عالم اسلام…….. راؤنڈ اَپ

لیکن اس میں جو جنگجو شامل ہیں وہ تقریباً تمام اسلامی نظریات کے حامل مسلم نوجوان ہیں جن کے ذہنوں میں دشمنانِ اسلام سے جہاد کرنے کا جذبہ موجزن ہے۔ امریکہ اور اسلام دشمن طاقتیں چاہتے ہیں کہ عالم اسلام کو داعش کے خلاف کھڑا کرکے مسلمانوں میں تفرقہ ڈال دیا جائے تاکہ وہ ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما رہے جس میں انہیں کامیابی بھی مل رہی ہے۔ اب عالم عرب میں ہوسکتا ہے کہ خانہ جنگی کی نوبت آجائے اور امریکہ و مغربی،یوروپی طاقتیں مسلمانوں میں دشمنی اور ایک دوسرے کے قتل عام کا مزہ لے۔ داعش کے قائدین جنہوں نے عراق اور شام کی سرحدوں اور مختلف شہروں پر قبضہ کرکے خلافت کا اعلان کیا ہے وہ تو محفوظ مقامات پر زندگی گزاررہے ہیں حملوں کی زد میں آتے ہیں تو وہی مسلمان جو اسلام کے لئے مرمٹنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ اور یہ ایک سوچی سمجھی چال ہے جس کے ذریعہ جذبہ ایمانی سے سرشار نوجوانوں کو اکھٹا کرکے ختم کیا جائے ۔ لہذا مسلم نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ بہت ہی سوچ سمجھ کر نئی راہوں کا فیصلہ کریں کیونکہ داعش یا طالبان نے اب تک جو لڑائیاں لڑیں ہیں وہ تمام کی تمام مسلمانوں کے خلاف ہی رہی ہیں اور مستقبل میں بھی ان سے یہی امیدہے کہ وہ مسلمانوں کو ہی مسالک کی بنیاد پرنشانہ بناتے رہیں گے اور معصوم مسلم نوجوان اس کا شکار ہونگے۔افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے جس طرح اپنی صدارت کی آخری تقریر میں امریکہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ نہیں چاہتا کہ افغانستان میں امن قائم ہو۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو جس طرح ختم کیا گیا اور مابعد جنگ افغانستان جن حالات سے گزر رہا ہے اس سے ابھی کب چھٹکارہ حاصل ہو گا اس سلسلہ میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ البتہ اب نئے صدر کا انتخاب مکمل ہوچکا ہے اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان قومی متحدہ حکومت کے قیام کا معاہدہ ہوچکا ہے۔ اس معاہدہ کے بعد اشرف غنی ملک کے صدر ہونگے اور عبداللہ عبداللہ چیف ایکزیکیٹو آفسر(سی ای او) ہونگے جن کا مرتبہ وزیر اعظم کے مماثل ہوگا۔ لیکن وسیع تر اختیارات اشرف غنی کو ہونگے۔اب دیکھنا ہے کہ اشرف غنی صدارت کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد امریکہ کے ساتھ کس قسم کا رویہ روارکھتے ہیں کیونکہ حامد کرزئی اور امریکہ کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوچکے تھے اور افغانستان و امریکہ کے درمیان ایک معاہدہ پر افغانی صدر دستخط کرنے سے انکار کرچکے تھے۔ جس کے بعدامریکہ کی جانب سے حامد کرزئی کے خلاف جنہیں امریکی کٹ پتلی کہا جاتا تھا اپنی صدارت کے آخری مہینوں میں رویہ بدلنے پر مختلف الزامات کا سامنا کرنا پڑا ۔ حامد کرزئی کا یہ بھی بیان ہے کہ پاکستان بھی افغانستان میں امن کا مخالف ہے۔ جبکہ پاکستان میں خود حالات کشیدہ نوعیت اختیار کرتے جارہے ہیں ۔ 
وزیر اعظم نواز شریف نے لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر کو پاکستان کے اہم ترین انٹیلی جنس ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کا سربراہ مقرر کیا ہے ۔ لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر 5؍ اکٹوبر کو آئی ایس آئی کے موجودہ سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام عباسی کی سبکدوشی کے بعد اس اہم ترین عہدے کا جائزہ لیں گے۔ لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر اس سے قبل سندھ رینجرز کے سربراہ رہ چکے ہیں۔چند روز قبل ہی انہیں میجر جنرل کے عہدے سے ترقی دے کر لیفٹیننٹ جنرل مقرر کیا گیا ہے۔رضوان اختر سندھ رینجرز کے سربراہ کی حیثیت سے کراچی میں دہشت گردوں اور جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف کارروائیاں انجام دے چکے ہیں۔ پاکستانی فوج میں انہیں ایک ایسے افسر کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو غیر سیاسی نظریات کی وجہ سے غیر جانبدار رہے ہیں اور مختلف ذمہ داریاں بغیر پیچیدگیوں کے ادا کرسکتے ہیں۔ ان کے مزاج سے متعلق سمجھا جاتا ہے کہ وہ سویلین انتظامیہ، خاص طور پر قانون نافذ کرنے والے سویلین اداروں کے ساتھ کام کرنے والوں کوتعاون فراہم کرتے ہیں۔ اس اہم ترین عہدے سے متعلق پاکستان میں یہ چہ مگوئیاں بھی منظر عام پر آئیں کہ آئی ایس آئی کے سربراہ کووزیر اعظم پاکستان منتخب کرتے ہیں یا فوجی سربراہ ۔ پاکستانی دستور کے مطابق آئی ایس آئی سربراہ کے عہدہ پر تعینات وزیر اعظم کرتے ہیں۔ لیکن اس اہم ترین عہدے کے لئے پاکستانی فوجی سربراہ سے رائے مشورہ لیا جاتا ہے یہی نہیں بلکہ سینئر فوجی عہدیداروں کے چند اہم ترین نام فوجی سربراہ ہی پیش کرتے ہیں اور ان ہی میں سے وزیراعظم آئی ایس آئی کے سربراہ کاانتخاب کرتے ہیں۔ البتہ انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کے تقریباً تمام اہم افسرز فوجی عہدیدار ہوتے ہیں جبکہ سویلین اہلکار کی خدمات بھی اس ادارے کو حاصل ہیں۔
پاکستان میں سیاسی حالات گذشتہ دیڑھ ماہ سے کشیدہ ہیں، دارالحکومت اسلام آباد میں پاکستانی وفاقی حکومت خصوصاً میاں نواز شریف کے خلاف پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کی جانب سے آزادی و انقلاب قومی شاہراہ دستور اور پھر ڈی چوک پرمارچ جاری ہے۔دیڑھ ماہ سے جاری اس احتجاج کے دوران مذاکرات کا عمل بھی ہوچکا ہے اور ان دونوں قائدین یعنی عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری اپنی اس بات پر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کررہے ہیں کہ جب تک وزیر اعظم مستعفی نہ ہونگے وہ یہاں سے نہیں جائیں گے۔ پاکستانی پارلیمنٹ میں تقریباً تمام اپوزیشن جماعتوں نے وزیر اعظم نواز شریف کا ساتھ دیتے ہوئے انہیں وزارتِ عظمی کے عہدے پر برقرار رہنے اوروزارتِ عظمیٰ کے اس عہدہ کو غیر دستوری عمل کے ذریعہ یعنی چند ہزار افراد کے احتجاج پر مستعفی ہونے سے گریز کا مشورہ دیا ہے۔ نواز شریف نے بھی وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی ہونے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ چند ہزار افراد کے احتجاج کے خلاف 18کروڑ سے زائد افراد کی نمائندگی اہمیت کی حامل ہے جنہوں نے انہیں وزیر اعظم کے باوقار عہدے پر فائز کیا ہے اور وہ اس ذمہ داری کو بہتر انداز میں نبھانے کی کوشش کریں گے۔ آزادی اور انقلاب مارچ کے دوران یہ بات بھی منظرعام پر آتی رہی ہے کہ فوج کی جانب سے عمران خان اور طاہر القادری کو حمایت حاصل ہے جبکہ فوجی ترجمان نے سیاسی صورتحال سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے ۔ البتہ فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف نے سیاسی صورتحال کو مذاکرات کے ذریعہ حل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ مارچ کے دوران پاکستان کے سرکاری ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) پر بھی شرکاء مارچ نے حملہ کیا اور پون گھنٹے تک قومی و بین الاقوامی نشریات بند کردیگئیں تھیں لیکن فوجی مداخلت کے بعد پی ٹی وی کی نشریات بحال ہوئیں۔ اس دوران تربیت یافتہحملہ آوروں نے پی ٹی وی پر دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پی ٹی وی کے عملہ کو نشانہ بنایا اور یہاں کی املاک کو بھی نقصان پہنچایا۔ ایک طرف پاکستان میں فوج دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے ’’ضرب عضب ‘‘ کے نام سے شمالی وزیر ستان میں فوجی کارروائی کرتے ہوئے اب تک کئی مقامات پر حملے کئے جس میں سینکڑوں طالبان تحریک کے کارکنوں کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے احتجاج کی وجہ چینی صدر کا دورہ پاکستان ملتوی کردیا گیا۔ اسی طرح ہند وپاک کے درمیان بہتر تعلقات اور معیشت کی ترقی کے لئے دونوں ممالک کے وزراء اعظم نواز شریف اور نریندر مودی کی ملاقات کو مستحکم اقدام سمجھا جارہا ہے لیکن گذشتہ دنوں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیرمین اور بے نظیر بھٹو و آصف زرداری کے فرزند بلاول بھٹو زرداری نے ہند و پاک کے درمیان بہتر تعلقات کو متاثر کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں سیلاب کی تباہ کاریوں کا جائزہ لینے کے بعد ہندوستانی کشمیر کو بھی مقبوضہ کشمیر سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہوئے اسے کسی بھی صورت میں حاصل کرنے کی بات کہی۔ ان کے اس بیان پر ہندوستان نے شدید ردّعمل کا اظہار کیا۔ لیکن بلاول بھٹو نے آئندہ انتخابات میں کامیابی کے لئے جس طرح سیاسی بازی مارنے کے لئے بیان دیا ہے اس کی وجہ سے انکا امیج پاکستان کے علاوہ ہندوستان میں بھی خراب ہوا ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق بلاول بھٹو ابھی سیاست کے میدان میں ناتجربہ کار ہیں بے شک وہ ایک ایسے سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جن کی والدہ اور نانا پاکستان کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں اور ان کے والدآصف زرداری پاکستان کے صدر کی حیثیت سے اپنی میعاد مکمل کرچکے ہیں۔ اس کے باوجود بلاول بھٹو ابھی نا تجربہ کاری کی وجہ جو بچکانی بیان دےئے ہیں اس سے انہیں کاکامیابی ملنے کے بجائے ملک و پڑوسی ملک کے درمیان خوشگوار تعلقات کی بحالی کے بجائے نقصانات کا ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے ۔ویسے پاکستان میں کہیں پر سیاسی بازی لیجانے کے لئے بے تکے اور غیر ذمہ دارانہ بیانات دےئے جاتے ہیں تو دوسری جانب دہشت گردی اور قتل و غارت گیری، لوٹ ماراور کئی گھناؤنے جرم کی وجہ سے ملک عالمی سطح پر بدنام ہورہا ہے۔ جس کا فائدہ دشمنانِ اسلام اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ اسی لئے پاکستانی حکمرانوں اور ذمہ داروں کو چاہیے کہ وہ عوام کی بہتر سے بہتر تعلیم و تربیت کی طرف توجہہ دیں تاکہ مستقبل میں پاکستان کا نام اچھائیوں کے روشن ہو۔ 

«
»

نظر کی کمزوری سے بچاؤ کے فطری طریقے

نریندر مودی کا دورہ امریکہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے