کو چاہئے کہ ہم ’’غیر سیاسی اورانسانی بنیاد‘پر کام کریں،مجھے امید ہے کہ صوبائی اور مرکزی سرکاریں جٹ کرکام کریں گی اور یہ بھی یقین ہے کہ حکومتِ ہند کشمیر آنے والی بیرونی امداد نہیں روکے گی۔‘‘
پی ڈی پی کے ترجمان نعیم اختر اس سیلاب کو’عام سیلاب‘نہیں مانتے۔ان کے نزدیک’’یہ ایسا سیلاب تھا جس نے سرکار کو ہی ختم کردیا تھا۔‘‘نعیم اختر کے مطابق ’’سرکار کی کافی شکایتیں مل رہی ہیں،سرکاری ریلیف کی بندربانٹ ہے غیر سرکاری تنظیموں(NGOs)کو بڑی دقتوں کاسامنا ہے،جموں میں انہیں روکا جارہاہے،سرکار آج بھی غیر سرگرم ہے،راج باغ،جواہرنگرکے علاقوں میں آج تک پانی بھرا ہوا ہے،سرکار ریلیف کے ذریعے اپنی نا اہلی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے مگر لوگ شدید ناراض ہیں۔‘‘کشمیر میں سیلاب کی تاریخ پرروشنی ڈالتے ہوئے نعیم اختر بتاتے ہیں کہ ’’وادی اور سیلاب کا چولی دامن کا ساتھ ہے،ادب میں بھی سیلاب کاذکر ہے بلکہ یہاں ’سیلاب نامہ‘بھی لکھا گیاہے۔اس بارجب پانی بڑھنے لگا توجنرل الرٹ نہیں کیاگیا۔نتیجہ سامنے ہے،سب کچھ ختم ہوگیا۔اسپتال ،لائبریری،لیبارٹری،سرکاری ریکارڈ،عدالتی ریکارڈ،ری وینوریکارڈ سب کچھ۔ تجارتی مراکزبرباد ہو گئے۔لوگوں کے مکان بھی گئے،فیکٹریاں بھی اوراصل زر بھی،بزنس کمیونٹی ختم ہوگئی،اناج اورپھلوں کی فصل،زعفران ،سیب ،اخروٹ کے باغات اجڑگئے یہاں اگرگن،چلتا تھا توسیب بھی اگتا تھا مگر اب سیب کی فصل صدفی صدتباہ ہو گئی ہے ،سیاحت کا انفراسٹرکچربتاہ ہوگیاہے اللہ ہی جانے کشمیر کب اپنے پیروں پرکھڑا ہو سکے گا۔‘‘
نعیم اختریہ مانتے ہیں کہ ’’پی ڈی پی کے لیے یہ سیلاب ایک چیلنج بھی ہے اور موقع بھی کہ وہ یہ ثابت کرے کہ کیا کرسکتی ہے،مفتی محمد سعید اور محبوبہ مفتی ریلیف کے کاموں میں سرگرم ہیں۔بہت سے لوگ سرگرم ہیں،مرکزی سرکار بھی کام کر رہی ہے مگر مرکز کا ایک محدود کام ہوتاہے،اب ہو یہ کہ مرکزجو کچھ دے اس کا ریلیف اوربازآبادکاری کے لیے استعمال کیا جائے۔مودی نے یہاںآکراچھی بات کہی،پاکستان تک کومد د کی یقین دہانی کرائی مگر جب تک ریاستی سرکار سرگرم نہیں ہوگی کچھ نہیں ہو سکے گا۔‘‘

جب عمر عبداللہ کی سرکار ڈوبی پڑی تھی 

تب غیر سرکاری تنظیمیں لوگوں کو بچانے کے لیے جان کی بازی لگائے تھیں .اگر غیر سرکاری تنظیمیں وقت پر میدان میں نہ اترتیں تو کشمیر بچ نہیں پاتا 
عمر عبداللہ کی سرکار تو سوئی پڑی تھی۔ وزیراعلیٰ یہ اعتراف کرہی چکے ہیں کہ ۴۲؍گھنٹے تک ان کا کسی سے بھی رابطہ نہیں ہوسکا تھا۔ رابطہ ممکن بھی نہیں تھا کیونکہ ’ سرکار خود غرق تھی۔‘ اسمبلی ، سکریٹریٹ، وزراء اور سرکاری افسران کے مکانات ، پولس اور سیکوریٹی دستوں کی کالونیاں سب سیلاب میں ڈوبی ہوئی تھیں ۔ مواصلاتی نظام ٹھپ ہوگیا تھا۔ آج تک موبائل فون مکمل طور پر شروع نہیں ہوسکے ہیں ۔ مواصلاتی نظام مکمل طور پر چھ مہینے میں ہی ٹھیک ہوسکے گا ۔ پل، سڑکیں اور شہر اور بیرون شہر کو ملانے والے تمام راستے تباہ ہوچکے تھے ، آج بھی یہ بن نہیں سکے ہیں ، صورتحال بڑی نازک تھی لیکن غیر سرکاری تنظیمیں سرپر کفن باندھ کر میدان میں کودپڑیں ، کیا مسلم اور کیا ہندو اور سکھ ، کیا ریاستی اور کیا غیر ریاستی جس تنظیم کو جیسا موقع ملا اس نے کام کیا ۔ 
جمعےۃ علماء ہند کے کارکنان سیلاب کے تیسرے دن سرینگر پہنچ چکے تھے ۔ مولانا حکیم الدین قاسمی اور مولانا غیّور قاسمی نے سرینگر پہنچ کر ریلیف کا کام شروع کیا۔ اس دوران جمعےۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا سید محمود مدنی دوبار سرینگر پہنچے۔ جمعےۃ مقامی دارالعلوم رحیمیہ بانڈی پورہ کے ساتھ ریلیف کا کام کررہی ہے ۔ کشمیر کی بزرگ شخصیت مذکورہ دارالعلوم کے مہتمم مولانا رحمت اللہ قاسمی بتاتے ہیں کہ ’ جس طرح کشمیر میں آئے زلزلے کے فوراً بعد مولانا محمود مدنی کا فون پہنچا تھا اور انہوں نے چند گھنٹوں کے اندر ریلیف کا کام شروع کیا تھا اسی طرح سیلاب کی خبر سنتے ہی انہوں نے رابطہ کیا اور خود پہنچے مگر ان سے پہلے ان کا ریلیف کا ٹرک پہنچا ۔‘ ہوائی جہازوں سے بڑی مقدار میں پانی کی بوتلیں ، بسکٹ کے ڈبے آئے پھر ’بچاؤ‘ کا کام شروع کیا گیا ۔ مولانا رحمت اللہ کی سرپرستی میں جمعےۃ علماء ہند کی ریلیف کا کام ہورہا ہے ۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’جمعےۃ علماء ہند نے جس قدر ریلیف دی نہ سرکار دے سکی اور نہ کوئی اور تنظیم دے سکی ۔ ہماری توجہ پوری طرح ابتدا سے ’بچاؤ‘ پرتھی ، ہم بے بس تھے ، حکومت کے پاس بھی کشتیاں نہیں تھیں ، ہم نے بعض کشتی والوں سے بات کی ، معاملہ طے ہوا مگر و

«
»

نظر کی کمزوری سے بچاؤ کے فطری طریقے

نریندر مودی کا دورہ امریکہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے