کیا ہم ظلم کی آگ میں اسی طرح جلتے رہیں گے ؟

لاشوں پہ سیاست کرنے والوں کی رفتارتیز ہو گئی ،سیاسی گلیاروں میں چہل پہل شروع ہوگئی ،مسلمانوں کی جھوٹی ہمدردی کا راگ الاپنے والے ،بے بنیاد تسلّیوں کالالی پاپ دکھانے والے میدانِ عمل میں کود پڑے لیکن پھرکیاہوا؟ وہی ہر طرف حسبِ روایت خاموشی چھاگئی ،مسیحائی کی پگڑیاں نظروں سے اوجھل ہوگئیں ،علمبردارانِ سیکولریت معدوم ہوگئے ،اور باقی رہ گئیں وہی حق وانصاف کی متلاشی مجبوروبے بس آنکھیں ،غم وحسرت میں ڈوبے افسردہ چہرے اور اس پر پھیلی ہوئیں بے ترتیب بے چارگی کی لکیریں‘‘ ……….. ؂
جس طرح خواب مرے ہوگئے ریزہ ریزہ 
اس طرح سے نہ کبھی ٹوٹ کے بکھرے کوئی 
یہ حالات کی وہ کرب انگیز سچّائیاں ہیں جس سے ایک درد مند ،حسّاس انسان کبھی انکار نہیں کر سکتا ہے ،لیکن افسوس !!غیر ممالک میں بھارت کی ترقّی کاڈھنڈوراپیٹنے والے موجودہ وزیر اعظم کو اس بات کی قطعی فکر نہیں کے ملک کا دوسرا سب سے اکثریتی طبقہ کتنے نازک مراحل سے گذررہا ہے ؟آر،ایس، ایس ۔کے پالے ہوئے غنڈے کیا کیا گل کھلا رہے ہیں؟دھرم کی آڑ میں کیسے ہندوستان کی برسوں پرانی گنگاجمنی تہذیب کا گلا گھونٹا جارہا ہے؟
پچھلے دنوں اسی نوعیت کا ایک جگرخراش سانحہ بہار کے سیوان ضلع میں رونما ہوا جہاں بھاری تعداد میں مسلمانوں کو جا نی ومالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا،مسجد پہ سنگ باری کی گئی ،دکانیں نذرآتش کردی گئیں ،اسی پر بس نہیں بلکہ شہر شہر، قریہ قریہ،اپنے بال بچّوں،اعزّہ اقرباء سے دور رہ کر سفر کی صعوبتیں جھیل کر اللہ کا پیغام عام کرنے والے تبلیغی جماعت کے نیک شریف ودیندار نوجوانوں کو بھی نہ بخشا گیااور پیٹ پیٹ کربری طرح زخمی کر دیا گیا۔
بہار کے کثیرالاشاعت اردو اخبار’’ قومی تنظیم‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق’’بڑہریا تھانہ حلقہ کے تحت کربلا بازار ہردیا گاؤں میں مہاویری اکھاڑہ جلوس کے ممنوعہ علاقے سے جبراً گذرنے اور جلوس کے ذریعے مسجدپر سنگ باری کرنے کے بعد موتیہاری اور گوپال گنج سے تبلیغ کے لئے آرہے محمّد سجّاداور محمد اکرام الحق پر حملہ کر دیا گیا جس میں دونوں شدید طور پر زخمی ہوگئے ۔ (۹ستمبرقومی تنظیم پٹنہ صفحہ ۱)
اگر ہم ملک کے طول وعرض میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات پر نظرڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ جتنے بھی اس طرح کے واقعات رونماہوتے ہیں ان میں لگ بھگ اسی طرح کی شرانگیزی کے بعد خاک وخون کی ہولی کھیلی جاتی ہے اور منظّم سازش کے تحت مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے ،ان کی عزّت و آبرو سے کھیلا جاتا ہے ،ان کی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچایا جا تا ہے ، اس کے بعد جانچ کا خودساختہ ڈرامہ رچا جاتا ہے ،سیاسی قدآور لوگوں کے ذریعے مزاج پُرسی کاسردرد سلسلہ شروع ہوتا ہے اور پھر گاڑی وہیں جاکر رک جاتی ہے جہاں سے چلی تھی ۔
سوال یہ ہے کہ کیا اقلّیتوں پر ظلم کا یہ لامتناہی سلسلہ نہیں رکے گا؟کیا یونہی ملک کا مسلمان ظلم کی بھٹّی میں پستا رہے گا؟کیا اسی طرح ان کا استحصال ہوتا رہے گا؟کیا انہیں صرف ووٹ بینک کے طور پر استعمال کیا جاتا رہے گا؟ انصاف کی مندر کہی جانے والی عدلیہ کب تک خاموش تماشائی بنی رہے گی ؟سچ کہا ترنّم کانپوری نے کہ ؂
انصاف کی امید عدالت سے نہ رکھنا
اس دور میں قاتل کی سزا کوئی نہیں ہے
ملک کے سیکولر طبقہ کو بلا تفریق ان مسائل کے حل کے لئے سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کیونکہ اگر کسی خطّے میں کسی مذہب کے کسی بھی فردپر ظلم ہوتاہے تو اس سے بھارت کی آبرو پہ ضرب پڑتاہے ،صوفی ،سنتو کا دیش کہے جانے والا ہمارا یہ ملک امن و آشتی کا گہوارہ رہا ہے ،یہاں سے پیار کے ایسے ایسے دلپذیر گیت گائے گئے جس کی بازگشت دنیا بھر میں آج بھی گونج رہی ہے،ہمیں اس کی لاج رکھنی ہوگی ،ملک کو فرقہ پرستوں سے نجات دلانا ہوگا ،کیونکہ جو لوگ یہاں کے امن وامان کو بھنگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ کسی بھی صورت میں ملک کہ وفادار نہیں ہوسکتے۔ 

«
»

’’17ستمبر‘‘۔۔۔یومِ نجات نہیں یومِ ماتم !

مسئلہ فلسطین کا حل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے