صف دشمناں کو نوید ہو

رومن بادشاہت کی مکمل تاریخ میں کسی حکمران نے اتنے لوگوں کو قتل نہیں کیا جتنے اپنے دور اقتدار میں جسٹ نین نے قتل کئے۔ اس کی اذیت پسندی بلا کی تھی۔ وہ اپنے آپ کو دوسرا کونسٹن ٹائن سمجھتا تھا اور اپنے طور پر یہ تصور دل میں لیے ہوئے تھا کہ وہ روم کی سلطنت کو متحد کرسکتا ہے، اسے معاشی طور پر مستحکم بنا سکتا ہے اور اسے بیرونی دشمنوں کے مقابلے میں طاقتور اور فوجی لحاظ سے ناقابل تسخیر بناسکتا ہے۔
اس نے اپنے دور حکومت میں پورے ملک کو دیوانگی کی حد تک دو حصوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی۔ ایسے لگتا تھا جیسے روم کے عوام کھیلوں کی دو ٹیموں کی طرح تقسیم کردئیے گئے ہیں جو ایک دوسرے پر فتح حاصل کرنے کی تگ دو میں لگے ہوئے ہیں۔ یوں تورو من پہلے ہی کھیلوں کے دیوانے تھے لیکن اس دفعہ کھیل انسانی جانوں کے ساتھ کھیلا جاتا۔ چھوٹے چھوٹے تنازعات کو اس آمر بادشاہ کے کارندے ہوا دیتے اور لوگ تلواریں سونت کر میدان میں آجاتے۔ جب اختلافات اور آپس میں شدید نفرتوں کا بیج بو دیا گیا تو۵۳۲ء میں اس نے حکم دیا کہ یہ سب ملک کے استحکام کے خلاف ہے، یہ روم سے دشمنی ہے اور یہ آج کے زمانے کی لغت کے مطابق دہشت گردی ہے اور ہمیں ا س کے ساتھ جنگ کرنا ہے۔۵۳۲ء میں اس نے پولیس کو لڑائی بند کرنے کا حکم دیا۔پولیس نے لوگوں کو روکنے کی کوشش کی تو فسادات پھوٹ پڑے اور آدھا قسطنطنیہ جلا کر راکھ کردیا گیا۔ لوگوں نے جسٹ نین سے بادشاہت چھوڑنے کا مطالبہ کردیا۔ اس نے جرنیلوں کا اجلاس بلایا اور کہا کہ میں کوئی بزدل نہیں جو حکومت چھوڑ دوں۔بس پھر کیا تھا،اس کا ایک جرنیل بیلی سیریس کوچہ وبازار میں نکل گیا اور تیس ہزار لوگوں کو قتل کرنے کے بعد اعلان کردیا اس نے امن بحال کردیا ہے۔ اس کے بعد اس نے ہرعلاقے اور ہر صوبے سے اٹھنے والی آواز کوخاموش کرنے، دبانے اور موت کے گھاٹ اتارنے کا ارادہ کرلیا۔ کبھی ونیڈیوں کے خلاف کارروائی کی تو کبھی گو تھوں کے خلاف ہر بڑے لیڈر ، رہنما اوراٹھنے والی آواز کو خاموش کردیا گیا۔
حیرت اس بات پر بھی ہے کہ وہ روم کی سلطنت کی از سر نو تعمیر، قوانین کی بہتری اور انتظامیہ کی اصلاح پر رات دن کام کرتارہا لیکن بحیثیت انسان اس کے اندر موجود ایک آمر اور ڈکٹیٹر نے اس کے ہاتھوں ایسے مظالم کرائے، اتنی بربریت کروائی کہ روم کی بنیادیں ہل گئیں۔یہ ظلم اور بربریت صرف اس لئے ممکن ہو سکی کہ اس نے روم کے بنیادی جمہوری اداروں کا قتل کیا۔ ایک زمانے تک روم کے شہریوں کو یہ احساس رہا کہ ملکی معاملات میں ان کا عمل دخل ہے لیکن پھر ان کا شہری معاملات بلکہ حکومتی معاملات سے تعلق ٹوٹ گیا، ان پر بادشاہ کا حکم نافذ کئے جانے لگا اور وہ رسوخ حاصل کرنے کے لئے کاسہ لیسی کرتے یا پھر دوسرے گروہ کو مار کر اس سے لڑ کے اوپر تک پہنچتے۔ آخرکار جسٹ نین کی یہ ظالمانہ ترکیب روم کے شہریوں کو جمہوریت اور سیاست سے بیزا ر کرگئی اورتھیسالونیکا کے شہری گرین ریس اور سلطنیہ کے شہری بلیور تھ ریس کے دیوانے بن کر زندگی گزارنے لگے۔ لیکن جیسے ہی جسٹ نین کو قبر میں اتارا گیا اس کی سلطنت تنکوں کی طرح بکھر گئی۔
ہر آمر اور ہرڈکٹیٹر کی ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ کاروبارسیاست سے اس قدر متنفر ہو جائیں ، اس سے اتنے خوفزدہ ہوجائیں کہ اس کا نام تک لینا گوارا نہ کریں۔ یہ جو چند آوازیں بلند ہوں انہیں دبا دیا جائے۔ پورے ملک میں خوف اور دہشت کا ایک ایساسکوت طاری کردیا جائے کہ لوگ اپنے گھروں میں بند ہوں تو عافیت سمجھیں۔ گروہوں کو آپس میں لڑا کر اتناکشت و خون ہو کہ پھر لوگ کسی گروہ بندی کی طرف حائل نہ ہوسکیں بلکہ امن عامہ کے نام پر ان دونوں لڑنے والوں کوکچل دیا جائے۔ایک ایسا ماحول جس میں لوگ صبح گھروں سے نکلیں،رزق کمائیں، شام کو کھیل تماشہ، ٹی وی،تھیٹر میں مگن ہوں میرا تھن ریس دیکھیں یا موسیقی کے کنسرٹ اور یوں اپنی زندگی بادشاہ، آمریا ڈکٹیٹر کے حکم پر گزارتے جائیں لیکن ہر ایسے آمر کی موت سے پہلے یا پھر موت کے ساتھ ہی حکومتیں بلکہ ملک صفحہ ہستی سے یوں مٹتے ہیں کہ ان کا نام و نشان تک باقی نہیں رہتا۔ملک ٹوٹنے تک، دشمن کے حملے تک، انار کی کے پھیلنے اور ملک پر قبضہ کرنے تک ہر آمر، ہر ڈکٹیٹر ،مطلق العنان بادشاہ یاجمہوریت کے نام پرمسلط حکمران یہی کہتے رہتے ہیں کیاہم بزدل ہیں جوچند دہشت گردوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں لیکن کسی کو خبر تک نہیں ہوتی اس طرح کے ظلم، بربریت اورآوازوں کو خاموش کرتے کرتے ملک گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔
کراچی کے حالیہ واقعات نے ساری قوم کودہلاکررکھ دیاہے کہ ملک کے سب سے بڑے ائیرپورٹ پردہشتگردوں کوروکنے میں ہم کیوں ناکام رہے؟ہاں اگر کوئی بات نہیں کر رہا تو وہ یہ ہے کہ بھاری ہتھیاروں سے مسلح لوگ حفاظتی حصار توڑ کر رن وے تک کیسے پہنچے؟کوئی نہیں بتا رہا کہ ہلکے ہتھیاروں سے مسلح ایئرپورٹ سیکورٹی فورس کے ارکان نے انتہائی مسلح، پروفیشنل اور سرفروش حملہ آوروں کو صرف ایک علاقے تک محدود کرنے کے لیے کیا قربانی دی؟ (مرنے والوں میں سے ۱۳/اے ایس ایف کے ارکان بتائے جاتے ہیں)۔
کوئی سوال نہیں اٹھا رہا کہ موجودہ حکومت نے جس طمطراق سے تمام متعلقہ اداروں کو ایسے مواقع پر یکجا کرنے کے لیے کاؤنٹر ٹیرر ازم اتھارٹی تخلیق کی ہے، وہ دور دور تک کیوں نظر نہیں آ رہی؟کس ادارے نے اس ابتلا سے نمٹنے میں اپنے اپنے طور پر کتنا کردار نبھایا، یہ واضح نہیں بس اسی پراکتفاکیاگیاکہ اسے مشترکہ کارروائی ہی کہا جائے۔ اچھا ہی ہے کہ اب تک حکومت نے ملک کے سب سے بڑے ایئرپورٹ کی اس طرح سے پامالی کے اسباب اور ذمہ داری کے تعین کی تحقیقات کے لیے کسی حاضر یا ریٹائرڈ جج کو نامزد نہیں کیا۔ اس سے وقت اور سٹیشنری کی خاصی بچت ہوگی۔ پہلے ہی بیسیوں کمیشنوں کی بیسیوں سفارشات کو دیمک کھا رہی ہے۔ کمیشن کس کس وارادت کے پیچھے ہانپے گا۔ویسے بھی دہشتگرد دماغ کی ورزش میں ریاست سے دو ہاتھ آگے ہی پائے گئے ہیں شائداسی لئے ڈرون حملے دوبارہ شروع ہوگئے ہیں۔کراچی کے حالیہ واقعات کے بعداب بھی کسی فیصلے پرپہنچنے میں کوئی رکاوٹ باقی ہے؟دوست دشمن کی تمیزاب توہوجانی چاہئے۔

«
»

قصہ در دسنانے پر مجبور ہیں ہم

ہماری وصیت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے