عراق۔مسلک تو ایک بہانہ ہے

اس تقریب میں اس بات پر زور دیا گیا کہ تمام مسائل کا حل پر امن طریقہ سے نکالا جانا چاہئے ۔اس سے تشدد کی گنجائش نہیں رہتی اس گروپ کا یہ بھی ماننا ہے کہ جب کوئی ملک کمزور طبقات کے مفاد کی پرواہ نہیں کرتا تو یہ طبقہ خوف کا سہارا لینا شروع کر دیتے ہیں جو جمہوری کردار کے خلاف ہے ۔ڈر کو ذریعہ کے طور پر استعمال کے سلسلہ کو بند کرنا ہوگا تاکہ دل بدلنے اور عدم تشدد کے طریقوں کو اختیار کرنے کا راستہ ہموار ہو سکے۔
ایسے وقت میں جب دنیا تشدد کے مقابلہ امن کو فروغ دینا چاہتی ہے مسلم دنیا اپنوں ہی کے خون سے لالہ زار ہے ۔ ویسے تو یہ سلسلہ لمبے عرصہ سے جاری ہے لیکن عراق میں اس نے جو شکل اختیار کی ہے اس سے عدم تشدد کی فکر رکھنے والے افراد کو سوچنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے ۔ابھی تک جس کو دہشت گردی ، شدد پسندی ، بغاوت Insurgency کے نام سے پکارا جاتا تھا ۔ عراق میں اس کو مسلک سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے ۔شاید اس کی ایک وجہ عراق کی حکومت میں شیعہ طبقہ کی بالا دستی ہے ۔ نوری المالکی عراق کے وزیر اعظم ہیں جو اسی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں کہا یہ جا رہا ہے کہ نوری المالکی کی سرکار میں سنیوں کی اندیکھی کی گئی ہے اگر ایسا ہوا ہے تو عراق سرکار کو اس طرف توجہ دینا چاہئے تاکہ عوام میں اعتماد بحال ہو سکے ۔Ninawaموصل کے گورنر اتہیل النزیفی کا ماننا ہے کہ وزیر اعظم نوری المالکی کی پالسیوں کے چلتے ہی شدت پسندوں کو بڑھاوا ملا ہے ۔
عراق کی جمہوری طریقہ سے چنی ہوئی سرکار کے خلاف لڑنے والے اسلامی ریاست عراق و شام اور آئی ایس آئی ایل کے افراد کے سلسلے میں جرمن خبر رساں ایجنسی کا بیان اہم ہے اس کا کہنا ہے کہ اس تنطیم کے جنگجو اپنی سخت گیر سوچ میں اتنے پختہ ہیں کہ ان کے طرز عمل اور طریقہ کار کا موازانہ جرائم پیشہ افراد کے مافیا گروپوں سے کیا جا سکتا ہے ۔ یہ عسکریت پسند عوامی مقامات پر اپنے مخالف فوجیوں کو قتل کرتے ہیں بچوں کو کوڑے مارتے ہیں اور عام شہریوں کے سر قلم کر دیتے ہیں ۔جبکہ دنیا کے تمام مسالک کے علماء و دانشوروں کا مشترکہ طور پر یہ فیصلہ ہے کہ اسلام میں دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔اسلام بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا ۔چہ زائقہ بچوں ، بوڑھوں اور عورتوں کو قتل کیا جائے ۔ یا نکاح فی الجہاد کے نام پر عورتوں و لڑکیوں کی آبرو ریزی کی جائے اس کی اسلام میں کوئی اجازت نہیں ہے بلکہ یہ اسلام کی سراسر خلاف ورزی ہے ۔
شام میں دہشت گرد تنظیم القاعدہ کی مقامی شاخ النصر فرنٹ، تکفیری کہلاتی ہے ، افغانستان میں طالبان ، القاعدہ ، نائیجریا ، سوڈان میں بوکو حرام پاکستان میں تحریک طالبان ، لشکر طیبہ ، پنجابی طالبان ، لشکر جھنگوی اور عراق میں داعش ۔صدام حسین پر امریکہ کی فوجی مداخلت کے وقت یہ تنظیم برائے توحید و جہاد کے نام سے جانی جاتی تھی ۔یہ امریکی فوجیوں کا تو مقابلہ نہیں کر سکے لیکن عراق میں بم دھماکوں کے ذریعہ تخریب کاری جاری رکھی اور امن قائم نہ ہونے دیا بنیادی طور پر یہ تخریب کار ہیں تبھی تو کہیں یہ خطہ کے نام پر ، کہیں علاوہ صوبے کے قیام کے نام پر ، کہیں آزاد ممالکت کی حوصیابی کے بام پر تو کہیں مسلک کے نام پر برسر پیکار ہیں ۔جہاں کہیں ان کو حکومت بنانے میں کامیابی حاصل ہوئی اس ملک کے حالات بد سے بدترین ہو گئے عوام کی بھلائی تو دور دنیا ڈھانچہ تک کو یہ نہیں سنبھال پائے ۔ اس کی مثال افغانستان میں طالبان کی ظالم حکومت کے طور پر دنیا کے سامنے موجود ہے ۔ اب عراق و شام کے اپنے قبضہ والے علاقہ میں ایک نئی حکومت کے قیام کا اعلان بھی قابل توجہ ہے دیکھنا یہ ہے کہ خلافت کے نام پریہ کیا گل کھلاتے ہیں ۔کیونکہ سوال یہ ہے کہ پاکستان میں یہ کس سے لڑرہے ہیں لیبیا میں انہوں نے کس کے لئے سرکار کا تختہ پلٹ کیا ۔ مصر میں جمہوریت کے خلاف کیوں ہیں نائجیریا ، سوڈان میں انتہائی غیر انسانی رویہ کے پیچھے ان کا مقصد کیا ہے اگر یہ اسلام کی بالا دستی چاہتے ہیں اور سنیوں کو مظالم سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو پھر فلسطین کے مظلوموں کے ساتھ یہ کیوں کھڑے نہیں ہوتے ؟۔
ایسا لگتا ہے کہ یہ مغرب کی اس سازش کا حصہ ہیں جس کے تحت سامراجی ، صہیونی طاقتیں مسلمانوں میں مسلکی ، لسانی ، علاقائی اور جغرافیائی منافرت پیدا کرکے ان کی بڑی بڑی مملکت کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کی طاقت بکھر جائے اور وہ کبھی مغرب کے لئے مشکلات کھڑی نہ کر سکتیں ۔اس منسوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مسلمانوں میں انہوں نے اپنے ایجنٹ بنائے ، علماء کو خریدا ، مسلم ممالک کو توڑنے اور کمزور کرنے کے لئے داعش جیسی تنظیموں کو پیدا کیا گیا ۔اس پر غم منانے کے بجائے مسلمانوں نے خوشیاں منائی ، شام ، عراق ، سعودی عرب ، بحرین ، متحدہ عرب امارات وغیرہ اس کی مثال ہیں ۔انہیں نے صدام حسین کو راسخ العقیدہ سنی رہنما کے طور پر پیش کیا تھا جبکہ وہ ایک کمیونسٹ تھا ور بعث پارٹی کا ممبر۔لیکن جب صدام نے مغرب کے مفادات پرحملہ کیا تو اسے اسلام دشمن اور کافر قرار دیکر تحت دار تک پہنچا دیا ۔در اصل عراق میں جو لوگ خونی کھیل کھیل رہے ہیں وہ نہ تو سنی ہیں نہ شیعہ بلکہ عراق کو تقسیم کرنے کی پرانی سازش کا وسیلہ جو اب سامنے بھی آگیا ہے ۔ عراق اس لئے بھی مغرب کے نشانہ پر ہے کہ ایران ، عراق اور شام میں ایک ہی نظریہ رکھنے والوں سرکار بننے سے ایک طرف اسرائیل پر لگام لگے گی دوسری طرف عرب میں سعودی عرب کے بجائے ایران کا رتبہ بڑھے گا اور بحرین میں جمہوریت کی راہ ہموار ہوگی اور یمن میں جاری جمہوریت کے لئے جدو جہد کو تقویت فرام ہوگی اس سے مشرق وسطیٰ میں مغرب کے مفادات کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے ۔ جبکہ سعودی عرب مغرب کے منصوبوں کو کامیاب بنانے کے لئے زیادہ موزوں سمجھا جاتا ہے ۔ 
اس مسئلہ کا ایک اور پہلو سے بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ ایران سے شام اور لبنان کے بیچ عراق پرتا ہے عراق میں نوری المالکی کے وزیر اعظم بننے کے بعد شام اور لبنان (حزب اللہ) کے بیچ کی دوری نا کے برابر ہو گئی ہے ایران عراق اور شام کا ایک ساتھ ہونا سعودی عرب ، قطر ، کویت ، یحرین اور اسرائیل کے لئے پریشانی کاسبب ہے اس پریشانی کی ایک وجہ حسن روحانی اور براک اوبامہ کی غیر سعودی غیر اسرائیلی عرب پالیسی بھی ہے اس لئے سعودی عرب نے وہابیت کا کھیل شروع کیا ہے وہابیت ہی وہ کھیل ہے جو اسے اچھی طرح آتا ہے وہ جاہتا ہے کہ عراق پر اس کے ہمنواؤں کا قبضہ ہو جائے تاکہ ایران ، شام اور لبنان کا رابطہ ٹوٹ جائے اور تیل پول میں ایران کی اہمیت کم ہو جائے دوسری طرف امریکہ یوکرین کے بحران میں روس کے یورپ کے گیس سپلائی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کو دیکھتے ہوئے فارس کی کھاڑی میں اس کے نعیم البدل کے طور پر قطر اور ایران کو آگے بڑھانا چاہتا ہے ۔ ان کے پاس دنیا کے سب سے بڑے گیس بھنڈار ہیں ۔ اسد کی سرکار گرنے اور عراق پر سعودی عرب کی حمایت والی تنظیم کے قبضہ سے جو قطری گیس فارس کی کھاڑی سے عراق شام ، ترکی ہوتے ہوئے یورپ کو سپلائی کی جانے والی ہے سعودی عرب کے ہاتھ میں اس منصوبہ کو روکنے کی چابی آجائے گی سعودی کا قطر اور ایران دونوں سے جھگڑا ہے سعودی عرب کے پاس تیل ہے گیس نہیں قطر کے پاس گیس ہے تیل نہیں لیکن ایران کے پاس دونوں ہیں ۔
یوں تو حسن روحانی سعودی عرب کے دورے پر جانے والے ہیں جب جائیں گے تو عراق کے مسئلہ پر بھی بات ہوگی دونوں ذمہ داران کی ملاقات میں اگر مشرق وسطیٰ میں جاری دہشت گردی کا کوئی پائے دار حل نکل آئے تو یہ خدا کی طرف سے رمضان المبارک کا تحفہ ہوگا شاہ عبداللہ کے بیان سے اس کے اشارے مل رہے ہیں لیکن اس کی امید کم ہی ہے کہ سعودی عرب اپنے سازشی رویہ سے باز آئے ۔ 18ویں صدی میں برطانیہ کی مدد سے عرب کے بدؤں اور عثمانیہ خلافت کی پیٹھ میں چھرا بھونک کر اس نے عرب کے اس حصہ پر قبضہ کیا تھا اس وقت دنیا کے مسلمانوں نے حجاز کو سعودی حکومت سے الگ پہچان دینے کا شاہ عبدالعزیز سے وعدہ لیا تھا اور یہ طے کیا گیا تھا کہ اس کا انتظام دنیا بھر سے چنے ہوئے مسلمانوں کی نمائندہ کمیٹی کے ہاتھ میں رہے گا شاہ عبدلعزیز بن سعود نے اس معاہدے کی پرواہ نہ کرکے حج اور کعبہ کی امامت عبدالوہاب نجدی کو سوبپ دی تھی جبکہ دنیا کے مسلمانوں کی بڑی آبادی عبدالوہاب کے نظریات سے اتفاق نہیں کرتی ۔
مسلم دنیا کے زیادہ تر ممالک میں جمہوری نظام قائم ہو چکا ہے ڈکٹیٹر شپ اور شہنشاہیت ختم ہو چکی ہے ۔عرب کے چند ممالک میں اب بھی بادشاہت موجود ہے رہ رہ کر اس کی مخالفت میں آوازیں اٹھتی رہی ہیں ان کو ہمیشہ سختی سے دبا دیا گیا مسلکی اختلافات کو برھا وا دینا عسکریت کی حمایت کرنا جنگجوؤں کی مالکی امداد کو سعودی عرب ، قطر ، اور کویت ، بحرین وغیرہ بادشاہت کو باقی رکھنے کے لئے ہتھیار کے طور پر یا یو کہا جائے خراج کے طور پر استعمال کررہے ہیں ۔ اسلام کو انہوں نے دنیا میں عمل کے بجائے بحث کا موضوع بنا دیا ہے ۔ اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ مسلک تو محض ایک بہانہ ہے اصل میں تو اپنی حکومت کا دبدبہ بالا دستی کو قائم رکھنا ہے اور اپنا وقار بچانا ہے اس سے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم خانوں میں مختلف فرقوں ، مسلکوں بٹ کر اپنا وقار اور وجود قائم کھ پائیں گے مسلکی نفرت کو ہتھیار بنانے والی قوتوں کو تو معمولی سا نقطہ ہی کافی ہے شعلوں کو ہوا دینے کے لئے لیکن شعلوں کو بھڑکانے والوں کے ہاتھ نہیں جلیں گے اس کی کیا گارنٹی ہے ۔ ضرورت ہے ہوشیاری کے ساتھ سبھی طبقوں کے درمیان رابطہ قائم کرنے اور ان کے درمیان پائے جانے والی غلط فہمیوں ، شک و شبہات کو دور کرنے کی تاکہ اتحاد کی فضا کو ہموار کیا جا سکے ۔ اسی کے لئے علامہ اقبال کے کہا تھا ۔
دین بھی ایک اللہ بھی ایک قرآن بھی ایک 
کیا بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک ۔

«
»

قصہ در دسنانے پر مجبور ہیں ہم

ہماری وصیت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے