کیا سیاسی نتائج مسلم پرسنل لاء بورڈ کو فعال کرسکیں گے؟

لیکن اب ایک ایسی شکل میں انھیں دیکھنا پڑے گا جہاں اقتدار کی چابی ان ہی طاقتوں کے پاس ہے۔ ویسے یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے بلکہ این ڈی اے کے دور اقتدار میں مسلمانوں نے اس مرحلے کو دیکھا ہے لیکن تب اور اب میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ اس وقت بی جے پی کی اکیلے حکومت نہیں تھی اور این ڈی اے کا کنبہ کامن منیمم پروگرام کے تحت وجود میں آیا تھا، اس بار اس طرح کی کوئی مجبوری نہیں ہے۔ بی جے پی کو اکیلے اتنے سیٹیں ملی ہیں کہ وہ بغیر کسی شراکت کے باآسانی حکومت چلا سکتی ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ سیاسی پلیٹ فارم نہیں ہے لیکن اس کے بعض اراکین کی جس طرح سیاست میں دلچسپی ہے اس کو دیکھتے ہوئے اکثر و بیشتر اس کے سیاسی استعمال ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جاتا رہا ہے اور کئی بار تو بورڈ کے ذمہ داروں کی جانب سے جس طرح اراکین پر گرفت کرتے ہوئے انھیں متنبہ کیا جاتا ہے اس سے ان خدشات کو تقویت ملتی ہے۔
مسلم پرسنل لاء بورڈ کی رکنیت کو لے کر اکثر یہ اعتراض سامنے آتا ہے کہ بورڈ سماج کے سبھی طبقوں اور سبھی مسالک کی نمائندگی کے بجائے کچھ ناموں کو بطور نمائش شامل کرتا ہے حتیٰ کہ کروڑپتی علماء دین کو شامل کرتا ہے جن کی دلچسپی اپنی قوم سے زیادہ خود کی نمائش اور فلاح و بہبود ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر مظاہرالعلوم سہارنپور کے سکریٹری مولانا سید محمد شاہدالحسینی اور کٹیہار میڈیکل کالج کے اشفاق کریم ہیں جو بورڈ کے رکن ہیں اولذکر وقف پر قبضہ کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں اس کے باوجود بورڈ نے انھیں لینے سے گریز نہیں کیا۔ اشفاق کریم کٹیہار میڈیکل کالج گھوٹالے میں جیل گئے لیکن بورڈ نے ان کی رکنیت رد نہیں کی۔ بورڈ نے ایسا نہ کرکے اس بات کا ثبوت دیا کہ وہ ان الزامات کے تئیں اسی طرح بے نیاز ہیں جس طرح سیاسی پارٹیاں اپنے لیڈروں کے تئیں ہوتی ہیں کیونکہ اگر بورڈ اقدار پر مبنی رکنیت کی بات کرتا تو یقیناًاسے ایسے لوگوں کو رکن بنانے سے پرہیز کرنا چاہیے تھا۔
مسلم پرسنل لاء بورڈ کا دائرہ کار صرف مسلمانوں کے عائلی قوانین ہیں اس لیے اس کا دائرہ بھی محدود ہے لیکن کیا بورڈ ملک میں آئی تبدیلی سے کوئی سبق حاصل کرے گا۔ ملک کی یہ تبدیلی جس کو نظریاتی تبدیلی کا نام دیا جارہا ہے کو لانے میں نئی نسل کا بڑا رول ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پارٹی کے دونوں بوڑھے شیر لال کرشن اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی اقتدار کے گلیارے سے باہر ہوگئے۔ بورڈ میں اکثریت اسی عمر کے لوگوں کی ہے اور ذمہ داران کی عمریں بھی اس سے کم نہیں ہیں۔ نئی نسل کے لیے بورڈ کے پاس کوئی ایکشن پلان ہے اس کا اب تک کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔ عہدے امانت کے طور پر دیے جاتے ہیں لیکن ایک بار عہدہ حاصل ہوجانے کے بعد کندھا خواہ کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہوجائے، امانت سے دستبرداری دین میں خرد برد مانی جاتی ہے اس لیے بورڈ کے عہدہ تاحیات ہوتے ہیں اور جنازہ اٹھنے کے بعد ہی وہ جگہ خالی ہوتی ہے۔ یہ صورتحال نہ تو اسلامی مزاج کے مطابق ہے اور نہ ہی سماجی و ملکی حالات کے تناظر میں کسی بھی طرح مناسب ہے۔ امانتی عہدوں پر چپکے رہنے سے جہاں دوسری صف کے لیڈروں کو آگے بڑھنا موقع نہیں ملتا وہاں اندرونی طور پر انتشاری کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ بورڈ بھی ایسی ہی انتشاری کیفیت سے دو چار ہے خواہ اس کے ذمہ داران اس کی تردید کیوں نہ کریں۔ لیکن سچائی یہی ہے کہ جس کو بھی جو جگہ مل گئی ہے وہ اسے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس تعلق سے کس طرح کی سیاست اندرونی سطح پر چلتی ہے اس کا اندازہ اس ایک واقعہ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ کولکاتہ میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اجلاس میں بورڈ کے رکن مولانا ولی رحمانی نے تقریر کرتے ہوئے اپنی بیماری کا ذکر کیا اور کہا کہ وہ بورڈ کی ذمہ داریوں سے الگ ہونا چاہتے ہیں تاکہ نئی نسل کو آگے بڑھنے کا موقع ملا۔ تالیوں سے ان کی تجویز کا سواگت کیا گیا۔ موصوف جب تقریر کرکے باہر نکلنے لگے تو میں اور میرے ایک صحافی دوست نے انھیں اس کے لیے مبارکباد دی تبھی میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے واقعی اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے تو انھوں نے آگے بڑھتے ہوئے میرا ہاتھ دبایا اور کہا کہ یہ سوال پوچھا نہیں کرتے۔ دراصل ان کا اشارہ تھا کہ ایسا انھوں نے بورڈ پر دباؤ بنانے کے واسطے کیا ہے تاکہ بوڑھی قیادت اس جگہ کو خالی کرے۔ اطلاعات کے مطابق جلگاؤں کے اس اجلاس میں اسی منظرنامہ کو پوری پلاننگ کے ساتھ دہرانے کے امکانات پر کام چل رہا ہے۔ یہ منصوبہ کامیاب ہوگا یا نہیں، اس سے قطع نظر عہدہ حاصل کرنے اور عہدہ نہ چھوڑنے کی خواہش کے بدرجہ اتم ہونے کا صاف ثبوت ملتا ہے۔ اسے یہ کہہ کر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی ہلکے میں لیا جاسکتا کہ بورڈ کے لوگ بھی اسی سماج کا حصہ ہیں اور یہ سب فطری خواہش ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ بورڈ کے دستور میں اس طرح کی کوئی گنجائش کیوں نہیں رکھی گئی جس سے کسی کی حیات میں ہی تبدیلی اقتدار ممکن ہوسکے اور دوسری صف کے لوگوں کو بھی آگے بڑھنے کا موقع ملے۔
آل انڈیا پرسنل لاء بورڈ نے ’مجموعہ قوانین‘ تیار کراکر اس کو شائع کیا۔ جس پر یہ اعتراض کیا گیا کہ اس میں ہندوستان کے سبھی مکاتب فکر مثلاً شیعہ، بوہرہ اور اہلحدیث وغیرہ کے مسلک کو بھی شامل کیا جائے تاکہ اس کی حیثیت مستند ہوسکے۔ اس کام کو بورڈ نے اسلامک فقہ اکیڈمی کے جنرل سکریٹری و رکن بورڈ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کے حوالے کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ تین سال قبل جو کام ان کے ذمہ کیا گیا تھا اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ دلچسپ بات یہ کہ یہی ’مجموعہ قوانین‘ دہلی بورڈ آفس اور مونگیر دونوں جگہ سے شائع ہوتا رہا لیکن کسی ارکان نے اس پر سوال نہیں اٹھایا کہ وہ اس پر دو جگہ سے خرچ کیوں کیا جارہا ہے؟ کیا بورڈ کے اراکین اتنے معصوم ہیں کہ انھیں اس کی خبر نہیں یا وہ پوچھ کر خود کو نکّو نہیں بنانا چاہتے۔ دونوں صورتیں بورڈ کی منشاء کے خلاف ہیں۔ جو لوگ اپنے گھر کا احتساب نہیں کرسکتے وہ معاشرے کی اصلاح کیونکر کرسکیں گے، پر سبھی کا اتفاق ہے۔
اترپردیش میں زرعی آراضی میں سے مسلم خواتین کے حصہ کو حکومتی سطح پر ختم کردیا گیا۔ بورڈ نے اس کے لیے ایک کمیٹی ظفریاب جیلانی کی قیادت میں بنائی تاکہ وہ صورتحال کا جائزہ لے کر اپنی رپورٹ دے اور اس کے مطابق بورڈ آگے کا لائحہ عمل طے کرے۔ موصوف نے کوئی رپورٹ نہیں دی اور ایک عرصہ کے بعد بورڈ نے پھر ایک کمیٹی اس کام کے لیے بنائی جس کی ذمہ داری بھی انہی کو دے دی۔ گزشتہ 20 سال کے عرصہ میں یہ دوسری بار کمیٹی بنی جس کا ذمہ دار ایک ہی شخص کو بنایا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا بورڈ اپنے فیصلے اور رپورٹوں کو بھی نہیں پڑھتا ہے۔ کیا بورڈ کے ذمہ داران کا یہ رویہ بورڈ کی فصالیت کا ثبوت ہے؟ بورڈ کے ذریعہ ملک کے مختلف حصوں میں دارالقضاء کا نظم چلایا جارہا ہے۔ لیکن بورڈ نے آج تک اس کا کوئی سروے نہیں کرایا کہ ان دارالقضا سے اب تک کتنے مقدمات فیصل ہوئے؟ اور نہ ہی اس کے لیے اس نے کوئی دستور بنایا کہ قاضی کس طرح بنایا جائے گا، اسے کس طرح ہٹایا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی کوئی قاضی کو appoint کرتا ہے تو کبھی کوئی۔
سب سے اہم مسئلہ خلع کا ہے۔ اس تعلق سے کافی شکایتیں بھی آرہی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ خلع کے معاملے جب دارالقضاء میں آتے ہیں تو اس بات کی کوشش ہوتی ہے کہ کم از کم خلع کے واقعات ہوں کیونکہ حنفی مسلک کے لحاظ سے خلع خواتین کا بنیادی حق نہیں ہے جب کہ مالکی مسلک میں ہے۔ دارالقضا میں خلع کا مطالبہ کرنے والی خواتین سے گواہ اور ثبوت پیش کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے جب کہ مالکی مسلک میں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بہت سے دارالقضاء ایسے ہیں جہاں خلع کا مقدمہ اسی صورت میں قبول کیا جاتا ہے جب عدالت سے لڑکی اپنا مقدمہ واپس لے۔ لڑکا داراقضاء کے سمن کو قبول نہیں کرتا ہے ایسی صورت میں کیس کردیا جاتا ہے یا پھر قاضی لڑکی کو طلاق کا حق دے دیتا ہے کہ میں خود طلاق دے رہی ہوں تاکہ الگ ہوسکوں۔ ایسی صورت میں قاضی کا کیا رول ہے؟ جیسے ایشوز ہنوز تشنہ ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ بورڈ جن حالات میں اپنی میٹنگ کررہا ہے اس میں صرف سیاسی چمک دمک پر ہی توجہ مرکوز رہے گی یا اپنی کمیوں کو بھی دور کرنے اور نئی نسل کو سامنے لانے کی بھی کوئی سنجیدہ کوشش کی جائے گی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ایک مثبت پہل ہوگی بصورت دیگر مسلمانوں کا متحدہ اور مشترکہ پلیٹ فارم کی تکرار محض گردان بن کر ہی نہ رہ جائے، کے خدشہ کے مسترد نہیں کیا جاسکتا ہے۔

«
»

ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟

بھارت کا فارسی گو شاعر…مرزا عبدالقادر بیدلؔ ؔ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے