اسرائیلی پٹھو اہل کاروں سے خلاصی ضروری ہے

ابو الفتح کے بیانات کے لب و لہجے سے ایک ایسے شخص کا نقش ابھرتاہے جس نے اپنے تمام تر تعلقات فلسطینی اتھارٹی ۔۔۔۔۔اسرائیلی شراکت (Parteer Ship)سے وابستہ کرلی ہیں جس نے نازی طرز کی اسرائیلی مسلط حکومت کے خلاف فلسطینیوں کی دلیرانہ جدوجہد کو دسیوں سالوں سے پیٹھ پھیر لی ہے۔ مغربی کنارے میں فلسطین کے اہم سیکورٹی کے اہم ترین ذمہ داران نے اپنے اسرائیلی ’’ہم منصبوں ‘‘ سے رام اللہ کے نزدیک بیت ایل آبادی میں ملاقات کی ۔
ستمبر میں ہونے والی اس ملاقات میں فلسطینی اتھارٹی کے سیکورٹی سربراہان نے جن کے بارے میں گمان کیا جاتاہے کہ وہ اپنے عوام کے سیکورٹی مفادات کا تحفظ کریں گے، نے اپنے اسرائیلی ’’ساتھیوں ‘‘ کو بتایا کہ ’’ہمارا یک مشترکہ دشمن ہے اس کا حماس ہے‘‘ نیزیہ کہ ’’اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان کوئی تنازع نہیں ہے ‘‘اسرائیلی صحافی ناحوم بارنی کے مطابق جس نے اس ملاقات میں مبصر کے طور پر شرکت کی تھی ، فلسطینی افسران اس انتہا تک پہنچ گئے کہ انہوں نے اسرائیلی فوج کے کمانڈروں کے (اسی فوج کے کمانڈروں کو جس نے ان کے ملک پر قبضہ کررکھاہے اور ان کے عوام پر تشدد کرتی ہے ) کے سامنے یہ بات رکھی کہ اسرائیل انہیں اسلحہ اور تربیت فراہم کرے تاکہ فلسطینی اتھارٹی، غزہ پر قوت سے قبضہ کرسکے ۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی قیادت نے مکمل طور پر ان سرکش اقدامات کو نظر انداز کردیا ، جو بذات خود ایک ثبوت ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی قیادت ، فلسطین کی قومی جدوجہد کے راستے سے کس قدر دور جا چکی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے سیکورٹی محکمے اور قابض اسرائیلی فوج نے فلسطین کے قومی مفادات کے خلاف جو گٹھ جوڑ کرلیا ہے وہ فتح کی اکثریت والی فلسطینی حکومت کے رویے کو ظاہر کرتی ہے اور ابو عمار کے ورثے سے لا تعلق ہونا چاہتی ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ ابو عمار جو ورثہ چھوڑا ہے وہ بھی کوئی خاص رنگین اور شاندار نہیں ہے، ابو عمار نے سیکورٹی ایجنسیاں تیار کیں کہ جن میں بد عنوانی، جہالت اور انتشار ہے اور ن میں ایسے لوگ شامل ہیں کہ جن کے کردار کے بارے میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں ۔ 
تاہم یاسرعرفات نے کبھی بھی فتح کو اس کی اجازت نہیں دی کہ وہ اس طرح تک گرجائے کہ وہ قابض اسرائیلی فوج کا اضافی بازو بن کر فلسطینیوں کو ایذا پہنچائے اور فلسطینی عوام کو خراب و رسوا کرے ۔ فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیل کے مقابلے میں جو رویہ اختیار کررکھاہے وہ وسیع البنیاد قومی غداری سے کم نہیں ہے ، یہی وجہ ہے کہ مصری حکومت کی جانب سے فتح اور حماس کے درمیان مفاہمت کرانے کی کوششوں کے بارے میں پر امید ہونا مشکل ہوتا ہے جب تک فتح اور فلسطینی اتھارٹی اپنے اعمال بد سے لا تعلقی کا اظہار نہ کریں ۔
جو لوگ فتح میں تمام معاملات کے ذمہ دار ہیں ان پر کس طرح اعتماد کیا جاسکتا ہے کہ وہ قومی مفاہمت کی منزل تک پہنچ پائیں گے جب فتح سے تعلق رکھنے والے نقاب پوش افراد حماس سے تعلق رکھنے والے افراد کو معمولی اور بے بنیاد الزامات کی بنیاد پر گرفتار کرلیتے ہیں۔ 
گرفتاری کے بعد ان سے بدسلوکی بھی کی جاتی ہے ۔ حماس اور فتح کے درمیان مفاہمت کا غاز اعتماد سازی کے اقدامات کے ساتھ ہونا چاہیے مثلاً تشدد کا خاتمہ، گرفتار شدگان صحافیوں اور قیدیوں کی رہائی اور ملازمت پر ان سول ملازمین کی بحالی جن کو صرف سیاسی وابستگی کی سزا دینے کے لیے نکالا گیاتھا۔ فتح سے تعلق رکھنے والے افراد کو غزہ کی پٹی میں رہا کیا جا چکاہے، اب فتح کی باری ہے کہ حماس کے کارکنان کو رہا کرے اور نئی گرفتاریوں کا سلسلہ بند روک دے ۔ 
چند روز قبل ایک بوڑھے فلسطینی جس کے بیٹے کو قابض اسرائیلی فوجی اٹھا کر لے گئے تھے ، نے مجھے بتایا کہ 19سالہ کالج کے طالب علم کے بارے میں یہ جان کر میں نے سکھ کا سانس لیا کہ اسے فلسطینی اتھارٹی نے نہیں اسرائیلی انتظامیہ نے گرفتار کیا ہے، جب میں نے اس سے سوال کیا کہ وہ یہ کیوں سمجھتاہے کہ اسرائیلی حکومت ، فلسطینی اتھارٹی کی نسبت کم ظالم ہے، اس کا کہناتھاکہ میرا پختہ یقین ہے ۔ کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ اسرائیلی رحم کرنے والے نہیں ہوتے ، کیونکہ وہ فلسطین کے اندر تمام خرابیوں کی جڑ ہیں ۔
اسرائیل کا اپناوجود ہی انسانیت کے خلاف ظلم کی علامت ہے۔ اس میں بہرحال کوئی شبہہ نہیں پایا جاتا کہ فلسطینیوں کے درمیان مصری حکومت کے ذریعے مفاہمت کی جو کوشش ہو رہی ہے ، وہ غیر معمولی قدر و قیمت کی حامل ہے۔
اس بارے میں ٹھوس شبہات موجود نہیں کہ سیکورٹی ایجنسیاں (ان میں سے کچھ نے بیرونی عناصر کے ساتھ سٹریٹجک رشتہ استوار کرلیا ہے ) ہر وہ کام کریں گی جس سے مفاہمت اور اتفاق رائے کے عمل کو روکاجاسکے یا اسے نقصان پہنچایا جاسکے ۔ یہ کسی نا معلوم مقام کا سفر نہیں ہے، قومی مفاہمت کی منزل ہے اس وقت تک حاصل نہیں جاسکتی جب تک فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان مالک ۔۔۔نوکر تعلقات کو ختم نہیں کیاجاتا۔
یہ ممکن نہیں ہے کہ فتح اسرائیل کے ساتھ دائیں ہاتھ سے صلح کرے اور حماس بائیں ہاتھ کے ساتھ ۔۔۔ قاہرہ میں مفاہمتی مذاکرات کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو خدا حافظ کہہ دیا جائے ۔ اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کو سی آئی اے رابطہ منقطع یا کم ازکم منجمد ضرورکرنا ہوگا۔ فلسطینی اتھارٹی کے سیکورٹی اہل کاروں کی تربیت کے لیے امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو پورے اختیار دیئے گئے ہیں کہ ان کی تربیت صدر بش کی انتظامیہ کے نظریات کی روشنی میں کریں جبکہ مذکورہ انتظامیہ اسلام کو دشمن سمجھتی ہے اور ’’دہشت گردی ‘‘ کے خلاف جنگ میں اسرائیل کو دوست سمجھا جاتاہے۔
قاہرہ میں جن اہم ترین مسائل پر بات ہوگی ان میں فلسطینی اتھارٹی کے سیکورٹی محکمہ کی پیشہ وارانہ بنیادوں پر تنظیم نو شامل بالفاظ دیگر مغربی کنارے کی موجودہ سیکورٹی کو ختم کردیا جائے گا اور اس کی جگہ نیا محکمہ جو واشنگٹن ڈی سی میں کسی صہیونی یہودی نیو کون کے سامنے جواب دہ ہو، بلکہ یہ محکمہ حقیقی فلسطینی حکومت کے ذریعے وجود میں لایا جائے کہ جو اول و ا?خر فلسطینیوں اور ان کی منتخب حکومت کے نمائندوں کے سامنے جواب دہ ہو ،ان حساس اہداف کو حاصل کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہو گا کہ ان تمام سیکورٹی اہلکاروں اور عملے کو معطل کردیا جائے کہ جن کی تربیت سی آئی اے نے کی ہے جن کی تربیت میں اہم ترین بات یہ شامل کی گئی تھی کہ حماس اصل دشمن ہے، اسرائیل نہیں ہے، 
فلسطین اور فلسطینی عوام یہ نہیں چاہتے کہ انہیں پیشہ وارانہ فوجی ملیں کہ جو ایک اشارے پر اپنے ہی ہم وطنوں کو گولیوں سے بھون کر رکھ دیں جیساکہ الخلیل میں گزشتہ برس، اسرائیل کے ایماء4 پر ہوا ، یہ بھی ضروری ہے کہ فلسطینی سیکورٹی فورس میں جوشخص بھی شامل ہو ، وہ سی ئی اے کی نظریاتی تربیت سے لودہ نہ ہو، جو تیسری دنیا کے ممالک کے سپاہیوں کو یہ سبق پڑھا تی رہتی ہے کہ گولی پہلے مار اور بعد میں سوچو ۔۔۔ان اہل کاروں کو دوبارہ تربیت دی جائے اور ان کو بنیادی اصول دوبارہ سکھائے جائیں اور انہیں یہ بنیادی اصول سکھایا جائے کہ فلسطینیوں کا خون بہانا ناقابل معافی جرم ہو اور یہ بغاوت سے کم نہیں ہے ۔
اسی اصول پر غزہ کی پٹی میں بھی اور مغربی کنارے میں بھی عمل درآمد ہونا چاہیے، حماس اور فتح کے افراد اس پر پوری طرح عمل درآمد کریں ، اگر وہ ایسا نہ کریں تو انہیں سیکورٹی محکمے سے فوری طور پر نکال باہر کیا جائے ۔ 
علاوہ ازیں ، سی آئی اے نے ان اہل کاروں کا انتخاب کرنے کے لیے جو معیار متعین کیا ہے مثلاً یہ کہ ان کی ذہانت کا معیار بہت کم ہویا یہ کہ دوران سکول وہ بہت کم نمبر حاصل کرتے رہے ہوں ، بدل دینا چاہیے صرف ان لوگوں کو سیکورٹی محکمے میں شامل کیا جائے، جنہوں نے کالج میں تعلیم حاصل کررکھی ہو اور ان کی ذہانت کا ایک معیار ہو کیونکہ ان پڑھ لوگ، اچھے سپاہی ثابت نہ ہوسکیں گے، سیکورٹی محکمے کے بارے میں اس قدر اضطراب اس لیے تشویش ناک نہیں ہے کہ اس سے بہتر نتائج متوقع ہیں ۔ وگرنہ فلسطینی اتحاد کا خواب، خواب ہی رہ جائے گا ۔

«
»

قصہ در دسنانے پر مجبور ہیں ہم

ہماری وصیت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے