صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی اور وزیر اعظم نریندر مودی میں کتنا فرق ہے

نریندر مودی گجرات کے ہیں ۔کرم چند گاندھی بھی گجراتی ہیں اور گجرات میں پیدا ہوئے نریندر مودی نے مہاراشٹر کے گلو گوالکر کی فرقہ پرستی کو ملک و قوم کے لئے پسند کیا جبکہ گاندھی جی نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو ملک و قوم کے لئے ترقی اور فلاح و بہود کا راستہ قرار دیا ۔
افطار پارٹی : 
وزیر اعظم اندرا گاندھی نے غالباً اپنے دور حکمرانی میں وزیر اعظم ہاؤس میں افطار پارٹی یا عید ملن کا سلسلہ شروع کیا ان سے پہلے بھی اس قسم کی تقریبات کا سلسلہ کبھی کبھار ہوتا ہو گا راقم کو اسکا علم نہیں ہے ۔اس ماہ رمضان میں شری نریندر مودی نے بی جے پی اور آر ایس ایس کو خوش کرنے کے لئے دو کام کئے ایک کام تو یہ کیا کہ افطار پارٹی جو میل جول کا ذریعہ تھی اسے ختم کیا اور دوسرا کام یہ کیا کہ صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی نے جو افطار پارٹی دی تھی اس میں شرکت سے انکار کیا ،صدر مملکت اگر چہ ملک کی حکمرانی نہیں کرتا مگر مملکت کی نمائندگی ضرور کرتا ہے 
لیڈر آف ہاؤس کو حکومت بنانے کی دعوت دیتا ہے دستور اور آئین کا نگراں اور محافظ ہوتا ہے اپنے درجہ اور رتبہ کے لحاظ سے وزیر اعظم سے بڑا ہوتا ہے گویا ملک کا بزرگ اور مربی ہوتا ہے ۔وزیر اعظم کو اپنے بزرگ اور مربی کو اونچی کرسی کی پیش کش کرنی پڑتی ہے۔اسکی جائز باتوں اور اشاروں کو ماننا ادب و احترام کے زمرے میں شامل ہوتاہے۔مودی جی آر ایس ایس کلچر کے حامی اور پروردہ ہیں اس لئے دستور کی پاسداری پورے طور پر کریں یہ ممکن نہیں یہی وجہ ہے کہ شری اٹل بہاری باجپائی کے زمانے میں آر ایس ایس کی کوشش رہی کہ دستور یا دستور کی چند دفعات میں بنیادی تبدیلی کر دی جائے جس سے ملک میں صدراتی نظام قائم کرنے میں مدد ملے تاکہ آر ایس ایس کے ایجنڈے پر عمل کرنے میں آسانی ہو ۔آر ایس ایس یا بی جے پی کو اپنی کوشش میں کامیابی نہیں ہو ئی لیکن لوک سبھا کے الیکشن کو صدراتی طور پر لڑنے میں آر ایس ایس کو مودی کو وزیر اعظم کی کرسی پر بٹھانے میں زبردست کامیابی ہوئی۔
ختم قرآن شریف: 
مسٹر پرنب مکھرجی بھی ہندو ہیں ۔پوجا پاٹ ہندو سنسکرتی اور تہذیب کے مطابق کرتے ہیں اور میرے خیال سے مودی سے کچھ زیادہ ہی کرتے ہیں مگر دوسرے مذاہب کا بھی وہ احترام کرتے ہیں ۔اس بار رمضان کے مہینہ میں راشٹر پتی بھون (Presidential House ) کی مسجد میں جب تراویح میں ختم قرآن ہوا تو ختم قرآن کی دعا میں مسٹر پرنب مکھرجی نے شرکت کی ۔یہ خبر ایک انگریزی اخبار کے نامہ نگار کے ذریعہ راقم کو بھی معلوم ہوئی ۔نامہ نگار کو’’ ختم شریف ‘‘ کی نئی اصطلاح جب سمجھ میں نہیں آئی تو راقم سے رجوع کیا ۔اس نے کہا کہ راشٹر پتی بھون کی مسجد میں ختم شریف ہوئی اس میں دعائیہ اجتماع میں مسٹر پرنب مکھرجی بھی شریک ہوئے مگر یہ ختم شریف کیا ہوتا ہے سمجھ نہیں آیا جب میں نے اسے بتایاکہ تراویح کے دوران ختم شریف ہوا ہوگا اور جس روز ہوا ہوگا مسٹر پرنب مکھرجی نے دعائیہ مجلس میں شرکت کی ہو گی ۔نامہ نگا ر نے نیوز ایڈیٹر کو خبر بناکر حوا لے کر دی مگر خبر شائع جب نہیں ہو ئی تو میں نے دریافت کیا معلوم ہوا کہ نیوز ایڈیٹر کو خدشہ ہوا کہ مسلمانوں کا کوئی طبقہ ناراض نہ ہو جائے اس لئے وہ خبر شائع ہو نے سے رہ گئی ۔
ضمناً یہ بات عرض کردوں کہ ہمارے بعض نادان مسلمانوں کے غلط سلوک کی وجہ سے ہمارے بعض مہربان اور دوست ہم سے دور ہو جاتے ہیں ۔نادان مسلمانوں کو بتانے کی ضرورت ہے کہ اگر کسی غیر مسلم سے بھول چوک ہو جائے تو اسکے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرنا چاہئے کہ وہ ہم سے دور ہو جائے ۔
اللہ نے نرم دم گفتگو کی اپنی کتاب میں ہدایت کی ہے یہاں تک کہ حضرت موسیٰ ؑ کو فرعون سے نرم لب و لہجہ میں گفتگو کرنے کی اللہ نے تاکید کی تھی ۔کسی غیر مسلم صحافی سے اگر بھول چوک ہو جائے تو افہام و تفہیم کے ذریعہ سے سمجھانے کی ضرورت ہے نہ کہ لڑنے جھگڑنے کی ۔ضمناً ایک بات اور کہنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان آپس میں اپنی نادانی کی وجہ سے لڑ پڑتے ہیں، اس وقت ایسی نادانی اور جہالت کا مظاہرہ ہوتا ہے جو کفر سے بھی بد تر ہوتاہے ۔اس سلسلہ میں مولانا ابوالکلا م آزاد کا ایک اقتباس نقل کرنے کو جی چاہتا ہے :
’’ افسوس جزئیاتِ مزعومۂ عقائد کے غرور باطل نے جس قدر نقصان پہنچایا ،کسی چیز نے نہیں پہنچایا ۔عمل صالح کی اہمیت با لکل جاتی رہی اور سارا دارو مدار چند مزعومہ عقائدپر آکر رہ گیا ۔ایک شخص صرف اس غرور میں کہ الف ؔ سے لے کریؔ تک ٹھیک ٹھیک عقید ہ نسفیٰ کا مجسمہ ہو، تمام مسلمانوں کو حقیر و گمراہ کہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ عمل صالح اور ایثارو محبت فی اللہ کوئی شے نہیں ۔ایک شخص تقوٰی طہارت میں کتنا ہی اصلح ہو ، لیکن اگر کسی ایک جزئی و ضمنی عقیدہ میں بھی مخالف ہو ا تو اسکی ساری عمر کی کمائی رائیگاں گئی ، اور با وجود عمر بھر کے ایمان و عمل صالح کے کافر کا کافر ہی رہا ۔جس کلمہ کے ایک بار اقرار کر لینے سے ابو سفیان اعدیٰ عدوے اسلام اور وحشی قاتل حمزہ کا خو ن حرام ہو گیا تھا ؛اور اگر ابو جہل بھی اقرار کر لیتا ؛تو اسکی ساری عمر کا کفرو طغیان محو ہو جاتا ،آج ساری عمر اسکے ایمان و عمل میں بسر کر دیجیے لیکن پھر بھی مومنوں کے گروہ میں شامل ہونے کا حق حاصل نہیں کر سکتے !
جُز سخن کُفر ے وایمان کجاست
خود سخن در کفر و ایماں میرود 
اصل یہ ہے کہ اسلام نے باب عقائد میں صرف بنیاد کی چند صاف صاف اور موٹی موٹی باتیں بتلا دی تھیں ، اور اس کے بعد سارا دارو مدار عمل صالح پر رکھا تھا ۔ بنی الاسلام علی خمس الخ ۔ اور مَنْءَ امَنَ بِاللَّہِ وَ الْیَوْمِ الْآخِرِ وَ عَمَلَ صَالِحاً فَلَا خُوْفُٗ عَلَیْہِمْ وَلَا یَحْزَنُوْنَ ہر طرح کی فضیلیت و مزیت کا میعار صرف تقوٰی اور اس کے مراتب بَعْضُھَا عَلَی بَعْضِِ تھے اور بس کہ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَا کُمْ۔ جو شخص شہادتین کا اقرار کرتا تھا ، بمجّرد اقرار مسلمانوں میں داخل ہو جاتا تھا ؛اور پھر مسلمانوں میں سے جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں سب سے زیادہ ایثارِ جان و مال کرتا تھا ، وہی سب سے افضل و اعلیٰ سمجھا جاتا تھا ۔صحابہ کرام کا پورا عہد گذر گیا ،مگر کسی شخص کو ایک لمحہ کے لئے اس کا وہم بھی نہیں گذرا کہ اسلام و ایمان اور فضیلت و بزرگی کا میعار عملِ صالح اور تقویٰ طہارت کے سوا اور بھی کو ئی چیز ہو سکتی ہے۔اس قسم کی روایتیں جو تم صحاح میں پڑھتے ہو : وکان اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یرون شیئا من اللعمال ترکہ کفر غیر الصلوٰۃ تو ان کا بھی یہی مطلب ہے کہ بنیاد ساری باتوں کی صرف عملی زندگی تھی ۔عقائد کے باب میں نہ تو کوئی اختلاف تھا ،اور نہ فتن�ۂ تفریق و تمذہب کی بنیاد پڑی تھی ۔‘‘
پرنب مکھرجی کا ایک اور حسن سلوک :
راقم کو یاد آتا ہے کہ مسٹر پرنب مکھرجی وزیر دفاع تھے ۔کلکتہ آنے والے تھے ۔ان کے سکریٹری مسٹر گو ہاسے میں نے مسٹر مکھرجی سے ملاقات کے لئے وقت چاہا تو انہوں نے وزیر موصوف سے پوچھ کر وقت دے دیا ۔ہملوگ آ ٹھ نو آدمی ان کے دولت کدہ پر گئے وہ خندہ پیشانی سے پیش آئے ۔وزیر موصوف کی کوششوں سے محترم سعید ملیح آبادی اور جناب حسن عمران حج کے لئے گئے تھے۔حسن عمران تو کھجور اور آب زم زم دے کر خموش ہو گئے احمد سعید صاحب نے وزیر موصوف سے کہا کہ ’’ میں نے خا نۂ کعبہ میں اللہ تعالیٰ سے آپ کے حق میں دعا کی کہ اللہ آپ کو ایک دن بڑے عہدے پر فائز کرے گا ‘‘یہ سن کر وہ بہت خوش ہوئے اور بار بار شکریہ کا لفظ دہرا تے رہے۔تسلیمہ نسرین کے سلسلہ میں شروع میں ان کا انداز کچھ اچھا نہیں تھا تو میں نے کانگریس کے طرز عمل کی شکایت کی اس پر وہ آپے سے باہر ہو گئے مگر جب میں نے کمرہ سے نکلنے کی بات کی تو وہ بالکل نرم ہو گئے اور دونوں ہاتھ جوڑ کر کہا کہ میری عمر زیادہ ہو گئی ہے ضعیفی کی وجہ سے کبھی کبھی غصہ آجاتا ہے اور پھر معافی کے طلبگار ہوئے ۔ان کے اس انداز کو وفد کے ارکان نے بہت پسند کیا ۔با لکل نارمل ہو گئے ہم لوگوں کی باتوں سے انہوں نے اتفاق کیا ۔
آج مسٹر پرنب مکھرجی ملک کے پہلے شہری (First Citizen )ہیں ۔ملک کے سب سے بڑے عہدے پر فائز ہیں ۔ان سب کے باوجو د مذاہب کا احترام کرتے ہیں ۔مسٹر مودی کو پرنب مکھرجی سے بہت سیکھنے کی ضرورت ہے ۔انسانیت اور آدمیت سب سے بڑا عہدہ ہوتا ہے اگر کوئی اس عہدے کا خیال نہیں کرتا تو اس میں یا حیوان میں فرق باقی نہیں رہتا ؂
اصل تہذیب احترامِ آدم است 

«
»

عراق جنگ کا ایندھن بھارت کے مسلم نوجوان

یہ کن کی لاشیں تڑپ رہی ہیں،یہ کن کا تازہ لہورواں ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے