دورِ جدیدکااستعمارمیدان میں

مصرمیں منتخب حکومت کوجبراً معزول کرکے استعماریت اورصہیونیت نے مل کر جمہوریت کی صف لپیٹی۔کچھ عرصے بعدایک اورانقلاب برپاہوا،اس بارفوج نے حکومت کاتختہ نہیں الٹابلکہ پارلیمنٹ حرکت میں آئی۔یوکرائن کی پارلیمنٹ نے ۲۲فروری کومنتخب صدروکٹریاناکووچ کی حکومت کاتختہ الٹ دیا۔وکٹریاناکووچ نے روس کے ایک شہرمیں جلاوطنی کے دوران سیاسی بحران کے حوالے سے کمزوری دکھانے پرمعذرت چاہی مگرتب تک بہت دیرہوچکی تھی۔ان کی پارٹی نے انہیں قبول کرنے سے انکارکردیا۔پارلیمنٹ نے دوسرے اقدام کے طورپرسابق وزیراعظم اوروکٹریاناکووچ کے شدیدترین حریف یولیاٹائمو شینکوکورہاکردیا۔ان کی رہائی یورپی یونین کی رکنیت کیلئے یوکرائن کے سامنے رکھی جانے والی شرائط میں شامل تھی۔
یوکرائن میں اتھارٹی کمزورپڑتے ہی پہلے سے خودمختارعلاقے کریمیاکاروس سے جاملناحیرت انگیزنہ تھا۔کریمیانے اعلان کیاکہ وہ روس کے ساتھ جئے گا۔خلیج عدن میں نیٹو فورسز کے ساتھ مشقوں میں مصروف یوکرائن کے فریگیٹ ہٹیمین سہداچنی نے یوکرائن کے دارلحکومت خیف سے احکام لینے سے انکارکردیااورسمفیروپول جاتے ہوئے روسی بحریہ کاپرچم لہرا دیا۔روسی افواج نے کریمیاکے تین بحری اڈوں کوگھیرکریوکرائن کے فوجیوں کوہتھیارڈالنے کاحکم دیا۔کریمیاکے باشندوں نے ریفرنڈم میں طے کرلیاکہ وہ یوکرائن کاساتھ نہیں دیں گے ،روس کے ساتھ رہیں گے۔قبل ازیں اطلاعات کے مطابق یوکرائن کی فوج کے بہت سے اعلیٰ افسران نے حکومت کی تبدیلی کویکسرمستردکرتے ہوئے کریمیاکی خود مختار ریاست کاساتھ دینے کااعلان کردیا۔یوکرائن کے قائمقام اولینیدرٹرچینوف نے یوکرائن بحریہ کے نئے سربراہ ڈینسبیریزووسکی کی جانب سے کریمیاسے وفاداری کاحلف مسترد کرتے ہوئے ان کے اس اقدام کوغداری سے تعبیرکیا۔ یوکرائن کے قائمقام وزیراعظم آریسنی یاٹینیک نے تونیول کمانڈربیریزووسکی کے کریمیاسے وفاداری کے حلف کوجنگ کے اعلان کے مساوی قراردیامگرسوال اٹھاکہ کیاواقعی روسی مداخلت واقع ہوئی ہے یاتحفظ فراہم کے نام پرمہم جوئی؟
سابق یونین کی تحلیل کے بعدمغرب نے جونیانظام متعارف کروایا،وہ افغانستان،عراق ،مصراوریوکرائن پرتھوپاگیاہے۔اس نئے عالمی نظام میں کوشش یہ کی گئی ہے تمام(کمزور) ممالک اپنی منڈیاںآزادمعیشت کے اصولوں کے مطابق کام کرنے کیلئے کھول دیں،یہ تجارت ڈالرمیں ہونی ہے،صدریاوزیراعظم کمزورہوناچاہئے۔سیاسی عدم استحکام یقینی بنایاجاناہے تاکہ امریکااوریورپ کیلئے اپنے تمام مقاصد کاحصول ممکن ہو۔معاملات کوفری میڈیاکے ذریعے کنٹرول کیاجاتاہے۔یہ فری میڈیانجی ملکیت میں ہیں۔بیشترمعاملات غیر سرکاری تنظیموں کے ہاتھ میں دے دیئے جائیں یعنی کسی بڑی اورفیصلہ کن اتھارٹی کی بجائے چھوٹی چھوٹی خودمختاراکائیوں کوسیاہ وسفیدکامالک بنادیاجائے۔مغرب جمہوریت کاراگ الاپتے ہوئے نہیں تھکتامگرجب بات مفادات کی ہوتواسے آمریت بھی قبول ہے خواہ متعلقہ معاشروں کوکچھ بھی حشرہو۔
کبھی کبھی چندایک ریاستیں مغرب کے منصوبوں کی راہ میں رکاوٹ بن کرکھڑی ہوجاتی ہیں۔جنوبی امریکامیں وینزویلااورایشیامیں ایران اس کی واضح مثال ہیں۔وینزویلاکے آنجہانی صدرہیوگوشاویزنے کسی بھی مرحلے پرامریکاکے سامنے سرتسلیم خم کرنامناسب نہیں جانااورمرتے دم تک امریکی سامراج کی ڈٹ کرمخالفت کی۔یہی حال ایرانی قیادت کا رہا ،اس نیابتدامیں سخت معاشی پابندیوں کے باوجودامریکاکی پالیسیوں کوتسلیم کرنے پررضامندی نہیں دکھائی اوراب حال ہی میں افغانستان کے معاملے پرامریکاکوجب ایران کی ضرورت پڑی توایران نے اپنے مفادات کے کارڈاپنے تئیں بہترین طریقے سے استعمال کرنے کی پوری کوشش کی لیکن جب کبھی کوئی اور طاقت اپنے آپ کومنوانے پرتل جاتی ہے تومغرب میں بھی سبھی چیخ اٹھتے ہیں۔روس نے یوکرائن کے معاملے میں طاقت دکھائی توامریکااورسارایورپ چیخ اٹھا۔میڈیاکی ہیڈلائنزنے روس کے اقدامات کوانتہائی غلط ٹھہرایا ۔روس پر لازم ساہوگیاتھاکہ یوکرائن میں سیاسی اورمعاشی اعتبارسے پیداہونے والے خلاء کوپرُکرے ۔ایسانہ کرنے کی صورت میں پوراخطہ عدم توازن اورعدم استحکام کا شکار ہو سکتا تھا۔ جزیرہ نماکریمیاجغرافیائی طورپرروس سے جڑاہواہے ،بحیرۂ اسودمیں وہ روس کااہم لیٹ آؤٹ ہے اوریہاں کی آبادی میں روسی نسل کے لوگ نمایاں ہیں۔
یوکرائن ہراعتبارسے روس سے جڑاہواہے ،کبھی یہ روس کابڑابھائی تھا۔نویں سے تیرہویں عیسوی صدی تک روس،یوکرائن اوربیلاروس نے مل کرخطے کے معاملات کوکنٹرول کیا۔ اس کے بعد سات صدیاں ملے جلے اثرات کی حامل رہی ہیں۔تاتاریوں کے حملوں کاسامنایوکرائن کی سرزمین پرکیاگیااوراسی سرزمین پرروس اورپولینڈکے درمیان اقتدار اور اختیارکی جنگیں بھی ہوئیں۔روس کی ملکہ کیتھرین دی گریٹ نے ۱۷۶۴ء میں کوساک یوکرائن کوختم کیااوراس کے بعد۱۷۷۶ء میں کیمیافانیٹ کاخاتمہ کیا۔یوکرائن اگرچہ ایک جداگانہ حیثیت کامالک تھامگروہ ریاست کے طورپراپنی کوئی بات منوانے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔۱۹۷۱ء میں روسی فیڈریشن کے خاتمے کے بعدہی وہ خودکوایک آزادریاست کے طور پرمنوانے میں کامیاب ہوسکا۔روس اورپولینڈکے درمیان ۱۹۷۱ء کے ریگامعاہدے کے تحت یوکرائن کے شمالی اورمغربی حصے روس اورپولینڈکودے دیئے گئے تھے اس کے بعد یہ سوویت یونین کاحصہ بن گیا۔اس کے بعدبھی یوکرائن کے معاملات میں دوستی دکھائی نہ دی۔دوسری جنگ عظیم کے بعداسٹالن نے مغربی یوکرائن کوسابق سوویت یونین میں شامل 
کیا،گوکہ یہ علاقہ اس کیلئے تیارنہ تھا۔اس کے بعدخروشچیف نے کریمیاکاتحفہ دیا،یہ ۱۹۵۴ء کی بات ہے۔یوکرائن کو۱۹۹۱ء میں سوویت یونین کی تحلیل کے نتیجے میں آزادی ملی۔ تب سے اب تک امریکاکے ’’پرامن‘‘عالمی نظام کاحصہ چلاآرہاہے۔
یورپ یونین نے گزشتہ برس صدریانوکووچ کوالٹی میٹم دیاکہ وہ یونین کی رکنیت کیلئے لازمی قرارپانے والی شرائط کے حوالے سے کوئی فیصلہ کرلیں تب سے اب تک یوکرائن کازور علاقائی اتحادپررہاہے۔یوکرائن کے لیڈراب چاہتے ہیں کہ یوریشیاکی بنیادپرموجودکسی بھی سیٹ اپ کاحصہ ہوں۔اس صورت میں یوکرائن کی معاشی حالات بہتربنانے میں مدد ملے گی کیونکہ کسی یوریشین ٹریڈایگریمنٹ کاحصہ بننے کی صورت میں اسے کسٹمزکے حوالے سے زیادہ مراعات ملیں گی۔یوکرائن دوراہے پرکھڑاہوگیا،اسے جلدفیصلہ کرناتھاتاکہ اس کیلئے سیاسی اورمعاشی مستقبل کی سمت کاتعین ممکن ہو۔مسلم دنیامیں بھی یوکرائن کی پوزیشن خاصی کمزورہوگئی۔اگروہ یورپی یونین سے وابستہ ہونے کافیصلہ کرتاتویقینی طورپراس کیلئے زیادہ مسائل پیداہونے کااندیشہ تھا کیونکہ اسے لازمی طورپرروس کے ساتھ اپناتعلق ختم کرناتھا۔کچھ عرصہ قبل جان ہاپکنزسینٹرفارٹرانس اٹلانٹک ریلیشنزنے ایک رپورٹ میں بتایاکہ:یوکرائن کے یورپی یونین کاحصہ بننے کی راہ میں اصل رکاوٹ روس نہیں بلکہ خودیوکرائن کے عوام ہیں جویورپی یونین کی رکنیت نہیں چاہتے۔
روس کے اثرات سے نجات پانے کیلئے دائیں بازوکے قوم پرستوں اوریورپ پرستوں کے درمیان اتحادلازم تھا۔۲۰۰۴ء میں جوسیاسی تبدیلیاں رونماہوئیں ان کے نتیجے میں یورپ کی طرف جھکاؤ رکھنے والے اقتدارمیں توآگئے مگراس کے نتیجے میں یوکرائن کوفائدے سے زیادہ نقصان پہنچا،اس کے مسائل میں اضافہ ہوگیا۔اصل مسئلہ یہ تھاکہ عوام جوکچھ چاہتے تھے وہ حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل ہی نہ تھااورحکمرانوں کی خواہش کاعوام ذرابھی احترام کرنے کوتیارنہ تھے۔اگرچہ سیاسی تبدیلیوں کے نتیجے میں۲۰۰۴ء والے حالات ہی پیداہوتے توصرف خرابیاں سامنے آتیں۔ایسے میں لازم تھاکہ انقلابی نوعیت کی تبدیلیوں کیلئے نئے نازیوں کوسامنے لایاجاتاکیونکہ ان میں غیرمعمولی جوش وخروش تھا جوکسی بھی تبدیلی کیلئے ناگزیرہواکرتاہے۔نئے نازی مادرِ وطن یاپدرِ وطن کیلئے کچھ بھی کرنے کوتیارتھے۔دکھ کی بات یہ ہے کہ یورپ نوازسابق وزیراعظم ٹائموشینکواورموجودہ قائمقام وزیر اعظم ہاٹینیک بھی فادرلینڈپارٹی کے پرچم تلے جمع ہوگئے جبکہ وہ اس کیلئے انتہائی ناموزوں تھے۔فریڈم اورفادرلینڈپارٹی کے غیرمقدس اتحادمیں نئے فاشسٹ اورنئے لبرلزبھی شامل ہوگئے ،ایسے میں امریکاکے نئے فاشسٹوں کاساتھ دینے کے سواکوئی چارہ نہ رہا۔کیایہ سب مصر،شام،لیبیاجیسادکھائی دیتاہے ؟ معروف تجزیہ نگاراسرائیل شامیرکاکہناہے کہ لبرل عناصر کوجمہوریت کی حمائت کرنے کی ضرورت ہے۔وہ شام کی طرف کسی بھی القاعدہ گروپ سے اتحادکرسکتے ہیں۔لیبیامیں وہ اسلامی شدت پسندوں سے مل گئے اورمصر میں فوج سے،روس اوریوکرائن میں دیکھنے والوں نے دیکھا کہ اب وہاں نازیوں کایہی حال ہے۔
فریڈم اورفادرلینڈپارٹی کے حوالے سے یوکرائن میں اپوزیشن کے مؤقف کے علی الرغم معاملات بہت تبدیل ہوگئے ۔یورپ یونین کے صدرہرمن وان رودکے بقول :’’زمین اور نسل کی بنیادپرریاست کے برقراررہنے کاتصوراب مٹ گیاہے۔اب ملک تنہابرقرارنہیں رہ سکتا۔اسے لازمی طورپرایک یاکئی ممالک کے ساتھ مل کرچلناپڑے گا‘‘۔
بیلاروس نے الیگزینڈربوکاشنکوکی قیادت میں یورپ یونین کی رکنیت کوشک کی نظرسے دیکھاتھااوراب بھی ایساہی ہے۔۱۹۹۶ء میں بیلاروس نے روس کے ساتھ ایسی کامن ویلتھ کی بنیادرکھی تھی جورضاکارانہ نوعیت کی تھی۔بیلاروس میں بھی بہت کچھ تبدیل ہوچکاہے ۔نئی حکومت میں شامل فریڈم پارٹی کے ارکان ،فورسز،تعلیم ،صحت اورقومی سلامتی کے معاملات میں اپنی مرضی کی راہ پرگامزن رہتے ہیں۔ان میں کمانڈنٹ آف دی یورومیدان تحریک کے آندرے پیروبیف نمایاں ہیں جوقومی سلامتی اورقومی دفاعی کمیٹی کے سیکرٹری جنرل ہیں۔علاوہ ازیں ان میں نئے پراسیکیوٹرجنرل اولے ما خشکی اورنئے وزیرتعلیم سرہائی کوئٹ شامل ہیں۔یہ سب کچھ دیکھ کرمغربی یورپ نئے فاشسٹ یقیناًحوصلہ پاتے ہوں گے ۔
یوکرائن کے احوال کے تذکرے میں روسی ہارڈمال پرایک نظرڈالناضروری معلوم ہوتاہے،وہ یوں کہ روس میں لبرل عناصرنے ایک مابعدجدیدوسیع ریاست کی حیثیت سے سلطنت کاحصہ بننے جوخواب دیکھاتھا وہ یقینی طورپرہوامیں بکھرچکاہے مگرروس اوریورپ کے تعلقات مزیدکشیدہ ہوگئے ہیں کیونکہ ایک طرف توروس نے چیچنیاکاکنٹرول ختم کرنے سے انکار کیااوردوسری طرف اوسیشیااورابخازیہ پراپنی گرفت مضبوط کرلی ،ساتھ ہی روس نے مشرقِ وسطیٰ اوردیگرخطوں میں اپنی پوزیشن بہترطورپرمنوانے کی کوشش کرکے یہ اشارہ دے دیاکہ وہ یورپ کامطیع رکن بن کررہناپسندنہیں کرے گا۔
روس نے شام اورمصرکے معاملے میں مغرب کے خلاف جانے کی ’’جسارت‘‘کی ہے۔اس سے شام کی بندرگاہ طرطوس کواپنااڈہ بنانے میں دلچسپی ظاہرکی ہے اوریوکرائن میں صدر یانوکووچ کے برطرف کئے جانے سے ایک ہفتہ قبل مصرسے معاہدہ کیاجس کے تحت اسے دوارب ڈالر کے ہتھیارفروخت کرے گا۔روس نے یوکرائن کی سابق حکومتوں سے نرم معاہدوں کے تحت سمفبیروپول کی بندرگاہ ۲۰۴۲ء تک استعمال کرنے کی اجازت حاصل کرلی تھی۔وہ معاہدے بے وقعت ہوچکے ،ایسے میں نیٹوکوبحیرہ اسودمیں خوداپنی بندرگاہ استعمال کرنے کے عوض کرایہ دیناکچھ مفہوم نہیں رکھتا۔ سمفبیروپول اورطرطوس توسنگ بنیادکی طرح ہیں۔روسی وزیردفاع سرگئی شوئیکونے کہا:’’میراملک نیول بیسزکے استعمال کی اجازت حاصل کرنے کے سلسلے میں کیوبا،وینزویلا،نکاراگوا،الجزائر،قبرص،سیشلز،ویت نام اورسنگاپورسے بات چیت کررہاہے‘‘۔
یوکرائن میں جوکچھ ہواوہ بہت حدتک مصرکے معاملات جیساہے ،جولائی میں مصرکے ساتھ یہی کچھ ہوا۔فرق اگرہے توبس یہ کہ مصرمیں فوج نے حکومت کاتختہ الٹا اوریوکرائن میں پارلیمنٹ نے یہ ’’نیک‘‘کام کردکھایا۔یوکرائن میں بھی لوگ اسی طرح گھروں سے نکلے جس طرح مصرمیں نکلے تھے اوربڑے چوراہوں پرجمع ہوکرطاقت کامظاہرہ کیاتھا۔یوکرائن نے توایک شہرکے میئرنے بھی عوام کوتختہ الٹنے میں مدددی۔مصرکی طرح یوکرائن میں بھی دائیں بازوکے قوم پرستوں نے لبرل عناصرکے ساتھ مل کرتبدیلی کی راہ ہموارکی ۔دونوں ممالک میں تبدیلی کے نتیجے میں صرف خرابی پیداہوئی ۔سیاسی اورمعاشی بحران نے پورے ملک کواپنی لپیٹ میں لے لیا۔روس نے دونوں ہی کے معاملے میں محتاط رویہ اختیار کیا ہے ۔یوکرائن کے کیس میں وہ کریمیاکی حدتک کامیابی سے ہمکنارہواہے۔مجموعی طورپریہ کہاجاسکتاہے کہ مابعددورِ جدیدکاستعماراب سامنے آچکاہے۔ کیادوبارہ سردجنگ کاآغاز ہوگیاہے؟

«
»

حماس اور فتح میں مفاہمت

آر ٹی آئی ایکٹ عوام کو بہلانے کا ذریعہ ؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے