جو بہہ رہاہے عراق میں وہ اسلام کا لہو تو نہیں

نوری المالکی نے اگر دور اندیشی اور تدبر کا مظاہرہ کیا ہوتا اور عراقی سماج کے ہر طبقہ کو ساتھ لے کر چلے ہوتے تو شاید عر اق میں کچھ عرصہ بعد سیاسی استحکام آجاتا لیکن مالکی نے بدلا اور فتح کے گھمنڈ(Revenge and triumphism) کو اپنی حکومت کی پالیسی بنایا اور صدام حسین سمیت سیکڑوں لوگوں کو سر سری مقدموں کے بعدپھانسی پر لٹکا دیا جس کا رد عمل ہونا لازمی تھا دھیرے دھیرے کرکے یہ رد عمل مسلکی اختلاف اور پھر مسلکی تشدد میں بدل گیا امریکہ مالکی کے اس رویے پر کئی بار ناراضگی ظاہر کرچکاہے۔ القاعدہ نے اس صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عراق میں اپنے پیر جما لئے اور اس نے دہشت گردانہ حملوں کے ذریعہ امریکی فوجیوں اور شیعہ آبادی کو پے در پے نشانہ بنانا شروع کردیا 2013میں ابو بکر البغداد نامی القاعدہ کمانڈر نے القاعدہ سے علاحدگی اختیار کرکے ایک مزید شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ فی عراق و شامIslamic state in Iraq & syriaیاIsIs بنالی اور اس کے جھنڈے تلے جنگجوؤں کو اکٹھا کر عراق اور شام کے علاقوں پر مشتمل ایک نئے ملک کی تشکیل کے لئے جنگ شروع کردی ۔ شام میں بشر الاسد کے خلاف برسر پیکار آزاد شامی فوج سے گٹھ جوڑ کر کے اس تنظیم نے دونوں ملکوں کی حکومتوں کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔
عالم عرب میں اس وقت سب سے اہم مسئلہ شیعہ سنی تشدد ہے جس کا آغاز صدام حسین کے زوال سے شروع ہوا ۔ شام میں بشر الاسد عراق میں نوری المالکی کے خلاف سنیوں نے بغاوت کر رکھی ہے بحرین میں شیعوں کی بغاوت کو سعودی عرب کی مدد سے دبا تو دیا گیا ہے لیکن خود سعودی عرب میں بھی آگ سلگ رہی ہے صدام حسین کا قلع قمع کرکے امریکا نے عالم عرب میں بھڑ کے چھتے کو چھیڑ دیاہے اب وہاں امن اور سیاسی استحکام لانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے ۔ صدام حسین ہوں یاکر نل قذافی یہ سب ڈکٹیٹر تھے اور اپنی حکومت بچائے رکھنے کے لئے ان لوگوں نے عوام پر مظالم ضرور کئے لیکن یہ سب سیکولر تھے اور سیاسی حمایت کی قیمت پر سبھی طبقوں کو تحفظ اور ترقی کے مواقع فراہم کرتے تھے لیکن اب امن اور استحکام عالم عرب سے عنقا ہوگیاہے ۔ نوری المالکی کی حکومت کتنی کمزور ہے اس کا اندازہ اسی سے کیا جاسکتا ہے کہ آئی ایس آئی ایس کے حملوں کی تاب نہ لاکر عراقی فوج شہر در شہر پیچھے ہٹ رہی ہے اور اب باغیوں نے راجدھانی بغداد پر حملہ کرنے کی تیاری شروع کردی ہے ۔ مالکی کا واحد سہارا اب امریکا اور ایران ہے دونوں نے نوری المالکی کو مدد کی یقین دہانی کرائی ہے مگر دونوں ملکوں نے براہ راست اپنی فوج عراق بھیجنے سے انکار کردیاہے اطلاعات کے مطابق امریکہ ڈرون حملوں کے ذریعے مالکی کی کچھ مدد کرسکتاہے۔
یاد رہے سکیورٹی حکام نے بتایا تھا کہ کہ اسلامی شدت پسندوں نے موصل کے بعد سابق صدر صدام حسین کے آبائی شہر تکریت پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔ براک اوباما نے کہا کہ امریکہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ جہادی عناصر عراق میں قدم جمانے میں کامیاب نہ ہوں۔اوباما نے وائٹ ہاؤس میں آسٹریلیا کے وزیرِاعظم ٹونی ایبٹ کے ساتھ ملاقات کے بعد کہا کہ عراق میں مختصر مدت کے لیے فوری طور پر فوجی کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ میں عراق کے سفیر لقمان فیلی نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ حالیہ برسوں میں عراق کو ’انتہائی سنگین‘ صورتِ حال کا سامنا ہے۔ادھر عراقی پارلیمنٹ میں وزیرِ اعظم نوری المالکی کی جانب سے ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذ کے بارے میں ہونے والی رائے شماری کو ممبران کی مطلوبہ تعداد کم ہونے کی وجہ سے موخر کر دیا گیا۔عراقی پارلیمان کے 325 میں سے صرف 128 ارکان رائے شماری کے وقت پارلیمنٹ میں موجود تھے۔ سلامتی کونسل نے عراق میں شدت پسندوں کی جانب سے موصل اور تکریت پر قبضے کی شدید مذمت کی تھی۔اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کا کہنا تھا کہ عالمی برادری کو متحد ہو کر عراق کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کرنا چاہیے۔ بیروت میں بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق صوبہ نینوا پر دولتِ اسلامیہ کا کئی ماہ سے غیر رسمی کنٹرول تھا جس میں یہ تنظیم مقامی اہلکاروں سے بھتہ وصول کیا کرتی تھی۔
اطلاعات کے مطابق دولت اسلامیہ کو شام کے بڑے حصے اور مغربی و وسطی عراق پر کنٹرول حاصل ہے۔ عراق میں شدت پسندوں نے دو نئے قصبوں پر قبضے کے ساتھ اپنے کنٹرول کا دائرہ وسیع تر کر لیا ہے اور اب ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ دارالحکومت بغداد کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔سنی شدت پسندوں نے دیالہ صوبے میں سعدیہ اور جلولا کے قصبوں پر قبضہ کیا ہے اور مضافاتی علاقوں میں سکیورٹی اہلکار اپنی چوکیاں چھوڑ کر جا رہے ہیں۔یہ تنظیم اپریل سنہ 2013 میں عراق میں القاعدہ سے وجود میں آئی۔القاعدہ سے علیحدہ ہونے کے بعد یہ ایک بڑا جہادی گروپ بن کر سامنے آیا ہے جو شام میں سرکاری فوجوں کے خلاف برسرپیکار ہے اور عراق میں بھی سرکاری فوجوں کے مقابلے میں پیش قدمی کرتا جا رہا ہے۔اس کی اصل افرادی قوت کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ہزاروں جنگجوؤں پر مشتمل ہے جن میں بہت سے غیر ملکی جہادی بھی شامل ہیں۔ نامہ نگاروں کے مطابق یہ القاعدہ کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کا سب سے خطرناک گروپ بنتا جا رہا ہے۔اس تنظیم کی سربراہی ابوبکر بغدادی کر رہے ہیں۔ ان کے بارے ابھی بہت کم معلومات عام ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بغداد کے شمالی علاقے سامرا میں1971 میں پیدا ہوئے اور سنہ 2003 میں امریکی حملے کے خلاف شروع ہونے والی مزاحمت میں شامل ہوئے۔عراق کی وزارتِ داخلہ نے حال ہی میں ان کی ایک تصویر جاری کی ہے۔ 2010 میں وہ عراقی القاعدہ کے سرکردہ رہنما کے طور پر سامنے آئے اور بعد میں اس گروپ نے آئی ایس آئی ایس کا نام اختیار کر لیا۔ بغدادی میدان جنگ کے سالار اور منصوبہ ساز سمجھے جاتے ہیں اور مبصرین کے خیال میں یہ بات انھیں اور آئی ایس آئی ایس کو ایمن الظواہری اور القاعدہ کے مقابلے میں نوجوانوں کے لیے زیادہ پرکشش بناتی ہے۔ واضح رہے کہ ایمن الظواہری ایک عالم ہیں۔ لندن کے کنگز کالج کے پروفیسر نیومین کا کہنا ہے کہ مغربی ملکوں سے شام کی جنگ میں شریک ہونے والے 80 فیصد جنگجو اس گروپ میں شامل ہیں۔آئی ایس آئی ایس کا دعویٰ ہے کہ ان کی صفوں میں برطانیہ، فرانس، جرمنی اور دیگر مغر بی ملکوں کے علاوہ امریکہ، عرب دنیا اور کوہ قاف سے تعلق رکھنے والے جنگجو بھی ہیں۔شام میں دیگر باغی گروپوں کے برعکس آئی ایس آئی ایس عراق اور شام کے حصوں پر مشتمل ایک علیحدہ آزاد ریاست قائم کرنا چاہتا ہے۔
اس گروپ نے قابل ذکر فوجی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اس نے مارچ 2013 میں شام کے شہر رقہ پر قبضہ کر لیا تھا۔ باغیوں کے ہاتھوں میں جانے والا یہ پہلا صوبائی مرکزی شہر تھا۔جنوری سنہ 2014 میں اس نے عراق میں شیعہ حکومت اور سنی آبادی کے درمیان کشیدگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انبار کے صوبے میں واقع فلوجہ شہر کا کنٹرول حاصل کر لیا۔اس نے صوبائی دارالحکومت رمادی کے بڑے حصہ پر بھی قبضہ کر لیا اور شام اور ترکی کی سرحد کے قریب واقع کئی علاقوں میں اپنا اثر بڑھا لیا۔اپنے زیر اثر علاقوں میں اس کی ساکھ ایک انتہائی جابر قوت کے طور پر بن چکی ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ عراق کے دوسرے بڑے شہر پر اس کے قبضے سے پورے خطے کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔یہ گروہ شام میں دیگر جہادی گروپوں مثلاً النصار فرنٹ (جو القاعدہ سے منسلک گروہ ہے) سے علیحدہ ہو کر سرگرم ہے اور اس کے ان گروپوں سے تعلقات بھی کشیدہ ہیں۔بغدادی نے النصار کے ساتھ اپنی تنظیم کا ادغام کرنے کی کوشش کی تھی لیکن یہ کام نہ ہو سکا جس کے بعد سے دونوں گروپ علیحدہ علیحدہ کارروائیاں کر رہے ہیں۔ایمن الظواہری نے آئی ایس آئی ایس سے کہا تھا کہ وہ شام کو چھوڑ کر اپنی کارروائیاں عراق تک محدود رکھیں لیکن بغدادی اور اس کے جنگجوؤں نے القاعدہ کے سربراہ کی نافرمانی کرتے ہوئے شام میں بھی کارروائیاں جاری رکھیں۔شام میں رفتہ رفتہ دونوں گروپوں کے درمیان اختلافات میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور باغی گروہوں کے درمیان باہمی لڑائیاں بھی ہوتی رہیں۔ اس برس جولائی میں مغرب کے حمایت یافتہ اور اسلامی گروپوں نے مل کر آئی ایس آئی ایس کے خلاف یلغار کی تھی تاکہ انھیں شام سے نکالا جا سکے۔ اس لڑائی میں ہزاروں افراد مارے گئے تھے۔
سوال یہ ہے کہ قتل و خون کا سلسلہ کب تک چلتا رہے گا کیونکہ نہ عالم اسلام میں اور نہ ہی دنیا کے کسی ملک میں ایسا کوئی رہنما دکھائی دیتاہے جو اس آگ کو بجھانے کی مخلصانہ کوشش کر سکے۔ اقوام متحدہ امریکی مفاد کا نگہبان ہے تو اسلامی ممالک کی تنظیم (OIC) محض دکھاوے کی تنظیم ہے عرب لیگ خود اختلاف کا شکار ہے ہوسکتا ہے ایک آدھ دنوں میں عراق پر امریکی ڈرونوں کی بم باری شروع ہوجائے لیکن اس سے نہ تو القاعدہ ختم ہوا اور نہ طالبان اور نہIsisختم ہوگی۔ پوری دنیا میں پھیل رہا شیعہ سنی اختلاف نہ صرف مسلمانوں کے لئے بلکہ پوری انسانیت کے لئے بڑا خطرہ بن رہاہے

«
»

قصہ در دسنانے پر مجبور ہیں ہم

ہماری وصیت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے