مودی کی قصیدہ خواں مدھو کشور

یہاں نہ مدھوکشور صاحبہ پر اعتراض کرنا ہے نہ ٹی وی کے رپورٹر پر بس ایک بات کی صحت کرنا چاہتاہوں کہ گجرات میں جو کچھ بھی ہوا وہ فسادنہیں تھا کہ بلکہ حکومت کی اجازت سے ہرطرح کے ہندوؤں کے اور حکومت کی پولیس نے مسلمانوں کوقتل کیا جلا جلا کر مارااوران کے ساتھ وہ کیا جسے کچھ بھی کہاجائے فسادنہیں کہا جائے گا۔ مدھوکشور صاحبہ نے اپنی ہمہ دانی کی نمائش کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ میں نے کانگریس کے اقتدار کے دورمیں کئی فسادوں کودیکھا ہے۔ ہم ان کی بات نقل کرنے سے پہلے پھر بتادیں کہ جیسے گجرات میں فساد نہیں ہوا تھا اسی طرح محترمہ نے جوفساد کانگریس کے دورمیں اگر دیکھے ان کو بھی فسادنہیں کہا جاسکتا اس لئے کہ آزادی کے بعد مسلمانوں کو فوج اور پولیس سے محروم کردینے اور لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں کے اسلحہ کینسل کرنے کے بعداس ملک میں جہاں کہیں جوکچھ بھی ہوا ہے وہ فساد نہیں ہواصرف مسلمانوں کا قتل عام ہوا ہے وہ گجرات میں ہوا ہو ممبئی میں ہوا ہو ،میرٹھ میں ہوا ہو،مرادآباد میں ہوا ہو یا جبل پور،جمشید پور ،راوڑکیلا ،بھاگل پوراورکلکتہ میں ہوا ہو جن میں پچیس ہزار سے زیادہ مسلمان اپنے مالک سے جاملے ان میں کوئی فساد نہیں تھا ۔ 
2002کے متعلق محترمہ نے کہا کہ میں مانتی ہوں جو ہوا اچھا نہیں ہوا لیکن اس کے بعد گذشتہ 12برس سے کانگریس اور اس کی حلیف جماعتیں نریندرمودی کے پیچھے پڑی ہوئی ہیں اور ایک کامیاب وزیراعلیٰ کو جس طرح نشانہ پر لیا جارہا ہے او رمودی مخالف مہم نے جس طریقہ سے زہریلا رخ اختیار کرلیا ہے یہ مجھے اچھا نہیں لگا ۔ 2002 سے قبل جودنگے ہوئے اس میں کسی بھی وزیراعلیٰ کو جیل بھیجنے کی بات نہیں کی گئی ۔ جو لوگ اس فسادمیں ملوث تھے انہیں حکومت اور عدالت نے سزادی ہے لیکن اس کے باوجود بھی مودی کو جیل بھیجنے کی بات کی جارہی ہے ۔ اتنا ہی نہیں امریکہ سے کہہ دیا گیا ہے کہ مودی کو ویزا نہ دیاجائے۔ یہ ساراتماشہ میں دیکھ رہی تھی اورمجھے شک ہونے لگا کہ نریندرمودی پر لگائے جانے والے الزامات صحیح نہیں ہیں اس لئے میں نے طے کیا کہ گجرات جاؤں 2012سے میں نے اپنے طریقہ سے اس کی تفتیش کی اور 2013میں میں نے گجرات کا پہلا دورہ کیا ۔ گاؤں گاؤں گئی لیکن مجھے وہاں دوسری ہی تصویر نظرآئی اور وہ تصویر تھی ترقی کی اطمینان اور خوش حالی کی ۔ 
محترمہ مدھوکشور کہتی ہیں کہ میں نے اپنی کتاب میں جوکچھ لکھا ہے وہ سب حقائق کی بنیاد پر لکھا ہے۔ میں نے پوری طرح سے مودی کا ڈی ایل اے جاننے کی کوشش کی ہے خاص طورپر 2002میں گودھرا کا جواقعہ پیش آیا اس کے جاننے کے لئے میں نے کئی گاؤں کا دورہ کیا اورمیں نے لوگوں سے بالکل غیر جانب دارہوکر سوال پوچھے۔ میں نے یہ دیکھا کہ مودی فرقہ پرستی کی بات نہیں کرتے وہ صرف پانچ کروڑگجرات والوں کی بات کرتے ہیں جن میں سبھی مذاہب کے لوگ شامل ہیں ان کواپنی ریاست کی فکر ہے اور گاندھی جی کے نظریات کی فکر ہے لیکن آج مودی کے مخالف انہیں صرف فرقہ پرست مان رہے ہیں ۔ 
مدھوکشور کے اس بیان میں کتنے جھول ہیں وہ ثابت کرتی ہیں کہ موصوفہ کو لکھنے کا شوق ضرور ہے لیکن یہ نہیں معلوم کہ سچ بات کیسے لکھی جاتی ہے؟۔وہ گودھرا کے واقعہ کو جاننے کے لئے کئی گاؤں میں گئیں گودھرا میں نہیں گئیں جہاں انہیں معلوم ہوجاتاکہ کس طرح مودی کے حکم کے پر شریف ترین اور معززترین مسلمانوں کو بے قصورپھنسایا گیا اور ان پر پوٹا لگا کربرسوں کے لئے جیل میں ڈال دیا گیا ۔ ایسا ہر اس جگہ ہے جہاں کوئی تنازعہ ہوا وہاں پولیس نے مجرموں کو نظرانداز کیا اور دولت مند باحیثیت اور باعزت مسلمانوں پر پوراالزام لگا کربند کردیا ۔ 
معلوم نہیں مدھو کشور گودھرا کی حقیقت جاننے کے لئے دیہاتوں میں کیوں گھومتی پھریں؟اور ان سے کس نے کہہ دیا کہ وہ گاندھی جی کے نظریا ت کومضبوط کرنے میں مشغول ہیں حالانکہ ان کی پشت پناہی تو وہ لوگ کررہے ہیں جنہوں نے گاندھی جی کو قتل کیا تھااورمودی صاحب توسردار پٹیل کے پجاری ہیں جنہیں گاندھی جی نے وزیراعظم نہیں بننے دیا تھااسی لئے وہ دوسوفٹ اونچی گاندھی جی کی لکڑی کی مورتی بنوانے کے بجائے سردار پٹیل کی لوہے کی مورتی بنوارہے ہیں تاکہ پورے ملک کے مودی نواز پٹیل بھگوان کی پوجا کیا کریں ۔ مدھوکشورنے آخرمیں کہا ہے کہ میں مسلم کمیونٹی کے لئے یہ کہناچاہتی ہوں کہ نریندرمودی آپ کے لئے فرشتہ بن کر ابھرا ہے اگرمسلمانون نے اس موقع کو گنوایا تو وہ نقصان میں رہیں گے۔ 
مدھو کشور صاحبہ پروفیسر بھی ہیں اور ایک مشہور میگزین کی ایڈیٹر بھی ہیں ۔ انہوں نے مودی جی کی شان میں ایک کتاب مکمل کرلی ہے اور مزید لکھنے کا ارادہ ہے ۔ لیکن ان کی پور ی گفتگو سے اندازہ ہوگیا کہ وہ اپنے لئے زمین ہموار کررہی ہیں ورنہ جن صلاحیتوں کے بعد مودی جیسے متنازعہ شخص پر کتاب لکھناچاہئے تھی وہ اس کے قریب سے بھی نہیں گذری ہیں ۔ 
نہیں معلوم کہ اپنی زندگی کے کتنے دن باقی ہیں لیکن تحریر ہمیشہ زندہ رہے گی وہ گواہی دے گی کہ ہم نے مدھو کشور کی پہلی ہی کتاب پر انہیں موقع پرست اور بننے والے وزیراعظم سے کچھ لینے کا منصوبہ بنانے والی کہا ہے جس میں اس لئے وہ کامیاب بھی ہوجائیں گی کہ انگریز ی میں لکھی ہوئی کتاب کے پڑھنے میں مودی جی کو ذرازحمت ہوتی ہے وہ اسے دیکھ کر اور سونگھ کر ہی اس کے لکھنے والے کو انعام دے دیتے ہیں ۔ شاید یہی وجہ ہے احمدآباد کے سرکاری اسکول میں پڑھائی جانے والی صرف ایک کتاب میں 45غلطیاں ہیں جس کی تحقیقات کے لئے ایک کمیٹی بٹھادی گئی ہے وہ فیصلہ کرے گی کہ کیا کیا جائے شاید ایسے ہی اسکولوں سے پڑھ کر مدھوکشور جیسی قابل لڑکیاں پیدا ہورہی ہیں جو مسلمانوں کو خوش خبری سنارہی ہیں کہ اگر مودی آگیا تو آپ کے دن پھر جائیں گے۔ 
مدھو کشور نے اپنی گفتگو میں دوباتیں ایسی کہیں جن کوپڑھ کر اندازہ ہو اکہ وہ بالکل ہی اناڑی ہیں انہوں نے کئی بار کہا کہ مودی جی نے 24گھنٹے میں فوج بلالی لیکن یہ نہیں بتایا کہ فوج نے کتنے غنڈوں ،فسادیوں بلوائیوں اور پولیس والوں کو موت کی نیند سلایا۔ شاید انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ فوج سے کام نہ لینے پر صدرجمہوریہ نے ان کو ایک سخت خط لکھا تھا جسے شورمچانے کے باوجود وہ دباگئے اور فوج لیفٹ رائٹ کر کے واپس چلی گئی ۔ دوسری بات یہ کہی کہ احسان جعفری کی گلبرگہ سوسائٹی کو کانگریسیوں نے جلایا تھا ۔ اس کے بعد اگر ہم اس کتاب اور مصنفہ کے متعلق دوکالم لکھنے پر افسو س کریں تو کیا براہے ہم نے لکھا اس لئے کہ شاید ان تک کوئی ہماری بات بھی پہنچادے ۔

«
»

کیا یہی ہے تہذیبوں کی جنگ

ممبرا میں پولیس کی دہشت گردی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے