مصر میں فرعونیت کی دھما چوکڑی

چونکہ ان میں بعض ملک میں موجودنہیں اوران پرالزام کی عدم موجودگی میں عدالتی کاروائی کی جائے گی۔ دنیا گواہ ہے کہ صدرمرسی ہے کے خلاف امر یکہ اور اسرائیل کی طرف سے رچائی گئی سازش کے تحت فوجی بغاوت ہوئی اور پھر ان پر سیاسی بنیادوں پرمقدمات قائم کئے گئے تاکہ اصل سازش پردے میں رہے ۔حقوقِ انسانی کی عالمی تنظیموں نے بھی مصری فوج پر بلاجواز کاروائیاں کر نے کاالزام لگایا ہے۔تجزیہ نگاروں کے مطابق محمدمرسی کے خلاف فرضی مقدمہ چلانے سے محب وطن قوتیں پریشان ہیں کہ آنے والے دنوں میں کیاہوگا،یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ عوامی سطح پر کشیدگی بڑھنے سے مصرکاامن مزیدغارت ہوگا۔
جیل توڑنے کے الزام سے پہلے مصراوردیگرکئی ممالک کے ذرائع ابلاغ کے ذریعے سے مصرمیں قاتلوں کوہیرواوربے گناہ شہدا کودہشت گردقراردیاجارہاہے ۔تاریخِ انسانی کے یہ عجیب وغریب دہشت گرد جو مہینوں تک مسلسل ملک بھر کے میدانوں میں احتجاجی طور بیٹھے عین اس وقت حیات جاوادں پاگئے جب وہ اپنے خالقِ حقیقی کے روبروسجدہ ریز تھے۔ان مظاہرین کی تعدادلاکھوں میں تھی ،وہ اگرچاہتے تو صرف لٹھ اٹھاکرپورے ملک میں مخالفین کے خون کی ندیاں بہادیتے مگر ان کے ہاتھوں کسی کی نکسیرتک نہ پھوٹی کیونکہ انہیں اخوان کی قیادت نے ہرحال میں پرامن رہنے اورپیغامِ امن عام کرنے کی ہدایات دے رکھی تھیں۔ان لاکھوں دہشت گردوں سے جابرحکمران ایک ہتھیاربھی برآمدنہ کرسکے۔ایک موقع پر جب کٹھ پتلی مصری وزیرداخلہ نے ایک نیوزکانفرنس کے دوران انکشاف کیا کہ ہیومن رائٹس واچ کی ٹیم نے رابعہ بصری میدان میں بھاری اسلحہ ہونے کی گواہی دی ہے۔اگلے ہی لمحے اس ٹیم کی طرف سے پرزور تردید نے بھانڈہ پھوڑدیاکہ انہوں نے تو اشارتاً بھی کوئی ایسی بات نہیں کہی مگراتنے بڑے عالمی ادارے کویہ توفیق نہ ہوئی کہ اتنابڑاسنگین الزام لگانے والے وزیرداخلہ کوکسی عالمی عدالت کے کٹہرے میں لاکھڑاکرتی۔
اخوان المسلمون کے ان انوکھے شدت پسندوں سے البتہ ایک خطرناک اسلحہ بڑی تعدادمیں ضروربرآمدہواکہ انہوں نے اپنے سینوں سے قرآن کریم کولگارکھاتھا۔کتنے ہی ایسی میتیں ملیں کہ جان دے دی لیکن ان کے سینوں سے قرآن الگ نہیں ہوا۔انوکھے دہشت گردتھے کہ جن کے نوجوان بیٹے ہنستے مسکراتے اپنے بازوؤں پراپنے نام اور وارثوں کے فون نمبرلکھ رہے تھے تاکہ جاں بحق ہو نے کے بعدمیت تلاش کرنے میں دشوری نہ ہو،کتنے ہی ایسے تھے جنہوں نے روز مرہ ضرورت کا سامان اپنے تھیلوں میں اٹھا نے کے علاوہ اپنے کفن بھی ساتھ لائے اور اس پر قبل از وقت اپنامکمل نام پتہ درج کیا۔یہی ان دہشت گردوں کی جنگی تیاری تھی۔کتنی ہی مائیں ایسی ہیں کہ جیسے ہی اطلاع ملی کہ بیٹااللہ کو پیا را ہو گیا ،توفورا سجدے میں گرگئیں کہ پروردگار!اپنی سب سے قیمتی متاع قبول فرمالے۔عجیب دہشت گردتھے کہ عوامی تحریک کے ساتھ وابستگی کے پہلے روز سے یہ ورد زبان تھا کہ :اللہ ہمارامقصود،رسول ﷺ ہمارے رہنماء،قرآن ہمارادستور،جہدمسلسل ہماراراستہ اورمنزل اللہ کی راہ میں شہادت، ہماری سب سے بلندپایہ آرزوہے۔رابعہ بصری اورمصرکے دوسرے میدانوں میں ان دہشت گردوں نے ثابت کردکھایاکہ وہ خالی خولی نعرے نہیں لگاتے بلکہ مخلصانہ عمل پریقین رکھتے ہیں۔ان پر فوجی آمر کی طرف سے لگائے گئے بے ہودہ ا لزامات سے صرف نظر کر تے ہوئے دیگرحقائق کاجائزہ لیتے ہیں: 
جب اخوان المسلمون کے ذمہ داررہنماڈاکٹرمحمدمرسی نے صدارت کاحلف(جون)کواٹھایاتوان کی عظیم جماعت اورخودان پر آزمائشوں کانیاسلسلہ شروع ہوگیا۔انہیں پہلا جھٹکاتو حلف کے وقت ہی دے دیاگیا۔منتخب صدرکومجبورکیاگیاکہ وہ دستورکے مطابق پارلیمنٹ کے سامنے حلف اٹھانے کی بجائے اسی دستوری عدالت کے سامنے جاکرحلف اٹھائیں جس نے چندہفتے قبل قومی اسمبلی توڑی تھی ۔ماہرینِ قانون چیختے چلاتے رہے کہ قومی اسمبلی ناجائزطورپرتحلیل کردی گئی لیکن سینیٹ تو موجود ہے، اس کے سامنے حلف ہوجائے لیکن منتخب صدر کوان کی کمزور حیثیت کااحساس دلاناتھا۔حلف اٹھانے کے بعدقاتل ججوں کے سامنے ہی لا کھڑا کیاگیا،صرف عدالت کے سربراہ نہیں تمام ۱۵ججوں کے سامنے پھرآئے روز نئے سے نیابحران سنگین سے سنگین ترہوتاچلاگیا۔مصرجہاں لوڈشیڈنگ کانام ونشان نہیں تھا،اچانک دارلحکومت سمیت پورے ملک میں کئی کئی گھنٹے لوڈ شیڈنگ شروع ہوگئی۔ منتخب حکومت نوٹس لیتی توجواباًوہی حساب کتاب سنایا جاتاکہ ملک میں ۲۲۳۰۰میگاواٹ بجلی بن رہی ہے جب کہ کھپت۲۴۱۰۰ میگاواٹ ہے اوراس طرح۱۸۰۰ میگاواٹ کی کمی ہے ۔ لوڈ شیڈنگ ختم نہیں ہوسکتی لیکن پھروہی انتظامیہ ا وراسٹیبلشمنٹ تھی کہ کہ جیسے ہی حکومت کاتختہ الٹا،تیسرے روزنہ صرف مکمل طورپرلوڈشیڈنگ ختم ہوگئی بلکہ کہاجانے لگاکہ ۲۱۰ میگا واٹ بجلی فالتوہوگئی ہے۔یہی حال پٹرول اور گیس کاتھا۔منتخب حکومت کے آنے کے چندہفتوں بعد ہی پٹرول پمپوں پرطویل قطاریں لگنے لگیں اورپٹرول نہ ملتاتھا۔حکومت آئے روز چوری شدہ پٹرول پکڑتی ۔ لاکھوں گیلن پٹرول برآمدکرکے بازارمیں لاتی جو چندروز بعد ہی غائب ہوجاتا اوراب یہ خبریں چل رہی ہیں کہ پٹرول پمپ والے گاہکوں کاانتظار کرتے ہیں۔ امن وامان ناپید ہوتا چلاگیا،وزیرداخلہ خودہی جرائم کے لئے تاویلیں ڈھونڈکرلاتا،وہی پولیس اورخفیہ ادارے جوآج ملک بھر کے کونے کونے سے مخالفین کو گرفتار کرکے لارہے تھے ،اس وقت کہیں ڈھونڈے سے بھی دکھائی نہیں دیتے۔ایک فٹ بال میچ کے دوران میں تماشائیوں کے درمیان جھگڑاہوگیا اورپھرحیرت انگیزطورپردونوں طرف سے ۱۸۴/ افراد جاں بحق ہوگئے،پھراسی بنیادپرپورے ملک میں ہنگامے شروع ہوگئے۔بعدازاں انہی عدالتوں نے جن کے سامنے حسنی مبارک اوراس کے گماشتوں کے خلاف سینکڑوں مقدمات سماعت کے منتظرہیں، چندماہ میں میچ کے جھگڑے کافیصلہ سناتے ہوئے ایک فریق کوپھانسی کی سزا سنادی ۔کمرہ عدالت سے براہِ راست نشرہونے والے فیصلے سے پہلے تیاری مکمل تھی ،جیسے ہی فیصلہ آیااس کے خلاف پہلے ایک شہراورپھرپورے ملک میں خونی مظاہرے شروع کرادیئے گئے۔ملک کے رگ وریشے پرگزشتہ سال سے قابض مقتدر قوتیں خودہی یہ سب بحران پیداکرتیں اور پھر اپنے درجنوں ٹی وی چینلوں سے پروپیگنڈہ کرتیں کہ حکومت نااہل ہے، ملک نہیں چلاسکتی۔
تمام خودساختہ بحرانوں کے باوجود ڈاکٹر محمدمرسی نے پہلاآزادانہ دستور بنوایا، دستوراسمبلی میں خوداپنے ارکانِ اسمبلی کے ووٹوں سے اپنے مخالفین کومنتخب کروایاتاکہ متفق علیہ دستور بنیں جس میں فردِ واحدکی بجائے ریاست کااقتدارمستحکم کیاجائے۔اس موقع پربھی اصل حکمرانوں اوربیرونی آقاؤں کی ہلاشیری سے کیاکیااعتراضات اوراحتجاج نہیں کئے گئے۔ قصرِصدارت تک کونذرِ آتش کرنے کی کوشش کی گئی لیکن بالآخرریفرنڈم ہوا اور فیصد عوام نے دستورکے حق میں ووٹ دیتے ہوئے ملک کا پہلا جمہوری دستور قراردے دیا۔دستور بن گیاتوامیدکی جارہی تھی کہ مشکلات کے باوجودسب سے بے مہارمقتدرطبقات کودستوری دائرے میں لاناممکن ہوجائے گا۔منتخب حکومت نے اقتصادی بحران پرقابوپانے کیلئے بھی دوررس اقدامات کئے لیکن مرسی حکومت کے خلاف ماردھاڑاورایک کے بعد دوسرا خود ساختہ بحران ہی نہیں درجنوں ٹی وی چینل اوراخبارات منتخب حکومت کے خلاف بے ہودہ اوربے سروپاپروپیگنڈہ اورالزام تراشیاں کرتے رہے، مثلا یہ کہ حکومت نے صحرائے سیناحماس کودینے کاوعدہ کرلیا۔سوڈان سے متصل حلایب کی پوری پٹی سوڈان کودے دی۔ اہراماتِ مصر اورابوالہول کومزاراوربت قراردے کرڈھانے کافیصلہ کرلیا۔نہرسویزکوکرائے پردے دیا،خیریہ توایسے مضحکہ خیزالزامات تھے کہ ہرذی شعور انہیں مستردکردیتالیکن کئی الزامات ایسے تھے کہ بسا اوقات کئی دانا اور جہاندیدہ بھی لاعلمی اورپروپیگنڈے کی قوت کے باعث ان سے متاثرہوجاتے۔
مرسی حکومت پریہ بھی نکتہ چینی سامنے آئی کہ اس نے حکمت کی بجائے ضرورت سے زیادہ عجلت برتی۔ہرجگہ اپنے لوگ لابٹھانے کی کوشش کی ،جب کہ صدرمرسی نے قومی یکجہتی کی خاطر نائب صدر،وزیراعظم اورصدارتی مشیروں سے لے کروزیر داخلہ، وزیردفاع، وزیر توانائی صوبوں میں سے، صوبوں کے گورنروں اورعدلیہ کے تمام ذمہ داران کے تمام افراد یا تووہی رہنے دیئے یاپھران معروف قومی شخصیات میں سے لئے جن کااخوان سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں تھا۔اب ذراموجودحکومت کی اب تک کی کارگزاری پربھی نظرڈالیں۔ ۲۷میں سے ۲۰ گورنرتبدیل کردیئے گئے جن میں سے حسنی مبارک کے دورکے فوجی جنرل ہیں۔یہ بھی واضح رہے کہ مصرمیں اپنے صوبے کے تمام امورگورنرکے ہاتھ میں ہوتے ہیں ، اسی طرح جنرل السیسی کے بارے میں یہ غلط فہمی پھیلائی گئی کہ صدرمحمدمرسی سینئرافسروں کونظراندازکرتے ہوئے انہیں نیچے سے اوپرلائے حالانکہ صدرنے صرف یہ کیاتھاکہ حسنی مبارک دورسے چلے آنے والے جرنیلوں کی توسیع ختم کرکے جس کی باری تھی،اسے فوج کی قیادت سونپی لیکن بدقسمتی سے ا لسیسی نے ’’ربِ عظیم کی قسم کھاکراقرارکرتاہوں کہ میں دستور کا پابندرہوں گا‘‘والے عہد سے کھلم کھلا بغاوت و خیانت کی کہ آج پورامصر اسے خائن کے لقب سے یادکرتاہے۔
صدرمرسی پرالزام عائدکیاگیاکہ انہوں نے ذرائع ابلاغ کی آزادی سلب کی جب کہ ان کے اپنے ایک سالہ عہد میں صرف ایک ٹی وی چینل کوعارضی طورپربندکیاگیا اورتین صحافیوں پرمقدمات چلائے گئے جنہوں نے ٹی وی پرننگی گالیاں دی تھیں اورصدرکوقتل کرنے کااعلان کیاتھا۔یہ چینل بھی جلدبحال کردیاگیا،صحافی بھی رہاکردئے گئے لیکن جنرل سیسی نے آتے ہی ۱۲ٹی وی چینل بندکردیئے جن کاقصوریہ بتایاگیاکہ وہ صدرمرسی کے حامی تھے۔تنقیدکرنے والے جگرتھام کریہ واقعہ بھی سن لیں کہ میدان رابعہ میں قتل عام کے بعد سرکاری اخبارات الاہرام اورالجمہوریہ کے دوسنیئرصحافی ایک راستے سے گزررہے تھے۔ایک چیک پوسٹ پرافسر نے دونوں کوگاڑی سے اتارا،شناختی کارڈ دیکھے اورحکم دیاکہ تم آگے نہیں جاسکتے،واپس جاؤ،دونوں صحافی ہزاروں افرادکاقتل عام دیکھ چکے تھے ،اس لئے وہ ایک لفظ بولے بغیرواپس چل پڑے۔ابھی چندقدم ہی گئے تھے کہ پیچھے سے فائرنگ کردی گئی ۔ایک صحافی قتل اوردوسراشدیدزخمی ہوگیا، بعد ازاں زخمی کوہسپتال لے جایاگیا،اس نے ہوش آنے پریہ داستان سنائی جو وہاں موجودایک دوسرے صحافی نے ریکارڈ کرکے ایک عرب ٹی وی پر نشرکر ا دی،جیسے ہی اس کایہ بیان نشرہوااسے ہسپتال سے گرفتارکرکے غائب کردیاگیاکہ اس نے حکومت پرغلط الزام لگایاہے اوراس کاآج تک پتہ نہیں چل رہا۔اب کسی کو آزادی اظہاریادنہیں آتی،یہ تودیگ کے چاول کاایک دانہ ہے۔
ایک طرف تویہ زخمی صحافی ہزروں قیدیوں کی طرح لاپتہ ہوگیالیکن دوسری طرف اگست کی قیامت صغریٰ کے دوہفتے کے اندراندرحسنی مبارک کوتمام الزامات سے بری الذمہ قرار دے کر رہاکردیاگیا۔عدالت کے اس فیصلے کوکہیں بھی چیلنج نہیں کیاجاسکتاہے۔فی الحال حفاظتی نقطہ نظرسے ایک محل نماپنج ستارہ اسپتال میں نظربندرکھاگیاہے ۔جنرل سیسی اورججوں نے حق نمک اداکیااورقدرت نے یہ حقیقت طشت ازبام کروادی کہ حسنی مبارک دوراپنی تمام ترسفاکیت کے ساتھ دوبارہ لوٹ آیاہے۔
یہ سطور تحریر کر تے وقت یہ اطلاع بھی ملی ہے کہ مصرکے نام نہادعبوری صدرعدی منصورنے اس ملک کے پہلے منتخب صدرمحمدمرسی کی برطرفی کے بعدسے اب تک ملک میں ہونے والی قتل وغارت گری کے ذمہ داروں کاتعین کرنے کیلئے ۵رکنی کمیٹی قائم کردی ہے۔یہ کمیٹی جسٹس فوادریاض کی سربراہی میں قائم کی گئی ہے۔کمیٹی جون کے بعدکے واقعات کے بارے میں تحقیق کرے گی۔اس دوران میں ہلاکتوں کے سنگین اوربہیمانہ واقعات۱۴/ اگست۲۰۱۳ء کوپیش آئے تھے جب مصری سپاہ قاہرہ میں محمدمرسی کی بحالی کے لئے دھرنادینے والے ہزاروں مظاہرین پرچڑھ دوڑی تھی اور بر سر موقع ایک ہزارسے زائد افرادہلاک ہوگئے تھے ،دوسری اطلاع یہ ہے کہ جیل میں اخوان کارکنوں اوران سے ہمدردی رکھنے والے قیدیوں نے جنہیں حال ہی میں گرفتارکیاگیاتھا،جیل انتظامیہ کے سفاکانہ سلوک کے باعث بھوک ہڑتال کردی ۔یہ اطلاعات بھی موصول ہورہی ہیں کہ اخوان المسلمون کے ارکان کو ڈرانے اوردھمکانے کیلئے اب ان کی ذاتی جائیدادکوضبط کرنے کی کاروائیاں بھی شروع کردی گئیں ہیں 

«
»

ہندوستان میں کاسہ بدست بچوں کی بہتات

جنیوا ٹو کی کامیابی کے امکانات کم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے