وہ معصوم بچوں کی دل دوز چیخیں!

جن کی چیخوں سے فلسطین کی فضائیں گونج رہی ہیں،سیکڑوں گھڑوں کو مسمارکرکے ہزارہاخاندانوں کو بے گھرکردیاگیاہے،اب تک کی رپورٹ کے مطابق کم ازکم پچاس فلسطینی مسلمان شہید،جب کہ ساڑھے تین سو سے زائد زخمی ہوچکے ہیں ،اسرائیل ۲۰۱۲ء میں مصر کی ثالثی میں ہونے والے امن معاہدے کی کھلے عام خلاف ورزی کرکے عالمی برادری،اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل سمیت ساری اسلامی دنیاکو زبانِ حال سے چیلنج دے رہاہے،اسے نہ توعالمی قانون کاپاس ہے اور ناہی انسانیت کا ذرہ بھر لحاظ،معاہدے کی خلاف ورزی اس کی طرف سے یہ کوئی پہلی بار نہیں ہورہی ہے،اس سے قبل دسیوں باروہ پوری بے غیرتی کے ساتھ ایسا کرچکاہے،فلسطینی مسلمان بالکل نہتے اور مجبور ہیں،مگران کی ایمانی قوت و طاقت ہے،جو انھیں اسرائیل کے سامنے آج ہی نہیں ،نصف صدی سے زائد عرصے سے سینہ سپر کیے ہوئے ہے،آپ دیکھیں گے،تو حیرت زدہ رہ جائیں گے کہ کس طرح وہاں کے نوجوان اسرائیل کی گولیوں کا جواب پتھروں سے دیتے،خالی ہاتھ ہونے کے باوصف اسرائیلی فوجیوں سے دوبدو ہوجاتے،ان کی اسلحہ سے بھری ہوئی گاڑیوں پر سنگ باری کرکے انھیں بھاگنے اور پسپائی پر مجبور کردیتے ہیں،دوسری جانب حماس کا عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈبھی اسرائیلی فوجیوں کو منہ توڑ جواب دینے کی ٹھان چکاہے،حماس نے باقاعدہ اعلان کردیا اور اسرائیلی وزیر اعظم کو خبر دار کردیا ہے کہ وہ اوراس کی فوج کسی خام خیالی کا شکار نہ ہو،حماس خون کا بدلہ خون سے لینے کی مکمل تیاری میں ہے اور گزشتہ دودنوں میں حماس کے جاں بازوں نے اسرائیلی دارالسلطنت تل ابیب پر متعددراکٹ حملے کیے بھی ہیں،الحمدللہ کہ فلسطین کا بچہ بچہ’’ بیاباں کی شبِ تاریک میں قندیلِ رہبانی‘‘جیسا ہے،ان کے دلوں میں جذباتِ ایمانی کا وفور ہے،وہ مسجدِ اقصیٰ کی ایک انچ سے بھی اپنی زندگی رہتے دست بردار نہیں ہونا چاہتے،گزشتہ ۲؍جولائی کو ایک سولہ سالہ لڑکے مفتی محمد ابوخضیر کے انتہا پسند یہودیوں کے ہاتھوں قتل کے بعد سے فلسطینی مسلمانوں نے اسرائیل کے ساتھ آخری اور فیصلہ کن معرکہ لڑنے کا ذہن بنالیا ہے،تیسری تحریکِ انتفاضہ کے آثارقوی سے قوی تر ہوتے جارہے ہیں۔
اسرائیل نے جب گم شدہ یہودی آبادکاروں کا حوالہ دے کر غزہ کے خلاف فوجی آپریشن کا اشارہ دیاتھا،اسی وقت حماس نے بھی اسرائیل کو متنبہ کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی برادری سے اپیل کی تھی کہ اسرائیل کواس خبیث ارادے سے باز رکھے،فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے بھی اس کا مطالبہ کیاتھا،مگرکسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی،نتیجتاً پہلے تو اسرائیل نے سرچ آپریشن کے نام پر فلسطینی مسلمانوں کو ہراساں اور گرفتار کیا اور اس کے بعد فوجی کریک ڈاؤن کرکے ان کو نیست و نابود کرنے کے درپے ہوگیاہے،اس پورے معاملے میں ہمیں عالمی برادری ،اقوامِ متحدہ، سلامتی کونسل یادیگر عالمی طاقتوں سے کوئی شکایت نہیں کہ یہ سب ایک ہی تھیلے کے چٹے بٹے ہیں،یہ ظاہر میں عالمی سطح پر انسانیت نوازی کا درس دیتے اور اس کے پیغامات کو پھیلاتے ہیں،مگر اندرونی طورپر صلیبی و صہیونی مقاصد کی برآری ان کا مطمحِ نظر ہے،یہ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے اور وقتاً فوقتاً ہمیں اس کا مشاہدہ بھی ہوتا رہتا ہے،ہمیں تو شکایت ہے ان ملکوں اور ان کے حکمرانوں سے ،جن پر اسلامیت کا ٹھپہ لگاہوا ہے،کیا ان کے کانوں تک غزہ کی معصوم اور ننھی جانوں کی چیخیں نہیں پہنچ رہی ہیں،کیا ان تک قبلۂ اول کی حفاظت و دفاع کے لیے لڑنے والے جاں باز فلسطینیوں کی بے چارگی و لاچاری کی خبریں نہیں جارہی ہیں،یہ صحیح ہے کہ عراق، شام، لیبیا، نائیجیریا، لبنان، یمن،تیونس اور دیگر کئی ممالک اندرونی کشمکش سے دوچار ہیں،مگرآخر یہ کشمکش پیداہی کیوں ہوئی ہے؟کیا اس کے ذمے دار وہاں کے عوام ہیںیا وہاں کے آمرمزاج و عیاش حکمراں،جنھوں نے حکومت و سیادت کو خدائی امانت کی بجائے دادِ عیش دینے کا ذریعہ سمجھ رکھاتھا،کیاہم اب بھی یہ سمجھنے میں حق بجانب نہیں کہ مصر میں وہاں کے جمہوری اور قانونی صدر ڈاکٹر محمد مرسی کا تختہ پلٹ کر گزشتہ مئی میں جونئی حکومت معرضِ وجود میں آئی ہے،وہ سرتاسرامریکہ و اسرائیل کی کٹھ پتلی ہے،وہ مصری عوام اور فلسطین و مسجدِ اقصیٰ کی سودے بازی کے لیے آئی ہے؟ سعودی عرب،جس کے بادشاہ عین ان دنوں میں مصر کا اعلیٰ سطحی دورہ کرتے ہیں،جب مصر کی سرحدسے لگے فلسطین کے مسلمانوں پر اسرائیلی فوجی قہر و ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہوتے ہیں،مگروہ وہاں کے باغی صدرعبدالفتاح السیسی کے ساتھ سعودی طیارے میں خصوصی میٹنگ کرکے مصر کی امداد و نصرت کا اعلانِ عام تو کرتے ہیں،مگردنیائے اسلام ’’خادمِ حرمین شریفین‘‘ کی زبان سے فلسطینی معصوموں کے لیے ایک کلمۂ خیربھی سننے سے محروم رہ جاتی ہے،سعودی عرب گزشتہ سال بھر سے زائد سے مسلمانوں کی کیسی نمایندگی کررہاہے،یہ مسلمانانِ عالم کی سمجھ سے پرے ہے،وہ مصر میں جمہوری اسلامی حکومت کی بیخ اکھاڑنے میں مددکرتاہے،وہ باغیوں پر ڈالروں کی بارش کرتا ہے،وہ اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے ایک خالص اسلامی اور صلح پسند تنظیم پردہشت گردہونے کا ٹھپہ لگادیتا ہے اوروہی ہے،جو فلسطین میں نہتے مسلمانوں پر اسرائیلی بم و بارود کی بارش اوران کی جان و املاک کو خاکستر کرنے پر’’ہوں‘‘تک نہیں بولتا،۲۲؍ممالک پر مشتمل عرب لیگ کی بزدلانہ خاموشی بھی دیدنی ہے،۹؍جولائی کو حماس کے سربراہ اور غزہ کے سابق وزیر اعظم اسماعیل ہنیہ نے ٹوئٹ کرتے ہوئے عربوں کوجوخبردیاتھاکہ’’غزۃ تحت القصف،ونأسف یاعرب للازعاج‘‘(غزہ پر اسرائیلی بموں کی بارش ہورہی ہے،اہلِ عرب! اس خبرکے ذریعے آپ کے آرام میں خلل اندازی کے لیے میں معذرت خواہ ہوں)وہ ان کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے بالکل درست ہے،واقعتاً عرب ایک انتہائی طویل خفتگی کے عالم میں ہیں،جس کا سلسلہ نہ معلوم کس دھماکے سے ٹوٹے گا،اگرعوام میں کسی درجے میں دینی بیداری و شعور ہے بھی،تو وہاں کی عیاش اور لبرل قوتِ مقتدرہ نے اُنھیں دستورِزباں بندی کا پابند کررکھا ہے،وہ اس مسئلے پر بھی کچھ نہیں بول سکتے،جو تمام دنیا کے مسلمانوں کا مشترکہ مسئلہ ہے،ملی بھی اور دینی بھی،ایسے میں ہم اپنے فلسطینی بھائیوں کے لیے کسی بھی ظاہری نصرت و اعانت کی امید کے بغیرصرف اور صرف رب کی بارگاہ میں دستِ سوال دراز کرسکتے ہیں،ہم رمضان المبارک کے اس رحمت و مغفرت اوررب کی خصوصی عنایت والے مہینے میں اپنے رب سے دعاکریں کہ رب تعالیٰ فلسطین کے مسلمانوں کی جواں ہمتی کو مزیدپختگی عطاکرے ،ان پراپنی خاص رحمتیں اور مددونصرت نازل کرے،کہ چند سوجاں 
بازوں کی یہ جماعت اسرائیل کے سامنے سینہ سپر ہوکرسواارب مسلمانوں کی جانب سے فرضِ کفایہ کررہی ہے۔

«
»

بے قصوروں کو پھنسانے والوں کوسزا کب ملے گی؟

عرب بہار پر خزاں لانے والے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے