عراق کا موجودہ بحران

دراصل امریکی فوجوں کو واپس بلانے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ امریکہ صہیونیوں کے دباؤ میں اسلامی قوتوں کو کچلنے اور مسلم ممالک کی دفاعی ،جغرافیائی،معاشی پوزیشن کو کمزور کرنے کیلئے نئے نئے حیلے اور بہانوں سے ایک کے بعد ایک مسلم ملکوں کو اپنی فوجی قوت کے زعم میں کچلتا چلا گیا جس سے اسکے دفاعی اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہوا اور خلیج کے اپنے شاہی ایجنٹوں کے خزانوں کے منھ کھول دینے کے باوجود اپنی معاشی بربادی کو نہیں روک پایا حد تو یہ ہو گئی کہ ایک امریکی شہرڈیٹرائٹ اس حد تک دیوالیہ ہو گیا کہ اس کی آدھی سے زیادہ آبادی شہر کو خالی کرکے دوسرے شہروں میں جا بسی ۔وہاں کی شہری انتظامیہ کے پاس بجلی اور پانی جیسے بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے لائق بھی رقم نہیں رہی۔مذکورہ شہر کی آبادی جو 1950 میں1850000 تھی وہ 2013 میں صرف 701000 رہ گئی تھی ۔
اوپر جن حقائق کو بیان کیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ عراق کی موجودہ صورت حال یعنی عراق کے اہم شہروں پر دولت اسلامیہ عراق و شام کے قبضہ کے بعد نو ری المالکی کی امریکی انتظامیہ سے مدد کی اپیل پر امریکہ ایک بار پھر عراق میں اپنی فوجیں اتار ے گا اور نو ری المالکی کی جنگ امریکہ لڑے گا یہ محض ایک خیال ہے۔اور اگر ایسا ہوگیا جس کے آثار کم ہی نظر آتے ہیں تب امریکہ شاید اپنے آخری انجام کو پہنچ جائے ۔یہ آخری انجام کیا ہوگا اس کو حالات کے بدلتے تناظر میں آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔اتنا تو ہو سکتا ہے کہ امریکہ عراقی فوج کی کچھ ہتھیار اور زیر زمین تخریبی سرگرمیوں سے کچھ مدد کرد ے جو کہ امریکی سی آئی اے نے موساد کی مدد سے مسلم ملکوں سے اہم سائنسدانوں اور اہم فوجی افسروں کو خفیہ طور پر قتل کرکے ماضی میں بھی انجام دیا ہے اور موساد کے پاس تو آرماگیڈون تک کیلئے اس کا خاکہ موجود ہے ۔ہوا یہ کہ جب امریکہ نے عراق پر حملہ کرکے صدام حکومت کا خاتمہ کردیا اور عراقی فوجیوں کی بچی کھچی قوتوں کو کچل کر رکھ دیا لیکن امریکیوں سے مزاحمت کرنے والوں نے اپنا طرز عمل بدل دیا اور ایک حکمت عملی کے تحت انہوں نے امریکی قیادت میں عراقی فوجیوں میں شامل ہوکر ٹریننگ لی اور با لکل بھی ظاہر نہیں ہونے دیا کہ جس القاعدہ کو ختم کرنے کا امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے خواب دیکھا تھا انہوں نے نئے روپ میں دولت اسلامیہ عراق و شام کی شکل لے لی ۔جن سے لڑنا عراقی فوجیوں کے بس کی بات نہیں ہے ۔کیونکہ حالات سے پتہ چلتا ہے اس دس لاکھ میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو داعش کے وفا دار ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ یہ خبر آرہی ہے کہ عراقی فوجی چوکی خالی کرتے جارہے ہیں داعش کے رضاکار شہر در شہر قبضہ کرکے اپنی حکومت کا اعلان کررہے ہیں ۔ 
مذکورہ بالا حالات اور داعش کی پیش قدمی سے سب سے زیادہ انقلاب اسلامی کاعلمبردار ایران خوف زدہ ہے۔اس کی وجہ وہی مسلکی منافرت ہے جس نے امت کو ٹکڑوں میں بانٹ رکھا ہے اور جس کی وجہ سے امت اپنا وقار کھوتی جارہی ہے ۔تین سال قبل تک تو کسی حد تک ایران سے متعلق لوگوں کو یہ خوش فہمی تھی کہ ایران واقعی اسلامی انقلاب کا ہر اول دستہ ہے اور وہ امت کی سربراہی کے لائق اور قائدانہ صلاحیت رکھنے والا ملک ہے ۔لیکن یہ خوش فہمی اس وقت کافور ہو گئی جب ایران نے شام میں بشار الاسد کی ظالمانہ کارروائیوں کی نہ صرف حمایت کی بلکہ اس کی مدد بھی کی اور شام کی عوامی تحریک کو کچلنے میں بشار رجیم کی مدد کی ۔اب ایک بار پھر ایران اسی جذبے کے ساتھ نو ری المالکی کی حکومت کو بچانے کیلئے امریکہ کی مدد کو تیار ہے جسے انقلاب اسلامی ایران کے بانی امام خمینی نے شیطان بزرگ کہا تھا ۔اس سے قبل بھی امریکہ جب افغانستان میں شمالی اتحاد کی قیادت میں طالبان کی حکومت کے خاتمہ کیلئے داخل ہوا تھا جب بھی ایران شمالی اتحاد کے ساتھ تھا ۔یعنی امریکہ کی جب بھی ایران نے مدد کی تھی ۔ لیکن اب تک کچھ لوگ اور تنظیمیں ایسی ہیں جو ان حقائق سے آنکھیں بچاکر وہی پرانا راگ الاپتے رہتے ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا کے بدلتے ہوئے سیاسی تناظر کو سمجھا جائے ۔محض کسی خوش کن نعروں سے متاثر ہو کر کسی کی ایمانداری اور اسلامی انقلاب کا نقیب نہ سمجھا جائے ۔ایسا ہی کچھ معاملہ سعادی عرب میں آل سعود کا بھی ہے کہ وہ بھی اپنی خاندانی حکومت کو بچانے کی فکر میں شام میں تو عوامی تحریک کی حمایت کرتے ہیں لیکن مصر میں اسی عوامی تحریک کو سبوتاژ کرنے 
کی سازش میں شریک ہوتے ہیں۔امت کو ان دونوں جگہوں ہونے والی سیاسی تبدیلی اور ان کے مفادات کا بغور جائزہ لینا چاہئے۔

«
»

نیپالی زندہ بھگوان کماری جس کے پاؤں زمین پر نہیں پڑتے

کوئی جہاں میں اُردو کو مٹا نہیں سکتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے