مساوات کے لئے جنگ اور دلت مسلمان

اور معمولی کام کرنے والی قوموں کو سماج میں بہت حقیر سمجھا جاتا رہا ہے ۔ جب کہ پیسے کی بنیاد پر کبھی کوئی بھید بھاؤ نہیں کیا جا سکا ۔ اس لئے یہ ریزرویشن دلت پسماندہ اور قبائلی طبقات کو ہی فراہم کیا گیا ۔ سماج کے تمام طبقات کو مناسب نمائندگی جمہوریت کی ایک شرط ہے ۔ لیکن ہندوستان کا دلت پسماندہ مسلمان اپنے آئینی حق سے محروم ہے ۔ کیوں کہ پنڈت نہرو کی کابینہ نے ایک صدارتی حکم نامہ پاس کرکے ڈاکٹر راجندر پرساد کے پاس بھیج دیا ۔ جس ماہر قانون اور آئین ہند کی تشکیل کے وقت آئین ساز اسمبلی کے صدر راجندر پرساد ے دستخط کر دیا جب کہ ان کو معلوم تھا کہ دفعہ 341 میں کسی کو مذہب کی بنیاد پر کوئی ماعات نہیں دی گئی ۔ اور کسی دلت کا درجہ صرف پیشے کے اعتبار سے اور ذات کے اعتبار پر دیا جا سکتا ہے اور نکالا جا سکتا ہے نہ کہ مذہب کی بنیاد پر ۔
یہ بھی ایک عجیب معاملہ رہا ہے کہ جب ہم غلام تھے تب پسماندہ مسلمانوں کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کی گئی ۔ جب ساہو جی مہاراج نے ریزرویشن کو 1902 ء میں اپنی ریاست میں سب سے پہلے دیا تو انہوں نے بھی مذہب کی بنیاد پر بھید بھاؤ نہیں کیا ۔ لیکن اور جمہوری ملک ہندوستان میں جہاں جمہوریت کی بنیاد میں مساوات ہے ۔ وہاں پر مذہب کی بنیاد پر بھید بھاؤ کیا گیا اور ان لوگوں نے کیا جو ساز اسمبلی میں اور اس کی بحثوں میں ریزرویشن پر کسی بھی مذہبی پابندی کے خلاف لگے ۔ لیکن سرکار بننے کے بعد اور آئین کے نفاذ کے صرف ۷؍ ماہ بعد ہندو مہا سبھا کے دباؤ میں آکر ایک غیر آئینی صدارتی حکم نامہ دلت مسلمانوں پر مسلط کر دیا ۔ جس کے باعث وہ آج دلت ہندوؤں سے بھی بہت پیچھے سماجی ، معاشی اور تعلیمی میدان میں چھوٹ گیا ہے ۔
رنگ ناتھ مشرا کی رپورٹ کے بعد بھی مرکز کی کانگریسی سرکار بے حس بنی ہوئی ہے اور جب عدالت اعلیٰ میں آواز لگائی گئی تو یہ معاملہ حلف نامے کے باعث رکا ہوا ہے ۔ اس میں بھی کانگریس سرکار کی نیت کا خلل شامل ہے ۔ اور وہ عدالت سے انصاف ملنے کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے ۔ دلت و قبائل کمیشن بھی اسی بات پر راضی ہے کہ اس کو بھی مسلمانوں اور عیسائیوں کو ایس سی کوٹہ میں شامل ہونے پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ اسی طرح بی ایس پی سپریمو مایاوتی نے بھی مرکزی سرکار کو ایک خط لکھ کر یہ اپیل کی ہے کہ اس کو مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ بھید بھاؤ میں یقین نہیں ہے ۔
لیکن یہ کام کوٹے میں اضافہ کر کے کیا جائے ۔ یاد رہے کہ آئین ہند ایس سی ، ایس ٹی ریزرویشن آبادی کے تناسب میں دیتا ہے ۔ اسی طرح 2005 ء میں اترپردیش اور اس کے بعد بہار ، آندھراپردیش اور تمل ناڈو اسمبلی نے بھی مرکزی سرکار سے سفارش کیا کہ صدارتی حکم نامہ واپس لیا جائے ۔ لیکن مرکزی سرکار آئین ہند سے زیادہ آر ایس ایس کے نظریہ کی اس معاملے میں زیادہ وفادار لگتی ہے ۔اسی لئے اسکو یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے یاوہ سمجھنا نہیں چاہ رہی ہے ۔ جب کہ یو پی اے کے اس کے دوست جیسے ملائم سنگھ یادو ، لالو یادو اور نتیش کمار وغیرہ نے بھی ارلیامنٹ کے اندر ان نابرابری اور ناانصافی کے معاملے کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ لیکن مرکزی سرکار پھر بھی مسلمانوں کو ان کے مذہبی اور آئینی حق سے محروم کئے ہوئے ہے ۔ بہت سے لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ چونکہ اسلام میں ذات پات کا تصور نہیں ہے اس لئے مسلمانوں کو ریزرویشن نہیں مل سکتا ۔ یہ بات سچ ہے کہ مذہب اسلام میں ذات پات نہیں ہے لیکن ہندوستانی سماج میں ذات پات ہے اور یہاں کا مسلمان اس سے متأثر ہے اس لئے اس کی عملی زندگی میں ذات پات کا دخل ہے ۔ اس سلسلے میں 1992 ء میں سپریم کورٹ میں اندرا ساہنی کیس میں نو ججوں میں سے ۸؍ نے یہ مانا کہ بھارت میں ذات پات صرف ہندوؤں میں ہے ایسا نہیں کہا جا سکتا ۔ اسی طرح ہندو مذہب جب اپنا آدرش پیش کرتا ہے تو وہ وشو دھیو کٹم بکم کہتا ہے جہاں ساری دنیا ایک خاندان ہے تب آخر ذات پات ، اعلیٰ و ادنیٰ کا تصور کیسے ہے ۔ آخر ان باتوں کی عملی زندگی میں کیا حیثیت ہے یہ سبھی کو معلوم ہے ۔
مسلمانوں کو دلت ریزرویشن سے دور رکھنے کی ایک وجہ شدت پسند وطن پرستی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو بھی دیا جا سکتا ہے ۔ اب اگر ہم ملک میں بڑھتے ہوئے شدت پسند وطن پرستی کے رجحان کو دیکھیں تو یہ اندازہ لایا جا سکتا ہے کہ جس طرح ملک میں ہندتوا کے نظریہ کو بڑھاوا دیا جارہا ہے اس کی وجہ سے جو دباؤ سماج اور سرکار پر پڑ رہا ہے یہ بھی ایسا ہونے کا ایک سبب ہے ۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ وطن پرستی یا قوم پرستی کا نظریہ اپنے ساتھ ایک قومی فرقہ کا تصور بھی لاتا ہے ۔ چونکہ اس وقت ملک میں وطن پرستی سے مراد ہندو وطن پرستی ہے یا ہندتوا کی بنیاد پر کھڑا وطن پرستی کے نظریہ کو ترجیح دی جا رہی ہے جس میں مسلمانوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے ۔
اس میں صرف ہندو مذہب اور ہندوستان میں پیدا ہوئے مذہب کے لوگوں کو ہی جگہ حاصل ہے ۔ اس لئے اگر دیگر مذاہب کے پسماندہ اور محروم طبقات کو ریزرویشن کے دائرے میں شامل کیا گیا تو تبدیلئ مذہب کا خطرہ ہو سکتا ہے اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو اس سے محروم رکھا جائے تو وہ ہندو دلتوں کے مقابلے میں ایک دن اتنا پیچھے معاشی ، سماجی اور تعلیمی میدان میں رہ جائیں گے کہ ان کو یہ سمجھانا آسان ہوگا کہ اگر تم اپنے پرانے مذہب میں لوٹ آؤ تو تم بھی ترقی کر سکتے ہو ۔ ہندوستان میں دلت اور پسماندہ مسلمانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ہندو مذہب سے اپنا مذہب تبدیل کر کے مسلمان ہوئے ہیں ۔
آج کے زمانے میں تعلیمی و سماجی تبدیلی اور معاشی مضبوطی کا ایک ذریعہ ہے ۔ لیکن دلت مسلمان وسائل کی کمی اور معاشی مشکلات کے باعث اس سے دور رہ گیا ہے ۔ دوسرے فسادات ان کے لئے تباہی کا پیغام لے کر آتے ہیں جس سے متأثر ہو کر ان کی ایک دو نسل برباد ہو جاتی ہے ۔ اس طرح آج ہندوستان کا دلت پسماندہ مسلمان مذہب ، ذات اور فرقے کی بنیاد پر تین طرح سے بربادی کا شکار ہے ۔ اسی لئے اس کے حالات روز بروز خراب اور خراب ہوتے جا رہیہیں ۔ آخر جب ذات پات کی بنیاد پر بنے سماجی ڈھانچے کی وجہ سے ہی ایس سی اور ایس ٹی کو سیاسی تحفظ اور ریزرویشن دینے کی ضرورت پڑی ہے تو پھر ایک جمہوری ملک اور اس کی سرکار کی ذمہ داری ہو جاتی ہے کہ وہ اس بات کا خیال رکھتے کہ اس کے کسی شہری کے ساتھ کسی طرح کا بھید بھاؤ نہ کیا جائے ۔ کیونکہ کسی سماج اور ملک کی ترقی کے لئے اور سماج میں اعتدال قائم رکھنے کے لئے یہ ضروری ہیکہ سبھی لوگوں کی ہمہ جہت ترقی کو یقینی بنایا جاسکے ۔ اس کے لئے ضروری ہیکہ مرکزی سرکار فوراً صدارتی حکم نامہ 1950 ء کو واپس لے تاکہ کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہوسکے ۔ اس کے لئے کسی آئینی ترمیم کی بھی ضرورت نہیں ہے ۔ آج یہ معاملہ اور اس کے تعلق سے بیداری پورے ہندوستان گیر سطح پر پھیل چکی ہے اس تحریک کے روح رواں سابق ایم پی ڈاکٹر اعجاز علی صاحب جس مشن کو تن تنہا لے کر چلے تھے وہ ایک کارواں بن چکا ہے اور اب تو اس میں ملت کے بیباک اور مخلص رہنما مولانا عامر رشادی صاحب بھی جڑ چکے ہیں جن کی موجودگی ملت کے نوجوانوں میں ایک نیا جوش و جذبہ بھر دیتی ہے ۔ مولانا عامر رشادی صاحب ی شرکت سے اس مشن کو تکمیل تک پہونچانے میں بہت مدد ملے گی کیونکہ ان کے اندر جو علمی جد و جہد کا جذبہ ہے وہ کم از کم بہت کم مسلم لیڈروں میں نظر آتا ہے اور وہ اپنی بات کو بہت بے خوف ہو کر کہتے ہیں ۔
اسی طرح ملک کے کونے کونے سے ملت پرستوں کا ایک ہجوم بھی اس تحریک سے جڑ رہا ہے کیونکہ اگر ہم بے حس رہے تو الحاد کا خطرہ ہے ۔ اس کی جانب ڈاکٹر اعجاز علی صاحب بہت دنوں سے قوم کے علماء کو اشارے کر رہے تھے ۔ یوں بھی جمہوریت میں اپنے حق کے لئے جد و جہد کی سخت ضرورت ہے اور اب لوگ اس کے لئے تیار ہو رہے ہیں ۔

«
»

ایک تھا بادشاہ

کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے