اسرائیلی پروڈکٹ کا بائیکاٹ جاری رکھیں

یہی سبب ہے کہ عنقریب یہ امید ہو چلی ہے کہ وہ اس دنیا کی سب سے بڑی جیل سے رہا ہو جائیں گے اور انہیں بھی انسانوں کی طرح جینے کے حقوق مل جائیں گے ۔ملک عزیز میں لوگوں نے اسرائیلی مصنوعات کی بائیکاٹ کا اعلان بھی کیا جس پر کچھ حد تک عمل بھی ہوا ۔لین ہم پوری طرح سے ایک جذباتی قوم بن چکے ہیں ۔ہم جذبات کی رو میں بہہ کر ہی فیصلہ کرنے کے عادی ہو چکے ہیں ۔یہ جذبہ بھی کوئی بری چیز نہیں لیکن اس میں برائی یہ ہے کہ وہ انسان کو مستقبل کی صورت گری سے بعض رکھتا ہے ۔اب ہمارا بائیکاٹ والا ہی معاملہ لے لیجئے ۔پہلے بھی اس طرح کے بائیکاٹ کی اپیل کی گئی اور تھوڑی کوشش بھی ہوئی لیکن اس کوشش اور اپیل کو دائمی نہیں بنایا گیا یا نہیں بننے دیا گیا ۔وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی معاملہ جب تازہ ہوتا ہے تو ہم اسے یاد رکھتے ہیں اور اس کے خلاف ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں لیکن اس کے پرانا ہو تے ہی ہم اسے بھول جاتے ہیں ۔ہماری یہی سب سے بڑی کمی ہے ۔اگر ہم پچھلی بار ہی ایک سخت فیصلہ کرتے اور ایسی کسی بھی مصنوعات کا استعمال نہیں کرتے جس کے بنانے والے کھلے عام اسرائیل کی مالی سر پرستی کرتے ہیں ۔ تو اسرائیل کی اتنی قوت نہیں بڑھتی اور وہ کسی بھی جارحیت سے پہلے سوچتا ۔لیکن ہمارا معاملہ تو یہ ہے کہ ہم اس وقت جاگتے ہیں جب اسرائیل ہمارے سینکڑوں بھائی بہنوں کو فنا کے گھاٹ اتار چکا ہوتا ہے ۔پھر بھی غنیمت ہے کہ ہمارے یہاں اتنی بیداری تو ہے کہ دیر سے ہی صحیح لیکن جاگتے تو ہیں ۔لیکن عرب ممالک کے حکمراں تو قیامت گزر جانے کے باوجود نہیں جاگتے ۔آج حالت یہ ہے کہ خلیجی ممالک سے اسرائیلی مصنوعات کی بکری سے اسرائیل کو اربوں ڈالر مل جاتا ہے ۔خلیج کو اللہ نے نواز کیا دیا کہ وہ ہر طرح کے جذبات سے عاری ہو چکے ہیں ۔بہر حال ان کا جو کام ہے وہ اہل خلیج جانیں ہم تو اپنا فرض یاد رکھیں کہ اب ہم کسی بھی اسرائیلی پروڈکٹ کو ہاتھ نہیں لگائیں گے ۔اسرائیل جھکا ہے ختم نہیں ہوا ہے اور جب تک اسرائیل کا وجود ہے دنیا اسی طرح امن کو ترسے گی اسلئے کہ وہ کسی اخلاقی اقدار کا پابند نہیں یہی وجہ ہے کہ وہ کسی بھی عالمی معاہدہ اور عرض و گذار کو اپنے جوتوں کی نوک پر رکھتا ہے۔وہ امن کا دشمن ہے اور ہمیں چاہیئے کہ ہم امن کے دشمن کا اس کے خاتمہ تک بائیکاٹ جاری رکھیں ۔قائدین امت کا فرض ہے کہ وہ خود کبھی اسرائیلی پروڈکٹ کا استعمال نہ کریں اور وقفے وقفے سے عوام کو ذہن نشیں بھی کرائیں کہ وہ اسرائیلی پروڈکٹ کا بائیکاٹ جاری رکھیں۔ہم دنیا کے ہنگاموں میں بھول جاتے ہیں کہ ہم نے کیا عہد کیا تھا ۔کسی کے پاس وقت ہی نہیں ہے کہ وہ کچھ تحقیق کرے ،اور یہ معاملہ صرف عوام کا نہیں خواص کابھی ایک بڑا طبقہ بھی اسی طرح کے نسیان میں مبتلاء ہے ۔ اس لئے ہم یہ ثابت کریں کہ ہم جذباتی قوم نہیں ہیں ۔ اور نہ ہی ہم نسیان میں مبتلاء ہیں۔

«
»

’ایروم شرمیلا،انسانیت کے لئے ایک بہترین مثال

سعودیہ کے سرکاری مفتی اعظم کا سرکاری فتویٰ اور اسلامی مزاحمتی تحریکیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے