سعودیہ کے سرکاری مفتی اعظم کا سرکاری فتویٰ اور اسلامی مزاحمتی تحریکیں

ایسا میں اس لئے چاہتا ہوں کہ ان لوگوں کے پاس اتنی قوت ہے کہ وہ اس ظلم اوردرندگی کے خاتمہ میں موثر کردار ادا کرسکتے تھے ،لیکن خاموش رہے۔اب آئیے سعودی سے مسلسل آنے والے فتویٰ کی طرف۔ مملکت سعودیہ کے مفتی اعظم نے اپنے ایک فتویٰ نما بیان میں کہا ہے کہ ’’دولت اسلامیہ اور القاعدہ اسلام کے دشمن اول ہیں‘‘۔انہوں نے کہا کہ اسلام میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بظاہر ان کے فتویٰ اور ان کے بیان میں کوئی کمی نظر نہیں آتی ۔اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے والی کوئی حرکت کسی آنکھ اور دل کے اندھے کوئی ہی زیب دیتا ہے ۔لیکن یہاں سعودی مفتی اعظم کا فتویٰ بے محل اور بے وقت کی راگنی ہے ۔ان کا یہ فتویٰ یا بیان موجودہ غزہ المیہ کے تناظر میں ہے ۔گرچہ انہوں نے حماس کا نام نہیں لے کر داعش اور القاعدہ کو ہدف تنقید بنایا ہے ۔یہ مفتی اصل میں سرکاری مفتی ہیں اور ان کا فتویٰ اسلام کی دفاع میں نہیں سعودی مملکت کی دفاع میں ہوا کرتا ہے ۔موجودہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور درندگی پر پوری دنیا کی عوام چیخ اٹھی ۔کئی چھوٹی اور کمزور حکومتوں نے اسرائیل سے اپنے سفیر واپس بلالئے یا اسرائیلی سفیر کو اپنے ملک سے نکال دیا ۔لیکن نہ آواز نکلی تو مسلم ملکوں کے حکمرانوں کی جنہیں میرے ایک دوست صحافی نے اسرائیل کے محسن کہہ کر مخاطب کیا ہے ۔مذکورہ مفتی نے ایک اور فتویٰ دیا تھا جو کہ 4 ؍اگست کو نیوز ایجنسیوں نے ریلیز کیا تھا ۔اس میں انہوں نے کہا تھا کہ غزہ کے لوگوں سے ہمدردی اور یکجہتی کیلئے نکالی جانے والی ریلیاں حرام فضول اور اشتعال انگیز ہیں۔پہلے تو صرف شک کی بنیاد پر ہی کہا جاتا تھا کہ سعودی کی شاہوں کی حر م سراؤں میں یہودی عورتوں کی بھرمار ہے ۔لیکن موجودہ غزہ بحران اور فلسطینیوں کی مظلومیت پر احتجاج کرنے والوں کی کارروائی کو حرام قرار دینے والے یہ مفتی کس حکومت کی وکالت کر رہے ہیں ۔ایک عام مسلمان بھی کسی گناہ پر کسی مسلمان کو گالی دینے یا اسے قتل کی دھمکی دینے جیسے واقعات پر اللہ کے خوف سے کانپنے لگتا ہے لیکن یہ مفتیان سعودیہ کو اللہ کا خوف نہیں ۔یا یہ وہ مفتی ہیں جو یہودیوں نے اپنے یہاں تیار کرکے مسلم مملکتوں میں داخل کئے ہیں تاکہ کبھی مسلم امت پر ہو رہے ظلم و ستم پر جب عوام میں غصہ اور نفرت پھیلے اور ظلم کے خلاف جب وہ مزاحمت کریں تو ایسے ہی یہود نواز سرکاری مفتی ان کی اخلاقی طور پر حوصلہ شکنی کریں ۔
داعش اور القاعدہ کو اسلام کا اول نمبر دشمن بتانے والے یہ مفتی اس وقت کہاں تھے جب ان کے آقا سعودی حکومت نے یہود سے مل کر اخوانیوں کے خلاف بدترین جرم کرتے ہوئے ان کا قتل عام کیا تھا ۔تب کیوں نہیں انہیں مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حرمت کا خیال آیا تھا ؟کیوں ان کی زبان پر اس بدترین قتل عام پر تالے لگے ہوئے تھے ؟پچھلے دو ماہ سے اسرائیل کی طرف سے بدترین جارحیت اور درندگی کا سامنا کرنے والے غزہ کے معصوم اور بے گناہ لوگوں کی لاشیں انہیں کیوں نظر نہیں آتیں ؟اور انہوں نے اس وقت کیوں نہیں اس پر فتویٰ صادر کیا ۔پچھلے ساٹھ سالوں سے بھی زیادہ عرصہ سے پورے مشرق وسطیٰ میں اسرائیل امریکہ کے دوش پر سوار ہو کر جارحیت کر رہا ہے ۔ کیوں ان کی زبان اس ظلم پر گنگ ہے ۔ان کو مزاحمت کرنے والے ہی اسلام کے دشمن نمبر ون نظر آتے ہیں تو پھر یہ سرکاری مفتی بتائیں کہ ظلم اور درندگی کے خلاف ان مفتی کے آقاؤں نے اب تک کیا کیا ہے ۔سوائے اس کے کہ شاندار ہوٹلیں اونچی عمارتیں سمندروں میں شہروں کی تخلیق جیسے عبس کام کے ان کے دامن میں اور کوئی خوبی نظر نہیں آتی لیکن یہ مفتی کہیں کچھ لب کشائی نہیں کرتے۔دوسروں کو اللہ کا خوف دلانے سے بہتر ہے کہ پہلے خود اپنے دامن میں جھانکیں کہ خوداللہ سے ڈرتے ہیں یااپنے آقا امریکہ یہود اور سعود سے ۔
سعودی مفتی اعظم نے عوام سے آل سعود کی حمایت میں متحد ہونے کی اپیل بھی کی اور انہوں نے کہا الحمد للہ یہاں کی عوام متحد ہے ۔لیکن یہ تو دنیا پر منکشف ہے کہ عوام متحد ہے یا جبر کے ہاتھوں مجبور ہے کہ اپنے بھائیوں کا قتل عام دیکھ رہی ہے اور یہود نواز آل سعود کے جبر نے انہیں خاموش رہنے اور تڑپنے اور گھٹ کر زندگی گزارنے پر مجبور کر رکھا ہے ۔ورنہ کیا وجہ ہے کہ جس درندگی اور بہیمیت پر پوری دنیا کی عوام تڑپ اٹھی اس پر مسلمان مسلمان کا بھائی ہے کا نعرہ لگانے والے خاموش ہیں ۔ہم جانتے ہیں کہ عرب عوام مجبور ہیں ۔ورنہ پوری دنیا میں اپنے بھائیوں کی حمایت کیلئے اور جانی مالی قربانی دینے کیلئے اہل عرب سے زیادہ کس نے قربانی پیش کی ہے ۔آج پوری دنیا میں جاری جہاد جس کو یہود اور اس کے ہمنوا فساد کہنے اور ثابت کرنے پر تلے ہیں اہل عرب کی جوان نسل شامل ہے ۔وہ جدید ذرائع ابلاغ کے دور میں یہودنواز اورسعودی سرکاری مفتیوں کے فتووں پر کان نہیں دھرتا ۔وہ اہل زبان ہیں اس لئے انہوں نے خود ہی عربی ماخذ سے استفادہ کیا ہے وہ کسی مفتی کے فتویٰ کے محتاج نہیں ہیں۔لیکن بہر حال ان جیسے مفتیوں سے اسلام کے تعلق سے غیر عرب ملکوں میں شکوک و شبہات میں اضافہ ضرور ہوتا ہے ۔ 
الشرق الاوسط کے 27 ؍جولائی کی اشاعت کے مطابق سعودی شہزادہ ترکی الفیصل نے حماس کی اسرائیل سے مزاحمت کیلئے مذمت کی ۔ دراصل سعودی شاہ مصری فوجی بغاوت کے سربراہ السیسی سے مل کر حماس کو کمزور کرنے کی سازش کر رہے ہیں ۔انہیں حماس کی قیادت ایک آنکھ نہیں بھاتی ۔اس کی وجہ ہے کہ حماس ایک حریت پسند تنظیم ہے محمود عباس کی الفتح کی طرح مصلحت اور سمجھوتہ پسند تنظیم نہیں۔حقیقی معنوں میں حماس اور اخوان المسلمون جیسی تنظیم ہی اسلام کی نشاۃ ثانیہ کیلئے حقیقی جد و جہد کرنے والی تنظیمیں ہیں ۔ سعودی عرب کا موجودہ فلسطین کیلئے امدادی پیکج بھی غزہ کیلئے نہیں ہے جہاں کے لوگ ضرورت مند ہیں بلکہ سعودی عرب کی امداد محمود عباس کی حکومت میں صحت کی خدمات کیلئے ہے۔
مصر میں عرب بہار کے بعد اخوان کی حکومت نے سعودی شاہوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور وہ اسی وقت سے اپنی خاندانی اور جبریہ حکومت کیلئے خطرہ محسوس کررہے تھے۔اس لئے انہوں نے نے اپنے خزانے کا منھ اسلامی تحریک کو ناکام بنانے کیلئے کھول دیا اس سلسلے میں ان کے مدد گار صہیونی اور ان کی تنظیم موساد بھی رہے ۔کئی واقعات اور حالات ۔شاہوں کے بیانات ۔مصری میں فوجی بغاوت اور اخوان کے قتل عام پر اسرائیل اور سعود کے یکساں بیانات ۔یکساں طور پر اس فوجی بغاوت پر اور پھر ایک سال سے بھی کم میں السیسی کی حکومت میں آنے پر اسرائیلی اور سعودی فرمانروا ؤں کی یکساں مبارکباد اور تہنیتی پیغامات یہی سب کچھ پیغامات عوام تک پہنچا رہے ہیں ۔ادھر دنیا میں گاندھی اور منڈیلا کی عدم تشدد کی تحریک کے بڑے حوالے دئے جاتے ہیں اور عصر حاضر میں اس کو مسائل کے حل کا واحد ذریعہ بتایا جاتا ہے ۔ اس پر تفصیل سے گفتگو تو بعد میں کسی مضمون میں ہو پائے گی ۔یہاں صرف چند مثالیں دی جاسکتی ہیں ۔جس میں ایک اخوان کی پرامن عوامی طور پر منتخب جمہوری حکومت پر شب خون مارنے کا واقعہ ہے اور دوسرا شدھ دیسی واقعہ ایروم شرمیلا کا ہے وہ ایک ظالمانہ قانون کو منسوخ کرنے کیلئے پچھلے چودہ سالوں سے بھوک ہڑتال پر ہیں لیکن اب تک ان کے مطالبہ پر جس کا تعلق صرف ان کی ذات سے نہیں بلکہ انسانی معاملہ ہے پر کوئی دھیان نہیں دیا گیا ۔دنیا میں پر تشدد مزاحمت کو قوت ہی اسی وجہ سے ملی ہے کہ لوگوں نے امن کی راہوں میں ر وڑے اٹکائے ہیں۔اس لئے پر تشدد مزاحمت کو فروغ مل رہا ہے ۔ابھی حال ہی میں سابق امریکی صدر کی اہلیہ ہلیری کلنٹن نے بھی اس کو قبول کیا کہ اگر شام میں عوامی مزاحمت کو کامیاب کرنے میں عالمی قوتیں پس و پیش سے کام نہیں لیتیں تو داعش منظرعام پر نہیں آتی۔
قدرت کے اپنے اصول ہیں وہ ایک کو دوسرے کی مدد سے نہ ہٹائے تو زمین فساد سے بھر جائے ۔چنانچہ مصر میں پر امن اخوانی حکومت کے خاتمہ کے بعد اسلام پسندوں اور دنیا کے امن اور انصاف پسندوں کو یہ پیغام گیا کہ دنیا میں یہ لوگ اسلامی حکومت کو جمہوری ذرائع سے اپنے پیر نہیں جمانے دیں گے تب انہوں نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا اور اس میں اللہ نے انہیں کامیابی دی ۔داعش نے شام کے میدان جنگ کے ساتھ ہی عراق کی مالکی نکی ظالم حکومت پر توجہ کیا جس نے ہر روز سنی قائدین اور علماء کو کسی نہ کسی بہانے پھانسی کے پھندوں پر چڑھانے کا سلسلہ جاری تھا ۔جب داعش نے عراق کا رخ کیا تو وہاں عوامی طور پر ان کا استقبال کیا گیاجس کی وجہ سے مالکی فوج کہیں بھی ٹک نہیں پائی ۔ انکے قدم اکھڑتے چلے گئے ۔داعش کے عروج سے عرب کی کٹھ پتلی یہود نواز حکومتوں میں کھلبلی مچنا طے تھا ۔اس لئے ایک لمبی خاموشی کے بعد سرکاری مفتیوں کے فتوے آنے شروع ہو گئے کہ القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں بلکہ وہ اسلام کے دشمن نمبر ایک ہیں ۔یہ ایک ہیجانی حالات میں بغیر مطالعہ اور کسی ٹھوس حوالے کے دیا گیا فتویٰ ہے ۔پوری دنیا جانتی ہے کہ یہودی میڈیا کا پورا زور اسلامی تحریکوں ،اسلامی شناخت رکھنے والی تنظیموں کو بدنام کرنے میں لگا رہتا ہے لیکن اس کے باوجود وہی لوگ جو انہیں ذرائع سے آنے والی خبروں کی جو ان کے خلاف ہو تردید کرتے ہیں اور میڈیا کے تعصب کی شکایت کرتے ہیں وہ القاعدہ اور داعش کے تعلق سے پھیلائی گئی گمراہ کن خبروں کو محض اپنے فائدے کیلئے سچ تسلیم کر لیتے ہیں ۔یہی سب کچھ سعودی حکومت اور ان کے سرکاری مفتی کررہے ہیں ۔صلاح الدین ایوبی کے دور میں جب اسی طرح یہودی سازش سے صلیبیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کررکھا تھا اور پورے عالم اسلام میں افراتفری کا ماحول بنا رکھا تھا ۔حسن بن صباح کا گروہ اسی طرح سرگرم تھا ۔وہ نیک دل اور دیندار فوجی کمانڈروں اور گورنر نیز سرکاری اہل کاروں کے خلاف پروپگنڈہ کرکے ان کی کردار کشی کرتے اور اس میں ناکام رہتے تو اس کو قتل کرادیتے ۔صلاح الدیں ایوبی بھی متعد دحملے میں بال بال بچے۔ اللہ تعالیٰ نے صلاح الدین ایوبی کو صرف بصارت ہی نہیں بصیرت سے بھی نوازا تھا ۔انہوں نے کسی کے پرپگنڈہ اور قاتل گروہوں کی پرواہ کئے بغیر مسلسل جد و جہد جاری رکا اور بالآ خر بیت المقدس فتح ہوگیا ۔تقریبا وہی حالات ابھی ہیں ۔وہی قاتل گروہ ،وہی غدار اور عیاش حکمراں اور ان کی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اغیار کی مدد، وہی مسلمانوں کی دین سے عام غفلت ۔لیکن کچھ لوگ اور تحریکیں ان کی پرواہ کئے بغیر اپنے کام میں جٹے ہوئے ہیں ۔حالات اب یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ مزاحمتی تحریکوں کا رخ سعودی شاہوں کی طرف ہونے والا ہے ۔کیوں کہ انہوں نے اسرائیلی غلامی میں بہت دن گزار لئے ۔عوام اب اس غلامی سے آزاد ہونا چاہتی ہے ۔وہ اسلام کو پورے طور پر اپنے یہاں نافذ ہونا دیکھنا چاہتی ہے ۔خاص طور سے عرب کا نوجوان طبقہ اس طرف زیادہ متوجہ ہے ۔اس لئے یہ سرکاری مفتی حکومتی اشاروں پر حرکت میں ہیں ۔لیکن اب شاید بہت وقت گزر چکا ہے۔

«
»

لاکھوں انسانی جانوں کے محافظ ڈاکٹر یوسف حمیدکو نوبل پرائز کیوں نہیں؟

مالکی اقتدار کا خاتمہ ایک ڈراونے خواب سے نجات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے