ابھی تو تلخیِ کام و دہن کی آزمائش ہے!

اورانھیں اقلیتوں،خاص طورسے مسلمانوں سے کتنی گہری کدہے؛حالاں کہ کانگریس پر مسلم نوازی اور مسلم علما کو ہموار کرنے جیسے الزامات لگانے کے بعد خود بی جے پی سربراہ راج ناتھ سنگھ نے بھی لکھنؤمیں چند مولاناؤں سے ملاقات کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ ان کی پارٹی اب مسلمانوں کے حوالے سے پہلے جیسا رویہ نہیں رکھتی ہے،اسی طرح دہلی میں اردو صحافیوں کے ساتھ ہرش وردھن نے خصوصی ملاقات کرکے بھی یہی باورکرانے کی کوشش کی،وزیراعظم کے امیدوار نریندرمودی بھی یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ وہ جب بنارس جائیں گے اور مسلمانوں سے براہِ راست ملیں گے،تو مسلمان ان سے خوش ہوجائیں گے،مگراولاًخودپارٹی کی مرکزی قیادت کی طرف سے ایسے رویے کا اظہار کیا گیا،جو مسلمانوں کے سنجیدہ طبقے کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ بی جے پی اپنے انتہا پسندانہ افکار اورشبیہ سے لاکھ دامن چھڑاناچاہے اور سیکولرزم کے ہزاردعوے کرے،مگر اس کے اندرون میں اقلیتوں(مسلمانوں)کے تئیں تنفر،عداوت اور تحقیرکے جو جذبات اورہندوستان کو ہندو راشٹربنادینے کا آرایس ایس کادیا ہواجو نصب العین اس کے پاس ہے،اس سے وہ باہر نہیں نکل سکتی،ہوسکتا ہے کہ انفرادی طورپر کچھ زعفرانی لیڈران بھی سیکولر نظریات رکھتے ہوں،مگر ہاں عملی سطح پر وہی ہوگا،جو پارٹی کے اصل نقشۂ کار میں طے کیا گیا ہے؛چنانچہ جہاں اس بار بی جے پی نے روایت سے بغاوت کرتے ہوئے اپنے انتخابی منشور میں مسلمانوں کی بہبود سے متعلق بھی کچھ موضوعات مثلاً:مدرسہ جدید کاری،ان کی لڑکیوں کا تعلیم یافتہ بنانے کے انتظامات کرنااوراردوکے تحفظ وغیرہ کو اپنے منشور میں شامل کیا،وہیں اپنے اصل ہندوتونظریے پر برقراررہتے اور اس کا اظہار کرتے ہوئے اس نے عرصے سے متنازع فیہ یکساں سول کوڈ،رام مندرکی تعمیر اورجموں و کشمیر سے متعلق آرٹیکل ۳۷۰کی منسوخی کوبھی شاملِ منشور کرنا نہیں بھولی۔
پھردوسری جانب اعلیٰ سے لے کر ادنیٰ سطح تک کے اس کے ایسے لیڈروں کی بھی لمبی فہرست بنتی جارہی ہے،جو ملک کے طول و عرض میں انتخابی فضا کو فرقہ وارانہ رنگ و آہنگ دینے میں سرگرم ہیں،یہی نہیں،ان میں سے کئی ایک’’جیالے‘‘تو ایسے ہیں،جوباقاعدہ الیکشن کے بعد مسلمانوں سے نمٹنے کی بات تک کر رہے ہیں،اشاروں کنایوں میں بھی اور جب ہندوتواجوش اُپھان مارتا ہے،تو علانیہ بھی،چوں کہ میڈیا کی منظم ماحول سازی اور ہنگامہ پروری کی وجہ سے شاید سارے ہی بی جے پی والے اِس غلط فہمی میں مبتلا ہوچکے ہیں کہ ۱۶؍مئی کے بعد بس ان کی ہی حکمرانی کا دورآنے والا ہے؛اس لیے بھی اُن کی زبانیں گز گز بھر کی ہوئی جارہی ہیں اوروہ وہ سب کچھ بک رہے ہیں،جو ان کے خبیث ذہن میں آرہاہے،الیکشن کے موسم میں سنگین فرقہ وارانہ بیان بازی کی شروعات دہلی میں بی جے پی کی انتخابی کمیٹی کے چیرمین وجے کمار ملہوترا سے ہوئی،جنھوں نے۲۵؍مارچ کو کثیر مسلم آبادی والے علاقے جامعہ نگر اور اوکھلا کے حوالے سے کہا تھا کہ یہ دہشت گردی کا گڑھ ہے اور اس علاقے میں پولیس کے لیے بھی کام کرنادشوار ہوگیا ہے؛حالاں کہ پورا ملک جانتا ہے کہ دہلی پولیس کے لیے’’کام کرنا‘‘سب سے زیادہ آسان یہیں ہے،وہ جب چاہتی ہے،اس علاقے کے کسی بھی نوجوان کے گریبان میں ہاتھ ڈالتی اوراسے نذرِ حوالات کردیتی ہے ،کسی کو کوئی سن گن تک نہیں لگنے نہیں دیتی اور اگر اسے اپنا کام کرنے میں ذرابھی دشواری محسوس ہوئی،توانکاؤنٹرکاسرکاریحق استعمال کرنے کا بھی موقع اُسے یہیں ملتا ہے،اس کے با وجود ملہوترانہ معلوم دہلی پولیس سے کیا چاہتے تھے،شاید یہ کہ روزانہ کے حساب سے یہاں سے مسلم نوجوان اٹھائے جاتے اور پسِ دیوارِ زنداں بھیجے جاتے رہیں،اس کے بعد اپریل کے پہلے ہی ہفتے میں بی جے پی کے دو دگج لیڈروں نے عجیب و غریب قسم کے بیانات دیے،ان میں سے ایک تو یوپی میں بی جے پی کی انتخابی کمان سنبھالنے والے امت شاہ تھے اور دوسری تھیں راجستھان کی وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے،شاہ نے مظفر نگر کے نواح میں انتخابی مہم کے دوران جاٹوں سے ملاقات کی اور انھیں بی جے پی کو ووٹ دینے کے لیے انگیخت کرتے ہوئے کہا کہ مظفر نگرفسادات کے دوران تمھارا جو اپمان ہواہے،اگر اس کا بدلہ لینا چاہتے ہو،تو تمھیں بی جے پی کو حمایت کرنا ہوگا،ہم تمھارے اپمان کا انتقام لیں گے،دوسری طرف وسندھرا نے راجستھان کے ایک گاؤں کی انتخابی ریلی کو خطاب کرتے ہوئے کانگریسی امیدوار عمران مسعودکے ایک بیان کے حوالے سے مسلمانوں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کے بعد معلوم ہوگا کہ کون کس کے ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہے، اب اس فہرست میں ایک اور سرپھرے کا نام جڑگیا ہے،انھیں مودی سے عقیدت کا سرطان ہوگیا ہے اور اسی سرطان کے زیرِ اثر انھوں نے جھارکھنڈ میں ایک انتخابی ریلی میں یہاں تک کہنے سے گریز نہیں کیا کہ الیکشن کے بعد مودی مخالفین کو ہندوستان سے نکلنا پڑے گا،ممبئی میں مودی کی موجودگی میں شیوسینا لیڈررام داس کدم نے کہا کہ مودی حکومت میں آنے کے بعد چھ ماہ کے اندر پاکستان کا صفایا کردیں گے،ایم این ایس سربراہ راج ٹھاکرے،جن کی این ڈی اے شمولیت پر کافی کھینچا تانی کا ماحول بنا رہاتھا،وہ ذاتی طورپر صرف مودی کے پرستار ہیں اور ان کی سرِ عام تعریفیں بھی کرتے ہیں،مگر ساتھ ہی وہ مشرقی ہندوستان والوں کو انتخابی جلسوں میں بھی نشانہ بنانے سے نہیں چوکتے،نیتاؤں کی ان ہی بیہودہ گوئیوں کے دوران۲۱؍اپریل کو مودی جی کے گجرات سے ایک خبر ہندوستانی مسلمانوں سے سب سے زیادہ خار کھانے والے وشو ہندو پریشد کے سپریمو پروین توگڑیاکے تعلق سے آئی،انھوں نے گاندھی نگر کے کثیر ہندو آبادی والے علاقے میں ایک مسلم صنعت کارکے مکان خریدنے پر نہ صرف سخت ردعمل کا اظہار کیا؛بلکہ اپنی پارٹی اور بجرنگ دل کے لفنگوں کے ذریعے اس مسلمان کے گھر کے باہر باقاعدہ ہنگامہ کروایا،اسے اڑتالیس گھنٹے کا الٹی میٹم دیا گیا کہ وہ گھر چھوڑ کر بھاگ جائے،ورنہ زبردستی گھر پر قبضہ کرکے اس پر بجرنگ دل اور وی ایچ پی کے بورڈ لگادیے جائیں گے،اتنا ہی نہیں،جناب نے پوری جرأت مندی کے ساتھ یہ اعلانِ عام بھی کیا کہ جہاں بھی ہندواکثریتی علاقوں میں مسلمان بستے ہیں،وہ اپنے گھر چھوڑ کر چلے جائیں،توگڑیا کے اس زہر ناک بیان کی جہاں دیگر سیاسی و غیر سیاسی جماعتوں نے منہ بھر بھر کے مذمت کی، وہیں بی جے پی نے اس پر بھی دفاعی پوزیشن اختیار کی اور اپنے پراسراررویے سے اس کی حوصلہ افزائی ہی کی۔
دوسری طرف چوں کہ لوک سبھا کی خاصی سیٹوں پر ابھی بھی پولنگ کا مرحلہ باقی ہے اور یہ سارے ہندوستان میں پھیلی بھی ہوئی ہیں،خودیوپی کے بنارس میں،جہاں مودی کی قسمت کا فیصلہ ہونا ہے۱۲؍مئی کو پولنگ ہے؛اس لیے ذاتی طورپر نریندر مودی اپنے ان ’’بکّو‘‘عقیدت مندوں کی طرف سے وکیلِ صفائی بن کر آگئے ہیں اور گو انھوں نے انٹرویو کی شکل میں یا کسی ریلی وغیرہ میں ان کے بیانات سے براء ت کا اظہار نہیں کیاہے،مگرٹوئٹ کرکے عوام سے ان کی باتوں پر دھیان نہ دینے کی اپیل ضرور کی ہے،وہ سمجھتے ہیں کہ ابھی جو مرحلہ چل رہاہے،وہ حد ردجہ نازک ہے اور اس میں آنے والا ادنیٰ انقلاب بھی قیامت خیز ثابت ہوسکتا ہے،ہو سکتا ہے کہ بقیہ مرحلوں میں مسلمان متفقہ طورپر بی جے پی کے خلاف ووٹنگ پر متفق ہوجائیں اور ان کا کھیل بگڑ جائے؛اس لیے وہ ان لیڈروں پر سے لوگوں کی توجہ ہٹانا چاہتے ہیں؛مگر بہر حال خود ان ہی کے خیمے کے لوگ جس طرح مسلسل مسلمانوں کے زخموں کو کریدرہے ،ان کے جذبات کوآزردہ کررہے اور ان کے دلوں میں آیندہ دنوں کے حوالے سے احساسِ خوف پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،یقیناً اس کا بہت زیادہ اثر پڑے گا اور پڑبھی رہاہے ،جومسلمان کانگریس کی منافقانہ پالیسیوں اور دوہرے طرزِ عمل سے اُوب کر کسی دوسرے سیاسی متبادل کی تلاش میں تھے ،وہ عام آدمی پارٹی کو تو ترجیح دے رہے ہیں،مگر بی جے پی کی حمایت ان کے لیے قطعاً نا قابلِ تصور ہے اور خارج میں اس کی دلیلیں بھی امت شاہ،وسندھرا راجے،گری راج سنگھ،رام داس،راج ٹھاکرے اورگجرات فسادات میں خود مودی کے ہلاکت ناک رول کی شکلوں میں موجودہیں۔

«
»

حماس اور فتح میں مفاہمت

آر ٹی آئی ایکٹ عوام کو بہلانے کا ذریعہ ؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے