مسلم قیادت

آزادی کے فوراً بعدہم ہندوستانی مسلمانوں کی یہ حالت تھی جو،ان بکروں کی ہوتی ہے جن کے چاروں طرف قصائی چھریاں لئے ٹہل رہے ہوتے ہیں یا یہ حالت تھی جان مرغوں کی ہوتی ہے جن کے دونوں طرف سے بڑے بڑے بلّے آرہے ہوں ۔اس وقت مسلمانوں کی سب سے اچھی پناہ گاہ مسجد یں تھیں جوہر وقت بھری رہتی تھیں یا جمعیۃ علماء ہند کے وہ عالم تھے جنہوں نے مسلم لیگ اور پاکستان کی مخالفت کی تھی اوراس بات کوملک کا ہرسمجھ دار ہندوبھی جانتاتھا اور وہ پوری حکومت بھی جانتی تھی جس نے اقتدار سنبھالا تھا ۔ اسی لئے تقسیم سے پہلے جن عالموں کی پگڑیاں اچھالی جارہی تھیں اور جن پر برلا کے ٹٹواور ٹاٹاکے پٹھوکے آواز سے کسے جارہے تھے وہی اب ہندوستان میں بچے ہوئے مسلمانوں کے سرپرست تھے اور مسلمان انہیں کے قریب بیٹھ کر اپنے کومحفوظ سمجھ رہا تھا ۔ 
یہ صورت حال تھی جس وقت 1948میں لکھنؤ میں مولاناآزاد نے مسلم کنونشن بلایا اس کنونشن مین ہر طرف وہ مسلمان نظرآرہے تھے جو کل تک بٹ کے رہے گا ہندوستان لے کے رہیں گے پاکستان کے نعرے سوتے میں بھی لگاتے تھے ۔ مولانا آزادی نے اپنی تقریر میں مسلمانوں کی ڈھار س بندھائی اور مشورہ دیا کہ اپنی کوئی الگ جماعت نہ بنائی جائے بلکہ جو جس نظریہ کوپسند کرے اس پارٹی میں شامل ہوجائے مولانا کا اشارہ اس طرف تھا کہ وہ کانگریس کی طرف نہیں بلارہے تھے بلکہ صرف یہ چاہتے تھے کہ اب تقسیم کے بعد ملک میں مسلم لیگ جیسی کوئی جماعت نہیں بننا چاہئے انہوں نے جمعیۃ علماء ہند جو کانگریس کے دوش بدوش سیاست میں سرگرم تھی اسے بھی مشورہ دیا کہ وہ اپنی سیاسی سرگرمیاں ختم کردے اور تعلیمی کام شروع کردے ۔ اور جمعیۃ علماء نے اسی دن سیاسی جماعت کا کردار ختم کردیا تھا لیکن 1962میں حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کے انتقال کے بعد جمعیۃ کو بزرو طاقت مولانا اسعدمیاں نے اپنے ہاتھ میں لے لیااوروہ پھر سیاسی جماعت بن گئی جو اب تک ہے۔ 
مولانا حفظ الرحمن صاحب اور ڈاکٹر سید محمود نے 1962میں ایک مسلم کنونشن بلایا تھا جس میں انہوں نے جماعت اسلامی کو دعوت نہیں دی تھی اس وجہ سے مولانا منظور نعمانی اورمولانا علی میاں بھی شریک نہیں ہوئے نتیجہ یہ ہوا کہ وہ جمعیۃ علماء کنونشن ہو کر رہ گیا۔اس کے بعدمولانا کا انتقال ہوگیا لیکن ڈاکٹر سید محمود کے دل کو لگی تھی اس لئے انہوں نے مولانا نعمانی مولانا علی میاں جماعت اسلامی اور تمام مسلم عمائدین کو بلاکر 1964میں دوبارہ لکھنؤ مین مسلم کنونشن بلایا اور وہ بلامبالغہ پورے ہندوستان کے مسلمانوں کا نمائندہ کنونشن تھا جس نے ہر پارٹی کو ہلاکررکھ دیا ۔ اس کنونشن میں جو فیصلے ہوئے تھے ان میں سے اہم یہ تھا کہ مسلمان کسی کانگریسی کو ووٹ نہیں دے گا یہ بات پورے ملک کے مسلمانوں نے قبول کرلی لیکن افسوس کہ اسی میں دراڑ پڑی اور پھر رفتہ رفتہ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت پارہ پارہ ہوگئی اور اب اس نام کی کوئی دوکانیں ہیں جہاں بورڈ بھی ہے عہدیدار بھی ہیں لیکن خریدار نہیں ہے ۔ 
ڈاکٹر ایوب صاحب نے اگر یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوتا تووہ بھی ہماری طرح یہی مشورہ دیتے کہ مسلم قیادت کا خواب دیکھنا کوئی جرم نہیں ہے اس لئے کہ خواب شعوری اور اختیار نہیں ہوتے۔ ہاں مسلم قائدبننے کے متعلق سوچنا بہت بڑی نادانی ہے جو مسٹرجناح کو قائد اعظم بنا کر ختم ہوگئی اور جناح اس لئے قائد اعظم بن گئے کہ وہ نہ دیوبند ی تھے نہ بریلوی تھے نہ سنی تھے نہ وہابی تھے وہ مسلمان بھی اگر تھے تو اسمٰعیلی بوہرہ تھے جن کے متعلق ان کی نواسی نے ان کی جائدا د کے لئے کہا تھا کہ اس کی تقسیم اسلامی شریعت کے مطابق نہ کی جائے اس لئے کہ ہم مسلمان نہیں ہم اسماعیلی بوہرہ ہیں ۔ 
ڈاکٹر ایوب صاحب نے31؍مارچ کو ہی اگرانڈیا ٹی وی دیکھا ہوتو ان کی ملاقات ایک اور مسلمانوں کے لیڈر مسٹرافضال انصاری سے ہوئی ہوگی جنہوں نے تینوں سیکولرپارٹیوں کو لکھا ہے کہ وہ سب ان کے بھائی مختارانصاری کو اپنا مشترکہ امیدواربنائیں تاکہ مودی جی سے آرپارکی جنگ ہوسکے یہ اس مختار انصاری کا ذکر ہے جن کے اوپر سنا ہے قتل سازش وغیرہ وغیرہ کے پندرہ مقدمات چل رہے ہیں اور وہ برسوں سے جیل میں ہیں ۔یعنی مختار انصاری کو مسلم قیادت سونپ دی جائے ۔ جامع مسجد دہلی کے ایک امام ہیں جو ہردومہینے کے بعد مسجد میں سودوسوآدمیوں کو روک کر ایک تنظیم بنالیتے ہیں جن کے جنرل سکریٹری راحت محمود صاحب نہیں بدلتے بس پارٹی کے نام بدلتے رہتے ہیں وہ کبھی ملائم سنگھ کے دربارمیں نظرآتے ہیں اورجب داماد کی روزی روٹی کا انتظام ہوجاتاہے تو ہاتھی پر بیٹھ کر بہن جی کے پاس چلے جاتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب کے پڑوس بی جے پی کے ایجنٹوں نے ایک علماء کونسل بنارکھی ہے وہ خود توملائم سنگھ کا مقابلہ کررہے ہیں اور ان کے 53مجاہد ہر اس جگہ مسلمانوں کے ووٹ کاٹ رہے ہیں جہاں بی جے پی خطرہ میں ہے۔
کیرالہ میں اور تمل ناڈومیں مسلم لیگ ہے اور وہ واقعی ایسی مسلم پارٹی ہے جیسی ہوناچاہئے لیکن جب دوسرے صوبوں میں جاتی ہے تواس کے پر کاٹ دئے جاتے ہیں ۔ یہی حال حیدرآباد میں اویسی برادران کا ہے کہ انہیں دوسرے صوبوں میں گھسنے بھی نہیں دیاجاتا۔ ایسی صورت میں اگر ہم ڈاکٹرصاحب سے یہی کہیں کہ خواب دیکھناچھوڑدیجئے توانہیں تکلیف تو بہت ہوتی لیکن وہ جب ہماری عمر تک آئیں گے تو شاید دوسروں کو بھی یہی مشورہ دیں ۔ 
ڈاکٹر صاحب بار بار دلت اور مسلم اتحادکی بات کرتے ہیں اسے1967میں علی گڑھ کے بی پی موریہ اور پروفیسر بصیر سب سے پہلے آزما چکے ہیں ۔ علی گڑھ کی گلی گلی میں بھنگی مسلم بھائی بھائی کے نعروں کے ساتھ جلوس نکلتے رہے اوردونوں کامیاب بھی ہوگئے مگر بعدمیں موریہ کانگریس میں چلے گئے۔ ڈاکٹر فریدی صاحب بھی چھیدی لال ساتھی اور ایک سردار کھڑک سنگھ کو ملا کر جمہوری سیکولر پارٹی بناچکے ہیں لیکن تجربہ یہ ہوا کہ بھنگی اور چمار بھائی آپ کے ساتھ گوشت تو کھالے گا مگرجب بابری مسجد گرانے کی بات ہوگی تو پنڈت ٹھاکر اور مرہٹہ پیچھے ہوں گے دلت ہندوآگے اب اس کے بعد بھی اگر کوئی بڑوں کی ٹھوکروں سے سبق نہ لے تواس کی مرضی۔ ہم تویہی کہیں گے کہ مسلم قیادت کے ذریعہ آخرت منوانے کے بجائے اس فن کے ذریعہ جنت میں محل بنوایئے جو خدا نے آپ کودیا ہے اور لاکھوں بندوں کی دعالیجئے۔

«
»

کیا یہی ہے تہذیبوں کی جنگ

ممبرا میں پولیس کی دہشت گردی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے